مئی
اِتوار، 1 مئی
یسوع . . . اُن کے فرمانبردار رہے۔—لُو 2:51۔
یسوع مسیح نے چھوٹی عمر میں ہی اپنے والدین کا کہنا ماننے کا فیصلہ کِیا۔ اُنہوں نے کبھی یہ سوچ کر اپنے والدین کی بات کو نظرانداز نہیں کِیا کہ ”مجھے اُن سے زیادہ پتہ ہے۔“ بِلاشُبہ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے یسوع نے اپنی ذمےداریوں کو اچھی طرح سے نبھایا۔ یقیناً اُنہوں نے اپنے باپ یوسف سے بڑھئی کا کام سیکھنے کے لیے بڑی محنت کی تاکہ وہ اپنے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں اپنے والد کا ہاتھ بٹا سکیں۔ غالباً یسوع کے والدین نے اُنہیں بتایا ہوگا کہ اُن کی پیدائش ایک معجزے کے ذریعے ہوئی۔ اُنہوں نے یسوع کو یہ بھی بتایا ہوگا کہ اُن کی پیدائش پر فرشتوں نے اُن کے بارے میں کیا کہا تھا۔ (لُو 2:8-19، 25-38) یسوع نے یہ نہیں سوچا کہ جو باتیں اُنہوں نے اپنے والدین سے سیکھی ہیں، وہی کافی ہیں بلکہ اُنہوں نے خود بھی صحیفوں کا مطالعہ کِیا۔ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ یسوع مسیح صحیفوں کا گہرائی سے مطالعہ کرتے تھے؟ ایک موقعے پر جب وہ یروشلیم میں مذہبی اُستادوں کے بیچ بیٹھ کر اُن کی باتیں سُن رہے تھے اور اُن سے صحیفوں سے سوال پوچھ رہے تھے تو مذہبی اُستاد ”اُن کی عقلمندی اور جوابوں پر دنگ تھے۔“ اُس وقت یسوع کی عمر صرف 12 سال تھی۔ (لُو 2:46، 47) اِس عمر تک یسوع کو یقین ہو گیا تھا کہ یہوواہ اُن کا باپ ہے۔—لُو 2:42، 43، 49۔ م20.10 ص. 29 پ. 13-14
سوموار، 2 مئی
مسیح کو مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا ہے۔—1-کُر 15:12۔
یسوع کے زندہ ہونے پر ایمان رکھنا مسیحیوں کی اُمید کی بنیاد ہے۔ جب پولُس نے مُردوں کے زندہ ہو جانے کے بارے میں لکھا تو شروع میں اُنہوں نے اِن تین حقیقتوں کا ذکر کِیا: (1) مسیح نے ”ہمارے گُناہوں کے لیے جان دے دی،“ (2) ”اُسے دفن کِیا گیا“ اور (3) اُسے ”تیسرے دن زندہ کِیا گیا۔“ (1-کُر 15:3، 4) یسوع مسیح کا جان دینا، اُن کا دفنایا جانا اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھنا ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟ یسعیاہ نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ مسیح ”زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا“ جائے گا اور ’اُس کی قبر شریروں کے درمیان ٹھہرائی‘ جائے گی۔ لیکن ایک اَور بات بھی ہونی تھی۔ وہ کیا؟ یسعیاہ نے آگے بتایا کہ مسیح ”بہتوں کے گُناہ اُٹھا“ لے گا۔ اور ایسا تب ہوا جب یسوع نے اپنی جان فدیے کے طور پر دی۔ (یسع 53:8، 9، 12؛ متی 20:28؛ روم 5:8) لہٰذا یسوع مسیح کے جان دینے، اُن کے دفنائے جانے اور اُن کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی وجہ سے ہم یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ ہمیں گُناہ اور موت سے آزادی ملے گی اور ہم اپنے فوت ہو چُکے عزیزوں سے دوبارہ ملیں گے۔ م20.12 ص. 2-3 پ. 4-6؛ ص. 5 پ. 11
منگل، 3 مئی
اگر کوئی جسمانی اِعتبار سے فخر کر سکتا ہے تو وہ مَیں ہوں۔ لیکن اگر کسی کو لگتا ہے کہ اُس کے پاس جسمانی اِعتبار سے فخر کرنے کی کوئی وجہ ہے تو میرے پاس اُس سے بھی زیادہ وجوہات ہیں۔—فل 3:4۔
پولُس رسول اکثر یہودیوں کی عبادتگاہوں میں مُنادی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ تھسلُنیکے میں یہودیوں کی عبادتگاہ میں گئے اور ”صحیفوں میں سے دلیلیں دے کر یہودیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے تین ہفتے تک ہر سبت کے دن ایسا کِیا۔“ (اعما 17:1، 2) پولُس یہودیوں کی عبادتگاہ میں بڑے اِعتماد سے بات کرتے ہوں گے کیونکہ اُنہوں نے ایک یہودی کے طور پر پرورش پائی تھی۔ (اعما 26:4، 5) چونکہ وہ یہودیوں کے عقیدوں اور رسمورواج کو سمجھتے تھے اِس لیے وہ اُنہیں گواہی دیتے وقت پُراِعتماد ہوتے تھے۔ (فل 3:5) مخالفت کے ہاتھوں مجبور ہو کر پولُس کو تھسلُنیکے سے بیریہ اور پھر ایتھنز جانا پڑا۔ وہاں بھی ”وہ عبادتگاہ میں یہودیوں اور خدا کی عبادت کرنے والے دوسرے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش“ کرنے لگے۔ (اعما 17:17) لیکن جب پولُس بازار میں مُنادی کر رہے تھے تو وہاں صرف یہودی نہیں تھے۔ وہاں فلسفی اور دیگر غیریہودی بھی تھے جنہوں نے پولُس کی باتوں کو ”نئی تعلیم“ قرار دیا۔ اُنہوں نے پولُس سے کہا: ”تُم کچھ ایسی باتیں کہہ رہے ہو جو ہمیں عجیب لگتی ہیں۔“—اعما 17:18-20۔ م20.04 ص. 9 پ. 5-6
بدھ، 4 مئی
مَیں اچھے کام تو کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بُرائی کا رُجحان موجود ہے۔—روم 7:21۔
اگر آپ کو اپنی کسی خامی پر قابو پانا مشکل لگ رہا ہے تو خود کو کوستے نہ رہیں۔ یاد رکھیں کہ ہم سب غلطیاں کرتے ہیں اور ہم سب کو یہوواہ کی عظیم رحمت کی ضرورت ہے جو وہ ہمیں فدیے کے ذریعے عطا کرتا ہے۔ (اِفس 1:7؛ 1-یوح 4:10) ہم حوصلہ پانے کے لیے اپنی کلیسیا کے بہن بھائیوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے اُن سے بات کریں گے تو وہ کبھی اِسے سننے سے اِنکار نہیں کریں گے اور ہم سے ایسی بات کہیں گے جس سے ہماری ہمت بڑھ سکتی ہے۔ (امثا 12:25؛ 1-تھس 5:14) نائیجیریا میں رہنے والی بہن جوئے جو مایوسی پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں، کہتی ہیں: ”اگر میری کلیسیا کے بہن بھائی نہ ہوتے تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا۔ یہ بہن بھائی اِس بات کا ثبوت ہیں کہ یہوواہ میری دُعاؤں کا جواب دے رہا ہے۔ مَیں نے تو اُن سے یہ بھی سیکھا ہے کہ جب کوئی اَور بہن یا بھائی بےحوصلہ ہوتا ہے تو مَیں اُس کی ہمت کیسے باندھ سکتی ہوں۔“ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارے بہن بھائیوں کو ہمیشہ خودبخود یہ پتہ نہیں چل جاتا کہ ہمیں کب کب حوصلے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جب ہمیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں خود کسی تجربہکار بہن یا بھائی کے پاس جا کر اُس سے کُھل کر بات کرنی چاہیے۔ م20.12 ص. 23-24 پ. 7-8
