پیدائش
43 ملک کنعان میں قحط زوروں پر تھا۔ 2 اِس لیے جب وہ اناج ختم ہو گیا جو اِسرائیل کے بیٹے مصر سے خرید کر لائے تھے تو اِسرائیل نے اپنے بیٹوں سے کہا: ”واپس جاؤ اور ہمارے لیے تھوڑا اناج خرید کر لاؤ۔“ 3 یہوداہ نے اپنے والد سے کہا: ”اُس آدمی نے ہم سے صاف صاف کہا تھا کہ ”جب تک تمہارا چھوٹا بھائی تمہارے ساتھ نہ ہو، میرے سامنے مت آنا۔“ 4 اگر آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیجیں گے تو ہم وہاں جائیں گے اور اناج خرید کر لائیں گے۔ 5 لیکن اگر آپ اُسے ہمارے ساتھ نہیں بھیجیں گے تو ہم نہیں جائیں گے کیونکہ اُس آدمی نے ہم سے کہا تھا کہ ”جب تک تمہارا چھوٹا بھائی تمہارے ساتھ نہ ہو، میرے سامنے مت آنا۔““ 6 تب اِسرائیل نے کہا: ”اُس آدمی کو یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ آپ کا ایک اَور بھائی بھی ہے؟ آپ کی وجہ سے مجھے یہ تکلیف اُٹھانی پڑ رہی ہے۔“ 7 اُن کے بیٹوں نے کہا: ”اُس آدمی نے خود ہم سے ہمارے اور ہمارے خاندان کے بارے میں سوال کیے تھے۔ اُس نے پوچھا تھا: ”کیا تمہارے والد زندہ ہیں؟ کیا تمہارا کوئی اَور بھائی ہے؟“ اور ہم نے اُسے سب کچھ سچ سچ بتایا۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ وہ کہے گا کہ ”اپنے بھائی کو یہاں لے کر آؤ“؟“
8 تب یہوداہ نے یہ کہہ کر اپنے والد اِسرائیل کو قائل کرنے کی کوشش کی: ”اُسے میرے ساتھ بھیج دیں اور ہمیں جانے دیں تاکہ آپ، ہم اور ہمارے بچے زندہ رہیں اور بھوک کی وجہ سے مر نہ جائیں۔ 9 مَیں اُس کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اگر اُس کے ساتھ کچھ ہوا تو اُس کا ذمےدار مَیں ہوں گا۔ اگر مَیں اُسے آپ کے پاس واپس نہ لا سکا اور آپ کے حوالے نہ کر سکا تو مَیں ساری زندگی آپ کا گُناہگار رہوں گا۔ 10 ہم نے پہلے ہی بہت دیر کر دی ہے۔ اب تک تو ہم دو بار وہاں جا کر واپس بھی آ چُکے ہوتے۔“
11 اِس پر اُن کے والد اِسرائیل نے اُن سے کہا: ”اگر کوئی اَور راستہ نہیں ہے تو ایسا کرو کہ اپنے بوروں میں اِس ملک کی بہترین سوغاتیں ڈالو اور اُس آدمی کے لیے تحفے کے طور پر لے جاؤ یعنی بلسان، شہد، خوشبودار گوند، گونددار چھال، پستہ اور بادام۔ 12 اپنے ساتھ دُگنے پیسے لے جاؤ اور وہ پیسے بھی جو شاید غلطی سے آپ کے بوروں میں ڈال دیے گئے تھے۔ 13 اپنے بھائی کو ساتھ لو اور اُس آدمی کے پاس واپس جاؤ۔ 14 میری دُعا ہے کہ لامحدود قدرت والا خدا اُس آدمی کے دل میں آپ کے لیے رحم ڈالے تاکہ وہ شمعون کو رِہا کر دے اور بِنیامین کو بھی آپ کے ساتھ واپس بھیج دے۔ لیکن اگر مجھے اپنے بچوں کو کھونا پڑا تو میرے پاس اِس غم کو جھیلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔“
15 اِس کے بعد اِسرائیل کے بیٹے اُٹھے اور تحفے، دُگنے پیسے اور بِنیامین کو ساتھ لے کر مصر کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر وہ یوسف کے پاس گئے۔ 16 یوسف نے جیسے ہی اُن کے ساتھ بِنیامین کو دیکھا، اُنہوں نے اپنے گھر کے مختار سے کہا: ”اِن آدمیوں کو گھر لے جاؤ۔ جانور ذبح کرو اور کھانا تیار کرو کیونکہ یہ آدمی دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھائیں گے۔“ 17 اُس آدمی نے فوراً یوسف کے حکم پر عمل کِیا اور اُن لوگوں کو یوسف کے گھر لے گیا۔ 18 لیکن جب اُنہیں یوسف کے گھر لے جایا جا رہا تھا تو وہ بہت ڈر گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے: ”ہمیں اُن پیسوں کی وجہ سے وہاں لے جایا جا رہا ہے جو پچھلی بار ہمارے بوروں میں واپس ڈال دیے گئے تھے۔ اب وہ ہم پر حملہ کر کے ہمیں غلام بنا لیں گے اور ہمارے گدھے بھی لے لیں گے۔“
