تعصب کیسے جڑ پکڑتا ہے؟
”تمام انسان آزاد اور حقوقوعزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے۔ اس لئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائیچارے کا سلوک کرنا چاہئے۔“—انسانی حقوق کا عالمی منشور، دفعہ ۱۔
اِس عزم کے باوجود تعصب وبا کی طرح دُنیا میں پھیل رہا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہ بُرا ہے اور انسان کی سوچ بگڑ گئی ہے۔ (زبور ۵۱:۵) لیکن ہمت نہ ہاریں۔ یہ سچ ہے کہ ہم تو دُنیا سے تعصب کو مٹا نہیں سکتے۔ لیکن اگر ہم اپنے دل میں کسی قسم کا تعصب رکھتے ہیں تو ہم اِسے نکالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں اِس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہر انسان کے دل میں تعصب پیدا ہو سکتا ہے۔ کتاب تعصب کے اسباب (انگریزی میں دستیاب) میں لکھا ہے: ”تعصب پر تحقیق کرنے کے بعد سائنسدان اِن نتائج پر پہنچے ہیں: (۱) جو انسان سوچنے اور بولنے کے قابل ہے وہ تعصب برتنے کے قابل بھی ہے۔ (۲) تعصب کو دل سے نکالنے کے لئے سخت کوشش درکار ہے اور یہ پہچاننا ضروری ہے کہ ہم کن صورتحال میں تعصب برتتے ہیں۔ (۳) جو شخص تعصب پر غالب آنے کی دلی خواہش رکھتا ہے وہ کامیاب بھی ہو سکتا ہے۔“
کہا گیا ہے کہ تعلیم ہی تعصب کا مقابلہ کرنے کا ”سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔“ صحیح قسم کی تعلیم حاصل کرنے کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور ہم اِس بات کا اندازہ لگانے کے قابل ہوں گے کہ تعصب کیسے اور کیوں جڑ پکڑتا ہے، ہم تعصب کے سلسلے میں اپنے دل کو پرکھنے کے قابل ہوں گے اور جب ہمیں تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہم اِس سے بہتر طور پر نپٹ سکیں گے۔
تعصب کی جڑ
لوگ اکثر حقیقت جانے بغیر دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ تعصب کرنے والے لوگ اُس صورت میں بھی اپنی رائے پر قائم رہتے ہیں جب وہ جان جاتے ہیں کہ اُن کی رائے حقیقت کے مطابق نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اِس لئے تعصب کرتے ہیں کیونکہ اُن کے خاندان میں دوسروں کے بارے میں غلط نظریات پائے جاتے ہیں۔ تعصب کے بیج ایسے لوگوں کے ذریعے بھی بوئے جاتے ہیں جو کسی نسل یا تہذیب کے بارے میں اپنے غلط نظریات کو جانبوجھ کر فروغ دیتے ہیں۔ قومپرستی اور جھوٹے مذہبی عقیدوں کے ذریعے بھی تعصب کو ہوا دی جاتی ہے۔ اِس کے علاوہ لوگ غرور کی وجہ سے بھی تعصب برتتے ہیں۔ ذرا آگے دئے گئے نکتوں پر توجہ دیں اور غور کریں کہ خدا کے کلام میں اِن کے بارے میں کونسے اصول دئے گئے ہیں۔ ایسا کرتے وقت اپنا جائزہ لیں کہ آیا آپ کو اپنے نظریے اور رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔
لوگوں کا اثر۔ انسان فطری طور پر دوسروں کے ساتھ میلجول رکھنا پسند کرتے ہیں اور یہ اچھی بات ہے۔ پاک صحیفوں میں لکھا ہے کہ ”جو اپنے آپ کو سب سے الگ رکھتا ہے اپنی خواہش کا طالب ہے اور ہر معقول بات سے برہم ہوتا ہے“ یعنی دانشمندی کی راہ ترک کرتا ہے۔ (امثال ۱۸:۱) البتہ جن لوگوں کے ساتھ ہم میلجول رکھتے ہیں وہ ہم پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ اِس لئے ہمیں سوچسمجھ کر دوستوں کا انتخاب کرنا چاہئے۔ اسی طرح والدین کو اِس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ اُن کے بچے کس قسم کے دوست بناتے ہیں۔ جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ تین سال کے بچوں میں بھی نسلی تعصب پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ دوسروں کے رویے، چہروں کے تاثرات اور اُن کی باتچیت سے تعصب کرنا سیکھتے ہیں۔ بِلاشُبہ والدین اپنے بچوں کی سوچ اور قدروں کو ڈھالنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا والدین کو رواداری کے سلسلے میں اپنے بچوں کے لئے اچھی مثال قائم کرنی چاہئے۔
