انسانی دُکھ—خدا اسکی اجازت کیوں دیتا ہے؟
انسانی تاریخ کے شروع میں، غم یا درد کے کوئی آنسو نہ تھے۔ انسانی دُکھ کا وجود نہ تھا۔ نسلِانسانی کو ایک کامل آغاز بخشا گیا تھا۔ ”خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔“—پیدایش ۱:۳۱۔
لیکن بعض اعتراض کرتے ہیں، ’باغِعدؔن میں آؔدم اور حوؔا کی داستان محض ایک مجازی کہانی ہے۔‘ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسیحی دنیا کے بہتیرے پادری ایسا کہتے ہیں۔ تاہم، اعلیٰ اختیار کے مالک یسوؔع مسیح نے خود عدؔن میں رونما ہونے والے واقعات کے تاریخی ہونے کی تصدیق کی۔ (متی ۱۹:۴-۶) مزیدبرآں، جس وجہ سے خدا نے انسانی دُکھ کی اجازت دے رکھی ہے اسے سمجھنے کا واحد طریقہ انسانی تاریخ کے ان ابتدائی واقعات کی جانچ کرنا ہے۔
پہلے انسان، آؔدم، کو باغِعدؔن کی نگرانی کرنے کا تسکینبخش کام سونپا گیا تھا۔ نیز، خدا نے اُسکے سامنے اپنے عدنی گھر کو وسیع کرکے خوشی کے ایک عالمگیر باغ کی صورت میں بدل دینے کا نصبالعین رکھا۔ (پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۱۵) اس عظیم کام کو سرانجام دینے میں آؔدم کی مدد کرنے کیلئے، خدا نے اُسے ایک بیاہتا ساتھی، حوؔا، عطا کی اور اُنہیں پھلنے اور بڑھنے اور زمین کو محکوم کرنے کا حکم دیا۔ تاہم، زمین اور نسلِانسانی کیلئے خدا کے مقصد کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے کوئی اَور چیز درکار تھی۔ خدا کی صورت پر بنائے جانے سے انسان آزاد مرضی کا مالک تھا؛ لہٰذا، یہ ضروری تھا کہ انسان کی مرضی خدا کی مرضی سے نہ ٹکرائے۔ ورنہ، کائنات میں بدنظمی پھیل جائیگی اور زمین کو ایک پُرامن انسانی خاندان سے معمور کرنے کا خدا کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
خدا کی حکمرانی کی اطاعت ازخود نہیں تھی۔ اسے انسان کی آزاد مرضی کا ایک پُرمحبت اظہار ہونا تھا۔ مثال کے طور پر، ہم پڑھتے ہیں کہ جب یسوؔع مسیح کو ایک سخت آزمائش کا سامنا ہوا تو اُس نے دعا کی: ”اَے باپ اگر تُو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔“—لوقا ۲۲:۴۲۔
اسی طرح، اس بات کو ثابت کرنے کا انحصار آؔدم اور حوؔا پر تھا کہ آیا وہ خدا کی حکمرانی کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس مقصد کیلئے، یہوؔواہ خدا نے ایک سادہ سی آزمائش کا اہتمام کِیا۔ باغ کے درختوں میں سے ایک کا نام ”نیکوبد کی پہچان کا درخت“ تھا۔ اس نے درست طرزِعمل کے معیاروں کا تعیّن کرنے کیلئے خدا کے حق کی نمائندگی کی۔ شستہ زبان میں، خدا نے اس خاص درخت کے پھل میں سے کھانے کو منع کر دیا۔ اگر آؔدم اور حوؔا نافرمانی کرینگے تو نتیجہ اُنکی موت ہوگا۔—پیدایش ۲:۹، ۱۶، ۱۷۔
انسانی دُکھ کا آغاز