19 جب وہ گھر کے دروازے پر پہنچے تو وہ اُس آدمی کے پاس گئے جو یوسف کے گھر کا مختار تھا 20 اور اُس سے کہا: ”اگر اِجازت ہو تو ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں مالک۔ ہم پہلے بھی ایک بار یہاں اناج خریدنے آئے تھے۔ 21 لیکن جب ہم مسافرخانے میں پہنچے اور اپنے بورے کھولنے لگے تو ہم نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر ایک کے پورے پیسے اُس کے بورے میں اُوپر پڑے ہیں۔ ہم وہ پیسے واپس کرنا چاہتے ہیں۔ 22 اور ہم اناج خریدنے کے لیے اَور پیسے ساتھ لائے ہیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ہمارے بوروں میں کس نے وہ پیسے رکھے تھے۔“ 23 اِس پر اُس آدمی نے کہا: ”کوئی بات نہیں۔ گھبراؤ مت۔ مجھے تمہارے پیسے مل گئے تھے۔ تمہارے اور تمہارے والد کے خدا نے تمہیں وہ پیسے دیے ہوں گے۔“ اِس کے بعد وہ شمعون کو اُن کے پاس باہر لایا۔
24 پھر وہ آدمی اُنہیں یوسف کے گھر کے اندر لے گیا، اُنہیں پاؤں دھونے کے لیے پانی دیا اور اُن کے گدھوں کے لیے چارا دیا۔ 25 اُنہیں پتہ چلا تھا کہ یوسف دوپہر کا کھانا اُن کے ساتھ کھائیں گے اِس لیے اُنہوں نے یوسف کے لیے تحفے تیار کر کے رکھے۔ 26 جب یوسف گھر آئے تو اُنہوں نے وہ تحفے یوسف کو پیش کیے اور اُن کے سامنے مُنہ کے بل زمین پر لیٹ گئے۔ 27 اِس کے بعد یوسف نے اُن سے اُن کی خیریت معلوم کی اور پوچھا: ”تمہارے بوڑھے والد کیسے ہیں جن کا تُم نے ذکر کِیا تھا؟ کیا وہ اب تک زندہ ہیں؟“ 28 اُنہوں نے جواب دیا: ”مالک! آپ کے خادم یعنی ہمارے والد اب تک زندہ ہیں اور ٹھیک ہیں۔“ پھر وہ یوسف کے سامنے جھکے اور مُنہ کے بل لیٹ گئے۔
29 جب یوسف نے اپنے سگے بھائی* بِنیامین کو دیکھا تو اُنہوں نے پوچھا: ”کیا یہ تمہارا سب سے چھوٹا بھائی ہے جس کے بارے میں تُم نے مجھے بتایا تھا؟“ پھر اُنہوں نے بِنیامین سے کہا: ”خدا تمہیں برکت دے میرے بیٹے۔“ 30 اپنے بھائی کو دیکھ کر یوسف کا دل اِتنا بھر آیا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہے تھے۔ اِس لیے وہ جلدی سے دوسرے کمرے میں چلے گئے اور رونے لگے۔ 31 اِس کے بعد اُنہوں نے مُنہ دھویا، خود کو سنبھالا اور باہر جا کر اپنے نوکروں کو حکم دیا: ”کھانا لگاؤ۔“ 32 نوکروں نے یوسف کے لیے الگ سے کھانا لگایا اور اُن کے بھائیوں کے لیے الگ سے۔ یوسف کے گھر میں موجود مصریوں نے بھی الگ سے کھانا کھایا۔ اصل میں مصری عبرانیوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے کیونکہ اُنہیں اِس بات سے گِھن آتی تھی۔
33 یوسف کے بھائی اپنی عمر کے حساب سے اُن کے سامنے بیٹھے یعنی سب سے پہلے پہلوٹھا* اور آخر میں سب سے چھوٹا۔ وہ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھتے جا رہے تھے۔ 34 یوسف اپنی میز سے اپنے بھائیوں کی میز پر کھانا بھجواتے رہے۔ لیکن اُنہوں نے اپنے باقی بھائیوں کی نسبت بِنیامین کو پانچ گُنا زیادہ کھانا دیا۔ اِس طرح اُن سب نے یوسف کے ساتھ جی بھر کر کھایا پیا۔