شادی میں نئی انسانیت کو ترقی دینا
”تمہیں اپنے ذہن کو تحریک دینے والی قوت میں نئے بنتے جانا چاہیے، اور نئی انسانیت کو پہننا چاہیے۔“—افسیوں ۴:۲۳، ۲۴، NW۔
۱. شادی کو معمولی بات کیوں نہیں سمجھا جانا چاہیے؟
شادی ان نہایت ہی سنجیدہ اقدام میں سے ایک ہے جو کوئی زندگی میں اٹھاتا ہے، اسلئے کبھی بھی اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایسا کیوں ہے؟ اسلئے کہ یہ کسی دوسرے شخص کے لئے زندگی بھر کے عہد کا تقاضا کرتی ہے۔ اسکا مطلب کسی کا اپنی ساری زندگی کو اس شخص کیساتھ بانٹ لینا ہے۔ اگر اس عہد کو مضبوط ہونا ہے تو پُختہ تمیز کی ضرورت ہے۔ یہ ذہن کو تحریک دینے اور یوں نئی انسانیت کو تشکیل دینے کیلئے مثبت عمل کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔—افسیوں ۴:۲۳، ۲۴، مقابلہ کریں پیدایش ۲۴:۱۰-۵۸، متی ۱۹:۵، ۶۔
۲، ۳. (ا)عقلمندی سے شادی کے ساتھی کا انتخاب کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟ (ب) شادی میں کیا کچھ شامل ہے؟
۲ جسم کی طاقتور خواہش سے مغلوب ہو کر جلدبازی سے شادی میں نہ پڑنے کی اچھی وجہ ہے۔ بالغ شخصیت اور سیرت کو ترقی دینے کیلئے وقت درکار ہے۔ وقت کیساتھ تجربہ اور علم بھی آ جاتا ہے جو قابلاعتماد تمیز کی بنیاد کا کام دے سکتا ہے۔ بعدازاں، ہمآہنگ زندگی کے ساتھی کے انتخاب میں کافی زیادہ حد تک کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ایک ہسپانوی ضربالمثل اسے صاف طور پر یوں بیان کرتی ہے: ”خراب شادیشدہ زندگی کی نسبت کنوارا رہنا بہتر ہے۔“—امثال ۲۱:۹، واعظ ۵:۲۔
۳ ایک کامیاب شادی کیلئے ایک درست ساتھی کا انتخاب کرنا واضح طور پر بنیادی چیز ہے۔ اسکے لئے ضرور ہے کہ مسیحی بائبل کی راہنمائیوں کو استعمال کریں اور انکی پیروی کریں، نہ کہ محض غیرواجب جذباتی اور رومانی دباؤ اور جسمانی کشش سے اثرپذیر ہوں۔ شادی دو جسموں کے ملاپ کی نسبت زیادہ کچھ ہے۔ یہ دو شخصیات، دو خاندانی اور تعلیمی پسمنظروں، ممکنہ طور پر دو ثقافتوں اور زبانوں کا ملاپ ہے۔ شادی میں دو اشخاص کا متحد ہونا زبان کے صحیح استعمال کا تقاضا کرتا ہے، قوتگویائی سے ہم یا تو مسمار کرتے یا تعمیر کرتے ہیں۔ اس سب سے ہم ”صرف خداوند میں شادی کرنے“ یعنی ایک ساتھی ایماندار سے شادی کرنے، کی پولس کی مشورت کی حکمت کو بھی دیکھتے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۷:۳۹، پیدایش ۲۴:۱-۴، امثال ۱۲:۱۸، ۱۶:۲۴۔
شادی کی مشکلات کا سامنا کرنا
۴. بعض اوقات شادی میں اختلاف اور کھچاؤ کیوں پیدا ہوتا ہے؟
۴ ایک اچھی بنیاد کیساتھ بھی، اختلاف، دباؤ، اور کھچاؤ کے اوقات ہونگے۔ یہ کسی بھی شخص کیلئے عام ہیں، خواہ وہ شادیشدہ ہے یا نہیں۔ معاشی اور صحت کے مسائل کسی بھی رشتے میں دباؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ بہترین شادیوں میں بھی مزاج کی کیفیت میں تبدیلیاں، شخصیتی تصادموں کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایک اور عنصر یہ ہے کہ کسی کو بھی زبان پر کامل کنٹرول حاصل نہیں ہے، جیسے کہ یعقوب نے بیان کیا: ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔ ... زبان بھی ایک چھوٹا سا عضو ہے اور بڑی شیخی مارتی ہے۔ دیکھو۔ تھوڑی سی آگ سے کتنے بڑے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔“—یعقوب ۳:۲، ۵۔
