سفید سر کی شانوشوکت
قدیم زمانے کے وفادار آدمیوں اور عورتوں کیساتھ بات کرنا کسقدر ہییجانخیز ہوگا! نوح، ابرہام، اور یوحنا بپتسمہ دینے والے جیسے آدمیوں کیساتھ بات کرنے کی بابت ذرا سوچیں، اسکے علاوہ سارہ، راحب، روت، اور دبورہ جیسی عورتوں کی بابت بھی! کیا آپ انکو طویلالماضی زمانے کے نمایاں واقعات کی چشمدید سرگزشتوں کو بیان کرتے سن کر گرویدہ نہ ہو جائیں گے؟
آجکل بھی، کیا آپ یہ بات سن کر لطفاندوز نہیں ہوتے کہ وفادار بڑی عمر والے اشخاص اس کی بابت تجربات بتاتے ہیں کہ کیسے انہوں نے اور دیگر نے راستبازی کی خاطر آزمائشوں، بشمول پابندیوں، مارپیٹ، اور قیدوبند کے تحت اپنی راستی برقرار رکھی۔ نہایت ہی یقینی طور پر! خدا کیلئے ہماری محبت اور ان کیلئے ہماری توقیر بڑھے گی جب وہ اپنے احساسات اور خاصکر یہوواہ کی پرمحبت نگرانی کیلئے اپنی دلی قدردانی کی بابت بتائیں گے۔
خدا کے لوگوں کے درمیان، وفادار عمررسیدہ مرد اور عورتوں کا ان کے تجربے، علم اور فہم کی وجہ سے ہمیشہ احترام کیا جاتا رہا ہے۔ درحقیقت، خدا کی طرف سے اسرائیلیوں کو دی گئی شریعت میں درجذیل حکم شامل کیا گیا تھا: ”جنکے سر کے بال سفید ہیں تو ان کے سامنے اٹھ کھڑے ہونا اور بڑے بوڑھے کا ادب کرنا اور اپنے خدا سے ڈرنا۔ میں خداوند ہوں۔“ (احبار ۱۹:۳۲) عمر یا بڑھاپے کے لئے عبرانی لفظ اصلی مفہوم ”بوڑھا ہو جانا“ سے آتا ہے اور اس کا ترجمہ ”سفید سر“ بھی کیا جاتا ہے۔ پس اسرائیلیوں سے ایک بوڑھے شخص کیلئے احترام کی علامت کے طور پر کھڑے ہونے کی توقع جاتی تھی، ایسا خدا کی تعظیم میں کیا جانا تھا۔
کیا ایسا باادب رحجان آجکل بھی پایا جاتا ہے؟ مثال کے طور پر، کیا نوجوان لوگ عمررسیدہ لوگوں کیلئے مہربانی سے دروازے کھولتے ہیں؟ کیا نوجوان یا بالغ جوان عموماً ایک بوڑھے شخص کیلئے بھری ہوئی لفٹ میں اپنی جگہ دیتے ہیں؟ یا کیا نوجوان افراد عام طور پر کھچاکھچ بھری ہوئی بس یا ٹرین میں عمررسیدہ لوگوں کیلئے اپنی سیٹ چھوڑ دیتے ہیں؟ مسیحیوں کے درمیان بھی ایسی باتوں میں ناکام ہونے کو دیکھا گیا ہے۔
تاہم، یہوواہ خدا کو خوش کرنے کیلئے، مسیحیوں کو یقیناً اسکے نکتہءنظر کی مطابقت میں کام کرنا چاہئے اور ان کی سوچ، بولچال اور کاموں سے گریز کرنا چاہئے جو ”خودغرض، ماں باپ کے نافرمان، ناشکر، اور نیکی کے دشمن ہیں۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) تو پھر، خدا کا کلام سفید سر والوں کے سلسلے میں نوجوانی کی بابت کیا کہتا ہے؟
جوانی کا زور
بائبل یہ بیان کرتے ہوئے جوانی کی قوت اور اس کے فوائد کو تسلیم کرتی ہے: ”جوانوں کا زور انکی شوکت ہے۔“ (امثال ۲۰:۲۹) قدیم اسرائیل میں نوجوان لاویوں کے زور کو ہیکل میں استعمال کیا گیا تھا، اکثر بہت سے بھاری کاموں کیلئے۔ آجکل، فیکٹریوں میں، بیتایل ہومز میں، اور واچٹاور سوسائٹی کے تعمیراتی پراجیکٹوں پر زیادہتر کام نوجوان مردوں اور عورتوں کے ذریعے کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی قوت اور صلاحیتیں بادشاہتی مفادات کو ترقی دینے کیلئے پیش کی ہیں۔ (متی ۶:۳۳) لہذا وہ خدا کی خدمت میں عمدہ استحقاقات سے استفادہ کرتے ہیں۔
