سموئیل کی پہلی کتاب
20 پھر داؤد رامہ کے علاقے نیوت سے بھاگ کر یونتن کے پاس آئے اور اُن سے کہا: ”مَیں نے کیا کِیا ہے؟ میری کیا غلطی ہے؟ مَیں نے آپ کے والد کے خلاف کون سا گُناہ کِیا ہے کہ وہ میری جان لینے پر تُلے ہیں؟“ 2 یہ سُن کر یونتن نے کہا: ”ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا! آپ نہیں مرو گے۔ دیکھو، میرے والد مجھے بتائے بغیر کوئی کام نہیں کرتے پھر چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ تو پھر وہ یہ بات مجھ سے کیوں چھپائیں گے؟ ایسا نہیں ہوگا۔“ 3 لیکن داؤد نے قسم کھاتے ہوئے کہا: ”آپ کے والد اچھی طرح جانتے ہیں کہ مجھ پر آپ کی نظرِکرم ہے۔ اِس لیے وہ سوچتے ہوں گے: ”یونتن کو اِس بارے میں پتہ نہیں چلنا چاہیے ورنہ اُسے دُکھ ہوگا۔“ لیکن زندہ خدا یہوواہ کی قسم اور آپ کی جان کی قسم، مجھ میں اور موت میں بس ایک قدم کا فاصلہ ہے۔“
4 تب یونتن نے داؤد سے کہا: ”آپ* جو کہو گے، مَیں آپ کے لیے کروں گا۔“ 5 داؤد نے یونتن سے کہا: ”کل نیا چاند ہے اور بادشاہ کو ضرور یہ توقع ہوگی کہ مَیں اُن کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھوں گا۔ اگر آپ مجھے اِجازت دیں تو مَیں جا کر تیسرے دن کی شام تک میدان میں چھپا رہوں گا۔ 6 اگر آپ کے والد نے میرے بارے میں پوچھا تو آپ کہنا: ”داؤد نے مجھ سے مِنت کی تھی کہ مَیں اُسے فوراً اُس کے شہر بیتلحم جانے کی اِجازت دوں کیونکہ اُس کے سارے خاندان نے وہاں سالانہ قربانی پیش کرنی ہے۔“ 7 اگر اُنہوں نے کہا: ”ٹھیک ہے“ تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کے خادم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ غصے میں آ گئے تو آپ سمجھ جانا کہ اُنہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کا پکا اِرادہ کِیا ہوا ہے۔ 8 اپنے خادم کے لیے اٹوٹ محبت ظاہر کریں کیونکہ آپ نے یہوواہ کو حاضروناظر جان کر اپنے خادم سے عہد باندھا تھا۔ لیکن اگر مَیں قصوروار ہوں تو آپ خود مجھے مار ڈالیں۔ مجھے اپنے والد کے حوالے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟“
9 اِس پر یونتن نے کہا: ”آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ مَیں آپ کے ساتھ ایسا کروں گا؟ اگر مجھے پتہ چلے گا کہ میرے والد نے آپ کو نقصان پہنچانے کا پکا اِرادہ کر لیا ہے تو کیا مَیں آپ کو نہیں بتاؤں گا؟“ 10 داؤد نے یونتن سے کہا: ”اگر آپ کے والد نے آپ کو غصے میں جواب دیا تو مجھے کون بتائے گا؟“ 11 یونتن نے داؤد سے کہا: ”آؤ میدان میں چلیں۔“ اِس لیے وہ دونوں باہر میدان میں چلے گئے۔ 