۵، ۶. (ا)جب غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟ (ب) ایک شگاف کو پر کرنے کیلئے کیا کارروائی کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے؟
۵ جب شادی میں دباؤ بڑھتے ہیں تو ہم صورتحال کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں؟ ہم ایک غلط فہمی کو ایک جھگڑے اور ایک جھگڑے کو ٹوٹے ہوئے رشتے کی شکل اختیار کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ یہاں پر ہی ذہن کو تحریک دینے والی قوت کام آتی ہے۔ یہ متحرک کرنے والی روح یا تو مثبت یا منفی، تعمیری اور روحانی رجحان والی یا اخلاقسوز، جسمانی رغبتوں سے مغلوب ہو سکتی ہے۔ اگر یہ تعمیری ہے تو ایک فرد شگاف کو پر کرنے، اپنی شادی کو صحیح سمت میں رکھنے کیلئے کام کریگا۔ جھگڑوں اور نااتفاقیوں کو شادی کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔ بائبل مشورت کا اطلاق کرنے سے فضا کو صاف اور باہمی احترام اور مفاہمت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔—رومیوں۱۴:۱۹، افسیوں ۴:۲۳، ۲۶، ۲۷۔
۶ ان حالات کے تحت پولس کے الفاظ بہت موزوں ہیں: ”پس خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔ اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایکدوسرے کی برداشت کرے اور ایکدوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔ اور ان سب کے اوپر محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو۔“—کلسیوں ۳:۱۲-۱۴۔
۷. اپنی شادی میں بعض کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟
۷ اس اقتباس کو پڑھنا آسان ہے، مگر جدید زندگی کے دباؤ کے تحت، اسکا اطلاق کرنا ہمیشہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بنیادی مسئلہ کیا ہو سکتا ہے؟ بعض اوقات، اسے محسوس کئے بغیر ہی، ایک مسیحی دوہرے معیار کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے۔ کنگڈم ہال میں وہ بھائیوں کے درمیان ہے، اور مہربانی اور مروت کیساتھ پیش آتا ہے۔ بعدازاں، واپس گھر میں، گھریلو معمول میں، وہ اپنے روحانی رشتے کو بھولنے کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ وہاں پر صرف یہ میاں اور بیوی، ”مرد“ اور ”عورت“ کا معاملہ ہے۔ اور دباؤ کے تحت وہ ایسی نامہربان باتیں کہہ کر ختم کر سکتے ہیں جو کنگڈم ہال میں کبھی بھی کہی نہیں جائینگی۔ کیا ہو گیا ہے؟ عارضی طور پر، مسیحیت غائب ہو گئی ہے۔ خدا کا ایک خادم بھول چکا ہے کہ وہ گھر میں بھی ایک مسیحی بھائی یا بہن ہے۔ ذہن کو تحریک دینے والی قوت مثبت کی بجائے منفی بن گئی ہے۔—یعقوب ۱:۲۲-۲۵۔
۸. جب ذہن کو تحریک دینے والی قوت منفی ہو تو کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
