کیا آپ اُسی طرح تعلیم دیتے ہیں جیسے یسوؔع نے دی؟
”بِھیڑ اس کی تعلیم سے حیران ہوئی۔ کیونکہ وہ ان کے فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِاختیار کی طرح اُن کو تعلیم دیتا تھا۔“—متی ۷:۲۸، ۲۹۔
۱. جب یسوؔع نے گلیلؔ میں تعلیم دی تو کون اس کے پیچھے ہو لئے، اور یسوؔع کا ردِعمل کیا تھا؟
یسوؔعجہاں کہیں بھی جاتا بِھیڑ اسکے پاس جمع ہو جاتی تھی۔ ”یسوؔع تمام گلیل میں پھرتا رہا اور انکے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی کمزوری دُور کرتا رہا۔“ جونہی اسکی کارگزاریوں کی خبر پھیلی، ”گلیلؔ اور دکپُلِس اور یرؔوشلیم اور یہوؔدیہ اور یرؔدن کے پار سے بِھیڑ اسکے پیچھے ہو لی۔“ (متی ۴:۲۳، ۲۵) انہیں دیکھ کر، ”اُسکو لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جن کا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ تھے۔“ جب وہ تعلیم دیتا تھا تو وہ اُس ترس یا رحم کو محسوس کر سکتے تھے جو اُس نے اُن کیلئے محسوس کِیا؛ یہ اُن کیلئے زخموں پر تسکینبخش مرہم کی طرح تھی جو انہیں اسکے قریب لے آئی۔—متی ۹:۳۵، ۳۶۔
۲. یسوؔع کے معجزات کے علاوہ، کس چیز نے لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کو اس کی طرف متوجہ کِیا؟
۲ یسوؔع نے کیا ہی معجزانہ شفائیں دیں—کوڑھیوں کا پاکصاف کِیا جانا، بہروں کا سننا، اندھوں کا دیکھنا، لنگڑوں کا چلنا، مُردوں کا دوبارہ زندہ کِیا جانا! یقیناً یسوؔع کے ذریعے عمل میں آنے والے یہوؔواہ کی قوت کے یہ شاندار مظاہرے ایک بہت بڑی بِھیڑ کو قریب لے آئے ہونگے! لیکن صرف معجزات ہی ایسے کام نہیں تھے جو انہیں کھینچ لائے؛ بڑے اژدحام اس روحانی شفا کیلئے بھی آتے تھے جو یسوؔع کے تعلیم دینے کے وقت فراہم کی جاتی تھی۔ اُنکے جوابیعمل پر غور کریں، مثال کے طور پر، اسکے مشہور پہاڑی واعظ کو سننے کے بعد اُنکے جوابیعمل پر غور کریں: ”جب یسوؔع نے یہ باتیں ختم کیں تو ایسا ہوا کہ بِھیڑ اس کی تعلیم سے حیران ہوئی۔ کیونکہ وہ انکے فقیہوں کیطرح نہیں بلکہ صاحبِاختیار کیطرح ان کو تعلیم دیتا تھا۔“ (متی ۷:۲۸، ۲۹) انکے ربّی سند کے طور پر قدیم ربّیوں کی زبانی روایات کا حوالہ دیتے تھے۔ یسوؔع انہیں خدا کی طرف سے اختیار کیساتھ تعلیم دیتا تھا: ”پس جو کچھ مَیں کہتا ہوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے اُسی طرح کہتا ہوں۔“—یوحنا ۱۲:۵۰۔
اس کی تعلیم دل تک پہنچی
۳. یسوؔع کے پیغام کی پیشکش فقیہوں اور فریسیوں سے کیسے مختلف تھی؟
۳ یسوؔع کی تعلیم اور فقیہوں اور فریسیوں کی تعلیم کے درمیان نہ صرف مضمون—خدا کی طرف سے سچائی کے مقابلے میں انسان کی طرف سے سخت زبانی روایات—کا ہی فرق تھا بلکہ جس طریقے سے یہ پیش کی گئی تھی وہ بھی فرق تھا۔ فقیہ اور فریسی متکبر اور سخت، غرور سے تعریفی القاب کا تقاضا کرنے والے تھے اور حقارت سے بِھیڑ کو ”لعنتی لوگوں“ کے طور پر رد کر دیتے تھے۔ تاہم، یسوؔع حلیم، فروتن، مہربان، ہمدرد اور اکثر لچکدار تھا اور اُس کو ان پر ترس آتا تھا۔ یسوؔع نے نہ صرف درست الفاظ کے ساتھ سکھایا بلکہ اپنے دل کی گہرائی سے دلکش الفاظ کیساتھ جو براہِراست اس کے سامعین کے دلوں تک پہنچے۔ اسکے خوشکن پیغام نے لوگوں کو اسکی طرف مائل کِیا، انہیں وقت سے پہلے عبادتخانہ پہنچایا تاکہ اسکی سنیں اور انکے اس کے پیچھے پیچھے چلنے اور خوشی سے اسکی سننے کا باعث بنا۔ وہ جوقدرجوق یہ کہتے ہوئے اُسکی باتیں سننے کو آئے: ”انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کِیا۔“—یوحنا ۷:۴۶-۴۹؛ مرقس ۱۲:۳۷؛ لوقا ۴:۲۲؛ ۱۹:۴۸؛ ۲۱:۳۸۔
۴. یسوؔع کی منادی میں بالخصوص کس چیز نے بہتیرے لوگوں کو گرویدہ بنا لیا؟
۴ یقینی طور پر، لوگوں کے اسکی تعلیم کی طرف مائل محسوس کرنے کی ایک وجہ اسکا تمثیلوں کا استعمال تھا۔ یسوؔع نے وہی دیکھا جو دوسرے دیکھتے تھے، لیکن اس نے ان باتوں کی بابت سوچا جنکی بابت انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ کھیتوں میں اُگتے ہوئے سوسن کے پھول، گھونسلے بناتے ہوئے پرندے، اناج بوتے ہوئے آدمی، کھوئی ہوئی بھیڑوں کو واپس لاتے ہوئے چرواہے، پُرانے کپڑوں میں پیوند لگاتی ہوئی عورتیں، بازاروں میں کھیلتے ہوئے بچے، زور لگا کر جال کھینچتے ہوئے ماہیگیر—عام سی چیزیں جو سب کو نظر آتی تھیں—یسوؔع کی نظر میں کبھی عام نہ تھیں۔ اُس نے جہاں کہیں نگاہ دوڑائی، اسے وہ چیز نظر آئی جِسے وہ خدا اور اسکی بادشاہی کی بابت تمثیل دینے کیلئے یا پھر اپنے اردگرد کے انسانی معاشرے کی بابت کسی نکتے کو سمجھانے کیلئے استعمال کر سکتا تھا۔
۵. یسوؔع نے اپنی تمثیلوں کی بنیاد کس چیز پر رکھی، اور کس چیز نے اس کی تمثیلوں کو مؤثر بنایا؟
۵ یسوؔع کی تمثیلیں روزمرّہ کی چیزوں پر مبنی ہیں جنہیں لوگوں نے بارہا دیکھا ہے اور جب سچائیاں ان مانوس چیزوں کے ساتھ وابستہ کی جاتی ہیں تو یہ سامعین کے ذہنوں پر بڑی جلدی اور گہرے طور پر نقش ہو جاتی ہیں۔ ایسی سچائیاں نہ صرف سنی بلکہ ذہن کی آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں اور بعد میں آسانی سے دوبارہ یاد کی جاتی ہیں۔ غیرضروری مواد سے ہٹ کر جو کہ شاید مخل ہو سکتا اور سچائی کی بابت ان کی سمجھ میں رکاوٹ بن سکتا ہے، یسوؔع کی تمثیلوں کی خصوصیت انکی سادگی تھی۔ مثال کے طور پر، ایک ہمسایہپرور سامری کی تمثیل پر غور کریں۔ آپ واضح طور پر سمجھ جاتے ہیں کہ اچھا پڑوسی کون ہے۔ (لوقا ۱۰:۲۹-۳۷) پھر دو بیٹوں کی تمثیل تھی—ایک جس نے کہا کہ وہ تاکستان میں کام کرے گا لیکن کِیا نہیں، دوسرا وہ جس نے کہا کہ وہ نہیں کرے گا لیکن کِیا۔ آپ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ حقیقی فرمانبرداری کی تہہ میں کیا ہے—تفویضشُدہ کام کو کرنا۔ (متی ۲۱:۲۸-۳۱) یسوؔع کی پُرتاثیر تعلیم کے دوران ذہن اُونگھتے یا اِدھراُدھر بھٹکتے نہیں تھے۔ وہ سننے اور دیکھنے کے لئے دونوں طرح سے بہت مصروف رکھے جاتے تھے۔
جب محبت نے اسکی دلالت کی تو یسوؔع جھک گیا
