سموئیل کی پہلی کتاب
18 داؤد اور ساؤل کی باتچیت کے بعد یونتن اور داؤد میں گہری دوستی ہو گئی* اور یونتن داؤد سے بےحد* پیار کرنے لگے۔ 2 اُس دن سے ساؤل نے داؤد کو اپنے پاس رکھ لیا اور اُنہیں اُن کے والد کے گھر واپس نہیں جانے دیا۔ 3 یونتن اور داؤد نے آپس میں ایک عہد باندھا کیونکہ یونتن داؤد سے بےحد* پیار کرتے تھے۔ 4 یونتن نے اپنا بغیر بازوؤں والا چوغہ اُتار کر داؤد کو دے دیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنا جنگی لباس، اپنی تلوار، اپنی کمان اور اپنی پیٹی* بھی داؤد کو دے دی۔ 5 داؤد جنگوں میں جانے لگے۔ ساؤل اُنہیں جہاں بھی بھیجتے، وہ کامیاب ہوتے۔* اِس لیے ساؤل نے داؤد کو جنگجوؤں کا سربراہ مقرر کِیا اور سب لوگ اور ساؤل کے خادم اِس سے بہت خوش ہوئے۔
6 جب داؤد اور دوسرے سپاہی فِلسطینیوں کو مار کر لوٹتے تو اِسرائیل کے سبھی شہروں سے عورتیں ناچتی گاتی اور دف اور ستار بجاتی ہوئی خوشی خوشی بادشاہ ساؤل کا اِستقبال کرنے آتیں۔ 7 جشن منانے والی عورتیں گاتے ہوئے یہ کہتیں:
”ساؤل نے مارا ہزاروں کو؛
داؤد نے مارا لاکھوں کو۔“
8 یہ گیت سُن کر ساؤل کو بہت بُرا لگا۔ وہ شدید غصے میں آ گئے اور خود سے کہنے لگے: ”اُنہوں نے داؤد کے سر لاکھوں کو مارنے کا سہرا باندھا اور میرے سر صرف ہزاروں کو۔ اب اُسے بادشاہت ملنے کے سوا اَور کیا باقی رہ گیا ہے؟“ 9 اُس دن سے ساؤل داؤد کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھنے لگے۔
10 اگلے دن خدا نے بُری سوچ* کو ساؤل پر حاوی ہونے دیا اور وہ گھر میں عجیب عجیب حرکتیں* کرنے لگے۔ اُس وقت داؤد حسبِمعمول بربط* بجا رہے تھے اور ساؤل کے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ 11 اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے وہ نیزہ داؤد کی طرف پھینکا کہ ”مَیں داؤد کو دیوار میں ٹھونک دوں گا!“ ساؤل نے دو مرتبہ ایسا کِیا لیکن داؤد دونوں مرتبہ بچ گئے۔ 12 اِس پر ساؤل داؤد سے خوفزدہ ہو گئے کیونکہ یہوواہ داؤد کے ساتھ تھا لیکن ساؤل سے جُدا ہو چُکا تھا۔ 13 اِس لیے ساؤل نے داؤد کو اپنے پاس سے بھیج دیا۔ اُنہوں نے داؤد کو ہزار سپاہیوں کے دستے کا سربراہ مقرر کر دیا اور وہ جنگ میں فوج کی پیشوائی کرنے لگے۔* 14 داؤد جو بھی کرتے تھے، اُس میں کامیاب ہوتے تھے* اور یہوواہ اُن کے ساتھ تھا۔ 15 جب ساؤل نے دیکھا کہ داؤد اِتنے کامیاب ہو رہے ہیں تو وہ اُن سے اَور بھی زیادہ خوفزدہ ہو گئے۔ 16 لیکن یہوداہ اور اِسرائیل کے باقی قبیلوں کے سب لوگ داؤد سے بہت پیار کرتے تھے کیونکہ وہ جنگوں میں اُن کی پیشوائی کرتے تھے۔
