موسیٰ نبی—خاکساری کی مثال
خاکساری کیا ہے؟
خاکساری غرور کی ضد ہے۔ ایک خاکسار شخص دوسروں کو اپنے سے کمتر نہیں سمجھتا۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ اُس سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ وہ یہ بھی مانتا ہے کہ کچھ کام ایسے ہیں جنہیں وہ نہیں کر سکتا۔
موسیٰ نبی نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ خاکسار ہیں؟
جب موسیٰ کو اختیار ملا تو وہ مغرور نہیں ہوئے۔ عموماً جب ایک شخص کو ذرا سا بھی اختیار ملتا ہے تو جلد ہی پتہ چل جاتا ہے کہ آیا وہ خاکسار ہے یا مغرور۔ اُنیسویں صدی کے مصنف رابرٹ اِنگرسول کے مطابق ”اگر آپ ایک شخص کے کردار کا پتہ لگانا چاہتے ہیں تو اُسے اختیار دے دیں۔“ اِس سلسلے میں موسیٰ نے خاکساری کی شاندار مثال قائم کی۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ کیسے کِیا۔
خدا نے موسیٰ کو بنیاسرائیل کا رہنما بنایا۔ لیکن موسیٰ کبھی اِس اختیار کی وجہ سے مغرور نہیں ہوئے۔ مثال کے طور پر ذرا اُس واقعے پر غور کریں جب موسیٰ کو میراث کے حق کا مسئلہ حل کرنا پڑا۔ (گنتی ۲۷:۱-۱۱) یہ ایک بہت اہم معاملہ تھا کیونکہ اِس کے بارے میں ہونے والا فیصلہ آئندہ زمانوں میں بھی کام آنا تھا۔
اِس صورتحال میں موسیٰ نے کیا کِیا؟ کیا بنیاسرائیل کا رہنما ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے اِس معاملے کو خود حل کرنے کی کوشش کی؟ کیا اُنہوں نے اپنی صلاحیت اور تجربے پر بھروسا کِیا؟ یا کیا اُنہوں نے یہ اندازہ لگا لیا کہ یہوواہ خدا کیا فیصلہ کرے گا اور خود ہی معاملہ حل کر دیا؟
شاید ایک مغرور شخص ایسا ہی کرتا لیکن موسیٰ نے ایسا نہیں کِیا۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ’موسیٰ معاملے کو یہوواہ خدا کے حضور لے گئے۔‘ (گنتی ۲۷:۵) ذرا سوچیں کہ موسیٰ تقریباً ۴۰ سال سے بنیاسرائیل کی رہنمائی کر رہے تھے لیکن پھر بھی اُنہوں نے خود پر بھروسا نہیں کِیا بلکہ یہوواہ خدا پر بھروسا کِیا۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ موسیٰ بہت خاکسار تھے۔
موسیٰ نے یہ نہیں سوچا کہ صرف اُنہی کے پاس اختیار ہونا چاہئے۔ جب یہوواہ خدا نے موسیٰ کے ساتھساتھ کچھ اَور اسرائیلی مردوں کو نبوّت کرنے کی قوت دی تو موسیٰ بہت خوش ہوئے۔ (گنتی ۱۱:۲۴-۲۹) جب موسیٰ کے سُسر نے اُن کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے کام کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے کچھ ذمہداریاں دوسرے آدمیوں کو بانٹ دیں تو موسیٰ نے اِس مشورے پر عمل کِیا۔ (خروج ۱۸:۱۳-۲۴) جب موسیٰ بوڑھے ہو گئے تو اُنہوں نے یہوواہ خدا سے درخواست کی کہ وہ بنیاسرائیل کے لئے نیا رہنما مقرر کر دے حالانکہ اُس وقت موسیٰ کی صحت بالکل ٹھیک تھی۔ جب یہوواہ خدا نے اِس کام کے لئے یشوع کا انتخاب کِیا تو موسیٰ نے خوشی سے یشوع کی مدد کی۔ موسیٰ نے بنیاسرائیل سے کہا کہ اب سے یشوع اُن کے رہنما ہیں اور وہی اُن کو اُس ملک میں لے جائیں گے جس کا وعدہ خدا نے کِیا ہے۔ (گنتی ۲۷:۱۵-۱۸؛ استثنا ۳۱:۳-۶؛ ۳۴:۷) یقیناً موسیٰ کی نظر میں یہ اعزاز کی بات تھی کہ وہ خدا کی عبادت کرنے کے سلسلے میں بنیاسرائیل کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ لیکن اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اُن کے ہاتھ سے اختیار نہیں جانا چاہئے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کو زیادہ اہم سمجھا۔
ہم موسیٰ نبی سے کیا سیکھتے ہیں؟
ہمیں اِس وجہ سے مغرور نہیں ہونا چاہئے کہ ہمیں اختیار ملا ہے یا ہمارے اندر بہت صلاحیت ہے۔ یاد رکھیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں اپنی خدمت کے لئے استعمال کرے تو ہمیں خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کرنی چاہئے اور اپنی صلاحیتوں پر فخر نہیں کرنا چاہئے۔ (۱-سموئیل ۱۵:۱۷) اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم پاک کلام کی اِس ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔“—امثال ۳:۵، ۶۔
ہم موسیٰ سے یہ بھی سیکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے اختیار یا مرتبے کو حد سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئے۔
جب ہم موسیٰ کی طرح خاکسار بنتے ہیں تو کیا ہمیں فائدہ ہوتا ہے؟ بےشک۔ جب ہم خاکسار بنیں گے تو لوگ ہم سے اَور بھی زیادہ پیار کریں گے۔ سب سے بڑھ کر یہوواہ خدا ہم سے اَور زیادہ پیار کرے گا جو خود بھی فروتن ہے۔ (زبور ۱۸:۳۵) پاک کلام میں لکھا ہے: ”خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“ (۱-پطرس ۵:۵) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسیٰ کی طرح خاکسار بننا کتنا ضروری ہے۔