تھیوکریسی میں چرواہے اور بھیڑیں
”یہوواہ ہمارا منصف ہے۔ یہوواہ ہمارا آئین دینے والا۔ یہوواہ ہمارا بادشاہ ہے۔ وہی ہم کو بچائیگا۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۲ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
۱. یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ پہلی صدی کے مسیحی اور آجکل کے مسیحی ایک تھیوکریسی ہیں؟
تھیوکریسی کا مطلب خدا کے ذریعے حکمرانی ہے۔ اس میں یہوواہ کے اختیار کو تسلیم کرنا اور زندگی میں جو چھوٹے بڑے فیصلے ہم کرتے ہیں ان میں اسکی ہدایات اور تعلیمات پر عمل کرنا شامل ہے۔ پہلی صدی کی کلیسیا حقیقی تھیوکریسی تھی۔ اس وقت کے مسیحی دیانتداری سے یہ کہہ سکتے تھے: ”خداوند ہمارا حاکم ہے۔ خداوند ہمارا شریعت دینے والا ہے۔ خداوند ہمارا بادشاہ ہے۔“ (یسعیاہ ۳۳:۲۲) ممسوح بقیے کو اپنا مرکزی حصہ بناتے ہوئے، یہوواہ خدا کی تنظیم آجکل ویسی ہی حقیقی تھیوکریسی ہے۔
کن طریقوں سے ہم آجکل تھیوکریٹک ہیں؟
۲. ایک طریقہ کیا ہے جس سے یہوواہ کے گواہ یہوواہ کی حکمرانی کی اطاعت کرتے ہیں؟
۲ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ کی زمینی تنظیم ایک تھیوکریسی ہے؟ کیونکہ وہ جو اس کے رکن ہیں بلاشبہ یہوواہ کی حکمرانی کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور وہ یسوع مسیح کی قیادت کی پیروی کرتے ہیں، جسے یہوواہ نے بادشاہ کے طور پر تختنشین کیا ہے۔ مثال کے طور پر، آخری زمانے میں، عظیمتھیوکریٹ کی طرف سے یسوع کو یہ براہراست حکم دیا جاتا ہے: ”اپنی درانتی چلا کر کاٹ کیونکہ کاٹنے کا وقت آ گیا۔ اسلئے کہ زمین کی فصل بہت پک گئی۔“ (مکاشفہ ۱۴:۱۵) یسوع فرمانبرداری کرتا ہے اور زمین کی کٹائی کا کام سنبھال لیتا ہے۔ گرمجوشی سے خوشخبری کی منادی کرنے اور شاگرد بنانے سے مسیحی اس بڑے کام میں اپنے بادشاہ کی حمایت کرتے ہیں۔ (متی ۲۸:۱۹، مرقس ۱۳:۱۰، اعمال ۱:۸) ایسا کرنے سے وہ عظیمتھیوکریٹ، یہوواہ، کیساتھ بھی کام کرنے والے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۳:۹۔
۳. اخلاقیات کے معاملات میں مسیحی تھیوکریسی کی اطاعت کیسے کرتے ہیں؟
۳ چالچلن میں بھی، مسیحی خدا کی حکمرانی کی اطاعت کرتے ہیں۔ یسوع نے کہا: ”جو سچائی پر عمل کرتا ہے وہ نور کے پاس آتا ہے تاکہ اسکے کام ظاہر ہوں کہ وہ خدا میں کئے گئے ہیں۔“ (یوحنا ۳:۲۱) آجکل، اخلاقی معیاروں پر غیرمختتم مباحثے ہوتے ہیں، لیکن مسیحیوں کے درمیان ایسے مباحثوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ جسے یہوواہ غیراخلاقی کہتا ہے اسے وہ بھی غیراخلاقی خیال کرتے ہیں اور وہ اس سے ایسے کنارہکشی کرتے ہیں جیسے کسی مہلک وبا سے! نیز وہ اپنے خاندانوں کی دیکھ بھال کرتے، اپنے والدین کی فرمانبرداری کرتے، اور اعلی حکام کے تابع رہتے ہیں۔ (افسیوں ۵:۳-۵، ۲۲-۳۳، ۶:۱-۴، ۱-تیمتھیس ۵:۸، ططس ۳:۱) پس وہ خدا کیساتھ ہمآہنگی سے تھیوکریٹک انداز میں کام کرتے ہیں۔
۴. آدم اور حوا اور ساؤل نے کونسے غلط رجحانات دکھائے، اور مسیحی کسطرح سے ایک فرق رجحان دکھاتے ہیں؟