۸ نتیجہ کیا ہے؟ شوہر ”بیوی کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرنا اور عورت کو نازک ظرف جان کر اسکی عزت کرنا“ بند کر سکتا ہے۔ بیوی شاید اب اپنے خاوند کی عزت نہیں کرتی، اسکی ”حلم اور مزاج کی غربت“ ختم ہو گئی ہے۔ ذہن کو تحریک دینے والی قوت روحانی کی بجائے جسمانی بن گئی ہے۔ ”جسمانی عقل“ غالب آ گئی ہے۔ پس تحریک دینے والی اس قوت کو مثبت اور روحانی رکھنے کیلئے کیا کیا جا سکتا ہے؟ ہمیں اپنی روحانیت کو مضبوط بنانا چاہیے۔—۱-پطرس ۳:۱-۴، ۷، کلسیوں ۲:۱۸۔
قوت کو مضبوط بنائیں
۹. ہمیں روزمرہ زندگی میں کونسے انتخابات کرنے پڑتے ہیں؟
۹ تحریک دینے والی قوت ذہنی میلان ہے جو اس وقت عمل میں آتا ہے جب ہم کو فیصلے اور انتخابات کرنے ہوتے ہیں۔ زندگی انتخابات کا دائمی سلسلہ پیش کرتی ہے—اچھے یا برے، خودغرض یا بےغرض، بااخلاق یا بداخلاق۔ درست فیصلے کرنے کیلئے کیا چیز ہماری مدد کریگی؟ ذہن کو تحریک دینے والی قوت، اگر اسے یہوواہ کی مرضی بجا لانے پر مرتکز رکھا جاتا ہے۔ زبورنویس نے دعا کی: ”اے خداوند! مجھے اپنے آئین کی راہ بتا اور میں آخر تک اس پر چلونگا۔“—زبور ۱۱۹:۳۳، حزقیایل ۱۸:۳۱، رومیوں ۱۲:۲۔
۱۰. ہم ذہن کو تحریک دینے والی قوت کو ایک مثبت طریقے سے کیسے تقویت دے سکتے ہیں؟
۱۰ یہوواہ کیساتھ ایک مضبوط رشتہ اسے خوش کرنے اور جو برائی ہے، بشمول شادی میں بیوفائی کے اس سے مُنہ پھیر لینے کیلئے ہماری مدد کریگا۔ اسرائیل کی حوصلہافزائی کی گئی تھی کہ ”اس کام [کو کر] ... جو خداوند تیرے خدا کی نظر میں اچھا اور ٹھیک ہے۔“ لیکن خدا نے یہ نصیحت بھی کی: ”اے خداوند سے محبت رکھنے والو! بدی سے نفرت کرو۔“ دس احکام میں سے ساتویں کے پیشنظر: ”تو زنا نہ کرنا،“ اسرائیلیوں کو زناکاری سے نفرت کرنی تھی۔ اس حکم نے شادی میں وفاداری کیلئے خدا کے بالکل واضح نظریے کو ظاہر کیا۔—استثنا ۱۲:۲۸، زبور ۹۷:۱۰، خروج ۲۰:۱۴، احبار ۲۰:۱۰۔
۱۱. ہم اپنے ذہن کو تحریک دینے والی قوت کو مزید مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں؟
۱۱ ہم اس قوت کو مزید مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں جو ذہن کو تحریک دیتی ہے؟ روحانی اقدار اور کارگزاریوں کی قدر کرنے سے۔ اسکا مطلب ہے کہ ہم ضرور خدا کے کلام کو باقاعدہ پڑھنے کی ضرورت کو پورا کریں اور یہوواہ کے خیالات اور مشورت پر ملکر باتچیت کرنے سے خوش ہونا سیکھیں۔ ہمارے دلی جذبات زبورنویس کی طرح کے ہونے چاہئیں: ”میں پورے دل سے تیرا طالب ہوا ہوں مجھے اپنے فرمان سے بھٹکنے نہ دے۔ میں نے تیرے کلام کو اپنے دل میں رکھ لیا ہے تاکہ میں تیرے خلاف گناہ نہ کروں۔ اے خداوند! مجھے اپنے آئین کی راہ بتا اور میں آخر تک اس پر چلونگا۔ مجھے فہم عطا کر اور میں تیری شریعت پر چلونگا بلکہ پورے دل سے اسکو مانونگا۔“—زبور ۱۱۹:۱۰، ۱۱، ۳۳، ۳۴۔
۱۲. مسیح کے ذہن کی عکاسی کرنے کیلئے کونسی چیزیں ہمیں متحد کر سکتی ہیں؟
۱۲ یہوواہ کے راست اصولوں کیلئے اس قسم کی قدر نہ صرف بائبل کا مطالعہ کرنے سے قائم رہتی ہے بلکہ مسیحی اجلاسوں پر باقاعدگی سے حصہ لینے اور ملکر مسیحی کارگزاری میں شامل ہونے سے بھی۔ یہ دو پرزور اثرات ہمارے ذہنوں کو تحریک دینے والی قوت کو مستقل مضبوط بنا سکتے ہیں تاکہ ہمارا بےغرض طرززندگی ہمیشہ مسیح کے ذہن کو منعکس کرے۔—رومیوں ۱۵:۵، ۱-کرنتھیوں ۲:۱۶۔
