”ہر طرح کی نیکی“ کو پیدا کرنا
”نور کا پھل ہر طرح کی نیکی ہے۔“—افسیوں ۵:۹۔
۱، ۲. کونسے دو گروپ قدیم وقتوں سے موجود رہے ہیں اور آجکل انکی حالتیں کیسے مختلف ہیں؟
کوئی چھ ہزار برس ہوئے کہ عدن میں بغاوت کے بعد، اور پھر نوح کے زمانہ کے سیلاب کے بعد، بنیآدم دو گروپوں یا تنظیموں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے یہوواہ کی خدمت کرنے کی سخت کوشش کی ہے، اور دوسرا ان لوگوں کا جو شیطان کے پیچھے ہو لیے۔ کیا یہ تنظیمیں ابھی تک موجود ہیں؟ یقیناً وہ ہیں! یسعیاہ نبی نے ان دو گروپوں کا ذکر کیا اور ہمارے زمانہ میں انکی صورتحال پیشتر ہی سے بتا دی: ”دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائے گی اور تیرگی امتوں پر لیکن [یہوواہ] تجھ پر طالع ہو گا اور اس کا جلال تجھ پر نمایاں ہو گا۔“ یسعیاہ ۶۰:۱، ۲۔
۲ جی ہاں، ان دو تنظیموں میں فرق اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ تاریکی اور نور میں۔ اور جیسے نور کی شعاع تاریکی میں کھوئے ہوئے آدمی کو اپنی طرف کھینچے گی، ویسے ہی اس تاریک دنیا میں یہوواہ کی طرف سے چمکتے ہوئے نور نے لاکھوں راستدل لوگوں کو خدا کی تنظیم کی طرف کھینچ لیا ہے۔ جیسے کہ یسعیاہ نے مزید بیان کیا: ”قومیں [دوسری بھیڑیں] تیری روشنی کی طرف آئیں گی اور بادشاہ [بادشاہت کے ممسوح وارث] تیرے طلوع کی تجلی میں چلیں گے۔“ یسعیاہ ۶۰:۳۔
۳. کن طریقوں سے مسیحی یہوواہ کا جلال ظاہر کرتے ہیں؟
۳ یہوواہ کے لوگ یہوواہ کے جلال کو کیسے ظاہر کرتے ہیں؟ ایک چیز تو یہ ہے کہ وہ خدا کی قائمشدہ آسمانی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرتے ہیں۔ (مرقس ۱۳:۱۰) لیکن اس سے بھی بڑھ کر، یہ کہ وہ یہوواہ کی نقل کرتے ہیں، جو نیکی کا اولین نمونہ ہے، اور یوں اپنے چالچلن سے حلیموں کو روشنی کی طرف کھینچتے ہیں۔ (افسیوں ۵:۱) پولس نے کہا تھا: ”تم پہلے تاریکی تھے مگر اب خداوند میں نور ہو۔ پس نور کے فرزندوں کی طرح چلو۔“ اس نے مزید بیان کیا: ”نور کا پھل ہر طرح کی نیکی اور راستبازی اور سچائی ہے۔ اور تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے اور تاریکی کے بے پھل کاموں میں شریک نہ ہو۔“ (افسیوں ۵:۸-۱۱) پولس کا ”ہر طرح کی نیکی“ سے کیا مطلب تھا؟
۴. نیکی کیا ہے اور یہ ایک مسیحی میں کیسے دکھائی دیتی ہے؟
۴ جیسا کہ ہمارے پچھلے مضمون نے ظاہر کیا، نیکی اخلاقی فضیلت، حسنسیرت، کی صفت یا حالت ہے۔ یسوع نے کہا تھا کہ قطعی معنی میں صرف یہوواہ ہی نیک ہے۔ (مرقس ۱۰:۱۸) تاہم، ایک مسیحی نیکی کو روح کے پھل کے طور پر پیدا کرنے سے یہوواہ کی نقل کر سکتا ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۲) ”نیک،“ کے لیے یونانی لفظ اگاتھوس، پر رائے زنی کرتے ہوئے وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز بیان کرتی ہے، ”[یہ] اس چیز کی وضاحت کرتی ہے، جو اپنی سیرت یا ساخت میں نیک ہونے سے، اپنی تاثیر میں فائدہمند ہے۔