جمعرات، 5 مئی
مَیں نے آپ کو دوست کہا ہے۔—یوح 15:15۔
کسی شخص کے ساتھ قریبی دوستی قائم کرنے کے لیے پہلا قدم عموماً یہ ہوتا ہے کہ ہم اُس کے ساتھ وقت گزاریں۔ جب آپ آپس میں بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے احساسات اور خیالات کے بارے میں بتاتے ہیں تو آپ دونوں کی دوستی ہو جاتی ہے۔ لیکن جب بات یسوع سے قریبی دوستی کرنے کی آتی ہے تو شاید یہ ہمیں مشکل لگے۔ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم یسوع سے ذاتی طور پر نہیں ملے۔ یہ بات پہلی صدی عیسوی کے بہت سے مسیحیوں کے بارے میں بھی سچ تھی۔ لیکن پطرس رسول نے اُن سے کہا: ”حالانکہ آپ نے [یسوع] کو کبھی نہیں دیکھا لیکن پھر بھی آپ اُن سے محبت کرتے ہیں۔ آپ اُن کو ابھی بھی نہیں دیکھ رہے لیکن پھر بھی آپ اُن پر ایمان ظاہر کر رہے ہیں۔“ (1-پطر 1:8) لہٰذا یسوع سے ذاتی طور پر ملے بغیر بھی اُن سے قریبی دوستی قائم کرنا ممکن ہے۔ اِس کے علاوہ ہم یسوع سے باتچیت نہیں کر سکتے۔ جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہم یہوواہ سے بات کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم دُعا میں جو کچھ مانگتے ہیں، یسوع کے نام سے مانگتے ہیں لیکن ہم براہِراست یسوع سے بات نہیں کر رہے ہوتے۔ دراصل یسوع خود بھی یہ نہیں چاہتے کہ اُن سے دُعا کی جائے۔ مگر کیوں؟ کیونکہ دُعا عبادت کا حصہ ہے اور عبادت صرف اور صرف یہوواہ کی کی جانی چاہیے۔ (متی 4:10) لیکن پھر بھی ہم یسوع سے اپنی محبت کا اِظہار کر سکتے ہیں۔ م20.04 ص. 20 پ. 1-3
جمعہ، 6 مئی
[خدا] آپ کو مضبوط بنائے گا۔ وہ آپ کو طاقت بخشے گا۔—1-پطر 5:10۔
قدیم یونان میں جو کھلاڑی دوڑ میں حصہ لیتے تھے، اُنہیں کچھ باتوں کی وجہ سے مسلسل دوڑتے رہنا مشکل لگ سکتا تھا۔ مثال کے طور پر وہ تھک سکتے تھے اور اُن کے جسم میں درد ہو سکتا تھا۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنی طاقت اور تربیت کے بلبوتے پر دوڑ جاری رکھتے تھے۔ ہم میں اور اُن کھلاڑیوں میں ایک بات ملتی جلتی ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ ہمیں بھی اُس دوڑ میں دوڑنے کی تربیت دی جاتی ہے جو ہم دوڑ رہے ہیں۔ لیکن ایک لحاظ سے ہماری صورتحال اُن کھلاڑیوں سے کہیں بہتر ہے۔ وہ کھلاڑی اپنی طاقت کے بلبوتے پر دوڑتے تھے لیکن ہم یہوواہ سے طاقت حاصل کر سکتے ہیں جو کہ لامحدود طاقت کا مالک ہے۔ یہوواہ ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر ہم اُس کی مدد پر بھروسا کریں گے تو وہ ہماری تربیت بھی کرے گا اور ہمیں مضبوط بھی بنائے گا۔پولُس رسول کی زندگی میں بھی کچھ ایسی باتیں تھیں جن کی وجہ سے اُن کے لیے مسلسل دوڑتے رہنا مشکل ہو سکتا تھا۔ لوگوں نے اُن کی بےعزتی کی اور اُنہیں اذیت کا نشانہ بنایا۔ اِس کے علاوہ پولُس کبھی کبھار کمزور محسوس کرتے تھے اور اُنہیں ایک ایسی تکلیف کا سامنا تھا ”جو ایک کانٹے کی طرح [اُن کے] جسم میں چبھتی رہتی“ تھی۔ (2-کُر 12:7) لیکن پولُس نے اِن مشکلات کی وجہ سے ہمت نہیں ہاری۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے یہ سوچا کہ اُنہیں یہوواہ کی مدد پر بھروسا ظاہر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ (2-کُر 12:9، 10) چونکہ پولُس ایسی سوچ رکھتے تھے اِس لیے یہوواہ نے اُن کی تمام مشکلات میں اُن کی مدد کی۔ م20.04 ص. 29 پ. 13-14
ہفتہ، 7 مئی
کوئی شخص میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک کہ باپ اُسے میرے پاس نہ لائے۔—یوح 6:44۔
ہمارے پاس یہ اَندیکھی نعمت ہے کہ ہم یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم کے آسمانی حصے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ (2-کُر 6:1) ہم اُس وقت ایسا کرتے ہیں جب ہم شاگرد بنانے کا کام کرتے ہیں۔ پولُس رسول نے اپنے اور اِس کام میں حصہ لینے والے دوسرے لوگوں کے بارے میں کہا کہ ”ہم خدا کے ساتھ کام کرتے ہیں۔“ (1-کُر 3:9) جب ہم مُنادی کرتے ہیں تو ہم یسوع کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔ ہم ایسا اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ جب یسوع نے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا کہ ”سب قوموں کے لوگوں کو شاگرد بنائیں“ تو اِس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ ”مَیں . . . آپ کے ساتھ رہوں گا۔“ (متی 28:19، 20) ہم اِس بات کے لیے بھی بڑے شکرگزار ہیں کہ فرشتے بھی ”زمین کے باشندوں“ کو ”ابدی خوشخبری“ سنانے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔(مکا 14:6) یہوواہ، یسوع اور فرشتوں کی مدد سے کیا کچھ انجام پا رہا ہے؟ جب ہم مُنادی کے دوران بیج بوتے ہیں یعنی بادشاہت کا پیغام سناتے ہیں تو کچھ لوگوں کے دل میں یہ بیج بڑھنے لگتا ہے۔ (متی 13:18، 23) لیکن کون اِس بیج کو بڑھاتا اور پھلدار بناتا ہے؟ یسوع مسیح نے اِس سوال کا جواب آج کی آیت میں دیا۔ م20.05 ص. 30 پ. 14-15
اِتوار، 8 مئی
اِس زمانے کے طورطریقوں کی نقل کرنا چھوڑ دیں۔—روم 12:2۔
آج لاکھوں گھرانے طلاق کی وجہ سے اُجڑ جاتے ہیں۔ کچھ گھرانے تو ایسے ہوتے ہیں جن میں گھر کے افراد ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بالکل انجان ہوتے ہیں۔ گھرانوں کو مشورہ دینے والے ایک ماہر نے کہا: ”ماں، باپ اور بچے ایک دوسرے سے کٹ کر اپنے کمپیوٹر، ٹیبلٹ، موبائل فون یا ویڈیو گیمز سے چپکے رہتے ہیں۔ گھر کے یہ افراد بھلے ہی ایک چھت کے نیچے رہتے ہوں لیکن اُنہیں ایک دوسرے کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔“ اِس دُنیا میں بہت سے لوگ محبت سے عاری ہیں اور ہم اُن جیسے نہیں بننا چاہتے۔ اِس کی بجائے ہم اپنے دل میں نہ صرف اپنے گھر والوں کے لیے بلکہ کلیسیا کے بہن بھائیوں کے لیے بھی اَور زیادہ محبت بڑھانا چاہتے ہیں۔ (روم 12:10) ہمیں اپنے ہمایمانوں سے ویسی ہی محبت کرنی چاہیے جیسی ہم اپنے گھر والوں سے کرتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو آپس میں ہمارا اِتحاد مضبوط ہوگا جو کہ یہوواہ کی عبادت کا ایک اہم حصہ ہے۔—میک 2:12۔ م21.01 ص. 20 پ. 1-2
