یادوں کے ذخیرے سے
گاڑیاں بن گئیں آشیانے
اگست اور ستمبر ۱۹۲۹ء میں بادشاہت کی گواہی دینے کی مہم چلائی گئی۔ نو دنوں کی اِس مہم کے دوران ۱۰ ہزار سے زیادہ مبشر بادشاہت کا پیغام لے کر طوفانی رفتار سے پورے امریکہ میں پھیل گئے۔ اُنہوں نے لوگوں میں ڈھائی لاکھ کتابیں تقسیم کیں۔ اِن مبشروں میں ایک ہزار پہلکار بھی شامل تھے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران پہلکاروں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اِضافہ ہوا تھا۔ اِس اِضافے کو بلیٹنaنے ”بہت ہی حیرتانگیز“ قرار دیا۔ سن ۱۹۲۷ء سے ۱۹۲۹ء تک پہلکاروں کی تعداد میں تین گُنا اِضافہ ہوا تھا۔
سن ۱۹۲۹ء میں ایک معاشی بحران نے امریکہ کو آ دبوچا۔ یہ ۲۹ اکتوبر کا دن تھا جب نیویارک اسٹاک مارکیٹ میں آنے والی مندی دُنیا کے معاشی نظام پر بجلی بن کر گِری۔ ہزاروں بینک دیوالیہ ہو گئے اور بہت سے زرعی فارم بند ہو گئے۔ بڑے بڑے کارخانے ٹھپ ہو گئے اور لاکھوں لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں۔ بینک کے قرضوں کی قسطیں ادا نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے گھر ضبط کر لئے گئے۔ یہاں تک کہ ۱۹۳۳ء میں کچھ دنوں تک ہر روز ۱۰۰۰ گھر ضبط کئے گئے۔
ایسے سخت بحران میں پہلکاروں کا گزارہ کیسے ہو رہا تھا؟ ہمارے بہت سے پہلکاروں نے اپنی گاڑیوں کو ہی اپنا گھر بنا لیا۔ اِس طرح اُنہیں نہ تو کرایہ دینا پڑتا تھا اور نہ ہی ٹیکس۔ چونکہ اُن کے اخراجات کم ہوتے تھے اِس لئے وہ پہلکاروں کے طور پر اپنی خدمت جاری رکھ سکتے تھے۔bبڑے اِجتماعوں کے موقعوں پر یہی گاڑیاں مُفت رہائش کا کام بھی دیتی تھیں۔ سن ۱۹۳۴ء میں بلیٹن میں کچھ نقشے دئے گئے کہ گاڑیوں کو سادہ سے گھر میں کیسے ڈھالا جا سکتا ہے۔ اِن نقشوں میں ایک ایسا بیڈ دِکھایا گیا جو فولڈ ہو جائے۔ اِس کے علاوہ یہ بھی دِکھایا گیا کہ گاڑی میں کھانا پکانے کے لئے چولہا کیسے لگایا جائے، پانی کا اِنتظام کیسے کِیا جائے اور سردی کو کیسے روکا جائے۔
بہت سے مبشروں نے اپنی گاڑیوں کو گھروں کی صورت میں ڈھالنا شروع کر دیا۔ ایک بھائی جن کا نام وکٹر تھا، اُنہوں نے بتایا: ”جیسے نوح کو کشتی بنانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا ویسے ہی مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ گاڑی کو گھر میں کیسے ڈھالا جاتا ہے۔“ اِس کے باوجود وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
بھائی ایوری اور اُن کی بیوی لوینیا کا گھر بھی اُن کی گاڑی ہی تھی۔ بھائی نے کہا: ”جس طرح ایک کچھوا جہاں جہاں جاتا ہے، اُس کا خول اُس کے ساتھ ہی رہتا ہے اُسی طرح مَیں جہاں بھی جاتا، میرا گھر میرے ساتھ رہتا۔“ ایوری اور لوینیا دو اَور پہلکاروں کے ساتھ مل کر خدمت کر رہے تھے جن کے نام ہاروی اور عین تھے۔ اُنہوں نے بھی اپنی گاڑی کو گھر کی شکل میں ڈھالا ہوا تھا۔ اُنہوں نے اپنی گاڑی کے پیچھے جو گھر بنایا تھا، اُس کی دیواریں تارکول کی پتلی شیٹ سے بنی ہوئی تھیں۔ جب بھی وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تو اِس شیٹ کے ٹکڑے نیچے گِرتے جاتے تھے۔ بھائی ایوری نے بتایا: ”ایسی گاڑی نہ تو تب کسی اَور کے پاس دیکھی گئی اور نہ ہی آج تک کسی کے پاس دیکھنے میں آئی ہے۔“ لیکن ایوری نے بتایا کہ ہاروی اور عین اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ”اِسی گاڑی میں ہنسیخوشی زندگی گزار رہے تھے۔“ بھائی ہاروی نے کہا: ”ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ ہم یہوواہ خدا کی خدمت سے خوش اور مطمئن تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ وہ ہمیں سنبھالے گا۔“ بعد میں ہاروی، عین اور اُن کے دونوں بیٹوں کو گلئیڈ سکول بلایا گیا اور پھر اُنہیں مشنری مقرر کرکے ملک پیرو میں خدمت کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔
گسٹو اور اُن کی بیوی وِنسنزا بھی پہلکار تھے۔ جب اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کے ہاں بچہ ہونے والا ہے تو اُنہوں نے بھی اپنے ٹرک کو گھر میں ڈھال لیا۔ پہلے وہ ٹینٹ میں رہتے تھے۔ اِس لئے اُن کی نظر میں اُن کا یہ نیا گھر کسی شاندار ہوٹل سے کم نہیں تھا۔ اُن کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اُس کی پیدائش کے بعد بھی اُنہوں نے اپنی خدمت جاری رکھی۔ وہ اِٹلی سے امریکہ منتقل ہونے والے لوگوں میں بادشاہت کی مُنادی کرتے رہے۔
اُس وقت خوشخبری کا پیغام بہت سے لوگوں تک پہنچا۔ مگر غریب اور بےروزگار لوگ کتابوں اور رسالوں کے بدلے اکثر عطیات نہیں دے پاتے تھے۔ اِس کی بجائے وہ پہلکاروں کو مختلف چیزیں دے دیتے تھے۔ دو پہلکاروں نے ۶۴ ایسی چیزوں کی فہرست بنائی جو اُنہیں لوگوں سے ملی تھیں۔ یہ فہرست ”کسی دُکان میں بکنے والے سودے کی فہرست جیسی تھی۔“
بھائی فریڈ ایک کسان سے ملے جو ہماری کتابیں لینا چاہتا تھا۔ اُس نے کتابوں کے بدلے اُنہیں نظر کا چشمہ دیا جو اُس کی ماں کا تھا۔ اگلے گھر میں وہ ایک اَور کسان سے ملے جو ہماری کتابیں پڑھنا تو چاہتا تھا مگر اُس نے کہا کہ ”میرے پاس پڑھنے کے لئے چشمہ نہیں ہے۔“ بھائی فریڈ نے نظر کا چشمہ اُسے دے دیا۔ اِس چشمے کی مدد سے وہ آسانی سے کتابیں پڑھ سکتا تھا۔ اُس کسان نے چشمے اور کتابوں کے لئے بھائی فریڈ کو خوشی سے عطیہ دیا۔
بھائی ہربٹ نے اپنی گاڑی کے پیچھے مرغیوں کا خالی پنجرہ رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگوں کو کتابیں دیتے تھے تو بعض لوگ بدلے میں اُن کو مُرغی دیتے تھے۔ اور جب اُن کے پاس تین یا چار مُرغیاں اِکٹھی ہو جاتی تھیں تو وہ اِنہیں بازار میں بیچ کر اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوا لیتے تھے۔ بھائی ہربٹ نے بتایا: ”بعض اوقات ہماری جیب میں چند سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جب تک ہماری گاڑی میں پٹرول رہتا، ہم یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے۔“
یہوواہ خدا پر بھروسے اور پُختہ عزم کی بدولت ہمارے بہت سے بہنبھائی اُن کٹھن سالوں کے دوران اپنی خدمت جاری رکھ پائے۔ اِس سلسلے میں بھائی میکسویل اور اُن کی بیوی ایمی کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے بھی اپنی گاڑی کو اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ وہ طوفان کے دوران اپنے گھر سے نکل کر بھاگے ہی تھے کہ ایک درخت اُن کے گھر پر گِرا اور اُسے تباہ کر دیا۔ بھائی میکسویل نے لکھا: ”ہم نے ایسے واقعات کی وجہ سے اپنا عزم کمزور نہیں پڑنے دیا۔ اپنی خدمت کو چھوڑنے کا خیال بھی کبھی ہمارے ذہن میں نہیں آیا۔ ہم جانتے تھے کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے اور ہم نے اُسے پورا کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔“ بھائی میکسویل اور ایمی نے اپنے کچھ دوستوں کی مدد سے اپنی گاڑی کو پھر سے ایک گھر کی صورت میں ڈھال لیا۔
آج بھی اِس مشکل دَور میں ہمارے لاکھوں بہنبھائی خدا کی خدمت کے لئے بہت سی قربانیاں دے رہے ہیں۔ ماضی کے پہلکاروں کی طرح ہمارا بھی یہ پُختہ عزم ہے کہ ہم مُنادی کا کام تب تک جاری رکھیں گے جب تک یہوواہ خدا یہ نہیں کہتا: ”بس! کام مکمل ہو گیا۔“
a بلیٹن کو اب ہماری بادشاہتی خدمتگزاری کہا جاتا ہے۔
b اُس زمانے میں پہلکار کوئی ملازمت نہیں کرتے تھے۔ وہ ہماری کتابیں اور رسالے کم قیمت پر لیتے تھے اور پھر لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔ لوگوں سے اُنہیں جو عطیات ملتے تھے، اُنہی سے اُن کا گزارہ ہوتا تھا۔