۴ آدم اور حوا نے فردوس کو کھو دیا کیونکہ وہ اپنے لئے خود فیصلے کرنا چاہتے تھے کہ کیا صحیح اور کیا غلط تھا۔ یسوع نے اسکے بالکل برعکس خواہش کی۔ اس نے کہا: ”میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔“ مسیحی بھی اسی چیز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ (یوحنا ۵:۳۰، لوقا ۲۲:۴۲، رومیوں ۱۲:۲، عبرانیوں ۱۰:۷) اسرائیل کے پہلے بادشاہ، ساؤل نے یہوواہ کی فرمانبرداری تو کی—لیکن ایک حد تک۔ اسی وجہ سے اسے رد کیا گیا۔ سموئیل نے اسے بتایا: ”فرمانبرداری قربانی سے اور بات ماننا مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے۔“ (۱-سموئیل ۱۵:۲۲) کیا یہ تھیوکریٹک ہونا ہے کہ شاید منادی کے کام میں یا اجلاس پر حاضری میں باقاعدہ ہونے سے کسی خاص حد تک یہوواہ کی مرضی پر عمل کریں اور پھر بعد میں اخلاقیات کے معاملات میں یا کسی دوسرے طریقے سے مصالحت کر لیں؟ بیشک نہیں! ہم ”پورے دل سے خدا کی مرضی پوری کرنے“ کی سخت کوشش کرتے ہیں۔ (افسیوں ۶:۶، ۱-پطرس ۴:۱، ۲) ساؤل کے برعکس، ہم مکمل طور پر خدا کی حکمرانی کی اطاعت کرتے ہیں۔
ایک جدید تھیوکریسی
۵، ۶. آجکل یہوواہ نوعانسانی کیساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے، اور اس انتظام کیساتھ تعاون کس چیز پر منتج ہوتا ہے؟
۵ ماضی میں، یہوواہ نے خاص اشخاص جیسے کہ نبیوں، بادشاہوں، اور رسولوں کے ذریعے حکمرانی کی اور سچائیوں کو آشکارا کیا۔ آجکل، وہ بات نہیں رہی، کوئی ملہم نبی اور رسول نہیں ہیں۔ اسکی بجائے، یسوع نے کہا کہ اپنی شاہانہ موجودگی کے دوران، وہ پیروکاروں کی ایک وفادار جماعت، ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی نشاندہی کریگا اور اسے اپنے سارے مال کا مختار مقرر کر دیگا۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷، یسعیاہ ۴۳:۱۰) ۱۹۱۹ میں اس نوکر کی شناخت بطور ممسوح مسیحیوں کے بقیہ کے ہو گئی۔ اس وقت سے لیکر، جیسے کہ یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کے ذریعے نمائندگی کی گئی ہے، یہ زمین پر تھیوکریسی کا مرکز رہا ہے۔ پوری دنیا میں، گورننگ باڈی کی نمائندگی برانچ کمیٹیوں، سفری نگہبانوں، اور کلیسیائی بزرگوں کے ذریعے ہوتی ہے۔
۶ تھیوکریٹک تنظیم کیساتھ تعاون تھیوکریسی کی اطاعت کرنے کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ ایسا تعاون عالمی پیمانے پر ”بھائیوں کی پوری برادری“ میں اتحاد اور نظموضبط کا باعث بننتا ہے۔ (۱-پطرس ۲:۱۷، این ڈبلیو ) پھر یہ بات یہوواہ کو خوش کرتی ہے جو ”ابتری کا نہیں بلکہ امن کا خدا ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۴:۳۳۔
تھیوکریسی میں بزرگ
۷. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ مسیحی بزرگ تھیوکریٹک طریقے سے مقرر کئے جاتے ہیں؟