سوموار، 9 مئی
میرے دل کو یکطرفہ کر تاکہ مَیں تیرے نام کا خوف مانوں۔—زبور 86:11، ”ترجمہ نئی دُنیا۔“
ایک ایسی ٹیم کے میچ جیتنے کا اِمکان کم ہی ہوتا ہے جس میں شامل کھلاڑیوں کی ایک دوسرے سے نہیں بنتی۔ اِس کے برعکس جس ٹیم میں اِتحاد ہوتا ہے، اُس کے جیتنے کا زیادہ اِمکان ہوتا ہے۔ اگر آپ کے خیالات، خواہشات اور جذبات ایک طرف یعنی خدا کی خدمت کرنے پر ہوں گے تو آپ کا دل بھی ایک کامیاب ٹیم کی طرح ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ شیطان کو ہمارے دل کو بانٹنا بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ کے خیالات، خواہشات اور جذبات ایک دوسرے سے میل نہ کھائیں اور آپ کے اندر یہ جنگ چلتی رہے کہ آیا آپ خدا کے معیاروں پر چلیں گے یا اپنی خواہشوں کو پورا کریں گے۔ لیکن یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے یہ بےحد ضروری ہے کہ آپ کا سارا دل اُس کی طرف ہو۔ (متی 22:36-38) لہٰذا کبھی بھی شیطان کو موقع نہ دیں کہ وہ آپ کے دل کو بانٹے! داؤد کی طرح یہوواہ سے یہ دُعا کریں: ”میرے دل کو یکطرفہ کر تاکہ مَیں تیرے نام کا خوف مانوں۔“ اِس بات کا عزم کریں کہ آپ اپنی اِس دُعا کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری کوشش کریں گے۔ ہر دن اپنے ہر چھوٹے بڑے فیصلے سے یہ ظاہر کریں کہ آپ یہوواہ کے پاک نام کا گہرا احترام کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ یہوواہ کے نام کی بڑائی کریں گے جس کے نام سے آپ کہلائے جاتے ہیں۔ (امثا 27:11) یوں ہم سب میکاہ نبی کی طرح یہ کہنے کے قابل ہوں گے: ”ہم ابداُلآباد تک [یہوواہ] اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔“—میک 4:5۔ م20.06 ص. 13 پ. 17-18
منگل، 10 مئی
وہ بڑے غضب سے نکلے گا کہ بہتوں کو نیستونابود کرے۔—دان 11:44۔
جب شاہِشمال اور دُنیا کی باقی حکومتیں خدا کے بندوں پر حملہ کریں گی تو لامحدود قدرت کا مالک یہوواہ اپنے بندوں کے حق میں فوری کارروائی کرے گا اور یوں ہرمجِدّون کی جنگ شروع ہوگی۔ (مکا 16:14، 16) اُس وقت شاہِشمال اور باقی قومیں جو ماجوج کے جوج کا حصہ ہیں، ختم ہو جائیں گی اور ’کوئی اُن کا مددگار نہ ہوگا۔‘(دان 11:45) دانیایل 12:1 میں اَور تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ شاہِشمال اور باقی حکومتوں کی تباہی کیسے ہوگی اور خدا کے بندوں کو کیسے بچایا جائے گا۔ اِس آیت کا کیا مطلب ہے؟ میکائیل ہمارے بادشاہ یسوع مسیح کا ایک اَور نام ہے۔ وہ 1914ء سے خدا کے بندوں کی ’حمایت میں کھڑے ہیں‘ جب آسمان پر اُن کی بادشاہت قائم ہوئی۔ بہت جلد وہ ہرمجِدّون کی جنگ میں ایک اہم کارروائی کرنے کے لیے ’اُٹھیں گے۔‘ یہ جنگ اُس دَور کا آخری واقعہ ہوگی جس کے بارے میں دانیایل نے کہا کہ ”وہ ایسی تکلیف کا وقت ہوگا“جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا۔—مکا 6:2؛ 7:14۔ م20.05 ص. 15-16 پ. 15-17
بدھ، 11 مئی
یؔوسف کو مؔصر میں [لایا گیا]۔—پید 39:1۔
جب یوسف، فوطیفار کے گھر میں غلام تھے اور جب بعد میں اُنہیں قید میں ڈالا گیا تو وہ چاہ کر بھی اپنی صورتحال کو بدل نہیں سکتے تھے۔ لیکن اِن کٹھن صورتحال میں بھی اُنہوں نے اپنی سوچ کو مثبت رکھا۔ کیسے؟ اُنہوں نے اپنا دھیان اِس بات پر نہیں رکھا کہ اب وہ کون سے کام نہیں کر سکتے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے دل لگا کر وہ کام کیے جو اُنہیں سونپے گئے تھے۔ یوسف نے یہوواہ کو خوش کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ بدلے میں یہوواہ نے بھی یوسف کے ہر اُس کام پر برکت ڈالی جو وہ کرتے تھے۔ (پید 39:21-23) یوسف کی طرح ہم بھی ایسے لوگوں کے بیچ رہتے ہیں جو ہمارے ساتھ نااِنصافی سے پیش آتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ہمارے ہمایمان بھی ہمارے ساتھ نااِنصافی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہوواہ کو اپنی چٹان اور نجات سمجھتے ہیں تو ہم کبھی بھی ہمت ہار کر اُس کی خدمت کرنا نہیں چھوڑیں گے۔ (زبور 62:6، 7؛ 1-پطر 5:10) یاد کریں کہ جب یہوواہ نے یوسف کو خواب دِکھائے تھے تو وہ تقریباً 17 سال کے تھے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کو اپنے نوجوان بندوں پر پورا بھروسا ہے۔ آج بھی بہت سے نوجوان، یوسف کی طرح یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں۔ اِن میں سے بعض نوجوانوں کو تو بڑی نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنہیں محض اِس وجہ سے قید میں ڈال دیا گیا کیونکہ وہ اپنے ایمان پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے۔—زبور 110:3۔ م20.12 ص. 16 پ. 3؛ ص. 17 پ. 5؛ ص. 18 پ. 7
جمعرات، 12 مئی
اُن لوگوں نے . . . رسولوں کو بلوایا، اُنہیں پٹوایا اور حکم دیا کہ یسوع کے نام سے تعلیم دینا بند کر دیں۔—اعما 5:40۔