جس مثل کا ابھی حوالہ دیا گیا ان الفاظ کے ساتھ ختم ہوتی ہے، ”اور بوڑھوں کے سفید بال انکی زینت ہیں۔“ جب جوانی کی طاقت، تجربہ اور برسوں کی حکمت کے ساتھ مل جاتی ہے تو ایک مضبوط مرکب تشکیل پاتا ہے۔
مثال دیکر سمجھانے کے لئے: ایک نوجوان اپرنٹس کارپینٹر جسے کچھ منقش تختے لگانے کے لئے کہا گیا ہے وہ جوانی کے جوش کے ساتھ تفویض کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے عمر میں بڑا ایک زیادہ تجربہکار کارپینٹر نوٹ کرتا ہے کہ اسکی قوت کے باوجود، نوجوان ہیلپر کیل پر کئی بار ضربیں لگاتا ہے اس سے پہلے کہ وہ ٹھونکا جائے۔ اس سے عمر میں بڑا کاریگر سفارش کرتا ہے کہ نوجوان ہتھوڑی کو دستہ کے آخر پر سے پکڑے، بجائے اس کے کہ دھات کے سرے کے نزدیک سے۔ وقت اور توانائی کو بچاتے ہوئے، یہ نوجوان شخص کو بڑے زور سے کیل پر ضرب لگانے کے قابل بناتا ہے۔
اسی طرح ایک نوجوان، توانا عورت شاید باربار غلطی کرکے سیکھے کہ کپڑے اگر ہدایات کے مطابق نہیں دھوئے جاتے تو وہ خراب ہو جائیں گے۔ ایک تجربہکار عورت، گویا، کپڑوں کو چھانٹنے اور کچھ جوڑوں کو علیحدہ دھونے کے لئے وقت نکالنے کی قدروقیمت کو جانتی ہے۔ اس نے یہ بھی سیکھا ہے کہ جب وہ کپڑوں کو رسی سے اتار لیتی یا سکھانے کی مشین سے نکال لیتی ہے تو وہ ان کو تہہ کرنے کے ذریعے سے استری کرنے سے بچ سکتی ہے۔
تجربہکار لوگوں سے سیکھنا زندگی کو سہل بنا سکتا ہے۔ تاہم، ایسا وقت آتا ہے جب زیادہ تجربہکار اشخاص بعض کاموں کو نبٹا نہیں سکتے جو یہ مرد یا عورت چند سال پہلے بآسانی سرانجام دیا کرتے تھے۔ ایک مصنف نے مناسب طور پر اظہارخیال کیا: ”اگر جوان جانتے، اور نسبتاً بڑی عمر والے کر سکتے۔“ لیکن یہ کتنا اچھا ہے جب نسبتاً بڑی عمر والے لوگ نوجوانوں کے زور کی قدر کرتے ہیں اور سالوں پر محیط حاصل کیا ہوا تجربہ ان کیساتھ صبر سے بانٹتے ہیں—اور نوجوان فروتنی سے تجاویز کو قبول کرتے ہیں! اس طرح سے، دونوں عمروں کے گروپ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
شانوشوکت حاصل کرنا
محض عمر ہی کافی نہیں ہے۔ ”بڑے آدمی ہی عقلمند نہیں ہوتے اور عمررسیدہ ہی انصاف کو نہیں سمجھتے،“ جوان آدمی الیہو نے کہا۔ (ایوب ۳۲:۹، واعظ ۴:۱۳) سفید سر کی وجہ سے حقیقی قدر پانے کیلئے، ایک عمررسیدہ شخص سستی سے اپنے دنوں کو ٹیلیوژن دیکھتے ہوئے، کھیل کود کی جگہوں پر حاضر ہوتے ہوئے، یا اور طرح سے محض تفریح کرتے ہوئے صرف کرنے کی نسبت اپنی زندگی کے ساتھ زیادہ کچھ کرنا چاہے گا۔ اور بعد کے سالوں میں بھی، عمررسیدہ اشخاص کو مسلسل سیکھنے کی ضرورت ہے۔
