باب 43
بادشاہت کے سلسلے میں مثالیں
متی 13:1-53 مرقس 4:1-34 لُوقا 8:4-18
یسوع مسیح نے بادشاہت کے سلسلے میں مثالیں دیں
جب یسوع مسیح نے فریسیوں کی ملامت کی تھی تو وہ کفرنحوم میں تھے۔ اُسی دن بعد میں یسوع گھر سے نکلے اور گلیل کی جھیل کے کنارے گئے۔ اُن کے گِرد بہت زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ اِس لیے یسوع مسیح ایک کشتی میں بیٹھ گئے اور تھوڑا دُور جا کر وہاں سے کنارے پر کھڑے لوگوں کو تعلیم دینے لگے۔ اُنہوں نے مثالیں دے کر آسمان کی بادشاہت کے بارے میں تعلیم دی۔ اِن مثالوں میں یسوع نے ایسی چیزوں اور کاموں کا ذکر کِیا جن سے لوگ اچھی طرح واقف تھے تاکہ لوگوں کے لیے بادشاہت کے سلسلے میں اہم سچائیوں کو سمجھنا قدراً آسان ہو جائے۔
سب سے پہلے یسوع مسیح نے ایک کسان کی مثال دی جو بیج بونے نکلا۔ کچھ بیج راستے پر گِرے اور پرندے آ کر اُن کو چگ گئے۔ کچھ بیج پتھریلی زمین پر گِرے جہاں مٹی زیادہ گہری نہیں تھی اِس لیے پودوں نے جڑ نہیں پکڑی اور وہ دھوپ کی شدت سے سُوکھ گئے۔ کچھ اَور بیج کانٹےدار جھاڑیوں میں گِرے اور جب پودے نکلے تو جھاڑیوں نے اِن کو دبا دیا۔ آخرکار کچھ بیج اچھی زمین پر گِرے جہاں وہ پھل لائے، ”کوئی 100 گُنا، کوئی 60 (ساٹھ) گُنا اور کوئی 30 (تیس) گُنا۔“—متی 13:8۔
ایک اَور مثال میں یسوع مسیح نے خدا کی بادشاہت کو ایک ایسے آدمی سے تشبیہ دی جو کھیت میں بیج بوتا ہے۔ دن گزرتے جاتے ہیں اور اِس دوران بیج سے پودا نکل آتا ہے۔ ”اُس آدمی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ یہ کیسے ہوا ہے۔“ (مرقس 4:27) بیج سے خودبخود پودے نکلتے ہیں اور پھل لاتے ہیں۔ پھر وہ آدمی فصل کاٹ سکتا ہے۔
پھر یسوع مسیح نے بیج بونے کے سلسلے میں تیسری مثال دی۔ ایک آدمی نے اپنے کھیت میں اچھے بیج بوئے۔ لیکن ”جب لوگ سو رہے تھے“ تو اُس آدمی کے دُشمن نے اُس گندم کے کھیت میں جنگلی پودوں کے بیج بو دیے۔ آدمی کے غلاموں نے اُس سے کہا: ”اگر آپ چاہیں تو ہم جا کر اِن پودوں کو نکال دیتے ہیں۔“ لیکن اُس نے جواب دیا کہ ”نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تُم زہریلے پودوں کے ساتھ گندم کے پودوں کو بھی اُکھاڑ دو۔ کٹائی تک دونوں کو اِکٹھا بڑھنے دو۔ کٹائی کے وقت مَیں فصل کاٹنے والوں سے کہوں گا کہ پہلے زہریلے پودوں کو جمع کر کے گٹھے بنا لیں تاکہ اُنہیں جلایا جائے اور پھر گندم کو گودام میں جمع کر دیں۔“—متی 13:24-30۔
جو لوگ یسوع مسیح کی باتیں سُن رہے تھے، اُن میں سے زیادہتر کھیتیباڑی سے واقف تھے۔ پھر یسوع مسیح نے رائی کے دانے کی مثال دی جو بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے لیکن یہ اِتنا بڑا درخت بن جاتا ہے کہ پرندے اِس کی شاخوں پر بسیرا کرنے لگتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”آسمان کی بادشاہت ایک ایسے رائی کے دانے کی طرح ہے جسے ایک آدمی نے کھیت میں بویا۔“ (متی 13:31) مگر یسوع نے رائی کے دانے کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے یہ مثال نہیں دی بلکہ وہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ایک چھوٹی سی چیز بڑھتے بڑھتے ایک بہت ہی بڑی چیز بن سکتی ہے۔