پطرس اور یوحنا رسول کے نزدیک یہ بڑے فخر کی بات تھی کہ اُنہیں یسوع کی پیروی کرنے اور اُن کی تعلیمات پھیلانے کی وجہ سے اذیت دی جا رہی تھی۔ (اعما 4:18-21؛ 5:27-29، 41، 42) اِن خاکسار شاگردوں کی مدد سے اِنسانوں کو جتنا فائدہ ہوا، اُتنا اُن کے مخالفوں کے کسی کام سے نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر اِن میں سے بعض شاگردوں نے خدا کے اِلہام سے جو یونانی صحیفے لکھے، اُن سے نہ صرف اُس زمانے کے لوگوں کو بلکہ آج بھی لاکھوں لوگوں کو مدد اور اُمید مل رہی ہے۔ اور جس بادشاہت کی اُنہوں نے جگہ جگہ مُنادی کی، وہ نہ صرف اب آسمان پر قائم ہو چُکی ہے بلکہ بہت جلد زمین پر سب اِنسانوں پر حکومت بھی کرے گی۔ (متی 24:14) لیکن قدیم زمانے کی طاقتور رومی حکومت کا کیا ہوا جو مسیحیوں کو اذیت دینے پر تلی تھی؟ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور تاریخ کے صفحوں میں گم ہو گئی۔ اِس کے علاوہ آج یسوع کے وفادار شاگرد آسمان پر بادشاہ ہیں جبکہ اُن کے مخالف مٹی میں مل گئے۔ اگر اِن مخالفوں کو مستقبل میں زندہ بھی کِیا گیا تو یہ اُس بادشاہت کے تحت ہوں گے جس کی اُن مسیحیوں نے مُنادی کی جن سے وہ نفرت کرتے تھے۔—مکا 5:10۔ م20.07 ص. 15 پ. 4
جمعہ، 13 مئی
[ابراہام] اُس شہر کا اِنتظار کر رہے تھے جس کی بنیادیں پائیدار ہیں اور جس کا نقشہساز اور معمار خدا ہے۔—عبر 11:10۔
ابراہام کو خدا کے وعدوں پر اِتنا پکا ایمان تھا جیسے وہ اپنی آنکھوں سے اُس مسحشُدہ شخص کو دیکھ سکتے ہوں جس نے خدا کی بادشاہت کا بادشاہ بننا تھا۔ اِسی وجہ سے یسوع مسیح نے اپنے زمانے کے یہودیوں سے کہا: ”آپ کے باپ ابراہام بہت خوش تھے کیونکہ وہ میرا دن دیکھنے کی اُمید رکھتے تھے اور اُنہوں نے اِسے دیکھا اور خوش ہوئے۔“ (یوح 8:56) بِلاشُبہ ابراہام یہ جانتے تھے کہ اُن کی اولاد اُس بادشاہت کا حصہ ہوگی جسے خدا قائم کرے گا اور اُنہوں نے خوشی سے اِنتظار کِیا کہ یہوواہ اپنا یہ وعدہ پورا کرے۔ ابراہام نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ اُس شہر یا بادشاہت کے منتظر ہیں جسے خدا نے بنانا تھا؟ سب سے پہلے تو وہ زمین پر قائم کسی بھی حکومت کے شہری نہیں بنے۔ اُنہوں نے مسافروں کی طرح زندگی گزاری اور کبھی بھی کسی ایک جگہ کو اپنا مستقل ٹھکانا نہیں بنایا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے نہ تو کسی اِنسانی بادشاہ کی حمایت کی اور نہ ہی اپنی بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی۔ اِس کی بجائے وہ یہوواہ کے حکم مانتے رہے اور اُس کے وعدوں کے پورا ہونے کا اِنتظار کرتے رہے۔ اِس سے ظاہر ہوا کہ ابراہام یہوواہ پر کتنا مضبوط ایمان رکھتے تھے۔ م20.08 ص. 3 پ. 4-5
ہفتہ، 14 مئی
جو شخص مر گیا، اُس کا گُناہ معاف ہو گیا۔—روم 6:7۔
یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ مسیح کی حکمرانی میں کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ ”مَیں بیمار ہوں۔“ (یسع 33:24) لہٰذا جب خدا مُردوں کو زندہ کرے گا تو وہ اُنہیں کسی بیماری یا معذوری کے بغیر دوبارہ خلق کرے گا۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر طرح کے عیب سے پاک زندہ ہوں گے کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو اُن کے گھر والے اور دوست اُنہیں پہچان نہیں پائیں گے۔ لگتا ہے کہ تمام اِنسان مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران آہستہ آہستہ بےعیب ہوں گے۔ ہزار سال کے ختم ہونے پر یسوع مسیح بادشاہت کو اپنے باپ کے حوالے کر دیں گے۔ اُس وقت تک یہ بادشاہت وہ سب کچھ کر چُکی ہوگی جو یہوواہ چاہتا ہے جس میں اِنسانوں کا بےعیب ہو جانا بھی شامل ہے۔ (1-کُر 15:24-28؛ مکا 20:1-3) ذرا سوچیں کہ اُس وقت کیسا سماں ہوگا جب آپ اپنے اُن عزیزوں سے دوبارہ ملیں گے جو فوت ہو گئے ہیں۔ کیا آپ خوشی سے ہنسنے یا پھر رونے لگیں گے؟ کیا آپ خوشی کے مارے یہوواہ کی حمد میں گیت گانے لگیں گے؟ چاہے اُس وقت آپ کے احساسات کچھ بھی ہوں، ایک بات تو پکی ہے کہ آپ کا دل اپنے شفیق باپ اور اُس کے بیٹے کی محبت سے بھر جائے گا جن کی وجہ سے مُردے زندہ ہوں گے۔ م20.08 ص. 16-17 پ. 9-10
اِتوار، 15 مئی
ہر ایک کو خدا کی طرف سے اپنی اپنی نعمت ملی ہے، ایک کو یہ نعمت تو دوسرے کو وہ۔—1-کُر 7:7۔
پولُس رسول نے مسیحیوں کی حوصلہافزائی کی کہ اگر وہ غیرشادیشُدہ رہ کر یہوواہ کی خدمت کر سکتے ہیں تو وہ اِس کے بارے میں ضرور سوچیں۔ (1-کُر 7:8، 9) بِلاشُبہ پولُس غیرشادیشُدہ مسیحیوں کو حقیر نہیں سمجھتے تھے بلکہ اُنہوں نے تو تیمُتھیُس کو بھاری ذمےداریاں نبھانے کے لیے چُنا تھا جو کہ نوجوان اور کنوارے تھے۔ (فل 2:19-22) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ایک بھائی کو صرف یہ سوچ کر کسی ذمےداری کے لائق سمجھا جاتا ہے کہ وہ شادیشُدہ ہے یا نہیں تو یہ غلط ہوگا۔ (1-کُر 7:32-35، 38) نہ تو کبھی یسوع مسیح نے اور نہ ہی پولُس نے یہ سکھایا کہ مسیحیوں کو ضرور شادی کرنی چاہیے یا پھر اُنہیں بالکل شادی نہیں کرنی چاہیے۔ تو پھر مسیحیوں کو شادی کرنے یا غیرشادیشُدہ رہنے کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟ اِس سوال کا جواب 1 اکتوبر 2012ء کے ”دی واچٹاور“ میں بڑی اچھی طرح سے دیا گیا۔ وہاں لکھا تھا: ”دراصل [شادی کرنا یا غیرشادیشُدہ رہنا] دونوں ہی خدا کی طرف سے نعمتیں ہیں۔ . . . یہوواہ یہ نہیں سوچتا کہ [غیرشادیشُدہ لوگوں] کو اِس بات پر دُکھی یا شرمندہ ہونا چاہیے کہ اُن کی شادی نہیں ہوئی۔“ لہٰذا اگر ہماری کلیسیا میں کوئی بہن یا بھائی غیرشادیشُدہ ہے تو ہمیں اُن کی قدر اور عزت کرنی چاہیے۔ م20.08 ص. 28 پ. 8-9
سوموار، 16 مئی
اُس دن یا گھنٹے کے بارے میں کسی کو نہیں پتہ . . . [مگر] صرف باپ کو۔—متی 24:36۔
