ایوب
7 فانی اِنسان سے ساری عمر جبری مشقت کرائی جاتی ہے
اور اُس کی زندگی ایک مزدور کی طرح گزرتی ہے۔
2 ایک غلام کی طرح وہ سائے کی آرزو کرتا ہے
اور ایک مزدور کی طرح اُسے مزدوری ملنے کا اِنتظار ہوتا ہے۔
3 اِسی لیے میرے حصے میں زندگی کے فضول مہینے آئے ہیں
اور مجھے ایسی راتیں ملی ہیں جو تکلیف سے بھری ہیں۔
4 جب مَیں لیٹتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ”صبح کب ہوگی؟“
مگر رات لمبی ہوتی جاتی ہے اور مَیں پَو پھٹنے تک بےچینی سے کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔
5 میرا جسم کیڑوں اور مٹی کے ڈھیلوں سے ڈھکا ہوا ہے؛
میری جِلد کُھرنڈوں* اور پیپ سے بھری ہوئی ہے۔
6 میری زندگی کے دن جُلاہے کی کھڈی سے بھی تیز دوڑ رہے ہیں
اور نااُمیدی کے عالم میں ختم ہونے والے ہیں۔
7 اَے خدا! یاد رکھ کہ میری زندگی ہوا کی طرح ہے۔
میری آنکھیں پھر کبھی خوشی* نہیں دیکھیں گی۔
8 جو آنکھ مجھے آج دیکھتی ہے، وہ پھر کبھی مجھے نہیں دیکھے گی؛
تیری آنکھیں مجھے ڈھونڈیں گی لیکن مَیں نہیں ہوں گا۔
10 وہ پھر کبھی اپنے گھر نہیں لوٹتا
اور اُس کا آشیانہ اُسے بھول جاتا ہے۔
11 اِس لیے مَیں خاموش نہیں رہوں گا؛
12 کیا مَیں سمندر ہوں یا کوئی بڑا سمندری جاندار
کہ تُو مجھ پر پہرا بٹھائے؟
13 جب مَیں سوچتا ہوں کہ ”میرا بستر مجھے آرام پہنچائے گا
اور میرا پلنگ میری تکلیف کو کم کرے گا“
14 تو تُو مجھے خوابوں کے ذریعے ڈراتا ہے
اور رُویات دِکھا کر خوفزدہ کرتا ہے۔
15 اِس لیے مَیں* چاہتا ہوں کہ میرا دم گُھٹ جائے
اور اِس جسم* کے ساتھ جینے کی بجائے مجھے موت آ جائے۔
16 مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہے؛ مَیں اَور جینا نہیں چاہتا؛
مجھے میرے حال پر چھوڑ دے کیونکہ میری زندگی بس ایک سانس کی طرح ہے۔
17 فانی اِنسان چیز ہی کیا ہے کہ تُو اُسے اہمیت دے
اور اُس پر توجہ فرمائے؟
18 تُو ہر صبح اُسے کیوں پرکھتا ہے
اور ہر لمحے اُس کا اِمتحان کیوں لیتا ہے؟
19 تُو کب تک مجھ پر نظریں جمائے رکھے گا؟
کیا تُو مجھے اِتنی مہلت بھی نہیں دے گا کہ مَیں اپنا تھوک نگل سکوں؟
20 اَے اِنسانوں پر نظر رکھنے والے! اگر مَیں نے گُناہ کِیا ہے تو تیرا کیا نقصان کِیا ہے؟
تُو نے مجھے اپنا نشانہ کیوں بنایا ہے؟
کیا مَیں تجھ پر بوجھ بن گیا ہوں؟
21 تُو میری خطا کیوں نہیں بخش دیتا؟
میری غلطی معاف کیوں نہیں کر دیتا؟
کیونکہ جلد ہی مَیں خاک میں مل جاؤں گا
اور تُو مجھے ڈھونڈے گا مگر مَیں نہیں ہوں گا۔“