پیدائش
45 تب یوسف کے لیے اپنے سب خادموں کے سامنے خود پر قابو رکھنا مشکل ہو گیا۔ اِس لیے اُنہوں نے چلّا کر کہا: ”سب باہر چلے جاؤ!“ پھر یوسف نے اپنے بھائیوں کو بتایا کہ وہ کون ہیں۔ اُس وقت اُن کے بھائیوں کے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔
2 اِس کے بعد یوسف اِتنا اُونچا رونے لگے کہ آسپاس کے مصریوں نے اُن کی آواز سنی اور فِرعون کے گھرانے کو بھی اِس بارے میں پتہ چلا۔ 3 آخرکار یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا: ”مَیں یوسف ہوں۔ کیا ابو اب تک زندہ ہیں؟“ لیکن یوسف کے بھائی اُنہیں کوئی جواب نہ دے پائے کیونکہ وہ یوسف کے بارے میں جان کر ہکابکا رہ گئے تھے۔ 4 تب یوسف نے اُن سے کہا: ”مہربانی سے میرے پاس آؤ۔“ اِس پر وہ اُن کے پاس آئے۔
اِس کے بعد یوسف نے کہا: ”مَیں تمہارا بھائی یوسف ہوں جسے تُم نے مصریوں کو بیچ دیا تھا۔ 5 لیکن پریشان نہ ہو اور ایک دوسرے کو اِس بات کا اِلزام نہ دو کہ تُم نے مجھے بیچ دیا تھا۔ اصل میں خدا نے مجھے زندگیاں* بچانے کے لیے تُم سے پہلے یہاں بھیجا تھا۔ 6 یہ قحط کا دوسرا سال ہے اور ابھی پانچ سال باقی ہیں جن میں نہ تو ہل چلے گا اور نہ فصل کٹے گی۔ 7 مگر خدا نے مجھے تُم سے پہلے یہاں بھیجا تاکہ زبردست طریقے سے تمہیں بچائے اور تمہارا ایک بچا ہوا حصہ محفوظ رکھے۔ 8 اِس لیے تُم نے نہیں بلکہ سچے خدا نے مجھے یہاں بھیجا تھا تاکہ مجھے فِرعون کا خصوصی مُشیر،* اُس کے سارے گھر کا مختار اور پورے مصر کا حاکم مقرر کرے۔
9 اب جلدی سے ابو کے پاس جاؤ اور اُن سے کہنا کہ ”آپ کے بیٹے یوسف نے کہا ہے: ”خدا نے مجھے پورے مصر کا حاکم مقرر کِیا ہے۔ اِس لیے دیر کیے بغیر میرے پاس آ جائیں۔ 10 آپ اپنے بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، بھیڑبکریوں، گائےبیلوں اور اپنے سارے سامان سمیت میرے قریب جشن کے علاقے میں رہنا۔ 11 وہاں مَیں آپ کو اناج پہنچاتا رہوں گا کیونکہ ابھی قحط کے پانچ سال باقی ہیں ورنہ آپ اور آپ کا گھرانہ غربت کا شکار ہو جائے گا اور آپ کا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔““ 12 میرا بھائی بِنیامین اور تُم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو کہ مَیں یوسف ہی ہوں جو تُم سے بات کر رہا ہوں۔ 13 اِس لیے جا کر ابو کو بتاؤ کہ مجھے مصر میں کتنی شانوشوکت حاصل ہے اور اُس سب کا ذکر کرو جو تُم نے یہاں دیکھا ہے۔ اب فٹافٹ جاؤ اور ابو کو یہاں لے آؤ۔“
14 پھر یوسف نے اپنے بھائی بِنیامین کو گلے لگایا اور رونے لگے اور بِنیامین بھی اُن سے لپٹ کر روئے۔ 15 اِس کے بعد اُنہوں نے اپنے سب بھائیوں کو چُوما اور اُن کے گلے لگ کر روئے۔ پھر یوسف کے بھائی اُن سے باتیں کرنے لگے۔
16 فِرعون کے محل میں یہ خبر پہنچی: ”یوسف کے بھائی آئے ہیں۔“ فِرعون اور اُس کے خادم یہ سُن کر خوش ہوئے۔ 17 فِرعون نے یوسف سے کہا: ”اپنے بھائیوں کو میری طرف سے کہو: ”اپنے جانوروں پر اناج لادو اور ملک کنعان جاؤ۔ 18 اپنے والد اور اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں میرے پاس آ جاؤ۔ مَیں تمہیں مصر کی عمدہ چیزیں دوں گا اور تُم اِس ملک کی بہترین پیداوار* کھاؤ گے۔“ 19 مَیں تمہیں یہ حکم بھی دیتا ہوں کہ تُم اُن سے کہو: ”مصر سے بیل گاڑیاں لے جاؤ تاکہ تمہارے بیوی بچے اُن پر یہاں آ سکیں۔ اور ایک بیل گاڑی پر اپنے والد کو لے کر آنا۔ 20 اپنے سامان کی فکر مت کرنا کیونکہ تمہیں مصر کی اچھی سے اچھی چیزیں دی جائیں گی۔““
21 اِسرائیل کے بیٹوں نے ایسا ہی کِیا۔ یوسف نے فِرعون کے حکم کے مطابق اُنہیں بیل گاڑیاں دیں اور سفر کے لیے کھانے پینے کا سامان بھی دیا۔ 22 یوسف نے اپنے سب بھائیوں کو کپڑوں کا ایک ایک جوڑا دیا لیکن بِنیامین کو اُنہوں نے پانچ جوڑے اور چاندی کے 300 ٹکڑے دیے۔ 23 اُنہوں نے اپنے والد کے لیے یہ سامان بھجوایا: دس گدھے جن پر مصر کی عمدہ چیزیں لدی ہوئی تھیں اور دس گدھیاں جن پر اُن کے والد کے سفر کے لیے اناج اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں لدی ہوئی تھیں۔ 24 اِس کے بعد یوسف نے اپنے بھائیوں کو رُخصت کِیا۔ جب وہ نکلنے لگے تو یوسف نے اُن سے کہا: ”راستے میں ایک دوسرے پر غصہ مت کرنا۔“
25 پھر وہ مصر سے روانہ ہوئے اور اپنے والد یعقوب کے پاس ملک کنعان پہنچے۔ 26 اُنہوں نے یعقوب کو بتایا: ”یوسف زندہ ہے اور پورے مصر کا حاکم ہے!“ یہ سُن کر یعقوب پر سکتہ سا طاری ہو گیا کیونکہ اُنہیں اُن کی بات پر یقین نہیں آیا۔ 27 جب یعقوب کے بیٹوں نے اُنہیں وہ ساری باتیں بتائیں جو یوسف نے اُن سے کہی تھیں اور جب اُنہوں نے وہ بیل گاڑیاں دیکھیں جو یوسف نے اُنہیں لانے کے لیے بھیجی تھیں تو اُن کے اندر نئی جان* سی آ گئی۔ 28 تب اِسرائیل بول اُٹھے: ”بس اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میرا بیٹا یوسف زندہ ہے! مَیں اُس کے پاس ضرور جاؤں گا تاکہ مرنے سے پہلے اُسے دیکھ سکوں!“