۷ تمام مقررشدہ بزرگ، خواہ انکے اختیار کا مرتبہ کوئی بھی ہو، نگہبان یا بزرگ کے عہدے کیلئے بائبل میں بیانکردہ لیاقتوں پر پورے اترتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱-۷، ططس ۱:۵-۹) مزیربرآں، افسس کے بزرگوں سے مخاطب پولس کے الفاظ تمام بزرگوں پر عائد ہوتے ہیں: ”اپنی اور اس سارے گلہ کی خبرداری کرو جسکا روحالقدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا تاکہ خدا کی کلیسیا کی گلہبانی کرو۔“ (اعمال ۲۰:۲۸) جیہاں، بزرگوں کی تقرری روحالقدس کے ذریعے ہوتی ہے جو یہوواہ خدا کی طرف سے آتی ہے۔ (یوحنا ۱۴:۲۶) انکی تقرری تھیوکریٹک ہے۔ اس کے علاوہ، وہ خدا کے گلہ کی گلہبانی کرتے ہیں۔ گلہ خدا کی ملکیت ہے نہ کہ بزرگوں کی۔ یہ ایک تھیوکریسی ہے۔
۸. آجکل بزرگوں کی عام ذمہداریاں کیا ہیں؟
۸ افسیوں کے نام اپنے خط میں، پولس رسول نے یہ کہتے ہوئے بزرگوں کی عمومی ذمہداریوں کی خاکہکشی کی: ”اور اسی نے بعض کو رسول اور بعض کو نبی اور بعض کو مبشر اور بعض کو چرواہا اور استاد بنا کر دے دیا تاکہ مقدس لوگ کامل بنیں اور خدمتگزاری کا کام کیا جائے اور مسیح کا بدن ترقی پائے۔“ (افسیوں ۴:۱۱، ۱۲) ”مسیح [کے] بدن“ کی ترقی کے ابتدائی دور کیساتھ ہی رسول اور نبی ختم ہو گئے۔ (مقابلہ کریں ۱-کرنتھیوں ۱۳:۸۔) لیکن بزرگ ابھی تک بشارت دینے، گلہبانی کرنے، اور تعلیم دینے کے کام میں بڑے مصروف ہیں۔—۲-تیمتھیس ۴:۲، ططس ۱:۹۔
۹. بزرگوں کو کلیسیا میں خدا کی مرضی کی نمائندگی کرنے کیلئے خود کو کیسے تیار کرنا چاہئے؟
۹ چونکہ تھیوکریسی خدائی حکمرانی ہے، اسلئے اثرآفریں بزرگ پوری طرح سے خدا کی مرضی سے واقف ہیں۔ یشوع کو روزانہ شریعت کو پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ بزرگوں کو بھی باقاعدگی کیساتھ صحائف کا مطالعہ کرنے اور ان سے مشورت حاصل کرنے اور عقلمند اور دیانتدار نوکر کے ذریعے شائعکردہ بائبل لٹریچر سے پوری طرح واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۴، ۱۵) اس میں مینارنگہبانی اور جاگو! رسالے اور دیگر مطبوعات شامل ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ خاص حالتوں میں بائبل اصولوں کا اطلاق کیسے ہوتا ہے۔a تاہم، جبکہ ایک بزرگ کیلئے یہ ضروری ہے کہ واچ ٹاور سوسائٹی کے لٹریچر میں شائعکردہ رہبر خطوط سے واقف ہو اور ان پر عمل کرے تو اسے ان صحیفائی اصولوں سے بھی پوری طرح واقف ہونا چاہئے جو ان رہبر اصولوں کی بنیاد ہیں۔ تب ہی وہ اس حالت میں ہوگا کہ صحیفائی رہبر خطوط کو سمجھداری اور رحمدلی کیساتھ عائد کر سکے۔—مقابلہ کریں میکاہ ۶:۸۔
مسیحی جذبے کیساتھ خدمت کرنا
۱۰. بزرگوں کو کس خراب رجحان سے بچنا چاہئے، اور کس طرح؟
۱۰ تقریباً ۵۵ س۔ع۔ کے سال میں، پولس رسول نے کرنتھس میں کلیسیا کو اپنا پہلا خط لکھا۔ مسائل میں سے ایک مسئلہ جس سے وہ نپٹا اس کا تعلق ان چند اشخاص سے تھا جو کلیسیا میں افضل بننا چاہتے تھے۔ پولس نے لکھا: ”تم تو پہلے ہی سے آسودہ ہو اور پہلے ہی سے دولتمند ہو اور تم نے ہمارے بغیر بادشاہی کی اور کاش کہ تم بادشاہی کرتے تاکہ ہم بھی تمہارے ساتھ بادشاہی کرتے!“ (۱-کرنتھیوں ۴:۸) پہلی صدی س۔ع۔ میں تمام مسیحی یسوع کیساتھ بطور آسمانی بادشاہوں اور کاہنوں کے حکومت کرنے کی امید رکھتے تھے۔ (مکاشفہ ۲۰:۴، ۶) تاہم، ظاہر ہے کہ کرنتھس میں بعض یہ بھول گئے تھے کہ زمین پر مسیحی تھیوکریسی میں بادشاہ نہیں ہیں۔ اس دنیا کے بادشاہوں کی طرح کام کرنے کی بجائے، مسیحی چرواہے فروتنی پیدا کرتے ہیں، ایک ایسی خوبی جو یہوواہ کو خوش کرتی ہے۔—زبور ۱۳۸:۶، لوقا ۲۲:۲۵-۲۷۔
