مزید معلومات
ہمیں ایک خارج شُدہ شخص سے کیسے پیش آنا چاہئے؟
بائبل میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مسیحی سنگین گُناہ کرتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جائے۔ جب ہمارے کسی رشتہدار یا قریبی دوست کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے تو ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے۔ البتہ اِس صورت میں ہم اپنے ردِعمل کے ذریعے یہوواہ خدا کے لئے اپنی محبت اور وفاداری ظاہر کر سکتے ہیں۔a آئیں اِس موضوع کے سلسلے میں چند سوالات پر غور کریں۔
ہمیں ایک ایسے شخص سے کیسے پیش آنا چاہئے جسے کلیسیا سے خارج کِیا گیا ہے؟ بائبل میں لکھا ہے: ”اگر کوئی بھائی کہلا کر حرامکار یا لالچی یا بُتپرست یا گالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو اُس سے صحبت نہ رکھو بلکہ ایسے کے ساتھ کھانا تک نہ کھانا۔“ (۱-کرنتھیوں ۵:۱۱) ایسا شخص جو ”مسیح کی تعلیم پر قائم نہیں رہتا“ اُس کے بارے میں یہ ہدایت دی گئی ہے: ”نہ اُسے گھر میں آنے دو اور نہ سلام کرو۔ کیونکہ جو کوئی ایسے شخص کو سلام کرتا ہے وہ اُس کے بُرے کاموں میں شریک ہوتا ہے۔“ (۲-یوحنا ۹-۱۱) ہم ایک ایسے شخص کو خدا کی خدمت کے کسی بھی پہلو میں شریک نہیں کریں گے اور نہ ہی اُس کے ساتھ رفاقت رکھیں گے۔ مینارِنگہبانی جون ۱۹۸۲ کے صفحہ ۱۵ پر یوں لکھا تھا: ”ایک معمولی ’ہیلو‘ پہلا قدم ہو سکتا ہے جو اس کے ساتھ باتچیت یا یہاں تک کہ دوستی کو بڑھاتا ہے۔ کیا ہم یہ پہلا قدم خارجشُدہ شخص کی طرف اُٹھانا چاہیں گے؟“
کیا ہمیں ایک ایسے شخص سے واقعی تمام تعلقات توڑ دینے چاہئیں؟ جیہاں۔ اِس کی چند وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ خدا اور اُس کے کلام کے لئے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں۔ ہم صرف اُس وقت یہوواہ خدا کے فرمانبردار نہیں رہتے جب ایسا کرنا ہمارے لئے آسان ہوتا ہے بلکہ اُس وقت بھی جب ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر ہم خدا سے محبت رکھتے ہیں تو ہم اُس کے تمام احکام پر عمل کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ محبت سے پیش آتا ہے اور اُس سے بےانصافی نہیں ہوتی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اُس کے احکام ہماری بھلائی کے لئے ہیں۔ (یسعیاہ ۴۸:۱۷؛ ۱-یوحنا ۵:۳) دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ہم ایک ایسے گنہگار مسیحی سے ناطہ توڑتے ہیں جو توبہ نہیں کرتا تو کلیسیا خدا کی نظروں میں پاک رہے گی اور بدنام ہونے سے بچی رہے گی۔ (۱-کرنتھیوں ۵:۶، ۷) تیسری وجہ یہ ہے کہ جب ہم بائبل کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے خارجشُدہ شخص سے کنارہ کرتے ہیں تو اُس کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ بزرگوں کی عدالتی کمیٹی ایک ایسے مسیحی کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتی ہے جس نے سنگین گُناہ کِیا ہے۔ لیکن جب وہ اِس کو قبول نہیں کرتا تو اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جب ہم بزرگوں کے فیصلے کے مطابق عمل کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ شخص ”ہوش میں آ کر“ دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بننے کے لئے اقدام اُٹھائے۔—لوقا ۱۵:۱۷۔
جب ہمارے کسی رشتہدار کو کلیسیا سے خارج کر دیا جائے تو اُس کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئے؟ ایسی صورت میں ہمارے رویے سے ظاہر ہوگا کہ ہم کس کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں: اپنے رشتہدار کو یاپھر خدا کو۔ ہمیں اپنے خارجشُدہ رشتہدار سے کیسے پیش آنا چاہئے؟ یہ بات صورتحال پر منحصر ہے۔ آئیں ہم دو مختلف صورتحال پر غور کریں۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کا خارجشُدہ رشتہدار آپ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہو۔ اگرچہ اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا گیا ہے لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ خاندانوالوں سے اُس کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ لہٰذا آپ اُسے روزمرہ کے کاموں میں شریک کر سکتے ہیں۔ البتہ اُس شخص نے اُس بندھن کو توڑا ہے جو خدا کی عبادت کرنے کی وجہ سے خاندان کو جوڑتا ہے۔ اِس لئے خدا کے وفادار خادم ایسے شخص کو خدا کی عبادت اور خدمت کے سلسلے میں کسی کام میں شریک نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر جب خاندان کے افراد خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں تو وہ اُسے اِس مطالعے میں شامل نہیں کریں گے۔ تاہم جب ایک بچے یا نوجوان کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے تو اِس صورت میں بھی اُس کے والدین اُس کی تربیت اور اصلاح کرنے کے ذمہدار ہیں۔ لہٰذا، وہ اپنے بچے کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔b —امثال ۶:۲۰-۲۲؛ ۲۹:۱۷۔
شاید آپ کا خارجشُدہ رشتہدار آپ کے ساتھ ایک ہی گھر میں نہیں رہتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کچھ خاندانی معاملوں کو نپٹانے کے لئے اُس سے کبھیکبھار بات کرنی پڑے۔ لیکن جہاں تک ممکن ہو خدا کے وفادار مسیحی کسی خارجشُدہ رشتہدار سے رابطہ نہیں رکھیں گے اور اُس سے میلجول رکھنے کے لئے بہانے نہیں ڈھونڈیں گے۔ اِس طرح ہم بائبل میں پائی جانے والی ہدایت پر عمل کر رہے ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم خدا اور اُس کی تنظیم کے وفادار رہتے ہیں تو شاید ہمارا خارجشُدہ رشتہدار تنبیہ کو قبول کرنے پر راضی ہو جائے۔c —عبرانیوں ۱۲:۱۱۔
a بائبل میں اِس موضوع پر جو اصول بتائے گئے ہیں وہ اُن لوگوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں جو یہوواہ کے گواہ ہوا کرتے تھے لیکن جنہوں نے خود کلیسیا سے تعلق توڑ دیا ہے۔
b کلیسیا سے خارج کئے گئے بچوں کے سلسلے میں مزید معلومات کے لئے مینارِنگہبانی اکتوبر ۱، ۲۰۰۱، صفحہ ۱۶، ۱۷ اور جون ۱، ۱۹۸۹، صفحہ ۲۲ کو دیکھیں۔
c کلیسیا سے خارج کئے گئے رشتہداروں کے سلسلے میں مزید معلومات کے لئے مینارِنگہبانی اکتوبر ۱، ۱۹۸۸، صفحہ ۲۲-۲۸ اور جون ۱، ۱۹۸۲، صفحہ ۱۸-۲۴ کو دیکھیں۔