پھر یسوع مسیح نے ایک اَور جانی پہچانی چیز کی مثال دی۔ اُنہوں نے کہا: ”آسمان کی بادشاہت خمیر کی طرح ہے جسے ایک عورت نے تین پیمانے آٹے میں ملا دیا۔“ (متی 13:33) ہم آٹے میں ملے ہوئے خمیر کو نہیں دیکھ سکتے لیکن یہ پورے آٹے میں پھیل جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ خمیر کی وجہ سے آٹے میں آنے والی تبدیلیاں بھی فوراً دِکھائی نہیں دیتیں لیکن اِس کی وجہ سے آٹا پھول کر بہت بڑھ جاتا ہے۔
یہ مثالیں دینے کے بعد یسوع مسیح نے لوگوں کو وہاں سے بھیج دیا اور خود اُس گھر میں چلے گئے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اُن کے شاگرد بھی وہاں آ گئے کیونکہ وہ اُن مثالوں کا مطلب سمجھنا چاہتے تھے جو یسوع نے دی تھیں۔
یسوع مسیح کی مثالوں کا مطلب سمجھنے کی اہمیت
یوں تو یسوع مسیح پہلے بھی تعلیم دیتے وقت مثالیں اِستعمال کرتے تھے لیکن اِس مرتبہ اُنہوں نے بہت زیادہ مثالوں کا ذکر کِیا۔ اِس لیے شاگردوں نے اُن سے پوچھا: ”آپ اِن لوگوں سے بات کرتے وقت مثالیں کیوں اِستعمال کرتے ہیں؟“—متی 13:10۔
اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یسوع مسیح پاک کلام کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ متی کی اِنجیل میں لکھا ہے: ”[یسوع] لوگوں سے بات کرتے وقت ہمیشہ مثالیں اِستعمال کرتے تھے تاکہ یہ پیشگوئی پوری ہو کہ ”مَیں مثالوں کے ذریعے تعلیم دوں گا۔ مَیں اُن باتوں کا اِعلان کروں گا جو اُس وقت سے چھپی ہیں جب دُنیا کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔““—متی 13:34، 35؛ زبور 78:2۔
یسوع اِس لیے بھی مثالیں اِستعمال کرتے تھے تاکہ لوگوں کی سوچ ظاہر ہو جائے۔ بہت سے لوگ یسوع مسیح کے پاس بس کہانیاں سننے اور معجزے دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ مگر وہ یسوع کو اپنا مالک مان کر اُن کے حکموں پر عمل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ (لُوقا 6:46، 47) وہ یسوع مسیح کی باتوں کو سمجھنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ وہ اپنی سوچ اور اپنے طرزِزندگی میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں تھے۔
شاگردوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے یسوع نے کہا: ”اِس لیے مَیں لوگوں سے بات کرتے وقت مثالیں اِستعمال کرتا ہوں۔ یہ لوگ دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی نہیں سنتے اور نہ ہی اِس کا مطلب سمجھتے ہیں۔ اِن لوگوں کے سلسلے میں یسعیاہ نبی کی یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے کہ ” . . . اُن لوگوں کا دل سخت ہو گیا ہے۔““—متی 13:13-15؛ یسعیاہ 6:9، 10۔