۶. معقول ہونا، یا لچکدار ہونا، خاص طور پر کب فائدہمند ہوتا ہے؟
۶ متعدد بار جب بائبل معقولپسند ہونے کی بات کرتی ہے تو فٹنوٹ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا مطلب لچکدار ہونا ہے۔ خدا کی طرف سے حکمت اس وقت لچکدار ہوتی ہے جب حالات جُرم کی نوعیت کو کم کرنے والے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں معقولپسند، یا لچکدار ہونا پڑتا ہے۔ بزرگوں کو جھک جانے کے لئے رضامند ہونا چاہئے جب محبت اس کی دلالت کرتی اور توبہ اس کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۳؛ یعقوب ۳:۱۷) عام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جب رحم یا ترس نے لچکدار ہونے کا تقاضا کِیا تو یسوؔع نے اس کی شاندار مثالیں قائم کیں۔
۷. یسوؔع کے لچکدار ہونے کی چند مثالیں کونسی ہیں؟
۷ ایک مرتبہ یسوؔع نے کہا: ”جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا انکار کریگا مَیں بھی اپنے باپ کے سامنے جو آسمان میں ہے اُس کا انکار کروں گا۔“ لیکن اس نے پطرؔس کو ردّ نہ کِیا، اگرچہ پطرؔس نے تین مرتبہ اس کا انکار کِیا۔ جُرم کی نوعیت کو کم کرنے والے حالات تھے جنہیں یسوؔع نے واضح طور پر نگاہ میں رکھا۔ (متی ۱۰:۳۳؛ لوقا ۲۲:۵۴-۶۲) اس وقت بھی جُرم کی نوعیت کو کم کرنے والے ایسے حالات تھے جب ناپاک عورت نے جس کا خون جاری تھا بِھیڑ میں گھس آنے سے موسوی شریعت کو توڑا۔ یسوؔع نے اُسے بھی بُرا بھلا نہ کہا۔ وہ اس کی مایوسی کو سمجھ گیا۔ (مرقس ۱:۴۰-۴۲؛ ۵:۲۵-۳۴؛ نیز دیکھیں لوقا ۵:۱۲، ۱۳۔) یسوؔع نے اپنے رسولوں کو بتا دیا تھا کہ مسیحا کے طور پر اسکی شناخت نہ کرائیں، تاہم وہ سختی سے اس قانون سے چِمٹا نہیں رہا جب اس نے کنوئیں پر ایک سامری عورت کے سامنے بطور مسیحا کے اپنی شناخت کرائی۔ (متی ۱۶:۲۰؛ یوحنا ۴:۲۵، ۲۶) ان تمام حالتوں میں، محبت، رحم اور ترس نے جھک جانے کو موزوں بنا دیا۔—یعقوب ۲:۱۳۔
۸. فقیہ اور فریسی کب قوانین پر زور دیتے اور کب نہیں دیتے تھے؟
۸ غیرلچکدار فقیہوں اور فریسیوں کے سلسلے میں یہ مختلف تھا۔ اپنے لئے وہ سبت کی روایات کو توڑ دینگے تاکہ اپنے بیل کو پانی پلا سکیں۔ یا اگر انکا بیل یا بیٹا کنوئیں میں گِر جاتے ہیں تو انہیں باہر نکالنے کے لئے وہ سبت کا قانون توڑ دینگے۔ لیکن عام لوگوں کے لئے وہ بالکل بھی لچک پیدا نہیں کریں گے! وہ ”آپ [تقاضوں کو] اپنی انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے تھے۔“ (متی ۲۳:۴؛ لوقا ۱۴:۵) یسوؔع کے لئے، لوگ قوانین سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے؛ فریسیوں کے لئے قوانین لوگوں سے زیادہ اہم تھے۔
”شریعت کا فرزند“ بننا
۹، ۱۰. واپس یرؔوشلیم آنے پر، یسوؔع کے والدین نے اُسے کہاں پایا، اور یسوؔع کے سوالات کی اہمیت کیا تھی؟