بعض لوگ اپنے طریقہ سے کام کرتے ہوئے شیخی بگھارتے ہیں، یا وہ کہتے ہیں: ”تجربہ سب سے بہترین استاد ہے۔“ تاہم، خدا کا کلام مشورہ دیتا ہے: ”دانا آدمی سن کر علم میں ترقی کرے اور فہیم آدمی درست مشورت تک پہنچے۔“ (امثال ۱:۵، مقابلہ کریں ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۱۔) تجربہ ہمیشہ بہترین استاد نہیں ہے، کیونکہ ہم خود وہی کوتاہی کئے بغیر دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ مزیدبرآں ایک مسیحی یہ یاد رکھنا چاہے گا کہ ”سفید سر شوکت کا تاج ہے۔ وہ صداقت کی راہ پر پایا جائے گا۔“ (امثال ۱۶:۳۱) یہوواہ کیلئے وفادار خدمت میں گزاری ہوئی زندگی اسکے نکتہءنظر سے حسین ہے اور اچھے نمونے کے طور پر دوسرے کے احترام کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ بےشک خدا کی بابت سیکھنا اور ”صداقت کی راہ“ میں تجربہ حاصل کرنا زندگی میں جلد شروع کیا جا سکتا ہے اور اسے نہ ختم ہونے والا عمل ہونا چاہئے۔—رومیوں ۱۱:۳۳، ۳۴۔
اس بات کو سویڈن میں سات سال کی عمر کے لڑکے کے سلسلے میں ایک تجربہ سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ اس نے کلیسیا میں تھیوکریٹک منسٹری سکول کے نگہبان سے پوچھا کہ آیا وہ سکول میں شامل ہو جائے۔ سکول کے نگہبان نے پوچھا، ”کیوں؟“ اس پر نوجوان نے جواب دیا: ”کوئی اپنی ساری زندگی بیکار نہیں کھو سکتا!“ (واعظ ۱۲:۱) نوجوان اور عمررسیدہ یکساں کیلئے کیا ہی مثبت مثال!
سفید سر کا احترام کرنا
جدید سوسائٹی میں ایک پریشانکن رحجان جسمانی تندرستی اور کھیلوں کی قابلیت کو زیادہ وقعت دینا اور عمررسیدہ کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ہے۔ کلیسیا میں سفید سر والوں کی جانب مسیحیوں کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟
اس کے بجائے کہ عمررسیدہ مسیحیوں کو نظرانداز کر دیا جائے، ہمیں ان کا لحاظ کرنا اور انکے ساتھ وقت صرف کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر، یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈمہال کے ہفتہواری اجلاس میں، کیا آپ عمررسیدہ اشخاص کو سلام کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ وہ سچمچ نوجوانوں اور دوسروں کے سلام کی قدر کرتے ہیں۔ اور ساتھی ایمانداروں کے مختلف عمر کے گروپوں کے سماجی اجتماعات میں ہونے سے عمررسیدہ اشخاص کسقدر لطفاندوز ہوتے ہیں! اگرچہ ایک نوجوان شادیشدہ جوڑا اپنی عمر کے گروپ کے دوسرے شادیشدہ لوگوں کیساتھ زیادہ باہمی دلچسپیاں رکھتا ہو، ایسے خوشکن اجتماعات پر نسبتاً بڑی عمر والے اشخاص کو شامل کرنا بااجر ہوگا۔—۱-تھسلنیکیوں ۳:۱۲، ۵:۱۵۔
عمررسیدہ اشخاص سے بات کرتے وقت کسقدر بامروت ہونے کی ضرورت ہے! جب اس بڑی عمر والے ایک بھائی نے جس کی یہوواہ کیلئے چالیس سال کی خدمت تھی ایک دفعہ ایک دوسرے بزرگ سے بات کی کہ کیسے اسے کلیسیا میں استعمال کیا جا سکتا ہے، تو اس سے کم عمر والے آدمی نے کہا: ”آپ بہت ہی کم لیاقتیں رکھتے ہیں جو کارآمد ہیں۔