۱۳. (ا)ذہن کو تحریک دینے والی قوت کو مضبوط بنانے میں دعا کیوں ایک قابلقدر عنصر ہے؟ (ب) اس سلسلے میں یسوع نے کیا نمونہ قائم کیا؟
۱۳ ایک اور عنصر ہے جسے پولس افسیوں کے نام اپنے خط میں نمایاں کرتا ہے: ”ہر وقت اور ہر طرح سے روح میں دعا اور منت کرتے رہو۔“ (افسیوں ۶:۱۸) شوہروں اور بیویوں کو ملکر دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثر وہ دعائیں دل کو کھول دیتی ہیں اور صافگو گفتگو کا سبب بنتی ہیں جو کسی بھی شگاف کو پر کرتی ہے۔ آزمائش اور ترغیب کے وقت میں، ہمیں مسیح کے ذہن کی موافقت میں کام کرنے کی خاطر روحانی قوت کیلئے دعا میں خدا کے پاس جانے، مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔ کامل یسوع نے بھی قوت مانگنے کیلئے بہت سے مواقع پر دعا میں اپنے باپ کی طرف رجوع کیا۔ اسکی دعائیں دل سے اور پرزور تھیں۔ اسی طرح سے آجکل، آزمائش کے وقتوں میں، ہم جسم کی خواہش سے مغلوب ہونے اور شادی کے عہد سے غداری کرنے کی مزاحمت کرنے کیلئے یہوواہ سے دعا کرنے سے صحیح فیصلے کرنے کی خاطر قوت حاصل کر سکتے ہیں۔—زبور ۱۱۹:۱۰۱، ۱۰۲۔
چالچلن کی متضاد مثالیں
۱۴، ۱۵. (ا)یوسف نے آزمایش کیلئے کیسا ردعمل دکھایا؟ (ب) آزمایش کی مزاحمت کرنے کیلئے کس چیز نے یوسف کی مدد کی؟
۱۴ ہم آزمائش کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں ہمارے پاس ان روشوں میں واضح فرق موجود ہے جو یوسف اور داؤد نے اختیار کی تھیں۔ جب فوطیفار کی بیوی خوبصورت یوسف کو ورغلانے کی مستقل کوشش کرتی رہی، جو ظاہر ہے کہ اس وقت غیرشادیشدہ تھا، تو آخرکار اس نے یہ کہتے ہوئے اسے جواب دیا: ”اس گھر میں مجھ سے بڑا کوئی نہیں اور [تیرے خاوند] نے تیرے سوا کوئی چیز مجھ سے باز نہیں رکھی کیونکہ تو اسکی بیوی ہے سو بھلا میں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“—پیدایش ۳۹:۶-۹۔
۱۵ کس چیز نے درست روش اختیار کرنے میں یوسف کی مدد کی جب کہ اس وقت جھک جانا اتنا آسان ہوا ہوگا؟ اس کے پاس ذہن کو تحریک دینے والی ایک پرزور قوت تھی۔ وہ یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے سے خوب آگاہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس فریفتہ عورت کے ساتھ حرامکاری کرنا حقیقت میں نہ صرف اسکے خاوند، بلکہ زیادہ اہم طور پر، خدا کے خلاف گناہ ہوگا۔—پیدایش ۳۹:۱۲۔
۱۶. داؤد نے آزمائش کیلئے کیسا ردعمل دکھایا؟
۱۶ اس کے برعکس داؤد کے ساتھ کیا واقع ہوا؟ وہ کئی بیویوں کیساتھ شادیشدہ آدمی تھا، جیسے کہ شریعت نے اجازت دے رکھی تھی۔ ایک شام اس نے اپنے محل کی چھت سے ایک عورت کو نہاتے ہوئے دیکھا۔ وہ خوبصورت بتسبع، اوریاہ کی بیوی تھی۔ واضح طور پر داؤد کے پاس کارروائی کرنے کا انتخاب تھا—مسلسل دیکھتے رہنے کا جبکہ نفسانی خواہش اسکے دل میں بڑھی، یا مُنہ موڑ لینے اور آزمائش کو رد کر دینے کا۔ اس نے کیا کرنے کا انتخاب کیا؟ اس نے اسے اپنے محل میں بلا لیا، اور اس نے اسکے ساتھ زناکاری کی۔ اس سے بھی بدتر، وہ اسکے خاوند کی موت کا سبب بھی بنا۔—۲-سموئیل ۱۱:۲-۴، ۱۲-۲۷۔