“ لہذا، نیکی کو پیدا کرنے والا ایک مسیحی نیک بھی بنے گا اور نیکی بھی کرے گا۔ (مقابلہ کریں استثنا ۱۲:۲۸۔) وہ ان چیزوں سے بھی بچے گا جو نیکی کی مخالف ہیں، یعنی ”تاریکی کے بے پھل کام۔“ مختلف طریقے جن سے ایک مسیحی اپنے چالچلن سے نیکی ظاہر کر سکتا ہے وہی ”ہر طرح کی نیکی“ ہیں جن کا ذکر پولس نے کیا۔ ان میں سے چند ایک کیا ہیں؟
”نیکی کرتے رہو“
۵. ایک طرح کی نیکی کیا ہے، اور ایک مسیحی کو یہ کیوں پیدا کرنی چاہیے؟
۵ پولس نے ان میں سے ایک کا حوالہ رومیوں کے نام اپنے خط میں دیا۔ ”اعلیٰ حکومتوں“ کی تابعداری کے متعلق بیان کرتے ہوئے اس نے کہا: ”پس، کیا تو، حاکم سے نڈر رہنا چاہتا ہے؟ تو نیکی کرتا رہ، اور اس کی طرف سے تیری تعریف ہو گی۔“ ”نیکی“ جس کا وہ حوالہ دیتا ہے دنیاوی حکومتوں کے آئینوقوانین اور انتظامات کی تابعداری ہے۔ ایک مسیحی کو کیوں ان کے تابع رہنا چاہیے؟ تاکہ حکومتوں کے ساتھ غیرضروری ٹکراؤ سے گریز کیا جائے، اور یوں سزا کا خطرہ مول لینے سے بچا جائے اور اس سے بھی اہم یہ کہ خدا کے حضور صاف ضمیر کو محفوظ رکھا جائے۔ (رومیوں ۱۳:۱-۷، NW) یہوواہ کے لیے اپنی اولین تابعداری کو محفوظ رکھتے ہوئے، ایک مسیحی ”بادشاہ کی عزت کرتا ہے،“ اور ان حکومتوں کی مخالفت نہیں کرتا جن کو یہوواہ خدا نے رہنے دیا ہے۔ (۱-پطرس ۲:۱۳-۱۷) اس طرح سے مسیحی اچھے پڑوسی، اچھے شہری، اور اچھے نمونے ہیں۔
دوسروں کا لحاظ رکھنے والا
۶. (ا)نیکی کا ایک اور پہلو کیا ہے؟ (ب) بائبل میں کن کا ذکر کیا گیا ہے جو ہمارے پاسولحاظ کے مستحق ہیں؟
۶ یہوواہ کی نیکی اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے زمین کے تمام باشندوں کے لیے ”آسمان سے پانی برسایا اور بڑی بڑی پیداوار کے موسم عطا کیے۔“ اور یہ ”دلوں کو خوراک اور خوشی سے بھر دینے کا“ باعث ہوتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ وہ واقعی دوسروں کا لحاظ رکھنے والا خدا ہے۔ (اعمال ۱۴:۱۷) چھوٹے اور بڑے معاملات میں دوسروں کا پاسولحاظ رکھنے سے ہم اس سلسلے میں یہوواہ کی نقل کر سکتے ہیں۔ خصوصی طور پر، کن کے لیے؟ پولس خاص طور پر بزرگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، ”جو تم میں محنت کرتے ہیں اور خداوند میں تمہارے پیشوا ہیں اور تم کو نصیحت کرتے ہیں۔“ وہ مسیحیوں کو تاکید کرتا ہے کہ ان کے ”کام کے سبب سے محبت کے ساتھ ان کی بڑی عزت کرو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۲، ۱۳) ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے سے مثال کے طور پر، کنگڈم ہال میں ضروری کام میں ہاتھ بٹانے سے۔ جس اثنا کہ ہم ضرورت پڑنے پر مدد کے لیے بزرگوں کے پاس ہمیشہ بلاروک ٹوک رسائی کر سکتے ہیں، ہمیں نامعقول طور پر تقاضا کرنے والا نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ، جس طرح سے بھی ممکن ہو ہمیں ان محنتی پیشواؤں کے بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ ان میں سے بہتیرے اپنے کلیسیائی فرائض کے علاوہ خاندانی ذمہداریاں بھی رکھتے ہیں۔
