باب 125
کائفا کے گھر میں غیرقانونی مُقدمہ
متی 26:57-68 مرقس 14:53-65 لُوقا 22:54، 63-65 یوحنا 18:13، 14، 19-24
یسوع مسیح کو سابقہ کاہنِاعظم حنّا کے پاس لایا گیا
عدالتِعظمیٰ کی طرف سے غیرقانونی مُقدمہ
فوجیوں نے یسوع مسیح کو ایک مُجرم کی طرح باندھا اور پھر اُنہیں حنّا کے گھر لے گئے۔ حنّا اُس وقت کاہنِاعظم کے عہدے پر فائز تھا جب 12 سالہ یسوع نے ہیکل میں مذہبی رہنماؤں کو اپنے جوابوں سے دنگ کر دیا تھا۔ (لُوقا 2:42، 47) حنّا کے کچھ بیٹے کاہنِاعظم کے عہدے پر فائز رہ چُکے تھے اور اب اُس کا داماد کائفا کاہنِاعظم تھا۔
جس دوران یسوع مسیح حنّا کے گھر میں تھے، کائفا نے یہودیوں کی عدالتِعظمیٰ کے اراکین کو جمع کِیا۔ اِس عدالت کے 71 رُکنوں میں موجودہ کاہنِاعظم کے علاوہ ایسے لوگ بھی شامل تھے جو پہلے کاہنِاعظم رہ چُکے تھے۔
حنّا نے یسوع سے ”اُن کے شاگردوں اور تعلیمات کے بارے میں پوچھگچھ“ کی۔ مگر یسوع نے اُس سے بس یہ کہا: ”مَیں نے دُنیا سے کُھلے عام بات کی۔ مَیں نے ہمیشہ عبادتگاہوں اور ہیکل میں تعلیم دی جہاں یہودی جمع ہوتے ہیں۔ مَیں نے پوشیدگی میں کچھ نہیں کہا۔ آپ مجھ سے کیوں سوال کر رہے ہیں؟ اُن سے سوال کریں جنہوں نے میری باتیں سنی ہیں۔“—یوحنا 18:19-21۔
اِس پر پاس کھڑے ایک افسر نے یسوع مسیح کے مُنہ پر تھپڑ مارا اور کہا: ”کیا اعلیٰ کاہن سے اِس طرح بات کرتے ہیں؟“ لیکن یسوع جانتے تھے کہ اُنہوں نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی۔ اِس لیے اُنہوں نے اُسے جواب دیا: ”اگر مَیں نے کچھ غلط کہا ہے تو بتائیں کہ غلط کیا تھا لیکن اگر میری بات صحیح ہے تو آپ نے مجھے کیوں مارا ہے؟“ (یوحنا 18:22، 23) اِس کے بعد حنّا نے یسوع مسیح کو اپنے داماد کائفا کے گھر بھجوا دیا۔
تب تک وہاں عدالتِعظمیٰ کے تمام اراکین جمع ہو چُکے تھے جن میں موجودہ کاہنِاعظم کائفا، بزرگ اور شریعت کے عالم شامل تھے۔ حالانکہ عیدِفسح کی رات کسی پر مُقدمہ چلانا غیرقانونی تھا لیکن اُن لوگوں کو اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ تو بس یسوع مسیح کو کسی بھی صورت میں اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔
عدالتِعظمیٰ کے زیادہتر رُکن یسوع مسیح کے خلاف تھے۔ جب یسوع نے لعزر کو زندہ کِیا تھا تو عدالتِعظمیٰ نے اُنہیں مار ڈالنے کا فیصلہ کِیا۔ (یوحنا 11:47-53) اور کچھ ہی دن پہلے مذہبی پیشواؤں نے یسوع کو مار ڈالنے کی سازش کی تھی۔ (متی 26:3، 4) لہٰذا اِس سے پہلے کہ اُن لوگوں نے یسوع مسیح پر مُقدمہ چلایا، وہ اُن کو سزائےموت دِلوانے کا فیصلہ کر چُکے تھے۔