۱۱. (ا) فروتنی کے بعض ممتاز نمونے کیا ہیں؟ (ب) بزرگوں اور تمام دوسرے مسیحیوں کو اپنی بابت کیا نظریہ رکھنا چاہئے؟
۱۱ کیا فروتنی ایک کمزوری ہے؟ ہرگز نہیں! خود یہوواہ کو فروتن بیان کیا گیا ہے۔ (زبور ۱۸:۳۵، این ڈبلیو) اسرائیل کے بادشاہوں نے جنگ میں فوجوں کی راہنمائی کی اور یہوواہ کے تحت قوم پر حکومت کی۔ اسکے باوجود، ہر ایک کو خبردار رہنا تھا کہ ”اسکے دل میں غرور نہ ہو کہ وہ اپنے بھائیوں کو حقیر جانے۔“ (استثنا ۱۷:۲۰) قیامتیافتہ یسوع آسمانی بادشاہ ہے۔ تاہم، جب وہ زمین پر تھا تو اس نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے۔ کیا ہی فروتنی! اور یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ چاہتا تھا کہ اسکے رسول بھی اسی طرح سے فروتن ہوں، اس نے کہا: ”پس جب مجھ خداوند اور استاد نے تمہارے پاؤں دھوئے تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔“ (یوحنا ۱۳:۱۴، فلپیوں ۲:۵-۸) تمام تمجید اور عزت صرف یہوواہ کو ملنی چاہئے نہ کہ کسی انسان کو۔ (مکاشفہ ۴:۱۱) خواہ وہ بزرگ ہیں یا نہیں، تمام مسیحیوں کو یسوع کے الفاظ کی روشنی میں اپنی بابت سوچنا چاہئے: ”ہم نکمے نوکر ہیں۔ جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کیا ہے۔“ (لوقا ۱۷:۱۰) اسکے علاوہ کسی بھی طرح کی سوچ انتھیوکریٹک (خدائی طرزحکومت کے بغیر) ہے۔
۱۲. مسیحی بزرگوں کیلئے محبت کو فروغ دینا ایک نہایت اہم خوبی کیوں ہے؟
۱۲ فروتنی کیساتھ ساتھ، مسیحی بزرگ محبت کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ یوحنا رسول نے محبت کی اہمیت کو واضح کیا جب اس نے کہا: ”جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۸) غیرمشفق افراد تھیوکریٹک نہیں ہیں۔ وہ یہوواہ کو نہیں جانتے۔ خدا کے بیٹے کی بابت بائبل کہتی ہے: ”یسوع ... اپنے ان لوگوں سے جو دنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا۔“ (یوحنا ۱۳:۱) ان ۱۱ آدمیوں سے کلام کرتے ہوئے جو مسیحی کلیسیا میں گورننگ باڈی کا حصہ ہونگے، یسوع نے کہا: ”میرا حکم یہ ہے کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔“ (یوحنا ۱۵:۱۲) محبت سچی مسیحیت کا شناختی نشان ہے۔ یہ شکستہدلوں، غمگینوں، اور روحانی اسیروں کو موہ لیتی ہے جو آزادی کے آرزومند ہیں۔ (یسعیاہ ۶۱:۱، ۲، یوحنا ۱۳:۳۵) بزرگوں کو اسے ظاہر کرنے میں قابلتقلید ہونا چاہئے۔
۱۳. اگرچہ آجکل مسائل مشکل ہو سکتے ہیں تو بھی تمام حالتوں میں ایک بزرگ کیسے مفید اثر ڈال سکتا ہے؟