17 ایک دن ساؤل نے داؤد سے کہا: ”مَیں اپنی بڑی بیٹی میرب کی شادی آپ سے کرا دوں گا۔ لیکن آپ کو ایک دلیر جنگجو کے طور پر میری خدمت کرتے رہنا ہوگا اور آگے بھی یہوواہ کی جنگیں لڑنی ہوں گی۔“ ساؤل نے یہ بات اِس لیے کہی کیونکہ وہ سوچ رہے تھے: ”اِس طرح مجھے اپنے ہاتھ سے داؤد کو نہیں مارنا پڑے گا بلکہ وہ فِلسطینیوں کے ہاتھوں مارا جائے گا۔“ 18 اِس پر داؤد نے ساؤل سے کہا: ”میری کیا حیثیت ہے اور اِسرائیل میں میرے والد کے گھرانے اور رشتےداروں کا کیا مقام ہے کہ مَیں بادشاہ کا داماد بنوں؟“ 19 لیکن جب ساؤل کی بیٹی میرب کی شادی داؤد سے کرانے کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ ساؤل نے پہلے ہی اُس کی شادی عدریایل محولاتی سے کرا دی ہوئی ہے۔
20 ساؤل کی بیٹی میکل داؤد سے محبت کرتی تھی۔ جب یہ بات ساؤل کو بتائی گئی تو اُنہیں خوشی ہوئی۔ 21 ساؤل نے سوچا: ”مَیں اپنی بیٹی کی شادی داؤد سے کرا کر ایسا جال بچھاؤں گا کہ وہ فِلسطینیوں کے ہاتھوں مارا جائے۔“ اِس لیے ساؤل نے دوبارہ داؤد سے کہا: ”آج آپ میرے داماد بنو گے۔“* 22 پھر ساؤل نے اپنے خادموں سے کہا: ”داؤد سے اکیلے میں بات کرو اور اُس سے کہو: ”بادشاہ آپ سے خوش ہے اور اُس کے سارے خادموں کو بھی آپ سے گہرا لگاؤ ہے۔ اِس لیے بادشاہ سے رشتےداری کر لیں۔““ 23 جب ساؤل کے خادموں نے داؤد سے یہ باتیں کہیں تو داؤد نے کہا: ”کیا بادشاہ سے رشتےداری کرنا آپ کو معمولی بات لگتی ہے؟ مَیں تو ایک غریب سا آدمی ہوں اور میری کوئی حیثیت نہیں ہے۔“ 24 تب ساؤل کے خادموں نے اُنہیں بتایا کہ داؤد نے ایسے ایسے کہا ہے۔
25 اِس پر ساؤل نے اپنے خادموں سے کہا: ”آپ داؤد سے یہ کہنا: ”بادشاہ کو لڑکی کے بدلے کوئی رقم نہیں چاہیے۔ اُنہیں بس 100 فِلسطینی آدمیوں کی کھلڑیاں* چاہئیں تاکہ بادشاہ کے دُشمنوں سے بدلہ لیا جا سکے۔““ دراصل یہ ساؤل کی سازش تھی تاکہ داؤد فِلسطینیوں کے ہاتھوں مارے جائیں۔ 26 ساؤل کے خادموں نے داؤد کو یہ باتیں بتائیں اور داؤد کو بادشاہ سے رشتےداری کرنے کا خیال اچھا لگا۔ مقرر کیے ہوئے وقت سے پہلے 27 داؤد اپنے آدمیوں کے ساتھ گئے اور 200 فِلسطینیوں کو مار گِرایا۔ پھر داؤد نے اُن سب کی کھلڑیاں لا کر بادشاہ کو دیں تاکہ وہ بادشاہ سے رشتےداری کر سکیں۔ اِس لیے ساؤل نے اپنی بیٹی میکل کی شادی داؤد سے کر دی۔ 28 ساؤل سمجھ گئے تھے کہ یہوواہ داؤد کے ساتھ ہے اور اُن کی بیٹی میکل داؤد سے محبت کرتی ہیں۔ 29 اِس وجہ سے ساؤل داؤد سے اَور بھی زیادہ خوفزدہ ہو گئے اور ساری زندگی اُن کے دُشمن بنے رہے۔
30 فِلسطینیوں کے حاکم اِسرائیلیوں سے جنگ کرنے آتے تھے لیکن جب بھی وہ آتے تھے، داؤد ساؤل کے باقی سب خادموں سے زیادہ کامیاب ہوتے تھے۔* اور داؤد کی بڑی عزت کی جانے لگی۔