اِس غیرقانونی مُقدمے کے دوران اعلیٰ کاہن اور عدالتِعظمیٰ کے باقی رُکن یسوع کے خلاف جھوٹی گواہی ڈھونڈنے لگے تاکہ اُنہیں سزائےموت دی جا سکے۔ حالانکہ بہت سے لوگ یسوع کے خلاف گواہی دے رہے تھے لیکن اُن کی گواہیاں ایک دوسرے سے میل نہیں کھا رہی تھیں۔ آخر میں دو لوگ سامنے آئے جنہوں نے کہا: ”ہم نے اِسے کہتے سنا ہے کہ ”مَیں اِس ہیکل کو گِرا دوں گا جو ہاتھوں سے بنی ہے اور تین دن میں ایک اَور ہیکل بناؤں گا جو ہاتھوں سے نہیں بنی ہوگی۔““ (مرقس 14:58) لیکن اِن دو آدمیوں کی گواہی بھی میل نہیں کھا رہی تھی۔
پھر کائفا نے یسوع مسیح سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس کوئی جواب نہیں ہے؟ سُن رہے ہو کہ یہ تمہارے خلاف کیا گواہیاں دے رہے ہیں؟“ (مرقس 14:60) لیکن یسوع چپ رہے کیونکہ یہ بالکل واضح تھا کہ لوگوں کی گواہیاں جھوٹی تھیں۔ یہ دیکھ کر کاہنِاعظم کائفا نے یسوع کے خلاف ایک اَور حربہ آزمایا۔
کائفا جانتا تھا کہ یہودیوں سے یہ بات بالکل برداشت نہیں ہوتی تھی کہ کوئی شخص خود کو خدا کا بیٹا کہے۔ ایک موقعے پر جب یسوع مسیح نے خدا کو اپنا باپ کہا تو یہودیوں نے اُنہیں مار ڈالنے کی کوشش کی کیونکہ اُن کے خیال میں یسوع ”اپنے آپ کو [خدا] کے برابر ٹھہرا رہے تھے۔“ (یوحنا 5:17، 18؛ 10:31-39) لہٰذا کائفا نے بڑی چالاکی سے یسوع سے پوچھا: ”مَیں تمہیں زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں، بتاؤ کہ تُم خدا کے بیٹے یعنی مسیح ہو یا نہیں۔“ (متی 26:63) ویسے تو یسوع مسیح کئی موقعوں پر اِقرار کر چُکے تھے کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔ (یوحنا 3:18؛ 5:25؛ 11:4) لیکن اگر وہ اِس بار خاموش رہتے تو یہ خدا کے بیٹے اور مسیح ہونے سے اِنکار کرنے کے برابر ہوتا۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا: ”ہاں، مَیں ہوں اور آپ لوگ اِنسان کے بیٹے کو قدرت والے کے دائیں طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں میں آتے دیکھیں گے۔“—مرقس 14:62۔
یہ سنتے ہی کائفا نے بڑے ڈرامائی انداز میں اپنا چوغہ پھاڑ دیا اور کہا: ”اِس آدمی نے کفر بکا ہے! اب ہمیں گواہوں کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے خود سنا ہے کہ اِس نے کفر بکا ہے۔ اب آپ کا کیا خیال ہے؟“ عدالتِعظمیٰ نے یہ فیصلہ سنایا: ”یہ شخص سزائےموت کے لائق ہے۔“—متی 26:65، 66۔
پھر عدالتِعظمیٰ کے رُکن یسوع کو طعنے دینے لگے اور اُنہیں مکے مارنے لگے۔ کچھ لوگ تو یسوع کے مُنہ پر تھپڑ مارنے لگے اور اُن کے چہرے پر تھوکنے لگے۔ اُنہوں نے یسوع کا چہرہ ڈھانکا، اُنہیں تھپڑ مارا اور پھر طنزاً اُن سے کہا: ”اگر تُو واقعی نبی ہے تو بتا کہ تجھے کس نے مارا ہے۔“ (لُوقا 22:64) ذرا سوچیں، یہ لوگ خدا کے بیٹے پر نہ صرف غیرقانونی مُقدمہ چلا رہے تھے بلکہ اُس کے ساتھ اِتنا بُرا سلوک بھی کر رہے تھے۔