▪ اِس موضوع پر خدا کے کلام کے چند اصول: ”لڑکے کی اُس راہ میں تربیت کر جس پر اُسے جانا ہے۔ وہ بوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مڑے گا۔“ (امثال ۲۲:۶) ”دانشمندوں کے ساتھ چلنے والا دانشمند ہو جائے گا مگر جاہلوں کا ہمنشین شریر بنے گا۔“ (امثال ۱۳:۲۰، کیتھولک ترجمہ) اگر آپ کے بچے ہیں تو خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں اپنے بچوں کو اُس راہ پر چلنے کی تربیت کرتا ہوں جو خدا کی نظروں میں سیدھی ہے؟ کیا مَیں ایسے لوگوں کے ساتھ میلجول رکھتا ہوں جو مجھ پر اچھا اثر ڈالتے ہیں؟ کیا مَیں دوسروں پر اچھا اثر ڈالتا ہوں؟“—امثال ۲:۱-۹۔
قومپرستی کا اثر۔ ایک لغت کے مطابق قومپرستی کی تعریف یہ ہے: ”ایک قومی جذبہ جس کی بِنا پر لوگ اپنی قوم کو دوسری قوموں سے بہتر سمجھتے ہیں اور دوسری قوموں کی نسبت اپنی قوم کی ثقافت اور مفادات کو زیادہ فروغ دیتے ہیں۔“ ایک پروفیسر نے اپنی کتاب قوموں میں تعاون اور اختلافات (انگریزی میں دستیاب) میں بیان کِیا: ”قومپرستی کی وجہ سے لوگ ایسے گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے نظریات کو خاطر میں لانے سے انکار کرتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں لوگ خود کو پہلے تو امریکی، روسی، چینی یا مصری وغیرہ خیال کرتے ہیں اور بعد میں بنینوعانسان کا حصہ۔“ اقوامِمتحدہ کے ایک سابقہ سیکرٹری جنرل نے لکھا: ”آجکل ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے اِن میں سے زیادہتر غلط نظریات کا نتیجہ ہیں۔ اکثر ایسے نظریات سوچےسمجھے بغیر اپنائے جاتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال قومپرستی کا جذبہ ہے۔ اِس جذبے کی بِنا پر لوگ تب بھی اپنی قوم کی حمایت کرتے ہیں جب یہ غلطی پر ہے۔“
▪ اِس موضوع پر خدا کے کلام کے چند اصول: ”خدا نے دُنیا [یعنی بنینوعانسان] سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ (یوحنا ۳:۱۶) ”خدا کسی کا طرفدار نہیں۔ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔“ (اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵) خود سے پوچھیں: ”اگر خدا ہر قوم کے لوگوں سے محبت رکھتا ہے تو کیا مجھے اُس کی مثال پر عمل نہیں کرنا چاہئے؟ اگر مَیں خدا کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرتا ہوں تو کیا مجھے اُس جیسا نظریہ نہیں اپنانا چاہئے؟“
نسلپرستی کا اثر۔ ایک لغت کے مطابق نسلپرست لوگوں کا خیال ہے کہ ”ایک شخص کی خصوصیات اور لیاقتیں اُس کی نسل پر منحصر ہیں۔“ اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ ”اُن کی نسل دوسری نسلوں پر سبقت لے جاتی ہے۔“ البتہ تحقیقدانوں کو ”کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا ہے کہ ایک نسل کو دوسری نسلوں پر سبقت حاصل ہے۔“ (دی ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا) نسلپرستی بڑیبڑی ناانصافیوں کو جنم دیتی ہے، مثلاً اِس کی بِنا پر لوگوں کے بنیادی حقوق کو نظرانداز کِیا جاتا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسلپرستی کا جذبہ دراصل نقصاندہ ہے۔
▪ اِس موضوع پر خدا کے کلام کے چند اصول: ”سچائی تُم کو آزاد کرے گی۔“ (یوحنا ۸:۳۲) ”[خدا] نے آؔدم کو بنایا اور اُس ایک سے لوگوں کی ہر قوم کو پیدا کِیا۔“ (اعمال ۱۷:۲۶، نیو اُردو بائبل ورشن) ”خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا اِس لئے کہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [یہوواہ خدا] دل پر نظر کرتا ہے۔“ (۱-سموئیل ۱۶:۷) خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں تمام انسانوں کو ایسا ہی خیال کرتا ہوں جیسا کہ خدا اِنہیں خیال کرتا ہے؟ کیا مَیں کسی دوسری نسل یا قوم کے لوگوں سے اچھی طرح سے واقف ہونے کے لئے اُن کے ساتھ میلجول رکھتا ہوں؟“ دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھنے سے ہم اپنے دل میں تعصب کی دیوار کو گِرا سکتے ہیں۔