12 پھر یونتن نے داؤد سے کہا: ”اِسرائیل کا خدا یہوواہ اِس بات کا گواہ ہو کہ مَیں کل یا پرسوں اِس وقت تک پتہ لگا لوں گا کہ میرے والد کے دل میں کیا ہے۔ اگر وہ آپ کا بھلا چاہتے ہوں گے تو مَیں ضرور آپ تک اِس کی خبر پہنچا دوں گا۔ 13 لیکن اگر میرے والد آپ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں گے اور مَیں نے آپ کو اِس بارے میں نہ بتایا اور آپ کو کسی محفوظ جگہ نہ بھیجا تو یہوواہ مجھے اِس کی کڑی سے کڑی سزا دے۔ یہوواہ آپ کے ساتھ ہو جیسے وہ میرے والد کے ساتھ تھا۔ 14 آپ میرے جیتے جی بلکہ میری موت کے بعد بھی میرے لیے یہوواہ جیسی اٹوٹ محبت ظاہر کرتے رہنا۔ 15 میرے گھرانے کے لیے اٹوٹ محبت ظاہر کرنا کبھی نہ چھوڑنا، تب بھی نہیں جب یہوواہ آپ کے سب دُشمنوں کو زمین سے مٹا دے گا۔“ 16 یونتن نے داؤد کے گھرانے کے ساتھ ایک عہد باندھا اور کہا: ”یہوواہ داؤد کے دُشمنوں سے حساب لے گا۔“ 17 یونتن نے دوبارہ سے داؤد کو اُن کی محبت کی قسم دِلائی کیونکہ وہ داؤد سے بےحد* پیار کرتے تھے۔
18 اِس کے بعد یونتن نے اُن سے کہا: ”کل نیا چاند ہے اور آپ کی کمی محسوس کی جائے گی کیونکہ آپ کی جگہ خالی ہوگی۔ 19 اور پرسوں آپ کی کمی اَور زیادہ محسوس ہوگی۔ آپ اُسی جگہ جانا جہاں آپ اُس دن* چھپے تھے اور اِس پتھر کے قریب ہی رہنا۔ 20 مَیں اِس پتھر کی ایک طرف تین تیر چلاؤں گا جیسے مَیں کسی چیز کا نشانہ لے کر مار رہا ہوں۔ 21 پھر مَیں اپنے خادم سے کہوں گا: ”جاؤ، تیر ڈھونڈ کر لاؤ۔“ اگر مَیں خادم سے کہوں: ”دیکھو، تیر آپ کی اِس طرف ہیں، اِنہیں لے کر آؤ۔“ تو آپ واپس آ سکتے ہو کیونکہ زندہ خدا یہوواہ کی قسم، اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ محفوظ ہو اور آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 22 لیکن اگر مَیں اپنے خادم سے کہوں: ”دیکھو، تیر آپ سے دُور ہیں“ تو آپ چلے جانا کیونکہ یہوواہ آپ کو بھیج رہا ہوگا۔ 23 جہاں تک اُس وعدے کی بات ہے جو مَیں نے اور آپ نے کِیا ہے تو یہوواہ ہمیشہ اُس کا گواہ رہے۔“
24 اِس لیے داؤد میدان میں چھپ گئے۔ جب نیا چاند تھا تو بادشاہ اپنی نشست پر کھانا کھانے کے لیے بیٹھا۔ 25 بادشاہ دیوار کے پاس اُسی جگہ بیٹھا تھا جہاں وہ ہمیشہ بیٹھتا تھا۔ یونتن اُس کے سامنے بیٹھے تھے اور ابنیر اُس کے ساتھ بیٹھے تھے لیکن داؤد کی جگہ خالی تھی۔ 26 ساؤل نے اُس دن کچھ نہیں کہا کیونکہ اُنہوں نے سوچا: ”وہ ضرور کسی نہ کسی وجہ سے ناپاک ہو گیا ہوگا۔ ہاں، وہ ناپاک ہی ہوگا۔“ 27 نئے چاند کے اگلے دن یعنی دوسرے دن بھی داؤد کی جگہ خالی تھی۔ تب ساؤل نے اپنے بیٹے یونتن سے کہا: ”یسی کا بیٹا کل اور آج کھانے پر کیوں نہیں آیا؟“ 28 یونتن نے ساؤل کو جواب دیا: ”داؤد نے مجھ سے مِنت کی تھی کہ مَیں اُسے بیتلحم جانے کی اِجازت دوں۔ 