لیکن یہ بات سب لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی تھی۔ یسوع مسیح نے کہا: ”آپ خوش ہیں کیونکہ آپ کی آنکھیں دیکھتی ہیں اور آپ کے کان سنتے ہیں۔ مَیں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبی اور نیک آدمی اُن باتوں کو دیکھنا چاہتے تھے جو آپ دیکھ رہے ہیں لیکن اُنہیں نہیں دیکھا۔ وہ اُن باتوں کو سننا چاہتے تھے جو آپ سُن رہے ہیں لیکن اُنہیں نہیں سنا۔“—متی 13:16، 17۔
واقعی 12 رسول اور دوسرے شاگرد دل سے یسوع مسیح کی باتوں کی قدر کرتے تھے۔ اِس لیے یسوع نے اُن سے کہا: ”آپ کو آسمان کی بادشاہت کے مُقدس رازوں کو سمجھنے کی صلاحیت دی گئی ہے لیکن اِن لوگوں کو یہ صلاحیت نہیں دی گئی۔“ (متی 13:11) چونکہ شاگردوں کو یسوع کی تعلیمات سمجھنے کا شوق تھا اِس لیے یسوع نے اُن کو بیج بونے والے کسان کی مثال کا مطلب سمجھایا۔
یسوع مسیح نے کہا: ”بیج خدا کا کلام ہے۔“ (لُوقا 8:11) اور زمین لوگوں کے دلوں کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ یہ معلومات اِس مثال کو سمجھنے کے لیے اہم تھی۔
جو بیج راستے پر گِرے، اُن کے بارے میں یسوع مسیح نے یہ وضاحت دی: ”اِبلیس آ کر اُن کے دل سے کلام کو لے جاتا ہے تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور نجات نہ پائیں۔“ (لُوقا 8:12) پتھریلی زمین پر گِرنے والے بیجوں کا ذکر کرنے سے یسوع مسیح نے اُس شخص کی صورتحال بیان کی جو کلام کو سُن کر اِسے خوشی خوشی قبول کرتا ہے لیکن یہ اُس کے دل میں جڑ نہیں پکڑتا۔ ”جب کلام کی وجہ سے اُس پر مصیبت یا اذیت آتی ہے تو وہ اِسے فوراً ترک کر دیتا ہے۔“ افسوس کی بات ہے کہ ”آزمائش کے دَور میں،“ مثلاً جب اُس کے گھر والے یا دوسرے لوگ اُس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں تو وہ ایمان سے مُنہ پھیر لیتا ہے۔—متی 13:21؛ لُوقا 8:13۔
کچھ بیج کانٹےدار جھاڑیوں میں گِرے۔ یسوع نے کہا کہ یہ اُس شخص کی صورتحال ہے جو کلام کو سنتا اور قبول تو کرتا ہے لیکن ”اِس دُنیا کی فکریں اور دولت کی دھوکاباز کشش کلام کو دبا دیتی ہے اور اِس لیے وہ پھل نہیں لاتا۔“—متی 13:22۔
آخر میں یسوع مسیح نے اچھی زمین کا ذکر کِیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے کلام کو سنتے، اِس کا مطلب سمجھتے اور دل سے اِسے قبول کر لیتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں وہ ”پھل لاتے ہیں۔“ مگر عمر، صحت اور دوسری صورتحال کی وجہ سے ہر کوئی ایک جتنا پھل نہیں لا سکتا۔ لہٰذا کوئی 30 گُنا، کوئی 60 گُنا اور کوئی 100 گُنا پھل لاتا ہے۔ واقعی خدا کی خدمت کرنے سے اُن لوگوں کو بہت سی برکتیں ملتی ہیں جو ”کلام کو سنتے ہیں اور . . . اپنا لیتے ہیں اور ثابتقدمی کے ساتھ پھل لاتے ہیں۔“—لُوقا 8:15۔
