”بڑی مصیبت“ سے پہلے تحفظ کیلئے بھاگ جانا
”جب تُم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گِھرا ہوا دیکھو . . . جو یہوؔدیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔“—لوقا ۲۱:۲۰، ۲۱۔
۱. جو ابھی تک دُنیا کا حصہ ہیں اُن کیلئے بھاگ جانا کیوں اشد ضروری ہے؟
اُن سب کے لئے جو شیطان کی دُنیا کا حصہ ہیں، بھاگ جانا اشد ضروری ہے۔ موجودہ نظامالعمل کے خاتمے کے وقت اگر اُنہیں بچنا ہے تو اُنہیں اس بات کا ٹھوس ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ اُنہوں نے یہوؔواہ کی حمایت میں مضبوط مؤقف اختیار کِیا ہے اور اب وہ اس دُنیا کا حصہ نہیں ہیں جس کا سردار شیطان ہے۔—یعقوب ۴:۴؛ ۱-یوحنا ۲:۱۷۔
۲، ۳. متی ۲۴:۱۵-۲۲ میں مرقوم یسوؔع کے الفاظ کی مطابقت میں ہم کن سوالات پر باتچیت کرینگے؟
۲ اس دستورالعمل کے خاتمے کے سلسلے میں، اپنی عظیم پیشینگوئی میں یسوؔع نے اس طرح بھاگنے کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ متی ۲۴:۴-۱۴ میں جوکچھ درج ہے ہم اکثر اُس پر باتچیت کرتے ہیں؛ تاہم، جوکچھ اس کے بعد ہونے والا ہے وہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ ہم آپ کی حوصلہافزائی کرتے ہیں کہ اب اپنی بائبل کھولیں اور ۱۵ تا ۲۲ آیات کو پڑھیں۔
۳ اس پیشینگوئی کا کیا مطلب ہے؟ پہلی صدی میں، ”اُجاڑنے والی مکروہ چیز“ کیا تھی؟ اس کا ”مُقدس مقام“ میں کھڑا ہونا کس چیز کا پیشخیمہ تھا؟ اس کا انکشاف ہمارے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے؟
”پڑھنے والا سمجھ لے“
۴. (ا) دانیایل ۹:۲۷ نے کیا بیان کِیا کہ یہودیوں کے مسیحا کو رد کرنے کے بعد کیا واقع ہوگا؟ (ب) اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے، یسوؔع نے واضح طور پر، کیوں کہا کہ ”پڑھنے والا سمجھ لے“؟
۴ غور کریں کہ یسوؔع نے متی ۲۴:۱۵ میں اُس چیز کا حوالہ دیا جو دانیایل کی کتاب میں تحریر تھی۔ اُس کتاب کے ۹ویں باب میں ایک پیشینگوئی موجود ہے جس نے مسیحا کی آمد اور اُس سزا کی بابت قبلازوقت بیان کر دیا جو اُسے رد کرنے کی وجہ سے یہودی قوم پر آئیگی۔ ۲۷ویں آیت کا آخری حصہ بیان کرتا ہے: ”اور فصیلوں پر اُجاڑنے والی مکروہات رکھی جائیں گی۔“ ابتدائی یہودی روایت نے دانیؔایل کی پیشینگوئی کے اس حصے کا اطلاق دوسری صدی ق.س.ع. میں انطاکسؔ چہارم کے ذریعے یرؔوشلیم میں یہوؔواہ کی ہیکل کے بےحرمت کئے جانے پر کِیا۔ لیکن یسوؔع نے آگاہ کِیا: ”پڑھنے والا سمجھ لے۔“ انطاکسؔ چہارم کے ذریعے ہیکل کی بےحرمتی، اگرچہ واقعی نفرتانگیز تھی، توبھی—یرؔوشلیم، ہیکل، یا یہودی قوم کی بربادی پر منتج نہ ہوئی۔ پس یسوؔع بدیہی طور پر اپنے سامعین کو آگاہ کر رہا تھا کہ اس کی تکمیل ماضی میں نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی مستقبل میں ہونی تھی۔
۵. (ا) انجیل کے بیانات کا موازنہ پہلی صدی کی ”مکروہ چیز“ کی شناخت کرنے میں کیسے ہماری مدد کرتا ہے؟ (ب) سیسٹیئسؔ گیلس ۶۶ س.ع. میں کیوں رومی فوجوں کو یرؔوشلیم پر چڑھا لایا؟