۹ بعض افسوس کرتے ہیں کہ یسوؔع کے لڑکپن کا صرف ایک ہی واقعہ ہے جو کہ درج ہے۔ تاہم بہتیرے اس واقعہ کی بڑی اہمیت کو پہچاننے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے لوقا ۲:۴۶، ۴۷ میں درج ہے: ”تین روز کے بعد ایسا ہوا کہ انہوں نے اُسے ہیکل میں اُستادوں کے بیچ میں بیٹھے ان کی سنتے اور اُن سے سوال کرتے ہوئے پایا۔ اور جتنے اس کی سن رہے تھے اُس کی سمجھ اور اس کے جوابوں سے دنگ تھے۔“ کِؔٹل کی تھیولاجیکل ڈکشنری آف دی نیو ٹسٹامنٹ اس نظریے کو پیش کرتی ہے کہ اس معاملے میں ”سوال کرنے“ کے لئے یونانی لفظ محض ایک لڑکے کا تجسّس ہی نہیں تھا۔ لفظ عدالتی جانچ پڑتال، تفتیش، جرح میں استعمال ہونے والے سوالات، یہانتک کہ مرقس ۱۰:۲ اور ۱۲:۱۸-۲۳ میں بیانکردہ ”فریسیوں اور صدوقیوں کے آزمانے اور پھنسانے والے سوالات“ کی طرف بھی اشارہ کر سکتا ہے۔
۱۰ وہی ڈکشنری مزید کہتی ہے: ”اس استعمال کے پیشِنظر یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آیا . . . [لوقا] ۲:۴۶ زیادہتر لڑکے کے سوالیہ تجسّس کو نہیں بلکہ اس کی بجائے اس کی کامیاب بحثوتکرار کو ظاہر کرتی ہے۔ [آیت] ۴۷ بعد والے نظریے کیساتھ خوب موزوں رہیگی۔“a روتھرؔہم کا ۴۷ آیت کا ترجمہ اسے ایک ڈرامائی مناظرے کے طور پر پیش کرتا ہے: ”اب جتنے اسکی سن رہے تھے اسکی سمجھ اور اُسکے جوابوں سے دنگ تھے۔“ راؔبرٹسن کا ورڈ پکچرز اِن دی نیو ٹسٹامنٹ کہتا ہے کہ ان کی مستقل حیرانگی کا مطلب یہ ہے کہ ”وہ دنگ رہ گئے گویا ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔“
۱۱. مریمؔ اور یوؔسف نے جو کچھ دیکھا اور سنا اس کی بابت اُنکا ردِعمل کیا تھا، اور ایک تھیولاجیکل ڈکشنری کیا خیال پیش کرتی ہے؟
۱۱ بالآخر جب یسوؔع کے والدین ہیکل پہنچے تو ”وہ حیران ہوئے۔“ (لوقا ۲:۴۸) راؔبرٹسن کہتا ہے کہ اس اصطلاح میں یونانی لفظ کا مطلب ہے ”خوفزدہ کرنا، تذبذب میں پڑ جانا۔“ وہ مزید کہتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا، یوؔسف اور مریمؔ اس سے ”خوفزدہ ہو گئے۔“ ایک لحاظ سے، یسوؔع پہلے ہی سے ایک حیرتانگیز اُستاد تھا۔ اور ہیکل میں اس واقعہ کے پیشِنظر، کِؔٹل کی تحقیق یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ”یسوؔع اپنے لڑکپن ہی سے اختلافِرائے کا آغاز کر دیتا ہے جس میں اس کے مخالفوں کو بالآخر شکست تسلیم کرنی پڑیگی۔“
۱۲. کس چیز نے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ یسوؔع کے بعد کے مباحثوں کو ممتاز بنا دیا؟
۱۲ اور آخرکار انہوں نے شکست تسلیم کر لی! سالوں بعد، ایسے ہی سوالات کے ذریعے یسوؔع نے فریسیوں کو شکست دی اور اس دن کے بعد سے ”کسی نے اُس سے سوال کرنے کی جرأت [نہ] کی۔“ (متی ۲۲:۴۱-۴۶) اسی طرح قیامت کے سوال پر اس نے صدوقیوں کا بھی مُنہ بند کر دیا اور ”ان کو اُس سے پھر کوئی سوال کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔“ (لوقا ۲۰:۲۷-۴۰) فقیہوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اُن میں سے ایک کے یسوؔع کے ساتھ بحث کرنے کے بعد، ”پھر کسی نے اُس سے سوال کرنے کی جرأت نہ کی۔“—مرقس ۱۲:۲۸-۳۴۔