کچھ ملکوں میں لوگ بڑی خوشی سے بادشاہت کے پیغام کو قبول کرتے ہیں۔ اُنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ اِس پیغام کو سننے کے لیے ترس رہے تھے۔ لیکن دیگر ملکوں میں لوگ بائبل کے بارے میں سیکھنے یا خدا کو جاننے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ آپ کے علاقے میں عام طور پر لوگ خوشخبری کا پیغام سُن کر کیسا ردِعمل دِکھاتے ہیں؟ چاہے اُن کا ردِعمل کچھ بھی ہو، یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُس وقت تک مُنادی کے کام میں لگے رہیں جب تک اُسے نہیں لگتا کہ اب یہ کام پورا ہو گیا ہے۔ یہوواہ نے ایک وقت مقرر کِیا ہوا ہے جس میں مُنادی کا کام ختم ہو جائے گا اور ’خاتمہ آ جائے‘ گا۔ (متی 24:14) یسوع مسیح نے بتایا کہ آخری زمانے میں کیا ہوگا اور لوگ کیسے ہوں گے۔ اُنہوں نے اِن باتوں کے بارے میں کیوں آگاہ کِیا؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اِن کی وجہ سے اُن کے پیروکاروں کا دھیان مُنادی کے کام سے ہٹ سکتا ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے ہمیں یہ ہدایت دی: ”چوکس رہیں۔“ (متی 24:42) ذرا نوح کے زمانے کے بارے میں سوچیں۔ اُس وقت لوگ ایسے کاموں میں مگن تھے جن کی وجہ سے اُنہوں نے نوح کے پیغام پر دھیان نہیں دیا۔ ایسے ہی کام آج ہمارا دھیان بھی خدا کی خدمت سے بھٹکا سکتے ہیں۔ (متی 24:37-39؛ 2-پطر 2:5) اِس لیے ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا دھیان اُس کام پر رہے جو یہوواہ نے ہمیں دیا ہے۔ م20.09 ص. 8 پ. 1-2، 4
منگل، 17 مئی
اُن سب کو اذیت دی جائے گی جو مسیح یسوع کے پیروکاروں کے طور پر خدا کی بندگی کرنا چاہتے ہیں۔—2-تیم 3:12۔
شیطان ”بڑے غصے میں ہے“ اور اگر ہم یہ سوچیں گے کہ ہم کسی نہ کسی طرح اُس کے غصے سے بچ جائیں گے تو یہ سراسر بےوقوفی ہوگی۔ (مکا 12:12) بہت جلد ایک ”ایسی بڑی مصیبت آئے گی جو دُنیا کے شروع سے لے کر اب تک نہیں آئی اور نہ ہی دوبارہ کبھی آئے گی۔“ (متی 24:21) اُس وقت ہم سب کے ایمان کا اِمتحان ہوگا۔ تب ہو سکتا ہے کہ ہمارے گھر والے ہمارے خلاف ہو جائیں اور یہوواہ کی عبادت سے تعلق رکھنے والے کاموں پر پابندی لگ جائے۔ (متی 10:35، 36) لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کو خود سے پوچھنا چاہیے: ”کیا اُس وقت مَیں بادشاہ آسا کی طرح مدد اور تحفظ کے لیے یہوواہ پر آس لگاؤں گا؟“ (2-توا 14:11) یہوواہ ہمیں ابھی سے آنے والے وقت کے لیے تیار کر رہا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے وہ ”وفادار اور سمجھدار غلام“ کے ذریعے ہمیں ”صحیح وقت پر کھانا دے“ رہا ہے تاکہ ہم اپنے ایمان کو مضبوط کر سکیں۔ (متی 24:45) یہوواہ تو ہماری مدد کرنے کے لیے اپنی طرف سے سب کچھ کر رہا ہے لیکن ہمیں بھی اُس پر مضبوط ایمان رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو ہم کر سکتے ہیں۔—عبر 10:38، 39۔ م20.09 ص. 18 پ. 16-18
بدھ، 18 مئی
بادشاہ کا دل [یہوواہ] کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اُس کو پانی کے نالوں کی مانند جدھر چاہتا ہے پھیرتا ہے۔—امثا 21:1۔
یہوواہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی پاک روح کے ذریعے اِختیار والوں سے جو چاہے، کروا سکتا ہے۔ جس طرح اِنسان اپنے کسی منصوبے کو پورا کرنے کے لیے ایک نہر کھود کر دریا کے پانی کا رُخ کہیں بھی موڑ سکتا ہے۔ اُسی طرح یہوواہ خدا اپنی پاک روح کے ذریعے اِنسانی حکمرانوں کے خیالات کا رُخ اپنی مرضی کے مطابق کہیں بھی موڑ سکتا ہے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو اِختیار والے ایسے فیصلے کرتے ہیں جن سے خدا کے بندوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ (عزرا 7:21، 25، 26 پر غور کریں۔) ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم اُس وقت ”بادشاہوں اور اِختیار والوں“ کے لیے دُعا کر سکتے ہیں جب وہ ایسے فیصلے کرنے والے ہوتے ہیں جن کا اثر یہوواہ کی عبادت سے تعلق رکھنے والے ہمارے کاموں پر پڑ سکتا ہے۔ (1-تیم 2:1، 2، فٹنوٹ؛ نحم 1:11) پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی طرح ہم بھی اپنے اُن بہن بھائیوں کے لیے شدت سے دُعائیں مانگ سکتے ہیں جو قید میں ہیں۔—اعما 12:5؛ عبر 13:3۔ م20.11 ص. 15 پ. 13-14
جمعرات، 19 مئی
سب قوموں کے لوگوں کو شاگرد بنائیں اور اُن کو . . . بپتسمہ دیں۔—متی 28:19۔
اگر بپتسمہ لینے والا شخص وہ ہے جو آپ سے بائبل کورس کر رہا تھا تو یقیناً آپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا۔ (1-تھس 2:19، 20) بپتسمہ لینے والا شخص نہ صرف بائبل کورس کرانے والے بھائی یا بہن کے لیے بلکہ پوری کلیسیا کے لیے ”سفارشی خط“ کی طرح ہوتا ہے۔ (2-کُر 3:1-3) یہ بڑی زبردست بات ہے کہ پچھلے چار سالوں میں پوری دُنیا میں ہمارے بہن بھائیوں نے ہر مہینے اوسطاً 1 کروڑ لوگوں کو بائبل کورس کرایا۔ اور اِن چار سالوں میں ہر سال اوسطاً 2 لاکھ 80 ہزار لوگ بپتسمہ لے کر یہوواہ کے گواہ اور یسوع مسیح کے شاگرد بنے۔ ہم بائبل کورس کرنے والے اَور لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ بھی بپتسمہ لینے کے لائق بنیں؟ جب تک یہوواہ صبر سے لوگوں کو مسیح کا شاگرد بننے کا موقع دے رہا ہے تب تک ہمیں بائبل کورس کرنے والے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ جلد از جلد بپتسمہ پانے کے لائق ہو جائیں۔ یاد رکھیں کہ خاتمہ بہت ہی نزدیک ہے۔—1-کُر 7:29؛ 1-پطر 4:7۔ م20.10 ص. 6 پ. 1-2
جمعہ، 20 مئی
خدا مغروروں کی مخالفت کرتا ہے لیکن خاکساروں کو عظیم رحمت عطا کرتا ہے۔—یعقو 4:6۔
بادشاہ ساؤل نے یہوواہ کی ہدایتوں کو نظرانداز کر دیا۔ اور جب سموئیل نبی نے ساؤل کو اُن کی غلطی کا احساس دِلانے کی کوشش کی تو ساؤل اپنی غلطی ماننے کی بجائے صفائیاں دینے لگے اور یہ تاثر دیا کہ اُنہوں نے جو کِیا، وہ اِتنا سنگین نہیں تھا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنی غلطی دوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش کی۔ (1-سمو 15:13-24) اِس سے پہلے بھی ساؤل نے اِسی طرح کا رویہ ظاہر کِیا تھا۔ (1-سمو 13:10-14) افسوس کی بات ہے کہ اُنہوں نے اپنی سوچ کو درست کرنے کی بجائے اپنے دل میں غرور کو گھر کرنے دیا۔ اِس لیے یہوواہ نے اُنہیں ملامت کی اور رد کر دیا۔ ساؤل سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہم خود سے ایسے سوال پوچھ سکتے ہیں: ”جب مَیں خدا کے کلام میں کوئی ایسی نصیحت پڑھتا ہوں جو مجھ پر لاگو ہوتی ہے تو کیا مَیں اُس پر عمل نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہوں؟ کیا مَیں یہ سوچتا ہوں کہ میری غلطی اِتنی سنگین نہیں ہے؟ کیا مَیں اپنی غلطی کو دوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں؟“ اگر ہم اِن میں سے کسی بھی سوال کا جواب ہاں میں دیتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ اور رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہمارے دل میں غرور بس سکتا ہے جس کی وجہ سے یہوواہ ہمیں اپنے دوستوں کے طور پر رد کر دے گا۔ م20.11 ص. 20 پ. 4-5