۱۳ آجکل، اکثر بزرگوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ پیچیدہ مسائل سے نپٹنے میں مدد دیں۔ ازدواجی میں مشکلات گہری اور مستقل نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔ نوجوان لوگوں کے ایسے مسائل ہوتے ہیں جنہیں سمجھنا بالغ شاید مشکل پائیں۔ جذباتی بیماریوں کو بھی اکثر پوری طرح سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے مسائل سے دوچار بزرگ شاید تذبذب میں ہو کہ کیا کرے۔ لیکن وہ اس کا یقین کر سکتا ہے کہ اگر وہ دعا کیساتھ یہوواہ کی حکمت پر تکیہ کرتا ہے، اگر وہ بائبل میں سے اور دیانتدار اور عقلمند نوکر کی شائعکردہ معلومات میں سے تحقیق کرتا ہے، اور اگر وہ بھیڑوں کیساتھ فروتنی سے اور پرمحبت طریقے سے پیش آتا ہے تو وہ بیحد مشکل حالت میں بھی مفید اثر ڈالے گا۔
۱۴، ۱۵. بعض اظہارات کیا ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہوواہ نے اپنے لوگوں کو بہت سے عمدہ بزرگوں سے نوازا ہے؟
۱۴ یہوواہ نے اپنی تنظیم کو ”آدمیوں کو انعام“ کے طور پر دینے سے بکثرت برکت سے نوازا ہے۔ (افسیوں ۴:۸) وقتاً فوقتاً واچٹاور سوسائٹی کو ایسے دل کو گرما دینے والے خطوط ملتے ہیں جو ان فروتن بزرگوں کی طرف سے دکھائی گئی محبت کی شہادت دیتے ہیں جو رحمدلی سے خدا کی بھیڑوں کی گلہبانی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک کلیسیائی بزرگ لکھتا ہے: ”مجھے سرکٹ اوورسئیر کا کوئی ایسا دورہ یاد نہیں پڑتا جس نے مجھے اتنا متاثر کیا ہو یا جس پر ابھی تک کلیسیا میں تبصرہ ہو رہا ہو۔ سفری نگہبان نے بھائیوں کیساتھ پیش آتے وقت تعریف کرنے پر زور دینے کیساتھ ایک مثبت رحجان رکھنے کی اہمیت کو سمجھنے میں میری مدد کی۔“
۱۵ ایک بہن جسے علاج کیلئے ایک دوردراز کلینک تک بہت سفر کرکے جانا پڑتا تھا یوں لکھتی ہے: ”اس پہلی پریشانکن رات کو گھر سے اسقدر دور ایک ہسپتال میں ایک بزرگ سے ملنا کتنا ہمتافزا تھا! اس نے اور دوسرے بھائیوں نے میرے ساتھ کافی وقت گزارا۔ یہاں تک کہ دنیا کے لوگ بھی جو میری حالت سے واقف تھے انہوں نے محسوس کیا کہ ان شفیق اور وفادار بھائیوں کی طرف سے تسلی، دیکھبھال اور دعاؤں کے بغیر میں کبھی بھی نہ بچی ہوتی۔“ ایک اور بہن لکھتی ہے: ”میں آج تک اسلئے زندہ ہوں کہ بزرگوں کی جماعت نے بہت زیادہ افسردہدلی کے خلاف میری کشمکش میں بڑے صبر کیساتھ میری راہنمائی کی تھی۔ ... ایک بھائی اور اسکی بیوی نہیں جانتے تھے کہ مجھے کیا کہیں۔ ... لیکن جس بات نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ اگرچہ وہ پوری طرح اس بات سے واقف نہیں تھے کہ میں کس مصیبت سے گزر رہی ہوں، پھر بھی انہوں نے بڑی محبت کیساتھ میری خبرگیری کی۔“
۱۶. پطرس بزرگوں کو کیا نصیحت کرتا ہے؟
۱۶ جیہاں، بہتیرے بزرگ پطرس رسول کی نصیحت کا اطلاق کر رہے ہیں: ”خدا کے اس گلہ کی گلہبانی کرو جو تم میں ہے۔ لاچاری سے نگہبانی نہ کرو بلکہ خدا کی مرضی کے موافق خوشی سے اور ناجائز نفع کیلئے نہیں بلکہ دلی شوق سے۔ اور جو لوگ تمہارے سپرد ہیں ان پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلہ کیلئے نمونہ بنو۔“ (۱-پطرس ۵:۱-۳) ایسے تھیوکریٹک بزرگ کیا ہی برکت ہیں!