ایک دن خدا کے ایک روحانی بیٹے نے خدا کے حکمرانی کرنے کے طریقے پر اعتراض اُٹھانے کی جرأت کی۔ ایک سانپ کو رابطے کے ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اُس نے حوؔا سے پوچھا: ”کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟“ (پیدایش ۳:۱) یوں حوؔا کے ذہن میں شک کا ایک بیج بو دیا گیا کہ آیا خدا کا حکمرانی کرنے کا طریقہ درست تھا کہ نہیں۔a جواب میں حوؔا نے بالکل درست جواب دیا جو اُس نے اپنے شوہر سے سیکھا تھا۔ تاہم، روحانی مخلوق نے خدا کی تردید کی اور یہ کہتے ہوئے نافرمانی کے نتائج کی بابت جھوٹ بولا: ”تم ہرگز نہ مرو گے۔ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائینگی اور تم خدا کی مانند نیکوبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔“—پیدایش ۳:۴، ۵۔
افسوس کی بات ہے کہ حوؔا اس سوچ میں پڑ جانے سے دھوکا کھا گئی کہ نافرمانی انسانی دُکھ پر نہیں بلکہ بہتر زندگی پر منتج ہوگی۔ جتنا زیادہ اُس نے پھل کو دیکھا وہ اُتنا ہی زیادہ مرغوب دکھائی دیا اور اُس نے اُسے کھانا شروع کر دیا۔ بعد میں، اُس نے آؔدم کو بھی اسے کھانے کیلئے قائل کر لیا۔ المناک بات یہ ہے کہ آؔدم نے خدا کی نسبت اپنی بیوی کی خوشنودی حاصل رکھنے کا انتخاب کِیا۔—پیدایش ۳:۶؛ ۱-تیمتھیس ۲:۱۳، ۱۴۔
اس بغاوت کی ترغیب دینے سے روحانی مخلوق نے خود کو خدا کا ایک مخالف بنا لیا۔ یوں وہ شیطان کہلانے لگا جو عبرانی لفظ سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے ”مخالفت کرنے والا۔“ خدا کی بابت جھوٹ بھی بولنے سے اس نے خود کو تہمتی بنا لیا۔ لہٰذا، وہ ابلیس بھی کہلاتا ہے جو ایک یونانی لفظ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ”تہمت لگانے والا۔“—مکاشفہ ۱۲:۹۔
یوں، انسانی دُکھ کا آغاز ہوا۔ اپنے خالق کی مخالفت میں ایک خودغرضانہ طرزِزندگی کا انتخاب کرتے ہوئے، خدا کی مخلوقات میں سے تین نے اپنی آزاد مرضی کی بخشش کا غلط استعمال کِیا۔ اب سوال یہ اُٹھا کہ خدا کیسے ایک منصفانہ انداز میں اس بغاوت کے ساتھ نپٹے گا جو اُسکی باقی ذیشعور مخلوق کے اعتماد کو بحال رکھیگا جس میں آسمان میں وفادار فرشتگان اور آؔدم اور حوؔا کی آئندہ نسلیں شامل ہیں؟
خدا کا دانشمندانہ جوابیعمل
بعض شاید بحث کریں کہ اگر خدا شیطان، آؔدم اور حوؔا کو فوراً ہلاک کر دیتا تو یہ بہت اچھا ہوتا۔ لیکن اس نے بغاوت کے ذریعے اُٹھنے والے مسائل حل نہ کئے ہوتے۔ شیطان نے یہ تجویز پیش کرتے ہوئے خدا کے طرزِحکومت پر اعتراض کِیا تھا کہ انسان خدا کی حکمرانی سے آزاد ہو کر زیادہ بہتر ہونگے۔ نیز، پہلے دو انسانوں کو خدا کی حکمرانی کے خلاف کر دینے میں اُسکی کامیابی نے دیگر متنازع مسائل بھی کھڑے کر دئے۔ چونکہ آؔدم اور حوؔا نے گناہ کِیا تو کیا اسکا یہ مطلب تھا کہ انسان کو خلق کرنے کے خدا کے طریقے میں کوئی خرابی تھی؟ کیا خدا زمین پر کوئی ایسا شخص رکھ سکے گا جو اُسکا وفادار رہیگا؟ اور یہوؔواہ کے ملکوتی بیٹوں کی بابت کیا ہے جنہوں نے شیطان کی بغاوت کو دیکھا تھا؟ کیا وہ اسکی حاکمیت کی راستبازی کو سربلند رکھینگے؟ ظاہر ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے کافی وقت درکار تھا۔ اس وجہ سے خدا نے شیطان کو ہمارے زمانے تک قائم رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
جہاں تک آؔدم اور حوؔا کا تعلق ہے تو اُنکی نافرمانی کے دن سے ہی خدا نے اُنکو موت کی سزا دے دی۔ یوں مرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ اُنکی نسلوں نے جو آؔدم اور حوؔا کے گناہ کرنے کے بعد پیدا ہوئیں، اپنے ناکامل والدین سے گناہ اور موت کو ورثے میں پایا۔—رومیوں ۵:۱۴۔