ہفتہ، 21 مئی
اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر جبکہ بُرے دن ہنوز نہیں آئے اور وہ برس نزدیک نہیں ہوئے جن میں تُو کہے گا کہ اِن سے مجھے کچھ خوشی نہیں۔—واعظ 12:1۔
نوجوانو! یہ فیصلہ کریں کہ آپ کس کی خدمت کریں گے۔ اِس بات کو اچھی طرح سے جانیں کہ یہوواہ کیسا خدا ہے، اُس کی مرضی کیا ہے اور آپ اُس پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ (روم 12:2) یوں آپ کو یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرنے کی ترغیب ملے گی جو کہ زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ہے۔ (یشو 24:15) باقاعدگی سے بائبل کو پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کریں۔ یوں یہوواہ کے لیے آپ کی محبت بڑھتی جائے گی اور اُس پر آپ کا ایمان مضبوط ہوتا جائے گا۔ یہوواہ کی مرضی کو پہلا درجہ دینے کا فیصلہ کریں۔ شیطان کی دُنیا یہ وعدہ کرتی ہے کہ اگر آپ اپنی صلاحیتوں کو اپنے فائدے کے لیے اِستعمال کریں گے تو آپ خوش رہیں گے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ مالودولت کے پیچھے بھاگتے ہیں، وہ ’اپنے پورے جسم کو گھائل کر لیتے ہیں اور شدید درد میں مبتلا رہتے ہیں۔‘ (1-تیم 6:9، 10) لیکن اگر آپ یہوواہ کی سنیں گے اور اُس کی مرضی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینے کا فیصلہ کریں گے تو آپ ہر معاملے میں سمجھداری سے کام لیں گے اور ”خوب کامیاب“ ہوں گے۔—یشو 1:8۔ م20.10 ص. 30 پ. 17-18
اِتوار، 22 مئی
مجھے . . . خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانی ہے کیونکہ مجھے اِسی لیے بھیجا گیا ہے۔—لُو 4:43۔
پہلی صدی عیسوی میں یسوع مسیح نے سب لوگوں کو اُمید بھرا پیغام سنایا۔ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ اِس کام کو جاری رکھتے ہوئے ”زمین کی اِنتہا تک“ گواہی دیں۔ (اعما 1:8) ظاہر ہے کہ شاگرد یہ کام اپنی طاقت سے نہیں کر سکتے تھے۔ اِس لیے یسوع نے اُن سے وعدہ کِیا کہ اِس کام کے لیے اُنہیں ”مددگار“ یعنی پاک روح دی جائے گی۔ (یوح 14:26؛ زک 4:6) عید پنتِکُست 33ء کے موقعے پر یسوع مسیح کے شاگردوں کو پاک روح ملی۔ پاک روح کی مدد سے اُنہوں نے فوراً مُنادی کرنی شروع کر دی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہزاروں لوگوں نے خوشخبری کو قبول کر لیا۔ (اعما 2:41؛ 4:4) جب شاگردوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ خوف کی وجہ سے دب کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ اُنہوں نے یہوواہ سے یہ دُعا کی کہ ”اپنے غلاموں کو توفیق دے کہ دلیری سے تیرا کلام سناتے رہیں۔“ دُعا کرنے کے بعد وہ ”پاک روح سے معمور ہو گئے اور دلیری سے خدا کا کلام سنانے لگے۔“—اعما 4:18-20، 29، 31۔ م20.10 ص. 21 پ. 4-5
سوموار، 23 مئی
مسیح نے صحیفوں کے عین مطابق ہمارے گُناہوں کے لیے جان دے دی اور اُسے . . . زندہ کِیا گیا۔—1-کُر 15:3، 4۔
ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ نے یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کر دیا تھا؟ بہت سے لوگوں نے یسوع کے زندہ ہونے کے بعد اُنہیں دیکھا۔ (1-کُر 15:5-7) اِس حوالے سے پولُس رسول نے اپنے خط میں سب سے پہلے جس شخص کا ذکر کِیا، وہ پطرس رسول (کیفا) تھے۔ کچھ شاگردوں نے بھی اِس بات کی تصدیق کی کہ پطرس نے یسوع کو اُن کے زندہ ہو جانے کے بعد دیکھا۔ (لُو 24:33، 34) اِس کے علاوہ ”12 رسولوں“ نے بھی یسوع کو اُن کے جی اُٹھنے کے بعد دیکھا۔ پھر یسوع مسیح ”ایک ہی موقعے پر 500 سے زیادہ بھائیوں کو دِکھائی“ دیے۔ شاید یہ وہ موقع تھا جس کا ذکر متی 28:16-20 میں کِیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ یسوع، ’یعقوب کو دِکھائی دیے۔‘ یہ یعقوب غالباً وہ یعقوب تھے جو یسوع کے سوتیلے بھائی تھے۔ یعقوب پہلے اِس بات پر ایمان نہیں لائے تھے کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔ (یوح 7:5) لیکن جب اُنہوں نے یسوع کو مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد دیکھا تو وہ اُن پر ایمان لے آئے۔ یہ بڑی دلچسپی کی بات ہے کہ جب تقریباً 55ء میں پولُس نے کُرنتھیوں کا پہلا خط لکھا تو اُس وقت اِن میں سے بہت سے شاگرد زندہ تھے۔ لہٰذا اگر کسی کو یسوع کے جی اُٹھنے پر شک تھا تو وہ اِن گواہوں سے بات کر سکتا تھا۔ م20.12 ص. 3 پ. 5، 7-8
منگل، 24 مئی
[یہوواہ] اُسے بیماری کے بستر پر سنبھالے گا۔—زبور 41:3۔
