نوجوان لوگ پوچھتے ہیں . . .
اگر میرا خاندان غریب ہے تو کیا کریں؟
ساؤتھ افریقی بستی جس میں وہ پلا بڑھا جارج کیلئے کوئی خوشگوار یادوں کو تازہ نہ کر سکی۔ وہ دوہراتا ہے، ”ہم ایک مخصوص مخوخو رہائش میں رہتے تھے جو کہ ایک چھوٹی ٹین کی دو کمروں والی جھونپڑی کے سوا کچھ نہ تھی۔“ وہ ایک کمرے میں اپنے آٹھ بہنوں اور بھائیوں کیساتھ رہتا تھا۔ سردیوں کے مہینوں میں، وہ اس ایک نلکے سے پانی لانے کیلئے جو کہ سارے محلے کو پانی فراہم کرتا تھا، سرد ہواؤں کا مقابلہ کرتا تھا۔ ”لیکن ایک چیز جو غریب کیطور پر پرورش پانے میں مجھے سب سے زیادہ کھٹکتی تھی“ جارج کہتا ہے، ”وہ اپنے باپ کو ہمیں پالنے کیلئے جان توڑ کر محنت کرتے دیکھنا تھا۔ مجھے غصہ آتا تھا کیونکہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہ تھی۔“
ترقی پذیر ممالک میں مالی مشکل زندگی کا ایک حصہ ہے۔ اور یہاں تک کہ دولتمند مغربی ممالک میں بھی غریب لوگوں کی تعداد چونکا دینے والی ہے۔ شاید آپ بھی ان میں سے ایک ہیں۔ جارج کی طرح شاید آپ بھی خود کو غربت کے جال میں پھنسا ہوا محسوس کریں۔ جبکہ ایسے احساسات سمجھ میں آنے والی بات ہیں، لیکن وہ آپ کو ایسے ردعمل کے لئے اکسا سکتے ہیں جو کہ غربت کے مسائل کو ختم کرنے کی بجائے، ان کو بڑھا سکتے ہیں۔
فرار کا پھندا
غریب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد غربت کے دکھ سے بچنے کی کوشش میں اپنے حواس کو الکحل یا منشیات کے ذریعے سن کر لیتے ہیں۔ محقق جل سوارٹ کے مطابق ، ایک جنوب افریقی شہر کے بچے ”صرف ”لطفاندوزی“ کیلئے ہی نشہ (گلونوشی) نہیں کرتے۔ وہ اسے سردی، تنہائی، اوربھوک . . . کو ختم کرنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔“
لیکن جب یہ نوجوان اپنے ہوشو حواس میں آ جاتے ہیں اور نشہ ہرن ہو جاتا ہے تو وہ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ جل سوارٹ نے ایسی علامتوں کو تحریر کیا جیسے کہ ”شدید ڈیپریشن،“ جارحانہ عزائم،“ ”مزاج میں فوری تبدیلی،“ ”کمزور نظر،“ اور کئی دوسری جسمانی بیماریاں جسے کہ شاید ہی غربت سے ایک صحتمند ”بچاؤ“ کا نام دیا جا سکے۔
دانشمند بادشاہ سلیمان نے کہا: ”شرابی . . . کنگال ہو جائینگے اور نیند ان کو چتھڑے پہنائے گی۔“ (امثال ۲۳:۲۱) اپنے ذہن کو الکحل، گلو، یا منشیات کے ذریعے سن کرنے سے غربت کے حقائق کو ختم کرنے کی کوشش سے مسائل حل نہیں ہو جائیں گے۔ (مقابلہ کریں امثال ۳۱:۷۔) جیسے کہ ساؤتھ افریقہ کے ایک والدین میں سے ایک پر مشتمل ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک ۱۶ سالہ لڑکی ماریا، نے مشاہدہ کیا: ”حقائق سے نظریں چرانے کی کوشش کرنا مسائل کو حل کرنے کی بجائے بڑھا دیتا ہے۔“ اس کے علاوہ، ایسی تباہکن عادات کو قائم رکھنے کی بھاری قیمت ایک شخص کو اور زیادہ غربت میں دھکیل دیتی ہے۔ صرف ایک ہی صورت ہے کہ اگر ایک غریب نوجوان ڈٹ کر اپنے حالات کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ ان پر قابو پانے کی توقع کر سکتا ہے۔