شیطان نے پہلے دو انسانوں کی حمایت حاصل کر کے مسئلے کا آغاز کِیا۔ اُس نے آؔدم کی تمام اولاد کو اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کرنے کیلئے دئے گئے اپنے وقت کو استعمال کر لیا ہے۔ وہ کئی ایک فرشتوں کو اپنی بغاوت میں شریک ہونے کی ترغیب دینے میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، خدا کے ملکوتی بیٹوں کی اکثریت نے یہوؔواہ کی حکمرانی کی راستبازی کو وفاداری سے سربلند رکھا ہے۔—پیدایش ۶:۱، ۲؛ یہوداہ ۶؛ مکاشفہ ۱۲:۳، ۹۔
زیرِبحث مسئلہ خدا کی حکمرانی بمقابلہ شیطان کی حکمرانی تھا، ایک ایسا مسئلہ جو اؔیوب کے دنوں میں بھی زوروں پر تھا۔ اس وفادار آدمی نے اپنے چالچلن سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ خدا کی راست حکمرانی کو شیطانی خودمختاری پر ترجیح دیتا ہے، جیسا کہ ہاؔبل، حنوؔک، نوؔح، اؔبرہام، اؔضحاق، یعقوؔب اور یوؔسف جیسے خداترس آدمی پہلے ہی کر چکے تھے۔ اؔیوب خدا کے وفادار فرشتوں کے سامنے آسمان پر واقع ہونے والی گفتگو کا موضوع بن گیا۔ خدا نے اپنی راست حکومت کی حمایت میں شیطان سے کہا: ”کیا تُو نے میرے بندہ اؔیوب کے حال پر بھی کچھ غور کِیا؟ کیونکہ زمین پر اُسکی طرح کامل اور راستباز آدمی جو خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں۔“—ایوب ۱:۶-۸۔
شیطان نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے، یہ دعویٰ کِیا کہ چونکہ خدا نے اؔیوب کو مادی خوشحالی سے بکثرت نوازا ہے اسلئے اؔیوب محض خودغرضانہ وجوہات کے باعث خدا کی خدمت کرتا ہے۔ لہٰذا شیطان نے الزام لگایا: ”پر تُو ذرا اپنا ہاتھ بڑھا کر جو کچھ اُسکا ہے اُسے چھو ہی دے تو کیا وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفیر نہ کریگا؟“ (ایوب ۱:۱۱) شیطان خدا کی تمام مخلوقات کی راستی پر اعتراض اُٹھاتے ہوئے اس سے بھی آگے بڑھ گیا۔ ”انسان اپنا سارا مال اپنی جان کیلئے دے ڈالیگا،“ اُس نے الزام لگایا۔ (ایوب ۲:۴) نہ صرف اؔیوب ہی بلکہ آسمان اور زمین پر خدا کے تمام وفادار پرستار اس بہتانآمیز حملے کی زد میں تھے۔ شیطان نے دلالت کی کہ اگر اُنکی زندگیاں خطرے میں ہوں تو وہ یہوؔواہ کے ساتھ اپنے رشتے کو ترک کر دینگے۔
یہوؔواہ خدا کو اؔیوب کی راستی پر پورا اعتماد تھا۔ اسکا ثبوت دیتے ہوئے، اُس نے شیطان کو اؔیوب پر انسانی دُکھ لانے کی اجازت دے دی۔ اپنی وفاداری سے اؔیوب نے نہ صرف اپنے نام کو بریالذمہ قرار دیا بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اُس نے یہوؔواہ کی حاکمیت کی راستبازی کو سربلند کِیا۔ ابلیس جھوٹا ثابت ہو گیا تھا۔—ایوب ۲:۱۰؛ ۴۲:۷۔