اگر ہماری صحت ٹھیک نہیں ہے تو شاید ہمیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنا مشکل لگے۔ ایسا کرنا خاص طور پر اُس وقت زیادہ مشکل ہوتا ہے اگر ہم کافی عرصے سے کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں۔ ایسی صورت میں یہوواہ سے مدد مانگیں۔ سچ ہے کہ آج یہوواہ ہمیں معجزانہ طور پر شفا نہیں دیتا لیکن وہ ہمیں تسلی اور بیماری سے نمٹنے کی طاقت ضرور دے سکتا ہے۔ (زبور 94:19) مثال کے طور پر وہ ہمارے کسی ہمایمان کو یہ ترغیب دے سکتا ہے کہ وہ گھر کے کامکاج کرنے میں ہماری مدد کرے۔ یا وہ ہمارے کسی بہن یا بھائی کے دل میں یہ خیال ڈال سکتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر دُعا کرے۔ یا پھر وہ ہمارے ذہن میں پاک کلام کی ایسی آیتیں لا سکتا ہے جن سے ہمیں یہ تسلی اور اُمید مل سکتی ہے کہ نئی دُنیا میں ہمیں بیماری اور تکلیفوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔ (روم 15:4) مگر شاید ہم اِس وجہ سے بےحوصلہ ہو جائیں کہ ہم مُنادی میں زیادہ حصہ نہیں لے سکتے۔ ذرا ایک امریکی بہن کی مثال پر غور کریں جن کا نام لورل تھا۔ وہ 37 سال سے ایک ایسی مشین میں لیٹی تھیں جس کی مدد سے وہ سانس لے سکتی تھیں۔ اُنہیں کینسر تھا، اُن کے بڑے بڑے آپریشن ہوئے تھے اور اُنہیں جِلد کی سنگین بیماریاں بھی تھیں۔ لیکن اِن سب کے باوجود اُن میں گواہی دینے کا جذبہ ماند نہیں پڑا۔ وہ نرسوں کو اور اُن لوگوں کو گواہی دیتی تھیں جو اُن کے گھر پر اُن کی دیکھبھال کرنے کے لیے آتے تھے۔ اُن کی مدد سے کم سے کم 17 لوگ بائبل کا صحیح علم حاصل کر پائے۔ م20.12 ص. 24 پ. 9؛ ص. 25 پ. 12
بدھ، 25 مئی
[یہوواہ] میری طرف ہے مَیں نہیں ڈرنے کا۔ اِنسان میرا کیا کر سکتا ہے؟—زبور 118:6۔
پولُس رسول کو مدد کی اشد ضرورت تھی۔ تقریباً 56ء میں لوگوں کی بِھیڑ اُنہیں گھسیٹتے ہوئے ہیکل سے باہر لے گئی اور قتل کرنے کی کوشش کی۔ پھر اگلے دن جب پولُس کو عدالتِعظمیٰ کے سامنے پیش کِیا گیا تو اُن کے دُشمن اُنہیں چیر پھاڑ ڈالنے والے تھے۔ (اعما 21:30-32؛ 22:30؛ 23:6-10) اُس وقت پولُس نے شاید یہ سوچا ہو کہ ”کہیں اِن مشکلوں کو برداشت کرتے کرتے میری ہمت جواب نہ دے جائے۔“ یسوع اور فرشتوں نے پولُس کی مدد کیسے کی؟ پولُس کے گِرفتار ہونے کی اگلی رات ”ہمارے مالک [یسوع] پولُس کے پاس آئے اور کہا: ”ہمت نہ ہاریں! جیسے آپ نے یروشلیم میں میرے بارے میں اچھی طرح سے گواہی دی ویسے ہی آپ کو روم میں بھی دینی ہوگی۔““ (اعما 23:11) اِن تسلیبخش الفاظ کو سُن کر پولُس کا واقعی حوصلہ بڑھا ہوگا۔ یسوع نے پولُس کو اِس بات پر داد دی کہ اُنہوں نے یروشلیم میں اچھی طرح سے گواہی دی۔ پھر اُنہوں نے پولُس سے وعدہ کِیا کہ وہ روم میں صحیح سلامت پہنچ جائیں گے تاکہ وہ وہاں بھی گواہی دے سکیں۔ یسوع کے مُنہ سے یہ بات سُن کر پولُس نے یقیناً خود کو ویسا ہی محفوظ محسوس کِیا ہوگا جیسے ایک بچہ اپنے باپ کی بانہوں میں خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے۔ م20.11 ص. 12 پ. 1؛ ص. 13 پ. 3، 4
جمعرات، 26 مئی
یہ اُمید . . . مضبوط اور قابلِبھروسا ہے۔—عبر 6:19۔
خدا کی بادشاہت کے آنے کی اُمید ”ہماری جانوں کے لیے ایک لنگر کی طرح ہے“ جو ہمیں پریشانکُن صورتحال میں ڈگمگانے نہیں دیتی۔ اُن وعدوں کے بارے میں سوچیں جو یہوواہ نے مستقبل کے حوالے سے کیے ہیں۔ اُس وقت وہ ہمارے دلودماغ سے ساری پریشانیاں مٹا دے گا۔ (یسع 65:17) خود کو امن سے بھری دُنیا میں تصور کریں جہاں مشکلوں اور پریشانیوں کا کوئی نامونشان نہیں ہوگا۔ (میک 4:4) جب آپ دوسروں کو اِس اُمید کے بارے میں بتاتے ہیں تو اِس پر آپ کا ایمان اَور مضبوط ہوتا ہے۔ لہٰذا پورے جی جان سے مُنادی اور شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو ”آپ کو آخر تک پکا یقین [ہوگا] کہ آپ کی اُمید پوری ہوگی۔“ (عبر 6:11) چونکہ ہم آخری زمانے کے بالکل آخر میں رہ رہے ہیں اِس لیے ہماری مشکلوں میں پہلے سے کہیں زیادہ اِضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اِن مشکلوں کا سامنا کرنے اور پُرسکون رہنے کے لیے اپنی طاقت پر نہیں بلکہ یہوواہ کی طاقت پر بھروسا کریں۔ آئیں، اپنے کاموں سے یہ ظاہر کریں کہ ہم یہوواہ کے اِس وعدے پر پورا یقین رکھتے ہیں: ”پُرسکون رہو اور مجھ پر بھروسا ظاہر کرو تو تمہیں طاقت ملے گی۔“—یسع 30:15، ترجمہ نئی دُنیا۔ م21.01 ص. 7 پ. 17-18
جمعہ، 27 مئی
یہوواہ بہت ہی شفیق . . . ہے۔—یعقو5:11۔
غور کریں کہ یعقوب 5:11 میں یہوواہ کی شفقت کو رحم سے جوڑا گیا ہے۔ رحم بھی ایک ایسی خوبی ہے جس کی وجہ سے ہم یہوواہ کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ (خر 34:6) ایک طریقہ جس سے یہوواہ رحم ظاہر کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ہماری غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔ (زبور 51:1) بائبل کے مطابق رحم کی خوبی میں صرف معاف کرنا ہی شامل نہیں ہے۔ دراصل یہ ایک گہرا احساس ہے جو اُس وقت ہم میں اُبھرتا ہے جب ہم کسی کو تکلیف میں دیکھتے ہیں اور جس کی وجہ سے ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ یہوواہ نے بتایا کہ وہ ہمارے لیے جو احساسات رکھتا ہے، وہ اُن احساسات سے بھی بڑھ کر ہیں جو ایک ماں اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔ (یسع 49:15) جب ہم تکلیف اور پریشانی میں ہوتے ہیں تو رحم کی وجہ سے یہوواہ ہماری مدد کو آتا ہے۔ (زبور 37:39؛ 1-کُر 10:13) لہٰذا جب ہم اپنے کسی ایسے بہن یا بھائی کو دل سے معاف کر دیتے ہیں جس نے ہمیں ٹھیس پہنچائی ہوتی ہے تو ہم رحم ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ (اِفس 4:32) لیکن ایک اَور بھی اہم طریقہ ہے جس سے ہم اُن کے لیے رحم ظاہر کر سکتے ہیں۔ ہم مصیبت کی گھڑی میں اُن کا سہارا بن سکتے ہیں۔ یوں ہم اپنے آسمانی باپ یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہوں گے جس کی ذات محبت ہے۔—اِفس 5:1۔ م21.01 ص. 21 پ. 5
ہفتہ، 28 مئی
مسیح نے . . . آپ کے لیے مثال چھوڑی تاکہ آپ اُس کے نقشِقدم پر چلیں۔—1-پطر 2:21۔