۱۳. وہ کیا چیز تھی جس نے ہیکل میں رونما ہونے والے واقعہ کو یسوؔع کی زندگی میں اہم بنا دیا، اور یہ مزید کس آگاہی کی تجویز پیش کرتا ہے؟
۱۳ ہیکل میں یسوؔع اور اُستادوں کے مابین اس واقعہ کو ہی کیوں اس کے لڑکپن سے سنانے کے لئے منتخب کِیا گیا تھا؟ یہ یسوؔع کی زندگی میں ایک نقطۂانقلاب تھا۔ جب وہ تقریباً ۱۲ سال کا تھا تو وہ جیسا کہ یہودی کہتے تھے ”شریعت کا فرزند“ یعنی اس کے تمام مذہبی فریضوں کو پورا کرنے کا ذمہدار بن گیا۔ جب مریمؔ نے اُس ذہنی کوفت کی بابت شکایت کی جو اس نے اُسے اور یوؔسف کو پہنچائی تھی تو اس کے بیٹے کے جواب نے ظاہر کر دیا کہ غالباً وہ اپنی معجزانہ پیدائش اور اپنے مسیحائی مستقبل کی بابت جان چکا تھا۔ یہ اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ براہِراست خدا ہی اس کا باپ تھا: ”تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے؟ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟“ ضمنی طور پر، یہ یسوؔع کے پہلے الفاظ ہیں جو بائبل میں درج کئے گئے ہیں اور یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ زمین پر اپنے بھیجے جانے کے یہوؔواہ کے مقصد سے وہ کسقدر باخبر تھا۔ لہٰذا، یہ سارا ضمنی واقعہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔—لوقا ۲:۴۸، ۴۹۔
یسوؔع بچوں سے پیار کرتا اور اُنکی بات سمجھتا ہے
۱۴. ہیکل میں جواں سال یسوؔع کا واقعہ کن دلچسپ نکات کو نوجوان لوگوں کی توجہ میں لا سکتا ہے؟
۱۴ یہ بیان بالخصوص نوجوان لوگوں کے لئے ہیجانخیز ہوگا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جُوں جُوں وہ سنِبلوغت کی طرف بڑھا یسوؔع نے کتنی مستعدی سے مطالعہ کِیا ہوگا۔ ہیکل میں ربّی اس ۱۲ سالہ ”شریعت کے فرزند“ کی حکمت پر کسقدر دنگ رہ گئے تھے۔ تاہم ابھی تک وہ یوؔسف کیساتھ بڑھئی کی دکان پر کام کرتا تھا، وہ اُسکے اور مریمؔ کے ”تابع رہا“ اور ”خدا کی اور انسان کی مقبولیت میں“ ترقی کرتا گیا۔—لوقا ۲:۵۱، ۵۲۔
۱۵. اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران یسوؔع کیسے نوجوان لوگوں کی حمایت کرتا تھا، اور اس کا آجکل کے نوجوان لوگوں کے لئے کیا مطلب ہے؟
۱۵ اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران یسوؔع نوجوان لوگوں کے لئے بہت زیادہ مددگار تھا: ”لیکن جب سردار کاہنوں اور فقیہوں نے اُن عجیب کاموں کو جو اس نے کئے اور لڑکوں کو ہیکل میں ابنِداؔؤد کو ہوشعنا پکارتے دیکھا تو خفا ہو کر اُس سے کہنے لگے تُو سنتا ہے کہ یہ کیا کہتے ہیں؟ یسوؔع نے اُن سے کہا ہاں۔ کیا تم نے یہ کبھی نہیں پڑھا کہ بچوں اور شِیرخواروں کے مُنہ سے تُو نے حمد کو کامل کرایا؟“ (متی ۲۱:۱۵، ۱۶؛ زبور ۸:۲) وہ آج بھی بالکل اُسی طرح اُن ہزاروں نوجوانوں کا مددگار ہے جو اپنی وفاداری کو قائم رکھتے اور حمد کو کامل کرتے ہیں، ان میں سے بعض نے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر بھی ایسا کِیا ہے!