۷. کن طریقوں سے ہم عمررسیدہ لوگوں کے لیے پاسولحاظ دکھا سکتے ہیں؟
۷ جسمانی لحاظ سے عمررسیدہ بھی ہماری طرف سے توجہ کے مستحق ہیں۔ موسوی شریعت کا ایک خاص حکم یہ تھا: ”جن کے سر کے بال سفید ہیں تو ان کے سامنے اٹھ کھڑے ہونا، اور بڑے بوڑھے کا ادب کرنا، اور اپنے خدا سے ڈرنا۔ میں [یہوواہ] ہوں۔“ (احبار ۱۹:۳۲) یہ لحاظ کیسے دکھایا جا سکتا ہے؟ کم عمر والے اگر چاہیں تو ان کے لیے بازار سے سوداسلف خرید کر لا سکتے یا دیگر گھریلو کاموں کے لیے اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ بزرگ لحاظ رکھنے سے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آیا عمررسیدہ لوگوں میں سے کسی کو اجلاسوں پر حاضر ہونے کے لیے مدد کی ضرورت تو نہیں۔ کنونشنوں پر، نوجوان اور پرجوش افراد آہستہ چلنے والے عمررسیدہ لوگوں کے پاس سے جلدی میں گذرتے وقت انہیں دھکا دینے یا کہنی مارنے سے گریز کریں گے، اور اگر کوئی عمررسیدہ سیٹ پر بیٹھنے یا کھانا حاصل کرنے میں دیر لگاتا ہے تو وہ صبر کا مظاہرہ کریں گے۔
۸. بائبل میں چن کر علیحدہکردہ ایک اور مستحق گروپ کے لیے ہم کیسے پاسولحاظ دکھا سکتے ہیں؟
۸ زبورنویس ایک اور گروپ کا ذکر کرتا ہے جس کا لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے: ”مبارک ہے وہ جو غریب کا خیال رکھتا ہے۔“ (زبور ۴۱:۱) ہو سکتا ہے کہ کسی دولتمند یا شہرت والے کا لحاظ رکھنا آسان لگے، مگر ادنیٰ یا غریب کی بابت کیا ہے؟ بائبلنویس یعقوب نے ظاہر کیا کہ ان کے لیے مساوی لحاظ کا اظہار ہماری راستبازی اور مسیحی محبت کا امتحان ہے۔ دعا ہے کہ ہم دوسروں کے حالات سے قطعنظر سب کے لیے فکرمندی ظاہر کرنے کے اس امتحان میں کامیاب نکلیں ۔فلپیوں ۲:۳، ۴، یعقوب ۲:۲-۴، ۸، ۹۔
”رحمدل بننا جاری رکھو“
۹، ۱۰. مسیحیوں کو رحمدل کیوں ہونا چاہیے، اور اس طرح کی نیکی کس طرح ظاہر کی جا سکتی ہے؟
۹ ایک اور طرح کی نیکی کا اظہار یسوع کی بعض تمثیلوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک میں، یسوع نے ایک سامری کی بابت بتایا جسے ایک ایسا آدمی ملا جس کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا، بری طرح سے مارا، اور سڑک پر ادھمؤا چھوڑ دیا گیا۔ ایک لاوی اور کاہن اس زخمی آدمی کے پاس سے گزر گئے، اور اس کی کوئی مدد نہ کی۔ لیکن سامری کھڑا ہو گیا اور اسکی امدادواعانت کی، اور یہ سب کچھ اس سے بڑھ کر تھا جس کی اس سے توقع کی جا سکتی تھی۔ یہ کہانی اکثر نیک سامری کی تمثیل کہلاتی ہے۔ سامری نے کس طرح کی نیکی ظاہر کی تھی؟ رحم۔ جب یسوع نے اپنے سامعین سے یہ کہا کہ وہ بتائیں کہ اس آدمی کا پڑوسی کون ثابت ہوا، تو درست طور پر یہ جواب ملا: ”وہ جو اس کے ساتھ رحمدلی سے پیش آیا۔“ لوقا ۱۰:۳۷، NW۔
