واعظ
1 داؤد کے بیٹے اور یروشلم کے بادشاہ واعظ* کی باتیں۔
2 واعظ کہتا ہے: ”اِنتہائی فضول!
اِنتہائی فضول! سب کچھ فضول ہے!“
3 اِنسان سورج تلے سخت محنت کرتا ہے
لیکن اُسے اپنی ساری محنت کا کیا صلہ ملتا ہے؟
5 سورج نکلتا* ہے اور غروب ہوتا ہے
پھر یہ بھاگا بھاگا* وہاں لوٹ جاتا ہے جہاں سے یہ دوبارہ نکلتا ہے۔
6 ہوا جنوب کی طرف جاتی ہے اور گھوم کر شمال کی طرف آتی ہے؛
یہ مسلسل چکر کاٹتی رہتی ہے، ہاں، یہ چکر پہ چکر کاٹتی رہتی ہے۔
7 ساری ندیاں* سمندر میں گِرتی ہیں پھر بھی سمندر بھرتا نہیں۔
ندیاں اُس جگہ لوٹ جاتی ہیں جہاں سے وہ بہتی ہیں تاکہ پھر سے بہیں۔
8 سب چیزیں تھکا دینے والی ہیں؛
کوئی بھی اِنہیں بیان نہیں کر سکتا۔
آنکھ دیکھ دیکھ کر تھکتی نہیں
اور کان سُن سُن کر اُکتاتے نہیں۔
9 جو ہو چُکا ہے، وہ پھر سے ہوگا
اور جو کِیا جا چُکا ہے، وہ پھر سے کِیا جائے گا؛
سورج تلے کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔
10 کیا کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں کہا جا سکے: ”دیکھو! یہ تو نئی ہے“؟
نہیں۔ وہ چیز تو مُدتوں سے موجود ہے؛
وہ تو ہمارے زمانے سے پہلے سے ہے۔
11 پُرانے زمانے کے لوگوں کو کوئی یاد نہیں رکھتا
اور نہ ہی اُن کے بعد آنے والوں کو کوئی یاد رکھتا ہے
اور جو اُن کے بعد آتے ہیں، اُنہیں بھی بُھلا دیا جاتا ہے۔
12 مَیں واعظ یروشلم میں اِسرائیل کا بادشاہ ہوں۔ 13 مَیں نے اپنے دل کو تیار کِیا کہ مَیں دانشمندی سے اُس سب پر تحقیقوتفتیش کروں جو آسمان کے نیچے کِیا جاتا ہے یعنی اُس دُکھبھرے کام پر جو خدا نے اِنسانوں کو دیا ہے اور جس میں وہ لگے رہتے ہیں۔
14 مَیں نے اُن سب کاموں کو دیکھا جو سورج تلے کیے جاتے ہیں
اور دیکھو! سب کچھ فضول اور ہوا کے پیچھے بھاگنے کی طرح ہے۔
15 جو ٹیڑھا ہے، اُسے سیدھا نہیں کِیا جا سکتا
اور جو ہے ہی نہیں، اُسے گنا نہیں جا سکتا۔
16 پھر مَیں نے اپنے دل میں کہا: ”دیکھو! مَیں نے بہت دانشمندی حاصل کی ہے؛ مجھ سے پہلے یروشلم میں کسی کے پاس اِتنی دانشمندی نہیں تھی۔ میرے دل نے دانشمندی اور علم کے حوالے سے کافی تجربہ حاصل کر لیا ہے۔“ 17 مَیں نے دانشمندی، پاگلپن* اور حماقت کے بارے میں جاننے کے لیے جیجان لگا دی اور یہ بھی ہوا کے پیچھے بھاگنے کی طرح ہے۔
18 زیادہ دانشمندی زیادہ مایوسی لاتی ہے
اِس لیے جو اپنا علم بڑھاتا ہے، وہ اپنی تکلیف بھی بڑھاتا ہے۔