غصہ اور مایوسی
بہتیرے نوجوان غریب ماحول کے پھندے میں پھنسنے پر غصہ ہونے کی وجہ سے، تشدد، تہذیبسوزی، چوری، اور دوسری طرح کے نابالغوں کے جرائم میں پڑ جاتے ہیں۔ دی ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے کہ ایسے نوجوان اس کو ہی ”مایوسی، غربت، اور دیگر مسائل سے بچاؤ کا واحد ذریعہ خیال کرتے ہیں۔“ جارج، جس کا ذکر شروع میں کیا گیا، یاد کرتا ہے کہ اس کے بعض دوست بہت غصے میں آ جاتے اور مایوس ہو کرایسی ٹولیوں میں شامل ہو جاتے تھے جو کہ آس پڑوس میں خوفوہراس پھیلاتی تھیں۔ وہ مزید اضافہ کرتا ہے کہ ”وہ عموماً زندہ رہنے کے لئے لڑتے اور چوریاں کرتے تھے۔“ تاہم دوسرے نوجوان غربت کو ختم کرنے کی کوشش میں، منشیات فروخت کرنے، یا لوگوں کو ان کی طرف مائل کرنے کی، نفع بخش غیرقانونی سرگرمیوں میں الجھ جاتے ہیں۔
تاہم، غربت کو ختم کرنے کی بجائے، مجرمانہ طرزعمل حالات کو اور زیادہ خراب کر دیتا ہے۔ وہ قوت جو کہ مفید ہنر یا کام سیکھنے والی اچھی سرگرمیوں میں صرف کی جاسکتی تھی ضائع ہو جاتی ہے۔ اپنے حالات کو بہتر بنانے کی بجائے، گمراہ نوجوان محض خود کو مزید جسمانی اور جذباتی تکلیفات کے حوالہ کر دیتا ہے۔ انجام کار بعض نوجوان اپنا وقت جیل میں گزار کر یا پھر جرم کی بدولت اپنی زندگیاں گنوا کر ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ بادشاہ سلیمان نے آگاہ کیا: ”تربیت کو رد کرنے والا کنگال اور رسوا ہو گا۔“ امثال ۱۳:۱۸۔
بےیارومددگار اور ناامید
شاید سب سے نقصاندہ نشانات جو غربت ایک نوجوان پر چھوڑے گی، وہ ناکارہ اور کمتر ہونے کا طویل احساس ہی ہیں۔ بہتیروں کیلئے، زندگی کے ہر طرف پھیلی ہوئی غربت کی درجہبندی نے کبھی بھی معیار زندگی کو بہتر بنانے کی امید کو چھین لیا ہے۔ دی ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا تبصرہ کرتا ہے کہ جوان لوگ اکثر ”بےچارگی اور مایوسی کے ویسے ہی احساسات کا شکار ہو جاتے ہیں جن کی ان کے والدین نے نشوونما کی ہے۔“ انجام کار، شاید ”غربت کی تہذیب“ اپنے متاثرین کو عمربھر کی بدحالی پر راضی بہ رضا پائے۔
لیکن کیا بےچارگی اور ناامیدی کے احساسات میں پھنسے رہنا آپ کی حالت کو بہتر بنادیگا؟ نہیں! کیونکہ ایسا کوئی بھی عمل محض غربت کے اس برے چکر کو بار بار دوہراتا ہی ہے۔ جیسے کہ ایک قدیم ضربالمثل اسے بیان کرتی ہے: ”جو ہوا کا رخ دیکھتا رہتا ہے وہ بوتا نہیں اور جو بادلوں کو دیکھتا ہے وہ کاٹتا نہیں۔“ (واعظ ۱۱:۴) اگر ایک کسان منفی امکانات کو مرکوزخاطر رکھتا ہے کہ ہوا اسکے بیج کو اڑا لے جا سکتی ہے یا بارش اسکی فصل کو گیلا کر سکتی ہے تو وہ ضروری کاروائی کرنے میں ناکام رہیگا۔ اسیطرحسے، منفی احساسات کو ہی مرکوزخاطر رکھنے سے، آپ خود کو ترقی دینے کیلئے اپنی تمام کاوشوں کو مفلوج کر سکتے ہیں۔