ایک گھر کے سربراہ کو اپنے گھر والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہیے۔ لیکن اُسے اِس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اپنی ملازمت میں اِتنا مگن نہ ہو جائے کہ اُس کے پاس اُنہیں یہوواہ کی قُربت میں رکھنے،اُنہیں اپنی محبت کا احساس دِلانے اور اُن کی تربیت اور اِصلاح کرنے کا وقت ہی نہ بچے۔ یہوواہ ہماری اِس طرح سے تربیت اور اِصلاح کرتا ہے جس سے ہمارا بھلا ہو۔ (عبر 12:7-9) یسوع مسیح بھی بڑی محبت سے اُن لوگوں کی تربیت کرتے ہیں جو اُن کے اِختیار کے تحت ہیں۔ (یوح 15:14، 15) وہ اُنہیں صاف لفظوں میں نصیحت کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے وقت وہ محبت کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ (متی 20:24-28) وہ یہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہم عیبدار ہیں اور ہم سے اکثر غلطیاں ہوں گی۔ (متی 26:41) جو گھر کے سربراہ یہوواہ اور یسوع کی مثال پر عمل کرتے ہیں، وہ اِس بات کو یاد رکھتے ہیں کہ اُن کی بیوی اور بچے عیبدار ہیں۔ اِس لیے جب اُن میں سے کسی سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ اُن پر ’بھڑکتے نہیں ہیں۔‘ (کُل 3:19) اِس کی بجائے وہ گلتیوں 6:1 میں پائے جانے والے اصول پر عمل کرتے ہیں اور ’نرمی سے اُن کی اِصلاح کرنے کی کوشش‘ کرتے ہیں۔ وہ یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ خود بھی عیبدار ہیں۔ ایک گھر کا سربراہ یسوع مسیح کی طرح اِس بات کو سمجھتا ہے کہ دوسروں کو سکھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ خود ایک اچھی مثال قائم کرے۔ م21.02 ص. 6-7 پ. 16-18
اِتوار، 29 مئی
جس میں بھی سانس ہے وہ رب کی ستائش کرے۔—زبور 150:6، ”اُردو جیو ورشن۔“
یہوواہ خدا نے اپنے بیٹے کے فدیے کے ذریعے کلیسیا کے ہر فرد کو خرید لیا ہے۔ (مر 10:45؛ اعما 20:28؛ 1-کُر 15:21، 22) لہٰذا یہ بالکل مناسب ہے کہ یہوواہ نے یسوع کو کلیسیا کا سربراہ مقرر کِیا ہے جنہوں نے ہمارے لیے اپنی جان دی۔ ایک سربراہ کے طور پر یسوع کو یہ اِختیار حاصل ہے کہ وہ ہر فرد کے لیے، گھرانوں کے لیے اور پوری کلیسیا کے لیے قانون بنائیں اور اِس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر کوئی اِن قوانین پر عمل کرے۔ (گل 6:2) لیکن یسوع مسیح صرف قانون ہی نہیں بناتے بلکہ وہ ہم میں سے ہر ایک سے محبت کرتے اور ہمارا خیال بھی رکھتے ہیں۔(اِفس 5:29) جب بہنیں اُن آدمیوں کی ہدایتوں پر عمل کرتی ہیں جنہیں یسوع نے اُن کی دیکھبھال کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے تو وہ یسوع کے لیے احترام ظاہر کرتی ہیں۔ جب کلیسیا کے بھائی، بہنوں کی عزت کرتے ہیں تو وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سربراہی کے بندوبست کو اچھی طرح سے سمجھتے اور اِس کی قدر کرتے ہیں۔ جب کلیسیا میں ہر شخص سربراہی کے بندوبست کے لیے احترام ظاہر کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اِس بندوبست کے تحت ہر ایک کا کیا کردار ہے تو کلیسیا میں امن کی فضا فروغ پاتی ہے۔ اِس سے بھی بڑھ کر ہمارے شفیق آسمانی باپ یہوواہ کی بڑائی ہوتی ہے۔ م21.02 ص. 18-19 پ. 14-17
سوموار، 30 مئی
داؔؤد نے [یہوواہ] سے پوچھا۔—1-سمو 30:8۔
جب داؤد اور اُن کے ساتھی اپنے گھرانوں سمیت فلستین کے علاقے میں چھپے ہوئے تھے تو ایک موقعے پر وہ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر دُشمنوں سے لڑنے کے لیے نکلے۔ اُن کی غیرموجودگی میں اُن کے کچھ اَور دُشمن اُن کے گھروں میں گھس گئے اور اُن کے گھر والوں کو قید کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ داؤد یہ سوچ سکتے تھے کہ چونکہ وہ جنگ لڑنے میں بہت ماہر ہیں اِس لیے اُنہیں پتہ ہے کہ اُنہیں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے گھر والوں کو کیسے بچانا ہے۔ لیکن داؤد نے ایسا نہیں کِیا۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے یہوواہ سے رہنمائی حاصل کی۔ داؤد نے یہوواہ سے پوچھا کہ ”[کیا] مَیں اُس فوج کا پیچھا کروں؟“ یہوواہ نے داؤد سے کہا کہ وہ ایسا کریں اور وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔ (1-سمو 30:7-10) آپ اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟جب آپ اہم فیصلے کرتے ہیں تو دوسروں سے مشورہ لیں۔ نوجوان بھائیو! آپ اپنے والدین سے صلاح مشورہ کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ بزرگوں سے بھی مشورہ لے سکتے ہیں۔ یہوواہ کو اِن آدمیوں پر بھروسا ہے اور آپ بھی اُن پر بھروسا کر سکتے ہیں۔ یہوواہ کی نظر میں یہ آدمی کلیسیا کے لیے ”نعمتیں“ ہیں۔ (اِفس 4:8) اگر آپ اُن جیسا ایمان ظاہر کریں گے اور اُن کے مشوروں پر عمل کریں گے تو آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ م21.03 ص. 4-5 پ. 10-11
منگل، 31 مئی
[کوئی ایسی چیز نہیں جو] ہمیں خدا کی . . . محبت سے جُدا کر سکتی ہے۔—روم 8:38، 39۔
یسوع مسیح نے کہا تھا کہ اگر ہم اُن باتوں پر عمل نہیں کرتے جو ہم خدا کے کلام میں پڑھتے ہیں تو ہم اُس آدمی کی طرح ہوں گے جس نے ریت پر اپنا گھر بنایا۔ اُس نے ایسا کرنے میں بہت محنت کی لیکن سب فضول گئی۔ کیوں؟ کیونکہ جب بارش برسی، تیز ہوا چلی اور سیلاب آیا تو اُس کا گھر ڈھیر ہو گیا۔ (متی 7:24-27) اِسی طرح اگر ہم پڑھی ہوئی باتوں پر عمل نہیں کریں گے تو ہماری ساری کوششیں بےکار جائیں گی۔ کیوں؟ کیونکہ جب اذیت یا مصیبت کی گھڑی میں ہمارا ایمان آزمایا جائے گا تو ہم ٹک نہیں پائیں گے۔ لیکن اگر ہم بائبل میں لکھی ہوئی باتوں پر عمل کریں گے تو ہم اچھے فیصلے کر پائیں گے، ہمیں اَور زیادہ اِطمینان حاصل ہوگا اور ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جائے گا۔ (یسع 48:17، 18) مشکل وقت میں یہوواہ کا وفادار رہنے کے لیے ہمیں باقاعدگی سے اُس سے دُعا کرنے اور اُس کے کلام کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اِس بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ چاہے صورتحال جیسی بھی ہو، ہمارے لیے یہوواہ کی بڑائی کرنا بہت اہم ہے۔ ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا اور کوئی بھی ہمیں اُس کی محبت سے جُدا نہیں کر سکتا۔—عبر 13:5، 6۔ م21.03 ص. 15 پ. 6؛ ص. 18 پ. 20