۱۷. ہم داؤد کی روحانی حالت کے متعلق کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟
۱۷ داؤد کا مسئلہ کیا تھا؟ زبور ۵۱ میں اسکے بعد کے پشیمان اقرار سے، ہم بعض حقائق اخذ کر سکتے ہیں۔ اس نے کہا: ”اے خدا! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسرنو مستقیم روح ڈال۔“ یہ ظاہر ہے کہ اپنی آزمائش کے وقت، وہ پاک اور مستقیم روح نہیں رکھتا تھا۔ شاید اس نے یہوواہ کی شریعت کی پڑھائی کو نظرانداز کر دیا تھا، اور نتیجے کے طور پر، اسکی روحانیت کمزور پڑ گئی۔ یا شاید بادشاہ کے طور پر اس نے اپنی قوت اور مرتبے کو اپنی سوچ کو آلودہ کرنے کی اجازت دے دی، اس طرح کہ وہ نفسانی خواہش کا شکار ہو گیا۔ یقینی طور پر، اس وقت پر اس کی ذہن کو تحریک دینے والی قوت خودغرض اور گنہگارانہ تھی۔ اس طرح اس نے ”ازسرنو مستقیم روح“ کی اپنی ضرورت کو محسوس کیا۔—زبور ۵۱:۱۰، استثنا ۱۷:۱۸-۲۰۔
۱۸. یسوع نے زناکاری کی بابت کیا مشورت دی؟
۱۸ بعض مسیحی شادیاں اس وجہ سے برباد ہو گئی ہیں کیونکہ ایک یا دونوں ساتھیوں نے خود کو داؤد کی طرح کی روحانی کمزوری کی حالت میں پڑنے کی اجازت دے دی۔ اس کی مثال کو ہمیں ایک عورت، یا مرد کو جنسی محبت سے لگاتار دیکھتے رہنے کے خلاف آگاہ کرنا چاہیے، کیونکہ انجامکار زناکاری واقع ہو سکتی ہے۔ یسوع نے ظاہر کیا کہ اس سلسلے میں اس نے انسانی جذبات کو سمجھا تھا، کیونکہ اس نے کہا: ”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اسکے ساتھ زنا کر چکا۔“ ایسے معاملے میں، ذہن کو تحریک دینے والی قوت خودغرض اور نفسانی ہے، نہ کہ روحانی۔ تو پھر مسیحی زناکاری سے بچنے اور اپنی شادیوں کو مسرور اور اطمینانبخش رکھنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟—متی ۵:۲۷، ۲۸۔
شادی کے بندھن کو مضبوط بنائیں
۱۹. شادی کو کیسے مضبوط بنایا جا سکتا ہے؟
۱۹ بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”اگر کوئی ایک پر غالب ہو تو دو اسکا سامنا کر سکتے ہیں اور تہری ڈوری جلد نہیں ٹوٹتی۔“ یقینی طور پر، ایک ہمآہنگ شادی میں ایک سے بہتر دو ملکر مصیبت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر انکے بندھن میں تہری ڈوری کی طرح خدا شامل ہے، تو شادی مضبوط ہوگی۔ اور شادی میں خدا کیسے ہو سکتا ہے؟ جوڑے کی طرف سے شادی کیلئے اسکے اصولوں اور مشورت کا اطلاق کرنے سے۔—واعظ ۴:۱۲۔
۲۰. کونسی بائبل نصیحت ایک شوہر کی مدد کر سکتی ہے؟
۲۰ یقینی طور پر اگر ایک شوہر مندرجہذیل آیات کی مشورت کا اطلاق کرتا ہے تو اسکی شادی کامیابی کیلئے ایک بہتر بنیاد رکھے گی:
”اے شوہرو! تم بھی بیویوں کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اسکی عزت کرو اور یوں سمجھو کہ ہم دونوں زندگی کی نعمت کے وارث ہیں تاکہ تمہاری دعائیں رک نہ جائیں۔“—۱-پطرس ۳:۷۔
