واعظ
2 پھر مَیں نے اپنے دل میں کہا: ”آؤ موج مستی کرتے* ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اِس کا کچھ فائدہ ہوتا ہے یا نہیں۔“ لیکن یہ بھی فضول تھا۔
2 مَیں نے ہنسی کے بارے میں کہا: ”یہ پاگلپن ہے!“
اور موج مستی* کے بارے میں کہا: ”اِس کا کیا فائدہ ہے؟“
3 مَیں نے اپنے دل میں سوچا کہ مے کا مزہ لے کر دیکھتا ہوں۔ لیکن اِس دوران مَیں نے اپنے ہوشوحواس* نہیں کھوئے۔ مَیں نے تو حماقت کو بھی گلے لگایا تاکہ دیکھ سکوں کہ آسمان کے نیچے اِنسان کی مختصر سی زندگی کے دوران اُس کے لیے کیا کرنا سب سے اچھا ہے۔ 4 مَیں نے بڑے بڑے کام کیے۔ مَیں نے اپنے لیے گھر بنائے؛ مَیں نے اپنے لیے انگور کے باغ لگائے؛ 5 مَیں نے اپنے لیے باغباغیچے لگائے اور اُن میں ہر طرح کے پھلدار درخت لگائے۔ 6 مَیں نے تالاب بنائے تاکہ اُن سے جنگل کے پودوں کو پانی ملے اور وہ بڑھیں۔ 7 مَیں نے نوکر اور نوکرانیاں رکھیں اور میرے پاس ایسے نوکر بھی تھے جو میرے گھر میں پیدا ہوئے۔* مَیں نے بہت سے گائے بیل اور بھیڑ بکریاں بھی خریدیں۔ مجھ سے پہلے یروشلم میں کسی بادشاہ کے پاس اِتنے مویشی نہیں تھے۔ 8 مَیں نے اپنے لیے سونا اور چاندی یعنی بادشاہوں اور صوبوں کا خزانہ جمع کِیا۔ مَیں نے اپنے لیے گلوکار اور گلوکارائیں رکھیں۔ اور مَیں نے عورت بلکہ بہت سی عورتیں حاصل کیں جن سے اِنسان کے بیٹوں کو بےحد خوشی ملتی ہے۔ 9 اِس طرح مَیں بڑا آدمی بن گیا اور میرے پاس اِتنا کچھ ہو گیا جتنا یروشلم میں پہلے کسی کے پاس نہیں تھا۔ لیکن دانشمندی کا دامن میرے ہاتھ سے نہیں چُھوٹا۔
10 مَیں نے جو چاہا،* حاصل کِیا۔ مَیں نے اپنے دل کو کسی بھی طرح کی خوشی سے محروم نہیں رکھا کیونکہ میرا دل میری ساری محنت کی وجہ سے باغ باغ تھا اور یہ میری ساری محنت کا اجر* تھا۔ 11 لیکن جب مَیں نے اُن سب کاموں پر غور کِیا جو مَیں نے اپنے ہاتھوں سے کیے تھے اور اُس ساری محنت پر جو اِن کاموں کو کرنے میں لگی تھی تو مَیں نے دیکھا کہ یہ سب کچھ فضول اور ہوا کے پیچھے بھاگنے کی طرح ہے اور سورج تلے کچھ بھی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
12 پھر مَیں نے دانشمندی، پاگلپن اور حماقت کا جائزہ لیا۔ (بادشاہ کے بعد آنے والا شخص کیا کر سکتا ہے؟ صرف وہی جو پہلے کِیا جا چُکا ہے۔) 13 مَیں نے دیکھا کہ دانشمندی حماقت سے بہتر ہے جیسے روشنی تاریکی سے بہتر ہے۔
14 دانشمند شخص اپنی آنکھیں کُھلی رکھتا ہے* لیکن احمق شخص تاریکی میں چلتا ہے۔ مَیں یہ بھی سمجھ گیا کہ اُن دونوں کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔ 15 پھر مَیں نے اپنے دل میں کہا: ”میرے ساتھ بھی وہی ہوگا جو احمق شخص کے ساتھ ہوتا ہے۔“ تو مجھے اِتنی دانشمندی حاصل کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟ اِس لیے مَیں نے اپنے دل میں کہا: ”یہ بھی فضول ہے“ 16 کیونکہ نہ دانشمند شخص کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے اور نہ ہی احمق شخص کو۔ آنے والے وقت میں سب کو بُھلا دیا جائے گا۔ جیسے احمق شخص مرتا ہے ویسے ہی دانشمند شخص مر جائے گا۔
17 اِس لیے مَیں زندگی سے نفرت کرنے لگا کیونکہ سورج تلے جو کچھ کِیا جاتا ہے، اُسے دیکھ کر مَیں بہت پریشان ہو گیا۔ سب کچھ فضول اور ہوا کے پیچھے بھاگنے کی طرح تھا۔ 18 مجھے اُس سب سے نفرت ہونے لگی جس کے لیے مَیں نے سورج تلے اِتنی محنت کی تھی کیونکہ مجھے یہ سب اُس شخص کے لیے چھوڑنا ہوگا جو میرے بعد آئے گا۔ 19 اور کسے معلوم کہ وہ دانشمند ہوگا یا بےوقوف؟ پھر بھی وہ اُن سب چیزوں کا مالک ہوگا جنہیں مَیں نے سورج تلے سخت محنت اور دانشمندی سے حاصل کِیا۔ یہ بھی فضول ہے۔ 20 پھر مجھے اُس ساری محنت پر دلی افسوس ہونے لگا جو مَیں نے سورج تلے کی تھی۔ 21 ایک شخص دانشمندی، علم اور قابلیت کی بِنا پر سخت محنت کرتا ہے لیکن اُسے یہ سب کچھ* ایک ایسے شخص کے حوالے کرنا پڑتا ہے جس نے اِس کے لیے کچھ بھی نہیں کِیا ہوتا۔ یہ بھی فضول اور بڑے دُکھ کی بات ہے۔
22 اِنسان سورج تلے جس محنت اور جنون سے کام کرتا ہے، اُس کا اُسے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ 23 اِنسان کو پوری زندگی کام کر کے دُکھ اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ رات کو بھی اُس کے دل کو سکون نہیں آتا۔ یہ بھی فضول ہے۔
24 اِنسان کے لیے اِس سے بہتر اَور کچھ نہیں کہ وہ کھائے پیے اور اپنی محنت سے لطف اُٹھائے۔* مَیں سمجھ گیا ہوں کہ یہ بھی سچے خدا کی دین ہے 25 کیونکہ مجھ سے زیادہ اچھا کون کھاتا پیتا ہے؟
26 جو شخص خدا کو خوش کرتا ہے، اُسے خدا دانشمندی، علم اور خوشی بخشتا ہے لیکن وہ گُناہگار شخص کو چیزیں جمع کرنے اور بٹورنے دیتا ہے تاکہ اُس سے وہ چیزیں لے کر اُس شخص کو دے جو سچے خدا کو خوش کرتا ہے۔ یہ بھی فضول اور ہوا کے پیچھے بھاگنے کی طرح ہے۔