یہ سُن کر شاگردوں کو بڑی خوشی ہوئی ہوگی کیونکہ اُنہوں نے جا کر یسوع مسیح سے اِن مثالوں کا مطلب پوچھا تھا۔ اب وہ اِن مثالوں کو گہرائی سے سمجھ گئے تھے۔ یسوع چاہتے تھے کہ شاگرد دوسرے لوگوں کو بھی اُن سچائیوں کے بارے میں بتائیں جو اُنہوں نے سیکھی تھیں۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا: ”بھلا چراغ کو جلا کر اُسے ٹوکری یا پلنگ کے نیچے رکھتے ہیں؟ کیا اُسے چراغدان پر نہیں رکھتے؟“ پھر اُنہوں نے نصیحت کی: ”جس کے کان ہیں، وہ سنے۔“—مرقس 4:21-23۔
شاگردوں کے لیے مزید مثالیں
بیج بونے والے کسان کی مثال کی وضاحت سننے کے بعد شاگرد باقی مثالوں کا مطلب سمجھنا چاہتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے یسوع مسیح سے کہا: ”ہمیں زہریلے پودوں والی مثال کا مطلب سمجھائیں۔“—متی 13:36۔
شاگردوں کے سوال سے ظاہر ہوا کہ اُن کی سوچ اُن لوگوں کی سوچ سے کتنی فرق تھی جنہوں نے جھیل کے کنارے یسوع مسیح کی باتیں سنی تھیں۔ اِن لوگوں کو یسوع کی تعلیمات کو سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو بس اچھی اچھی مثالیں سُن کر ہی مطمئن ہو جاتے تھے۔ یسوع نے اِن لوگوں کا موازنہ اپنے شاگردوں سے کِیا جو اُن کی مثالوں کا مطلب پوچھنے کے لیے اُن کے پاس آئے تھے۔
اُنہوں نے کہا: ”جو باتیں آپ سُن رہے ہیں، اُن پر توجہ دیں۔ جس پیمانے سے آپ ناپتے ہیں، اُس سے آپ کے لیے ناپا جائے گا بلکہ آپ کو اَور بھی زیادہ دیا جائے گا۔“ (مرقس 4:24) شاگرد اُن باتوں پر دھیان دے رہے تھے جو وہ یسوع سے سیکھ رہے تھے۔ وہ جس پیمانے پر یسوع مسیح کو توجہ دے رہے تھے، اِسی پیمانے پر اُنہیں اَور تعلیم دی جا رہی تھی اور اُن کی سمجھ بڑھ رہی تھی۔ اِس لیے یسوع نے اُن کو گندم اور زہریلے پودوں کی مثال کا مطلب بھی سمجھایا۔
اُنہوں نے کہا: ”اچھا بیج بونے والا آدمی، اِنسان کا بیٹا ہے؛ کھیت دُنیا ہے؛ اچھے بیج بادشاہت کے بیٹے ہیں لیکن زہریلے پودے شیطان کے بیٹے ہیں؛ زہریلے پودے بونے والا دُشمن، اِبلیس ہے؛ کٹائی دُنیا کا آخری زمانہ ہے اور کاٹنے والے، فرشتے ہیں۔“—متی 13:37-39۔
یہ معلومات دینے کے بعد یسوع مسیح نے بتایا کہ دُنیا کے آخری زمانے میں کیا ہوگا۔ اُس وقت کاٹنے والے یعنی فرشتے، زہریلے پودوں یعنی جھوٹے مسیحیوں کو ’بادشاہت کے بیٹوں‘ سے الگ کریں گے۔ اِن ’نیک لوگوں‘ کو جمع کِیا جائے گا اور وہ ”اپنے آسمانی باپ کی بادشاہت میں سورج کی طرح چمکیں گے۔“ مگر ’شیطان کے بیٹوں‘ کے ساتھ کیا ہوگا؟ اُنہیں تباہ کِیا جائے گا اِس لیے وہ ”روئیں گے اور دانت پیسیں گے۔“—متی 13:41-43۔
اِس کے بعد یسوع مسیح نے شاگردوں کو تین اَور مثالیں دیں۔ پہلی مثال یہ تھی: ”آسمان کی بادشاہت ایک خزانے کی طرح ہے جو کھیت میں چھپا ہوا تھا۔ یہ خزانہ ایک آدمی کو ملا اور اُس نے اِسے دوبارہ چھپا دیا۔ وہ اِس خزانے سے اِتنا خوش ہوا کہ اُس نے جا کر اپنا سب کچھ بیچ دیا اور اُس کھیت کو خرید لیا۔“—متی 13:44۔