29 اُس نے کہا تھا: ”مہربانی سے مجھے جانے کی اِجازت دیں کیونکہ ہمارے خاندان نے شہر میں قربانی پیش کرنی ہے اور میرے بھائی نے مجھے بُلایا ہے۔ اِس لیے اگر مجھ پر آپ کی نظرِکرم ہے تو مجھے چپکے سے جانے دیں تاکہ مَیں اپنے بھائیوں سے مل سکوں۔“ اِسی لیے وہ بادشاہ کے ساتھ کھانا کھانے نہیں آیا۔“ 30 اِس پر ساؤل یونتن پر بھڑک اُٹھے اور کہنے لگے: ”باغی عورت کے بیٹے! تجھے کیا لگتا ہے، مجھے نہیں پتہ کہ تُو یسی کے بیٹے کا ساتھ دے رہا ہے؟ یہ تیرے اور تیری ماں کے لیے شرم کی بات ہے۔* 31 جب تک یسی کا بیٹا زندہ ہے، تُو بادشاہ نہیں بن پائے گا اور تیری بادشاہت قائم نہیں ہو پائے گی۔ اب کسی کو بھیج تاکہ وہ اُسے لے کر آئے کیونکہ اُسے مرنا ہوگا۔“*
32 یونتن نے اپنے والد ساؤل سے کہا: ”اُسے کیوں مرنا ہوگا؟ اُس نے کیا کِیا ہے؟“ 33 اِس پر ساؤل نے یونتن کو مارنے کے لیے زور سے نیزہ پھینکا۔ تب یونتن جان گئے کہ اُن کے والد نے داؤد کو مارنے کا پکا اِرادہ کِیا ہوا ہے۔ 34 یونتن غصے سے بھرے ہوئے فوراً کھانے کی میز سے اُٹھ گئے۔ اُنہوں نے نئے چاند کے دوسرے دن کچھ نہیں کھایا کیونکہ وہ داؤد کی وجہ سے پریشان تھے اور اِس بات پر دُکھی تھے کہ اُن کے والد نے داؤد کو کتنا بےعزت کِیا ہے۔
35 صبح یونتن میدان میں داؤد سے ملنے گئے جیسے اُن دونوں نے طے کِیا تھا اور یونتن کا ایک نوجوان خادم اُن کے ساتھ تھا۔ 36 اُنہوں نے اپنے خادم سے کہا: ”بھاگ کر جاؤ اور جو تیر مَیں چلاؤں گا، اُنہیں ڈھونڈ کر لانا۔“ خادم بھاگ کر گیا اور یونتن نے تیر ایسے چلایا کہ وہ اُس سے دُور جا کر گِرے۔ 37 جب خادم اُس جگہ پہنچا جہاں یونتن نے تیر پھینکا تھا تو یونتن نے اُونچی آواز میں خادم سے کہا: ”تیر آپ سے دُور گِرا ہے۔“ 38 پھر اُنہوں نے اُونچی آواز میں اُسے کہا: ”جلدی کرو! فٹافٹ جاؤ! دیر نہ کرو!“ یونتن کے خادم نے تیر اُٹھائے اور اپنے مالک کے پاس واپس آ گیا۔ 39 خادم کو اِس سب کی سمجھ نہیں آئی۔ صرف یونتن اور داؤد اِس سب کا مطلب سمجھتے تھے۔ 40 پھر یونتن نے اپنے خادم کو اپنے ہتھیار دیے اور کہا: ”جاؤ، اِنہیں لے کر شہر چلے جاؤ۔“
41 جب خادم چلا گیا تو داؤد اُس جگہ سے اُٹھے جو جنوب کی طرف تھی۔ پھر وہ مُنہ کے بل زمین پر گِر گئے اور تین بار جھکے۔ اُن دونوں نے ایک دوسرے کو چُوما اور ایک دوسرے کے لیے روئے۔ لیکن داؤد زیادہ روئے۔ 42 یونتن نے داؤد سے کہا: ”سلامت رہیں کیونکہ ہم دونوں نے یہ کہتے ہوئے یہوواہ کے نام سے قسم کھائی ہے: ”یہوواہ ہمیشہ آپ کے اور میرے اور آپ کی نسل اور میری نسل کے درمیان گواہ رہے۔““
پھر داؤد اُٹھے اور چلے گئے اور یونتن شہر کو لوٹ گئے۔