“ کیا ہی سخت رائےزنی! نسبتاً بڑی عمر والے بھائی کی توانائی کم تھی جو وہ پہلے کبھی رکھتا تھا، کسی حد تک میدانی خدمتگزاری میں اس کا حصہ کم پڑ چکا ہے، اور نگرانی کے بعض استحقاقات ظاہراً اسکی موجودہ لیاقتوں سے بعید ہیں، پھر بھی، وہ بہت زیادہ کارآمد لیاقتیں رکھتا ہے۔ صداقت کی راہ میں وہ کئی سال کی حاصل کی ہوئی حکمت اور تجربہ رکھتا ہے۔ کیونکہ ایسے عمررسیدہ اشخاص نے بحیثیت بادشاہتی منادوں کے سخت محنت کی، اذیت برداشت کی، مسیحی ذمہداری کے بھاری بوجھ کو اٹھایا، اور دوسروں کو تربیت دی، خدا کے لوگ اب اس کے جذبے کی پُشتپناہی کے ذریعے ایک مضبوط تنظیم سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسلئے، دعا ہے کہ ہم، دانشمند مشیروں، شفیق چرواہوں، اور مؤثر استادوں کے طور پر عمررسیدہ اشخاص کا احترام ظاہر کریں۔
نسبتاً بڑی عمر والے لوگوں کی طرف سے دی گئی تجاویز پر سوچبچار کرنے کی اچھی وجہ ہے۔ مثال کے طور پر، ایک تجربہکار بھائی نے تجویز دی کہ کسی ایک کنگڈمہال کا دروازہ عمارت کی مغرب کی طرف نہ رکھا جائے۔ عمارت کی مبیّنہ خوبصورتی کی بابت زیادہ فکرمند ہونے والے اس سے کم عمر بھائیوں نے اسکی تجویز کی پیروی نہ کی۔ تاہم، کئی سالوں بعد، دروازے کی جگہ تبدیل کرنا پڑی کیونکہ مغرب کی طرف سے لگاتار آندھی اور بارش اس کی خرابی کا باعث بنی تھی۔ تجربہ کی عملی حکمت جمالیاتی عناصر پر زیادہ بھاری تھی۔ اگر نسبتاً کم عمر والے افراد نسبتاً بڑی عمر والوں کی آراء اور عملی حکمت سننے سے ان کا احترام کریں تو اس سے وقت اور پیسے کی خوب بچت ہو سکتی ہے۔ اگر نسبتاً بڑی عمر والے شخص کی تجویز کی پیروی نہیں بھی کی جاتی تو بھی اسے یہ بتا دینے سے اس کا احترام کیا جا سکتا ہے کہ اس پر غور کیا گیا تھا لیکن اور پہلو ایک فیصلے کا باعث بنے۔—مقابلہ کریں امثال ۱:۸۔
آگے دیکھیں، نہ کہ پیچھے
کچھ بڑی عمر والے لوگ یہ خیال کرتے ہیں: ”پرانے وقتوں جیسی کوئی چیز نہیں جب میں اور تم جوان تھے۔“ تاہم، بجائے اس کے کہ گزرے وقتوں کی بابت سوچا جائے، ایسے عمررسیدہ اشخاص کی حوصلہافزائی کی جا سکتی ہے کہ آگے کی طرف اس دن کو دیکھیں جب وہ یا تو آسمانی اجر حاصل کریں گے یا خدا کی بادشاہت کی حکمرانی کے تحت جوانی کی طاقت پھر سے حاصل کریں گے۔ دریںاثناء، عمر کی وجہ سے انکو اپنی حدود سے بھی باخبر ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ واقفیت اور شدید مزاحفہمی بیشقیمت ہیں جب ایک نسبتاً بڑی عمروالے شخص کو خدمت کے استحقاقات سے ظاہراً نظرانداز کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، ہو سکتا ہے کہ کسی نسبتاً بڑی عمر والے بھائی کو سالوں پہلے ڈسٹرکٹ کنونشن پر باقاعدگی سے استعمال کیا جاتا رہا ہو۔ اب بہت سے لائق بزرگ ہیں اور تعلیم دینے کی قابلیتوں والے آدمیوں کا وسیعتر انتخاب موجود ہے۔ اگرچہ نسبتاً جوان، ان بزرگوں نے جوش اور لیاقتوں کو ثابت کیا، اچھی طرح سکھا سکتے ہیں اور مشفقانہ نصیحت دے سکتے ہیں اور دوسروں کی حوصلہافزائی کرنے کے قابل ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۲، ۱۳، ۱-تیمتھیس ۵:۱۷) نتیجتاً ہو سکتا ہے ایک بڑی عمر والا بھائی کنونشن پروگرام میں حصہ نہ پانے کی وجہ سے نظرانداز کیا ہوا محسوس کرے اور اس سے خوش نہ ہو کہ استحقاقات نسبتاً کم عمر والے بزرگوں کو دئے گئے ہیں۔ پھر بھی، انسانی ناکاملیت سے نکلنے والے اس منفی احساس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ درحقیقت، کلیسیا میں تمام نسبتاً بڑی عمر والوں کو یہ بتانے سے ان کی مدد کر سکتے ہیں کہ ان کی ضرورت ہے، ان کی وفاداری کی خاطر ان سے پیار کیا جاتا ہے، اور انکی آراء کی قدر کی جاتی ہے۔
بلاشبہ، ایک نسبتاً بڑی عمر والے شخص کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ساتھی پرستاروں کا احترام کیا جانا چاہئے جیسے کہ وہ چاہے گا کہ اس کا احترام ہو۔ (متی ۷:۱۲، رومیوں ۱۲:۱۰) منفی نکتہءنظر میں مبتلا ہونے اور یہ محسوس کرنے کے بجائے کہ ان کو ان کی عمر کی وجہ سے جبراً ریٹائر کر دیا گیا ہے، نسبتاً بڑی عمر والے اشخاص کو اپنی سالوں کی وفادارانہ خدمت پر شادمان ہونا چاہئے۔ اور یقیناً ہم سب کو شکرگزار ہونا چاہئے کہ یہوواہ کی برکت کے نتیجہ میں، جب ”دوسری بھیڑوں“ کے ہجوم مسیحی تنظیم کی طرف بڑھتے ہیں تو کام کے بوجھ کو بانٹنے اور کلیسیائی ذمہداریوں کو اٹھانے کیلئے لائق نگہبانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔—یوحنا ۱۰:۱۶، یسعیاہ ۶۰:۸، ۲۲، ۲-تیمتھیس ۲:۲۔
درد، کمزور صحت اور دوسرے عناصر کی وجہ سے، سفید سر والے اشخاص بعض اوقات چڑچڑے بن جاتے ہیں۔ یہ کلیسیا یا خاندان کے دوسرے افراد سے سمجھ اور حساس ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ بڑی عمر والے اشخاص مثبت رحجان برقرار رکھنے، دل اور دماغ میں جوان رہنے کی طرف سخت محنت کریں۔ جب یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کے ایک ممبر کا نسبتاً کم عمر والا روم میٹ کچھ سال پہلے بیتایل چھوڑ رہا تھا تو بڑی عمر والے آدمی نے اس سے اچھے متبادل کو تجویز کرنے کیلئے پوچھا اور کہا کہ وہ جوان اور سرگرم رہنے میں اپنی مدد کیلئے ایک نسبتاً کم عمر، پُختہ بھائی کو ترجیح دے گا۔ نسبتاً بڑی عمر والا ممسوح بھائی ریٹائر یا سُست ہونے کی طرف مائل نہ تھا کیونکہ کرنے کے لئے کام باقی ہے۔ آگے دیکھنے اور مثبت نکتہءنظر قائم رکھنے کی کیا ہی عمدہ مثال!
بلاشبہ، ”جوانوں کا زور انکی شوکت ہے اور بوڑھوں کے سفید بال انکی زینت ہیں۔“ یہ کتنا شاندار ہے جب صداقت کی راہ کی جستجو میں نسبتاً کم عمر لوگ اپنی قوتیں اور بڑی عمر والے اشخاص اپنی حکمت استعمال کرتے ہیں! بوڑھے اور جوان مسیحی یکساں طور پر جب وہ متحد ہو کر ”قدیم الایام“ یہوواہ کی سچی پرستش کو فروغ دیتے ہیں تو بڑی خوشی کا تجربہ کرتے ہیں۔—دانیایل ۷:۱۳۔ (۲۷ ۳/۱۵ w۹۳)
[تصویر]
سفید سر والے مسیحیوں کے پاس دوسروں کے فائدے کی خاطر پیش کرنے کیلئے بہت کچھ ہے