تھیوکریسی میں بھیڑیں
۱۷. بعض ایسی خوبیوں کا ذکر کریں جنہیں کلیسیا کے تمام اراکین کو فروغ دینا چاہئے۔
۱۷ تاہم، تھیوکریسی محض بزرگوں سے ہی نہیں بنتی۔ اگر چرواہوں کو تھیوکریٹک ہونا ہے تو لازم ہے کہ بھیڑیں بھی ایسی ہی ہوں۔ کن طریقوں سے؟ وہی اصول جو چرواہوں کی راہنمائی کرتے ہیں ان ہی سے بھیڑوں کو راہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ نہ صرف بزرگوں کو، بلکہ تمام مسیحیوں کو، فروتن ہونا چاہئے اگر انہوں نے خدا کی برکات حاصل کرنی ہیں۔ (یعقوب ۴:۶) سب کو محبت کو فروغ دینا چاہئے کیونکہ اسکے بغیر یہوواہ کیلئے ہماری قربانیاں اسکو پسند نہیں آتیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۱-۳) اور صرف بزرگوں کو ہی نہیں بلکہ ہم سب کو ”کمال روحانی حکمت اور سمجھ کیساتھ [یہوواہ کی] مرضی کے علم سے معمور ہو [جانا]“ چاہئے۔—کلسیوں ۱:۹۔
۱۸. (ا) سچائی کا محض سطحی علم کافی کیوں نہیں ہے؟ (ب) ہم سب صحیح علم سے کیسے معمور ہو سکتے ہیں؟
۱۸ جوان اور بوڑھوں سب کو یکساں طور پر متواتر کٹھن فیصلوں کا سامنا ہوتا ہے جبکہ وہ شیطان کی اس دنیا میں رہنے کے باوجود وفادار رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لباس، موسیقی، فلمیں اور لٹریچر کے سلسلے میں دنیا کے رجحانات بعض کی روحانیت کیلئے چیلنچ پیش کرتے ہیں۔ اپنے توازن کو برقرار رکھنے میں ہماری مدد کرنے کیلئے سچائی کا سطحی علم کافی نہیں ہے۔ وفادار رہنے کا یقین کرنے کیلئے ہمیں صحیح علم سے معمور ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس سمجھ اور حکمت کی ضرورت ہے جو صرف خدا کا کلام ہی ہمیں دے سکتا ہے۔ (امثال ۲:۱-۵) اسکا مطلب مطالعے کی اچھی عادات کو فروغ دینا، جو کچھ ہم سیکھتے ہیں اس پر غوروخوض کرنا اور پھر اسے عمل میں لانا ہے۔ (زبور ۱:۱-۳، مکاشفہ ۱:۳) پولس نہ صرف بزرگوں کو بلکہ تمام مسیحیوں کو لکھ رہا تھا، جب اس نے کہا: ”سخت غذا پوری عمر والوں کیلئے ہوتی ہے جن کے حواس کام کرتے کرتے نیکوبد میں امتیاز کرنے کیلئے تیز ہو گئے ہیں۔“—عبرانیوں ۵:۱۴۔
چرواہے اور بھیڑیں ملکر کام کرتے ہیں
۱۹، ۲۰. بزرگوں کیساتھ تعاون کرنے کیلئے سب کو کیا نصیحتیں کی گئی ہیں، اور کیوں؟
۱۹ آخر میں، یہ کہا جانا چاہئے کہ حقیقی تھیوکریٹک روح انہی لوگوں کی طرف سے دکھائی جاتی ہے جو بزرگوں کیساتھ تعاون کرتے ہیں۔ پولس نے تیمتھیس کو لکھا: ”جو بزرگ اچھا انتظام کرتے ہیں۔ خاص کر وہ جو کلام سنانے اور تعلیم دینے میں محنت کرتے ہیں دو چند عزت کے لائق سمجھے جائیں۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۱۷، ۱-پطرس ۵:۵، ۶) بزرگ کا مرتبہ ایک شاندار استحقاق ہے، لیکن زیادہ بزرگ خاندان والے ہیں جنہیں ہر روز دنیاوی ملازمت پر جانا ہوتا ہے اور جنہیں بیویوں اور بچوں کی کفالت کرنی ہوتی ہے۔ جبکہ وہ خدمت کرنے سے خوش ہیں، تو بھی انکی خدمت اس وقت زیادہ آسان اور بااجر ہو جاتی ہے جب کلیسیا حمایت کرنے والی ہوتی ہے نہ کہ بہت زیادہ نکتہچین اور تقاضا کرنے والی۔—عبرانیوں ۱۳:۱۷۔