۱۰ رحمدل مسیحی یہوواہ کی نقل کرتے ہیں جس کی بابت موسیٰ نے اسرائیلیوں سے کہا تھا: ”[یہوواہ] تیرا خدا رحیم خدا ہے۔ وہ تجھ کو نہ تو چھوڑے گا اور نہ ہلاک کرے گا اور نہ اس عہد کو بھولے گا جسکی قسم اس نے تیرے باپدادا سے کھائی۔“ (استثنا ۴:۳۱) یسوع نے ظاہر کیا کہ خدا کے رحم کو ہمیں کیسے متاثر کرنا چاہیے: ”جیسا تمہارا باپ رحمدل ہے، تم بھی رحمدل بننا جاری رکھو۔“ (لوقا ۶:۳۶، NW) ہم کیسے رحم دکھا سکتے ہیں؟ جیسا کہ یسوع کی تمثیل نے ظاہر کیا ایک طریقہ یہ ہے کہ اپنے ساتھی انسان کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں، خواہ اس میں خطرہ یا زحمت ہی کیوں نہ شامل ہو۔ ایک نیک شخص اپنے بھائی کے دکھ اور مصیبت کو نظرانداز نہیں کرے گا اگر وہ اس حالت میں ہے کہ اس کے لیے کچھ کر سکے ۔یعقوب ۲:۱۵، ۱۶۔
۱۱، ۱۲. یسوع کی نوکروں کی تمثیل کی مطابقت میں رحمدلی میں کیا شامل ہے، اور آجکل ہم اسے کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۱ یسوع کی ایک اور تمثیل نے یہ ظاہر کیا کہ دوسروں کو معاف کر دینے کے لیے تیار رہنا بھی رحمدلانہ نیکی میں شامل ہے۔ اس نے ایک نوکر کی بابت بتایا جس نے اپنے مالک کے دس ہزار توڑے ادا کرنے تھے۔ ادا کرنے کے قابل نہ ہوتے ہوئے نوکر نے رحم کے لیے درخواست کی، اور اس کے مالک نے ترس کھا کر ۶۰،۰۰۰،۰۰۰ دینار کا بڑا قرض معاف کر دیا۔ لیکن نوکر نے جا کر ایک دوسرے نوکر کو پکڑ لیا جس نے اس کے محض ایک سو دینار ادا کرنے تھے۔ معافی پانے والے نوکر نے بےرحمی سے اپنے قرضدار کو قیدخانہ میں ڈال دیا تاکہ جبتک قرض ادا نہ کرے قیدخانہ میں رہے۔ صاف ظاہر ہے کہ بےرحم نوکر ایک نیک آدمی نہ تھا، اور جب مالک نے یہ سنا کہ کیا واقع ہوا ہے تو اس نے اس سے جواب طلب کیا ۔متی ۱۸:۲۳-۳۵۔
۱۲ ہم اس معافییافتہ نوکر کی حالت میں ہیں۔ یسوع کی قربانی کی بنیاد پر، یہوواہ نے ہمارے گناہ کے بڑے قرض کو معاف کر دیا ہے۔ تو پھر، یقیناً، ہمیں بھی دوسروں کو معاف کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ یسوع نے کہا تھا کہ ہمیں ”سات دفعہ کے ستر بار تک“ معاف کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے یعنی لامحدود حد تک۔ (متی ۵:۷، ۶:۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۸:۲۱، ۲۲) لہذا، ایک رحمدل مسیحی کینہ نہیں رکھے گا۔ وہ ناگوار احساسات کے سبب سے ناراضگی کو دل میں جگہ نہیں دے گا یا ساتھی مسیحی کے ساتھ بات کرنے سے انکار نہیں کرے گا۔ رحم کی ایسی کمی مسیحی نیکی کا ثبوت نہیں ہوگا۔
فیاض اور مہمان نواز
۱۳. نیکی میں اور کیا شامل ہے؟