پس بادشاہ سلیمان نے اسکے علاوہ یہ نصیحت دی: ”صبح کو اپنا بیج بو اور شام کو بھی اپنا ہاتھ ڈھیلا نہ ہونے دے کیونکہ تو نہیں جانتا کہ ان میں سے کونسا بارور ہوگا۔“ (واعظ ۱۱:۶) جیہاں، ناکامی کے خوف یا ناامیدی کے اس احساس کیساتھ غیرمتحرک ہونے کی بجائے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، کوئی عملی قدم اٹھائیں! بہت سے ایسے کام ہیں جن کے کرنے سے آپ کو منفی احساسات کی جگہ مثبت احساسات پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
عزت نفس کو بڑھانا
۱۱ سالہ جیمز پر غور کریں۔ وہ اپنی ماں اور بہن کیساتھ ساؤتھ افریقہ میں جوہنزبرگ کے قریب ایک قبضہشدہ کیمپ میں رہتا ہے۔ مالی طور پر، انکے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ہر ہفتہ کے آخر پر جیمز یہوواہ کے گواہوں کے مقامی کنگڈم ہال کی تعمیر میں مدد دینے کیلئے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف اسکا وہ وقت گزر جاتا ہے جو کہ شاید گزارے نہ گزرتا بلکہ اس کیساتھ ساتھ یہ اسے احساس تکمیل بھی بخشتا ہے۔ جیمز ایک خوشدل مسکراہٹ کیساتھ کہتا ہے: ”ایک دن ہال کی تعمیر میں گزارنے کے بعد، مجھے اندرونی طور پر اطمینان کا گہرا احساس ہوتا ہے!“ اگرچہ یہ نوجوان غریب ہے، پھر بھی اسکے پاس وقت اور قوت کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔
ایک اور پھلدار کارگزاری گھرباگھر بائبل تعلیم دینے کا کام ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) بہتیرے نوجوان یہوواہ کے گواہ باقاعدہ طور پر اس کام میں شریک ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ نہ صرف دوسروں کو مستقبل قریب میں بہتر زندگی کی امید دیتے ہیں بلکہ وہ خود اپنی عزت نفس، خوبی، اور قدرومنزلت کے احساس کو بڑھاتے ہیں۔ سچ ہے کہ یہ کام کرنے سے کسی کو پیسے تو نہیں ملتے۔ لیکن اس پیغام کو یاد کریں جو یسوع نے سردیس کی قدیم کلیسیا کے مسیحیوں کو دیا۔ مادی طور پر وہ کافی غریب تھے، لیکن ان کی روحانی پختگی کی بدولت، یسوع ان سے کہہ سکتا تھا: ”میں تیری مصیبت اور غربت کو جانتا ہوں مگر تو دولتمند ہے۔“ بالآخر، ان کے یسوع کے بہائے گئے خون پر سرگرم ایمان کا مظاہرہ کرنے سے، وہ ہمیشہ کی زندگی کا تاج حاصل کرنے سے، بےپناہ دولتمند ہو جائینگے۔ مکاشفہ ۲:۹، ۱۰۔
بطور غریب پرورش پانا کوئی آسان بات نہیں۔ تاہم، اس میں اپنی حالت کی بابت شرمندہ، بےیارومددگار، یا ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ غربت اسلئے موجود ہے کہ ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اوپر بلا لاتا ہے۔“ (واعظ ۸:۹) شہادت ظاہر کرتی ہے کہ خدا جلد ہی زمینی امور کا انتظام سنبھال لیگا اور غربت اور اسکے تباہکن اثرات کو ختم کر دیگا۔ (زبور ۳۷:۹-۱۱) اسکا بیٹا، یسوع مسیح، کروڑوں انسانوں کو فردوسی زمین پر آباد کریگا، جیسا کہ اس نے اس حرماںنصیب ڈاکو سے وعدہ کیا جس نے کہ انکے سولی پر جان دیتے وقت اس پر اپنے ایمان کا مظاہرہ کیا۔ (لوقا ۲۳:۴۳) تاہم، اسی اثنا میں، غربت سے نپٹنے کیلئے آپ عملی طور پر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اگلے مضمون میں اس پر گفتگو کی جائیگی۔ (18 1/22 g92)