”اے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپکو اسکے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔ اسی طرح شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔“—افسیوں ۵:۲۵، ۲۸۔
”اسکا شوہر بھی اسکی تعریف کرتا ہے کہ بہتیری بیٹیوں نے فضیلت دکھائی ہے لیکن تو سب پر سبقت لے گئی۔“—امثال ۳۱:۲۸، ۲۹۔
”کوئی انگاروں پر چلے اور اسکے پاؤں نہ جھلسیں؟ وہ بھی ایسا ہے جو اپنے پڑوسی کی بیوی کے پاس جاتا ہے۔ جو کوئی اسے چھوئے بےسزا نہ رہیگا۔ جو کسی عورت سے زنا کرتا ہے ... اپنی جان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔“—امثال ۶:۲۸، ۲۹، ۳۲۔
۲۱. کونسی بائبل نصیحت ایک بیوی کی مدد کر سکتی ہے؟
۲۱ اگر ایک بیوی مندرجہذیل بائبل اصولوں پر توجہ دیتی ہے تو یہ اسکی شادی کی پائداری میں معاونت کریگی:
”اے بیویو! تم بھی اپنے اپنے شوہر کے تابع رہو۔ اسلئے کہ اگر بعض ان میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تو بھی تمہارے پاکیزہ چالچلن اور خوف ... کو دیکھکر بغیر کلام کے اپنی اپنی بیوی کے چالچلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں ... [بمع تمہارے] حلم اور مزاج کی غربت [کے]۔“—۱-پطرس ۳:۱-۴۔
”شوہر بیوی کا [جنسی] حق ادا کرے اور ویسا ہی بیوی شوہر کا۔ ... تم ایک دوسرے سے جدا نہ رہو مگر تھوڑی مدت تک آپس کی رضامندی سے۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۳-۵۔
۲۲. (ا)کونسے دوسرے عناصر شادی میں بہتری کیلئے اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ (ب) یہوواہ طلاق کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟
۲۲ بائبل یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ محبت، مہربانی، ہمدردی، صبر، سمجھ، حوصلہافزائی، اور تعریف شادی کے جوہر کے دیگر لازمی رخ ہیں۔ ان کے بغیر شادی، پانی اور روشنی کے بغیر پودے کی مانند ہے—جو شاذونادر ہی جوبن پر آتا ہے۔ اسلئے اپنے ذہنوں کو تحریک دینے والی قوت کو ہمیں اپنی شادی میں ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کرنے اور فرحت بخشنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ یہوواہ ”طلاق سے بیزار ہے۔“ اگر مسیحی محبت کو عمل میں لایا جاتا ہے تو زناکاری اور شادی کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں؟ ”[اسلئے کہ، NW] محبت کو زوال نہیں۔“—ملاکی ۲:۱۶، ۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۸، افسیوں ۵:۳-۵۔ (۱۷ ۲/۱۵ w۹۳)
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
▫ ایک خوشحال شادی کیلئے بنیادی اصول کیا ہے؟
▫ ذہن کو تحریک دینے والی قوت ایک شادی پر کیسے اثرانداز ہو سکتی ہے؟
▫ ہم کیسے اپنی ذہن کو تحریک دینے والی قوت کو مضبوط بنا سکتے ہیں؟
▫ یوسف اور داؤد نے مختلف ردعمل کیونکر دکھایا، جب وہ آزمائش کے تحت تھے؟
▫ بائبل کی کونسی مشورت شوہروں اور بیویوں کی شادی کے بندھن کو مضبوط بنانے کیلئے مدد کریگی؟
[تصویر]
کیا ہم دوہرے معیار والی زندگی گذارتے ہیں—کلیسیا میں مہربان اور گھر پر سختگیر؟