دوسری مثال یہ تھی: ”آسمان کی بادشاہت ایک تاجر کی طرح بھی ہے جو عمدہ موتیوں کی تلاش میں تھا۔ جب اُسے ایک بہت ہی قیمتی موتی مل گیا تو اُس نے جا کر فوراً اپنا سب کچھ بیچ دیا اور اِس موتی کو خرید لیا۔“—متی 13:45، 46۔
یسوع مسیح کی یہ دو مثالیں ایسے آدمیوں کے بارے میں تھیں جنہوں نے ایک قیمتی چیز کی اِتنی قدر کی کہ وہ اِسے حاصل کرنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار تھے۔ تاجر نے ”فوراً اپنا سب کچھ بیچ دیا“ تاکہ وہ ایک نہایت قیمتی موتی کو خرید سکے۔ یسوع مسیح کے شاگردوں کے لیے اِس مثال کو سمجھنا مشکل نہیں تھا۔ جس آدمی کو کھیت میں خزانہ ملا، اُس نے بھی ”اپنا سب کچھ بیچ دیا“ تاکہ وہ اِسے حاصل کر سکے۔ دونوں مثالوں میں ایک قیمتی چیز کی قدر کی گئی اور اِسے حاصل کِیا گیا۔ یہ مثالیں اُن لوگوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں جو خدا کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دینے کو تیار ہیں۔ (متی 5:3) جن لوگوں کو یسوع نے یہ مثالیں دیں، اُن میں سے کچھ خدا کی قربت حاصل کرنے اور مسیح کی پیروی کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دے چُکے تھے۔—متی 4:19، 20؛ 19:27۔
آخری مثال میں یسوع مسیح نے آسمان کی بادشاہت کو ایک جال سے تشبیہ دی جس میں ہر طرح کی مچھلیاں پھنس گئیں۔ (متی 13:47) بعد میں اچھی مچھلیوں کو برتنوں میں جمع کِیا گیا جبکہ خراب مچھلیوں کو پھینک دیا گیا۔ پھر یسوع مسیح نے کہا کہ دُنیا کے آخری زمانے میں بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ فرشتے بُرے لوگوں کو نیک لوگوں سے الگ کریں گے۔
جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے مجازی معنوں میں مچھیرے کا کام کِیا اور اپنے شاگردوں سے بھی کہا کہ ”مَیں آپ کو ایک اَور طرح کا مچھیرا بناؤں گا۔“ (مرقس 1:17) لیکن مچھیروں کے جال والی مثال میں وہ اپنے زمانے کی نہیں بلکہ ”دُنیا کے آخری زمانے“ کی بات کر رہے تھے۔ (متی 13:49) اِس مثال سے شاگردوں کو احساس ہوا کہ مستقبل میں بہت اہم کام انجام دیا جائے گا۔
جن لوگوں نے جھیل کے کنارے پر یسوع مسیح کی مثالیں سنی تھیں، اگر وہ چاہتے تو وہ بھی مزید تعلیم حاصل کر سکتے تھے کیونکہ یسوع ”اکیلے میں اپنے شاگردوں کو سب باتوں کا مطلب سمجھاتے تھے۔“ (مرقس 4:34) یسوع اُس گھر کے مالک کی طرح تھے ”جو اپنے خزانے سے نئی اور پُرانی چیزیں نکالتا ہے۔“ (متی 13:52) اُنہوں نے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے مثالیں دے کر تعلیم نہیں دی بلکہ اُنہوں نے اِن مثالوں کے ذریعے اپنے شاگردوں کو ایسی سچائیاں سکھائیں جو ایک انمول خزانے کی طرح تھیں۔ واقعی اُن جیسا ”اُستاد“ کوئی نہیں تھا!۔