۱۶. (ا) ایک بچے کو ان کے درمیان کھڑا کرنے سے یسوؔع نے اپنے رسولوں کو کیا سبق سکھایا؟ (ب) یسوؔع کی زندگی میں کس نازک مرحلے پر بھی اس کے پاس بچوں کے لئے وقت تھا؟
۱۶ جب رسولوں نے آپس میں بحث کی کہ بڑا کون ہے تو یسوؔع نے اُن ۱۲ سے کہا: ”اگر کوئی اوّل ہونا چاہے تو وہ سب میں پچھلا اور سب کا خادم بنے۔ اور ایک بچے کو لیکر اُن کے بیچ میں کھڑا کِیا۔ پھر اُسے گود میں لیکر اُن سے کہا جو کوئی میرے نام پر ایسے بچوں میں سے ایک کو قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو کوئی مجھے قبول کرتا ہے وہ مجھے نہیں بلکہ اُسے جس نے مجھے بھیجا ہے قبول کرتا ہے۔“ (مرقس ۹:۳۵-۳۷) مزیدبرآں، جب وہ آخری مرتبہ یرؔوشلیم کو جا رہا تھا تاکہ ہولناک کڑی آزمائش اور موت کا سامنا کرے تو اس نے بچوں کے لئے وقت نکالا: ”بچوں کو میرے پاس آنے دو۔ اُن کو منع نہ کرو کیونکہ خدا کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہے۔“ پھر اُس نے ”انہیں اپنی گود میں لیا اور اُن پر ہاتھ رکھ کر ان کو برکت دی۔“—مرقس ۱۰:۱۳-۱۶۔
۱۷. یسوؔع کے لئے بچوں کا حوالہ دینا آسان کیوں تھا، اور بچوں کو اس کی بابت کیا یاد رکھنا چاہئے؟
۱۷ یسوؔع جانتا ہے کہ بالغوں کی دنیا میں ایک بچے کی مانند بننا کیسا ہے۔ وہ بالغوں کے ساتھ رہا، ان کے ساتھ کام کِیا، ان کے تابع رہنے کا تجربہ کِیا اور اس کے علاوہ اُن کی طرف سے ملنے والے پیار کے گرمجوش اور محفوظ احساس کو بھی محسوس کِیا۔ اَے بچو! یہی یسوؔع آپ کا بھی دوست ہے؛ وہ آپ کی خاطر مرا، اور اگر آپ اس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو آپ ہمیشہ تک زندہ رہینگے۔—یوحنا ۱۵:۱۳، ۱۴۔
۱۸. بالخصوص پریشانی اور سخت خطرے کے اوقات کے دوران ہمیں کونسا ہیجانخیز خیال ذہن میں رکھنا چاہئے؟
۱۸ یسوؔع کے حکم کے مطابق کام کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ یہ دکھائی دے سکتا ہے۔ اَے نوجوانو! وہ آپ کی اور ہر کسی کی مدد کرنے کیلئے ہمیشہ تیار ہے، جیسے کہ ہم متی ۱۱:۲۸-۳۰ میں پڑھتے ہیں: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دونگا۔ میرا جوأ اپنے اُوپر اُٹھا لو [یا ”میرے جوئے کے نیچے آ جاؤ،“ اینڈبلیو فٹنوٹ] اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔ کیونکہ میرا جوأ ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔“ ذرا تصور کریں کہ جب آپ یہوؔواہ کی خدمت کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں تو جوئے کو ملائم اور بوجھ کو ہلکا کرتے ہوئے، یسوؔع آپکے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ ہم سب کیلئے یہ ایک ہیجانخیز خیال ہے!