۲۰ پولس رسول نے کہا: ”جو تمہارے پیشوا تھے اور جنہوں نے تمہیں خدا کا کلام سنایا انہیں یاد رکھو اور انکی زندگی کے انجام پر غور کرکے ان جیسے ایماندار ہو جاؤ۔“ (عبرانیوں ۱۳:۷) جینہیں، پولس نے بزرگوں کی پیروی کرنے کیلئے بھائیوں کی حوصلہافزائی نہیں کی تھی۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۱۲) کسی آدمی کی پیروی کرنا تھیوکریٹک نہیں ہے۔ لیکن یقینی طور پر ایک تھیوکریٹک بزرگ کے آزمودہ ایمان کی نقل کرنا دانشمندی ہے جو بشارت کے کام میں سرگرم ہے، جو اجلاس پر باقاعدگی سے حاضر ہوتا ہے اور جو کلیسیا کیساتھ فروتنی اور محبت سے پیش آتا ہے۔
ایمان کی شہادت
۲۱. موسی کی طرح کا مضبوط ایمان مسیحی کیسے ظاہر کرتے ہیں؟
۲۱ واقعی، انسانی تاریخ کے اس نہایت خراب وقت میں تھیوکریٹک تنظیم کا وجود عظیم تھیوکریٹ کی طاقت کی شہادت دیتا ہے۔ (یسعیاہ ۲:۲-۵) یہ تقریباً ان پانچ ملین آدمیوں، عورتوں، اور بچوں کے ایمان کی بھی شہادت دیتا ہے جو روزمرہ زندگی کے مسائل کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں لیکن کبھی بھی یہ نہیں بھولتے کہ یہوواہ انکا حاکم ہے۔ بالکل جیسے وفادار موسی ”اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابت قدم رہا،“ آجکل مسیحی کے بھی ویسا ہی مضبوط ایمان رکھتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۱:۲۷) انہیں تھیوکریسی میں رہنے کا شرف حاصل ہے اور وہ روزانہ اس کیلئے یہوواہ کی شکرگزاری کرتے ہیں۔ (زبور ۱۰۰:۴، ۵) جب وہ یہوواہ کی محفوظ رکھنے والی قوت کا تجربہ کرتے ہیں تو وہ خوشی سے یہ اعلان کرتے ہیں: ”یہوواہ ہمارا منصف ہے۔ یہوواہ ہمارا شریعت دینے والا ہے۔ یہوواہ ہمارا بادشاہ ہے۔ وہی ہم کو بچائیگا۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۲، اینڈبلیو۔ (۱۵ ۱/۱۵ w۹۴)
[فٹنوٹ]
a ایسی اشاعتوں میں سے ایک کتاب ”اپنی اور سارے گلہ کی خبرداری کرو“ (انگریزی) ہے، جس میں صحیفائی راہنمائیاں ہیں اور یہ مقررشدہ کلیسیائی نگہبانوں یا بزرگوں کیلئے فراہم کی گئی ہے۔
بائبل کیا ظاہر کرتی ہے؟
▫ مسیحی کس طرح سے تھیوکریسی کی اطاعت کرتے ہیں؟
▫ آجکل کیسے تھیوکریسی کو منظم کیا گیا ہے؟
▫ بزرگوں کو اپنی ذمہداریوں کو پورا کرنے کیلئے کن طریقوں سے خود کو تیار کرنا چاہئے؟
▫ بزرگوں کیلئے کن مسیحی خوبیوں کو فروغ دینا اور ظاہر کرنا نہایت اہم ہے؟
▫ تھیوکریسی میں، بھیڑوں اور چرواہوں کے درمیان کونسا رشتہ موجود ہونا چاہئے؟
[تصویر]
آدم اور حوا نے فردوس کو کھو دیا کیونکہ وہ صحیح اور غلط کی بابت اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے تھے
[تصویر]
اگر ایک بزرگ بھیڑوں کیساتھ فروتنی سے اور پرمحبت طریقے سے پیش آتا ہے تو وہ ہمیشہ مفید اثر ڈالے گا