۱۳ فیاضی اور مہماننوازی سے بھی نیکی ظاہر کی جاتی ہے۔ ایک موقع پر ایک جوان شخص مشورہ کے لیے یسوع کے پاس آیا۔ اس نے کہا: ”اے استاد، میں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟“ یسوع نے اس سے کہا کہ اسے خدا کے حکموں پر متواتر قائم رہنا چاہیے۔ جی ہاں، یہوواہ کے حکموں کی تعمیل نیکی کا ایک پہلو ہے۔ جوان شخص نے سوچا کہ وہ تو پہلے ہی سے ایسا کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتا رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اپنے آسپڑوس میں وہ پہلے ہی نیک نام جانا جاتا تھا، پھر بھی اس نے محسوس کیا کہ اس میں کسی چیز کی کمی ہے۔ پس یسوع نے کہا: ”اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مالواسباب [فروخت کرکے] غریبوں کو دے اور تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آ کر میرے پیچھے ہو لے۔“ (متی ۱۹:۱۶-۲۲) جوان شخص غمگین ہو کر چلا گیا۔ وہ بڑا مالدار تھا۔ اگر اس نے یسوع کی صلاح پر عمل کیا ہوتا تو اس نے یہ ظاہر کیا ہوتا کہ وہ مادہپرست نہیں ہے۔ اور اس نے بےغرض فیاضی کا ایک نیک کام انجام دیا ہوتا۔
۱۴. فیاضی کی بابت یہوواہ اور یسوع دونوں نے کیا عمدہ صلاح دی؟
۱۴ یہوواہ نے اسرائیلیوں کو تاکید کی کہ وہ فیاض ہوں۔ مثال کے طور پر، ہم پڑھتے ہیں: ”بلکہ تجھ کو [اپنے غربت کے مارے پڑوسی کو] ضرور دینا ہو گا اور اس کو دیتے وقت تیرے دل کو برا بھی نہ لگے، اس لیے کہ ایسی بات کے سبب سے [یہوواہ] تیرا خدا تیرے سب کاموں میں اور سب معاملوں میں جن کو تو اپنے ہاتھ میں لے گا تجھ کو برکت بخشے گا۔“ (استثنا ۱۵:۱۰، امثال ۱۱:۲۵) یسوع نے بذاتخود فیاضی کی تاکید کی: ”دیا کرو تمہیں بھی دیا جائے گا۔ [وہ] اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کر کے تمہارے پلے میں ڈالیں گے۔“ (لوقا ۶:۳۸) علاوہازیں، یہ کہ یسوع خود بڑا فیاض تھا۔ ایک موقع پر، اس نے تھوڑا آرام کرنے کے لیے وقت نکالا۔ لوگوں کی بھیڑ نے اسے تلاش کر لیا کہ وہ کہاں ہے اور اس کے پاس آ گئے۔ فیاضی دکھاتے ہوئے یسوع اپنے آرام کو بھی بھول گیا اور لوگوں کی بھیڑ کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ بعدازاں، اس بڑی بھیڑ کے لیے خوراک فراہم کرنے سے اس نے بہت بڑی مہماننوازی کا اظہار کیا۔ مرقس ۶:۳۰-۴۴۔
۱۵. فیاضی دکھانے میں یسوع کے شاگردوں نے ایک عمدہ نمونہ کیسے قائم کیا تھا؟
۱۵ یہوواہ اور یسوع کی صلاح پر عمل کرتے ہوئے، یسوع کے بہتیرے شاگرد نمایاں طور پر فیاض اور مہماننواز تھے۔ مسیحی کلیسیا کے ابتدائی ایام میں، لوگوں کا ایک بڑا گروہ جو ۳۳ س۔ع۔ میں عیدپنتکست منانے کے لیے آیا ہوا تھا اس نے رسولوں کی منادی سنی اور ایمان لے آیا۔ عید کے بعد بھی زیادہ سیکھنے کی غرض سے وہاں ٹھہرے رہنے کی وجہ سے، ان کے کھانے پینے کے اخراجات کی مشکل پیدا ہو گئی۔ لہذا، مقامی ایمانداروں نے اپنا مالواسباب فروخت کرکے اپنے نئے بھائیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مالی امداد دی تاکہ وہ ایمان میں اچھی طرح سے مضبوط ہو جائیں۔ کیا ہی خوب فیاضی! اعمال ۴:۳۲-۳۵، نیز، دیکھیں اعمال ۱۶:۱۵، رومیوں ۱۵:۲۶۔