۱۹. یسوؔع کے تعلیم دینے کے طریقوں کی بابت ہم وقتاًفوقتاً کونسے سوالات پر نظرثانی کر سکتے ہیں؟
۱۹ اُن طریقوں میں سے چند ایک کا اعادہ کرنے کے بعد جن سے یسوؔع نے تعلیم دی، کیا ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ جسطرح اس نے سکھایا ہم بھی اُسی طرح سکھاتے ہیں؟ جب ہم انہیں دیکھتے ہیں جو جسمانی طور پر بیمار ہیں یا روحانی طور پر بھوکے ہیں تو کیا ہم اُنکی مدد کرنے کیلئے جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ کرنے کیلئے رحم سے تحریک پاتے ہیں؟ جب ہم دوسروں کو تعلیم دیتے ہیں تو کیا ہم خدا کا کلام سکھاتے ہیں، یا، فریسیوں کیطرح، کیا ہم اپنے ذاتی نظریات کی تعلیم دیتے ہیں؟ کیا ہم اپنے اردگرد اُن روزمرّہ کی چیزوں کا مشاہدہ کرنے کیلئے چوکس رہتے ہیں جو روحانی سچائیوں کو کچھ واضح کرنے، ذہنی تصویر بنانے، درخشاں کرنے اور دلکش بنانے کیلئے استعمال کی جا سکتی ہیں؟ کیا ہم بعض قوانین کیساتھ سختی سے چمٹے رہنے سے گریز کرتے ہیں، جب حالات کے تحت ایسے قوانین کے اطلاق کو لچکدار بنانے سے، محبت اور رحم کو زیادہ مناسب طریقے سے ظاہر کِیا جاتا ہے؟ اور بچوں کی بابت کیا ہے؟ کیا ہم یسوؔع کی طرح اُن کیلئے ویسی ہی دوستانہ فکر اور پُرمحبت مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنے بچوں کی ویسے ہی مطالعہ کرنے کیلئے حوصلہافزائی کرتے ہیں جیسے یسوؔع نے ایک لڑکے کے طور پر کِیا؟ کیا آپ یسوؔع کی طرح مستقلمزاجی سے کام کرینگے لیکن جسطرح سے مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح تائب اشخاص کو گرمجوشی سے قبول کرنے کیلئے تیار ہونگے؟—متی ۲۳:۳۷۔
۲۰. جب ہم خدا کی خدمت کرتے ہیں تو ہم کونسے پُرمسرت خیال سے خود کو تسلی دے سکتے ہیں؟
۲۰ اگر ہم یسوؔع کی طرح تعلیم دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو یقینی طور پر وہ ہمیں ’اپنے جوئے کے نیچے آنے‘ دے گا۔—متی ۱۱:۲۸-۳۰۔
[فٹنوٹ]
a بیشک، ہمارے پاس یہ یقین کرنے کی ہر وجہ ہے کہ یسوؔع اپنے سے بڑوں کے لئے مناسب احترام کا مظاہرہ کرتا ہوگا، بالخصوص سفید سر والوں اور کاہنوں کے لئے۔—مقابلہ کریں احبار ۱۹:۳۲؛ اعمال ۲۳:۲-۵۔
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ کیوں بِھیڑ یسوؔع کے پاس جمع ہوتی تھی؟
▫ کبھیکبھار یسوؔع بعض قوانین کے سلسلے میں کیوں لچکدار بن گیا؟
▫ یسوؔع کے ہیکل کے اُستادوں سے سوال کرنے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
▫ بچوں کے ساتھ یسوؔع کے برتاؤ سے ہم کونسے سبق سیکھ سکتے ہیں؟