[بکس]
”میں نے خود کو غربت کے جال میں پھنسا ہوا پایا“
جارج ایک افریقی نوجوان تھا جو کہ اسکول میں رہ کر اپنی بنیادی تعلیم کو مکمل کرنے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ وہ یہ دلیل دیتا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ ایک اچھی تنخواہ والی ملازمت حاصل کر سکے گا جو کہ اسے اور اس کے خاندان کو غربت سے نکال دیگی۔ تاہم، حالات ایسے نہ رہے۔ اس کا خاندان شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گیا کہ اسکول میں صرف چھ سال گزارنے کے بعد ہی، جارج نے ضروری محسوس کیا کہ اسے سکول چھوڑ دینا چاہیے اور کوئی ملازمت تلاش کرنی چاہیے۔ بالآخر اسے ایک باٹلنگ پلانٹ پر کریٹنگ کی نوکری مل گئی، وہ ہر ہفتے صرف ۱۴ رینڈز (تقریباً ۱۲۵ روپے) کماتا تھا۔ اس کی پوری تنخواہ خاندان کی کفالت ہی میں خرچ ہو جاتی تھی۔
”اگرچہ میں نے خود کو غربت کے جال میں پھنسا ہوا محسوس کیا،“ جارج کہتا ہے، ”لیکن مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ زندگی بسر کرنے کیلئے کسی گروہ میں شامل ہو جانا یا چوری کرنا کسی طرح سے بھی میرے لئے مددگار ثابت نہ ہوگا۔ آجکل، میری عمر کے بہتیرے نوجوان جو ایسے کام کرتے تھے وہ۔ یا تو ناامیدی کا شکار ہو گئے تھے، اور شراب نوشی اور منشیات کے غلام ہو گئے تھے، یا پھر جیل میں ہیں۔ یہاں تک کہ بعض تو اپنی طرز زندگی کی وجہ سے جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔“
اسکے بعد جارج کی ملاقات یہوواہ کے گواہوں سے ہو گئی۔ جارج کہتا ہے ”سب سے پہلی چیز جو میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ مسیحی اجلاس پر ہر کوئی آ کر میرے پاس آتا تھا اور میرے ساتھ گفتگو کرتا تھا۔“ وہ مزید کہتا ہے: ”بالآخر مجھے اعتماد اور عزتنفس حاصل ہو گئی جسکی کہ پہلے مجھ میں کمی تھی۔“ جارج کو زبور ۷۲: ۱۲، ۱۳، جیسے بائبل کے حوالہجات سے بھی بڑی تسلی ملی، جو کہتا ہے: ”کیونکہ وہ [ مسیحائی بادشاہ] محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جسکا کوئی مددگار نہیں چھڑائیگا۔ وہ غریب اور محتاج کی جان کو بچائیگا۔“ بائبل کے وعدوں نے اسے ازسرنو زندگی سے دلچسپی اور امید سے بھر دیا۔
آج جارج کو دیکھتے ہوئے، آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ اپنی بیچارگی اور ناامیدی کے احساسات کو ایک مثبت سوچ دینے کیلئے اسے کسقدر جدوجہد کرنی پڑی۔ ایک خوشحال شادیشدہ آدمی کیطور پر، وہ اب سوویٹو، ساؤتھ افریقہ میں یہوواہ کے گواہوں کی ایک کلیسیا میں بطور صدارتی نگہبان خدمت کر رہا ہے۔
[Pictures]
اپنے وقت اور طاقت کو کسی سودمند کام کو کرنے میں استعمال کرنا خود کو ناامیدی کے احساسات کے تابع کر دینے سے کہیں بہتر ہے