۱۶. بعض ایسے طریقے بتائیں جن سے ہم آجکل مہماننواز اور فیاض بن سکتے ہیں؟
۱۶ آج کل، جب مسیحی اپنی مقامی کلیسیاؤں اور عالمگیر منادی کرنے کے کام کے لیے مالی امداد دیتے ہیں تو مسیح کی سی فیاضی دیکھی جاتی ہے۔ یہ اس وقت ظاہر کی جاتی ہے جب وہ قدرتی آفت یا جنگ سے متاثرین کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ اس کا اظہار اس وقت کیا جاتا ہے جب سرکٹ اوورسیئر کے باضابطہ دورے کے دوران اسکی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یا جب ”یتیم لڑکوں“ (اور یتیم لڑکیوں) کو سیروتفریح اور دیگر مسیحی خاندانوں کے ساتھ خاندانی بائبل مطالعوں میں شریک ہونے کے لیے فیاضی سے دعوت دی جاتی ہے تو یہ بھی مہماننوازی یعنی مسیحی نیکی کا اظہار ہوتا ہے۔ زبور ۶۸:۵۔
سچ بولنا
۱۷. راستگوئی آجکل ایک چیلنج کیوں ہے؟
۱۷ جب پولس نے نور کے پھلوں کو بیان کیا تو اس نے نیکی کو راستبازی اور سچائی کے ساتھ جوڑا، اور یہ کہنا درست ہو گا کہ راستگوئی نیکی کی ایک اور قسم ہے۔ نیک لوگ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ تاہم، جب کہ جھوٹ اس قدر پھیلا ہوا ہے تو سچ بولنا ایک خصوصی چیلنج ہے۔ بہتیرے لوگ اپنی ٹیکس کی رپورٹیں بھرتے وقت جھوٹ بولتے ہیں۔ ملازمت کرنے والے اپنے کام کی بابت جھوٹ بولتے ہیں۔ طالبعلم اپنے کام اور امتحانوں میں نقل کرنے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ کاروباری لوگ سودابازی کرتے وقت جھوٹ بولتے ہیں۔ بچے سزا سے بچنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ کینہجو فضولگو دوسروں کی نیکنامی کو تباہ کرنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔
۱۸. یہوواہ جھوٹوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟
۱۸ جھوٹ سے یہوواہ کو نفرت ہے۔ ”سات چیزیں“ جن سے یہوواہ کو نفرت ہے ان میں سے ایک ”جھوٹی زبان“ ہے اور ”جھوٹا گواہ جو دروغگوئی کرتا ہے۔“ (امثال ۶:۱۶۔۱۹) ”سب جھو ٹے“ بزدلوں، اور خونیوں، اور حرامکاروں، کی فہرست میں شامل ہیں، جن کے لیے خدا کی نئی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ (مکاشفہ ۲۱:۸) مزیدبرآں، امثال ہمیں بتاتی ہے: ”راسترو [یہوواہ] سے ڈرتا ہے پر کجرو اس کی حقارت کرتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۲) ایک جھوٹا اپنی راہوں میں ٹیڑھا ہوتا ہے۔ پس، ایک جھوٹا شخص یہوواہ کی حقارت کرنے کا ثبوت دیتا ہے۔ کیا ہی ہولناک خیال! پس آئیے ہم ہمیشہ سچ بولیں، چاہے یہ ہمارے لیے تنبیہ پانے یا مالی نقصان کا باعث ہی کیوں نہ ہو۔ (امثال ۱۶:۶، افسیوں ۴:۲۵) جو سچ بولتے ہیں وہ یہوواہ کی نقل کرتے ہیں، جو کہ ”سچائی کا خدا ہے۔“ زبور ۳۱:۵۔
نیکی کو پیدا کریں
۱۹. خالق کو نیکنامی دینے کے لیے بعض اوقات دنیا میں کیا چیز نظر آتی ہے؟