تاہم، آزمائش کے تحت وفاداری کا بہترین نمونہ یسوؔع مسیح تھا۔ خدا نے آسمان سے اس ملکوتی بیٹے کی زندگی ایک کنواری کے رحم میں منتقل کر دی تھی۔ اسلئے یسوؔع نے گناہ اور ناکاملیت کو ورثے میں نہ پایا۔ اسکی بجائے وہ ایک کامل آدمی کے طور پر جوان ہوا جو پہلے آدمی کے بالکل مساوی تھا اس سے پیشتر کہ اُس نے اپنی کاملیت کھو دی۔ شیطان نے یسوؔع پر بہت سے امتحان اور آزمائشیں لانے سے، اس کو خاص نشانہ بنایا جو ایک شرمناک موت میں انتہا کو پہنچیں۔ لیکن شیطان یسوؔع کی راستی کو توڑنے میں ناکام ہو گیا۔ ایک مکمل طریقے سے، یسوؔع نے اپنے باپ کی حکمرانی کی راستبازی کو قائم رکھا۔ اُس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ کامل انسان آؔدم کے پاس شیطان کی بغاوت میں شریک ہونے کیلئے کوئی عُذر نہیں تھا۔ آؔدم اپنے نہایت معمولی امتحان میں وفادار رہ سکتا تھا۔
اَور کیا کچھ ثابت کر دیا گیا ہے؟
آؔدم اور حوؔا کی بغاوت کے وقت سے لیکر انسانی دُکھ کے تقریباً ۶،۰۰۰ سال گزر چکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران خدا نے نسلِانسانی کو حکومت کی مختلف اقسام کو آزمانے کی اجازت دی ہے۔ انسانی دُکھ کا خوفناک ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ انسان خود سے حکومت کرنے کے لائق نہیں ہے۔ دراصل، زمین کے بیشتر علاقوں میں اب بدنظمی عام ہے۔ خدا سے خودمختاری، جسکی شیطان نے تائید کی، آفترساں ہے۔
یہوؔواہ کو اپنے لئے کسی بھی چیز کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جانتا ہے کہ اُسکا طرزِحکومت راست اور اُسکی مخلوقات کے بہترین مفادات میں ہے۔ تاہم، شیطان کی بغاوت کے ذریعے اُٹھائے گئے سوالات کا تسلیبخش جواب دینے کیلئے، اُس نے اپنی ذیشعور مخلوقات کو اُسکی راست حکمرانی کیلئے اپنی ترجیح ظاہر کرنے کا موقع عطا کِیا ہے۔
خدا سے محبت کرنے اور اُسکے وفادار رہنے کے اجر شیطان کے ہاتھوں دُکھ اُٹھانے کی عارضی مدت سے کہیں زیادہ قدروقیمت رکھتے ہیں۔ اؔیوب کا معاملہ اس بات کو سمجھاتا ہے۔ یہوؔواہ خدا نے اؔیوب کو اُس بیماری سے شفا بخشی جو شیطان اُس پر لایا تھا۔ مزیدبرآں، خدا نے ”اؔیوب کے آخری ایام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی۔“ بالآخر، زندگی میں ۱۴۰ سال کی توسیع کے بعد، ”اؔیوب نے بڈھا اور عمررسیدہ ہو کر وفات پائی۔“—ایوب ۴۲:۱۰-۱۷۔
مسیحی بائبل نویس یعقوؔب یہ کہتے ہوئے اس معاملے پر توجہ مبذول کراتا ہے: ”آپ نے اؔیوب کی برداشت کی بابت تو سنا ہی ہے اور یہوؔواہ کی طرف سے جو اسکا انجام ہوا اُسے بھی دیکھ لیا ہے کہ یہوؔواہ بڑا شفیق اور دردمند ہے۔“—یعقوب ۵:۱۱، اینڈبلیو، فٹنوٹ۔
شیطان اور اُسکی دنیا کیلئے وقت اب ختم ہو گیا ہے۔ جلد ہی، خدا نسلِانسانی پر شیطان کی بغاوت کے ذریعے لائے گئے تمام دُکھ کو بدل دے گا۔ مردے بھی زندہ ہو جائینگے۔ (یوحنا ۱۱:۲۵) پھر، اؔیوب جیسے وفادار انسانوں کو فردوسی زمین پر ابدی زندگی حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ مستقبل کی یہ برکات جو خدا اپنے خادموں پر نچھاور کریگا ہمیشہ کیلئے اُسے ایک ایسے راست حاکمِاعلیٰ کے طور پر سرفراز کرینگی جو یقیناً ”بڑا شفیق اور دردمند ہے۔“ (۴ ۱۱/۱ w۹۴)
[فٹنوٹ]
a ۲۰ ویں صدی کے اوائل کے ایک وکیل اور مصنف فلپؔ مورو نے، جس نے اپنے مباحثے ”بدکاری کا مصدر“ میں اس مسئلے کا جائزہ لیا، یہ نتیجہ اخذ کِیا کہ ”نوعِانسانی کی تمام مصیبت کی وجہ“ یہی تھی۔