مذہب کا اثر۔ کتاب تعصب کیا ہے؟ (انگریزی میں دستیاب) میں لکھا ہے: ”جب نسلپرستی کو مذہبی عقیدوں کی بِنا پر واجب قرار دیا جاتا ہے تو اِس کے نتیجے میں لوگ بڑی ہولناک حرکتیں کرنے پر اُکسائے جاتے ہیں۔ اِس طرح تعصب دینداری کا روپ اختیار کرتا ہے۔“ اِسی کتاب کے مطابق یہ بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ ”دیندار لوگ کس آسانی سے تعصب کرنے پر اُتر آتے ہیں۔“ اور واقعی کئی چرچوں میں صرف ایک ہی نسل کے لوگوں کو ممبر کے طور پر قبول کِیا جاتا ہے اور دُنیابھر میں مذہب کے نام میں دہشتگردی، فرقہوارانہ کشیدگی اور تشدد ہو رہا ہے۔
▪ اِس موضوع پر خدا کے کلام کے چند اصول: ”جو حکمت آسمان سے آتی ہے، . . . صلحپسند، نرممزاج، . . . ہوتی ہے۔ اُس میں تعصب نہیں ہوتا۔“ (یعقوب ۳:۱۷، نیو اُردو بائبل ورشن) ”سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اور سچائی سے کریں گے۔“ (یوحنا ۴:۲۳) ”اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔“ (متی ۵:۴۴) خود سے پوچھیں: ”کیا میرا مذہب مجھے سب لوگوں سے محبت رکھنے کا درس دیتا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں سے بھی جو مجھے تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں؟ کیا میرے چرچ میں ہر قوم، رنگ، جنس اور طبقے کے لوگوں کو ممبر کے طور پر قبول کِیا جاتا ہے؟“
غرور کا نتیجہ۔ جو شخص مغرور ہے وہ آسانی سے تعصب کرنے کے پھندے میں پھنس سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مغرور شخص خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور ایسے لوگوں کو حقیر جانتا ہے جو زیادہ پڑھےلکھے نہیں ہیں یا غریب ہیں۔ غرور کی وجہ سے ایک شخص آسانی سے اُن لوگوں کی باتوں میں پڑ جاتا ہے جو اُس کی قوم یا نسل کو دوسری قوموں یا نسلوں سے افضل قرار دیتے ہیں۔ بہت سے چالاک سیاستدانوں نے اِس بات کا فائدہ اُٹھایا ہے۔ ایسے رہنماؤں نے لوگوں کو یہ درس دیا کہ اُن کی نسل یا قوم سب سے اعلیٰ ہے اور اِس طرح اُن کے دلوں میں غرور پیدا کِیا۔ اِن رہنماؤں کا مقصد یہ تھا کہ عوام اُن کی حمایت کرے اور دوسری قوموں کو حقیر جانے۔ نازی پارٹی کا رہنما ہٹلر ایسے رہنماؤں میں سے ایک تھا۔
▪ اِس موضوع پر خدا کے کلام کے چند اصول: ”ہر ایک سے جس کے دل میں غرور ہے [یہوواہ خدا] کو نفرت ہے۔“ (امثال ۱۶:۵) ’تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھو۔‘ (فلپیوں ۲:۳) خود سے پوچھیں: ”جب میری قوم یا نسل کی تعریف کی جاتی ہے تو کیا مَیں دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوں؟ جب کسی دوسری قوم کے لوگوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے تو کیا مَیں خوش ہوتا ہوں؟ کیا مَیں اُن لوگوں سے جلتا ہوں جو مجھ سے زیادہ ہنرمند ہیں یا پھر کیا مجھے اُن پر فخر ہے؟“
خدا کے کلام میں یہ آگاہی پائی جاتی ہے: ”اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔“ (امثال ۴:۲۳) اِس مضمون میں بتائے گئے نکات سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ آگاہی کس قدر واجب ہے۔ لہٰذا خبردار رہیں کہ آپ کے دل میں غلط نظریے جڑ نہ پکڑیں۔ اِس کی بجائے اپنے دل کو خدا کے کلام میں پائی جانے والی حکمت سے بھر دیں۔ اِس صورت میں ’تمیز اور فہم آپ کی حفاظت کریں گے تاکہ آپ شریر کی راہ سے بچے رہیں۔‘—امثال ۲:۱۰-۱۲۔
آپ اُس صورت میں کیا کر سکتے ہیں اگر آپ کو تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اگلے مضمون میں اِس موضوع پر غور کِیا جائے گا۔
[صفحہ ۶ پر عبارت]
دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ رفاقت رکھنے سے ہم اپنے دل میں تعصب کی دیوار کو گِرا سکتے ہیں