۱۹ یہ ہیں نیکی کی محض چند ”قسمیں“ جنہیں ایک مسیحی کو پیدا کرنا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ دنیا میں لوگ نیکی کو کسی حد تک ہی ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض لوگ مہماننواز ہوتے ہیں، اور دیگر رحمدل ہوتے ہیں۔ بلاشبہ، جس چیز نے نیک سامری کی تمثیل کو اس قدر قابلذکر بنا دیا وہ یسوع کے کہنے کے مطابق یہی تھی کہ ایک غیریہودی نے رحم دکھایا جبکہ یہودی کلیسیا کے بزرگوں نے نہ دکھایا۔ واقعی اس کا سہرا انسان کے خالق کے سر جاتا ہے کہ چھ ہزار برسوں کی ناکاملیت کے باوجود بھی ایسے اوصاف بعض انسانوں کے اندر فطرتاً پائے جاتے ہیں۔
۲۰، ۲۱. (ا)مسیحی نیکی کسی بھی نیکی سے کیوں مختلف ہے جو ہم شاید دنیا کے لوگوں میں دیکھ سکیں؟ (ب) ایک مسیحی کس طرح نیکی پیدا کر سکتا ہے، اور ہمیں ایسا کرنے کے لیے کیوں مستعد رہنا چاہیے؟
۲۰ بہرحال، مسیحیوں کے لیے نیکی محض ایک خوبی سے زیادہ کچھ کا مطلب رکھتی ہے جو شاید ان میں موجود ہو یا نہ ہو۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جسے انہیں لازمی طور پر اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ پیدا کرنا ہے کیونکہ انہیں خدا کی مانند بننا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ ہم نیکی سیکھ سکتے ہیں۔ زبور نویس نے خدا سے دعا کی تھی، ”مجھے [نیکی] سکھا“۔ کیسے؟ اس نے مزید کہا: ”کیونکہ میں تیرے فرمان پر ایمان لایا ہوں۔“ اس نے اضافہ کیا: ”تو بھلا ہے اور بھلائی کرتا ہے۔ مجھے اپنے آئین سکھا۔“ زبور ۱۱۹:۶۶، ۶۸۔
۲۱ جیہاں، اگر ہم یہوواہ کے آئین سیکھتے اور انہیں بجا لاتے ہیں تو ہم نیکی کو پیدا کریں گے۔ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ نیکی روح کا ایک پھل ہے۔ اگر ہم دعا، اور رفاقت، اور بائبل مطالعہ، کے ذریعہ سے یہوواہ کی روح کے طالب ہوتے ہیں تو پھر ہمیں اس خوبی کو پیدا کرنے کے لیے یقیناً مدد ملے گی۔ علاوہازیں، نیکی طاقتور ہے۔ یہ بدی پر بھی غالب آ سکتی ہے۔ (رومیوں ۱۲:۲۱) تو پھر، یہ کتنا اہم ہے کہ ہم سب کے ساتھ نیکی کریں، خاص طور پر اپنے مسیحی بھائیوں کے ساتھ ۔ (گلتیوں ۶:۱۰) اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم ان لوگوں کے درمیان ہوں گے جو اس ”جلال اور عزت اور سلامتی“ کا لطف اٹھاتے ہیں جس کا وعدہ ”ہر ایک نیکوکار“ سے کیا گیا ہے ۔رومیوں ۲:۶۔۱۱۔ (۱۸ ۸/۱۵ w۹۱)
کیا آپ جواب دے سکتے ہیں؟
▫ اعلیٰ حکومتوں کے سلسلے میں ہم کیسے مسلسل نیکی کر سکتے ہیں؟
▫ دوسروں کے ساتھ اور کون ہمارے لحاظ کے مستحق ہیں؟
▫ کن طریقوں سے رحم اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے؟
▫ فیاضی اور مہماننوازی کے کونسے کام آجکل مسیحیوں کی نشاندہی کرتے ہیں؟
▫ نیکی کو کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟
[تصویر]
دوسروں کے لیے پاسولحاظ نیکی کا ایک پہلو ہے
[تصویر]
عظیم استاد کے طور پر یسوع نے فیاضی سے خود کو دوسروں کے لیے دے دیا