۵ وہ ”مکروہ چیز“ کیا تھی جس کی بابت اُنہیں خبردار رہنا تھا؟ یہ بات قابلِغور ہے کہ متیؔ کا بیان کہتا ہے: ”جب تم اُس اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو . . . مُقدس مقام میں کھڑا ہوا دیکھو۔“ تاہم، لوقا ۲۱:۲۰ کا متوازی بیان یوں پڑھا جاتا ہے: ”جب تم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گِھرا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ اُسکا اُجڑ جانا نزدیک ہے۔“ ۶۶ س.ع. میں، یرؔوشلیم میں رہنے والے مسیحیوں نے اُس چیز کی تکمیل کو دیکھا جس کی پیشینگوئی یسوؔع کر چکا تھا۔ سلسلہوار واقعات جن میں یہودی اور رومی اہلکاروں کے درمیان جھگڑے شامل تھے یرؔوشلیم کو رؔوم کے خلاف بغاوت کا مرکز بنانے کا باعث بنے۔ نتیجتاً، یہوؔدیہ، ساؔمریہ، گلیلؔ، دِکپُلِسؔ اور فینیکےؔ، سوؔریہ کے شمال اور مصرؔ کے جنوب میں بلوے شروع ہو گئے۔ رومی سلطنت کے اُس حصے میں امن بحال کرنے کیلئے، سیسٹیئسؔ گیلس سوؔریہ سے یرؔوشلیم پر فوجیں چڑھا لایا، جسکا یہودی اپنے ”مُقدس شہر“ کے طور پر ذکر کرتے تھے۔—نحمیاہ ۱۱:۱؛ یسعیاہ ۵۲:۱۔
۶. یہ کیسے سچ تھا کہ ”مکروہ چیز“ جو بربادی کا باعث بن سکتی تھی ”مُقدس مقام میں کھڑی تھی“؟
۶ رومی لشکروں کیلئے یہ جھنڈے یا پرچم اُٹھانا عام بات تھی، جنہیں وہ مُقدس خیال کرتے تھے لیکن یہودی اُنہیں بُتپرستانہ خیال کرتے تھے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ عبرانی لفظ جسکا ترجمہ دانیایل کی کتاب میں ”مکروہ چیز“ کِیا گیا ہے بنیادی طور پر بُتوں اور بُتپرستی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔a (استثنا ۲۹:۱۷) یہودیوں کی مزاحمت کے باوجود، نومبر ۶۶ س.ع. میں، رومی فوجیں اپنے بُتپرستانہ نشان اُٹھائے ہوئے یرؔوشلیم میں داخل ہو گئیں اور اسکے بعد شمال کی جانب ہیکل کی دیوار کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔ اسکی بابت کوئی شُبہ نہیں تھا—”مکروہ چیز“ جو یرؔوشلیم کو مکمل طور پر اُجاڑنے کا سبب بن سکتی تھی ”مُقدس مقام“ میں کھڑی تھی! لیکن کوئی کیسے بھاگ سکتا تھا؟
بھاگ جانا اشد ضروری تھا!
۷. رومی فوج نے غیرمتوقع طور پر کیا کِیا؟
۷ جب یہ دکھائی دے رہا تھا کہ یرؔوشلیم کو بآسانی فتح کِیا جا سکتا ہے تو رومی فوجیں اچانک اور انسانی نقطۂنظر سے بغیر کسی وجہ کے واپس چلی گئیں۔ باغی یہودیوں نے پسپا ہونے والے رومی لشکر کا، یرؔوشلیم سے کوئی ۵۰ کلومیٹر دُور، انتیپترؔس تک تعاقب کِیا۔ اسکے بعد وہ واپس لوٹ آئے۔ واپس یرؔوشلیم پہنچنے پر، وہ جنگ کی بابت اپنی حکمتِعملی کی منصوبہسازی کرنے کیلئے ہیکل میں جمع ہوئے۔ نوجوانوں کو قلعہبندی کو مضبوط کرنے اور فوج میں ملازمت کیلئے بھرتی کِیا گیا۔ کیا مسیحی اس میں شامل ہونگے؟ اگر وہ اس سے گریز بھی کرتے ہیں تو جب رومی فوجیں واپس لوٹتی ہیں تو کیا وہ پھربھی خطرے والے علاقے میں ہونگے؟
۸. یسوؔع کے نبوّتی الفاظ کی فرمانبرداری میں مسیحیوں نے کونسی فوری کارروائی کی؟
۸ یرؔوشلیم اور تمام یہوؔدیہ کے مسیحیوں نے فوری طور پر یسوؔع کی طرف سے دی جانے والی آگاہی پر عمل کِیا اور خطرے والے علاقے سے بھاگ گئے۔ فرار ہونا اشد ضروری تھا! جلد ہی وہ پہاڑی علاقے میں بھاگ گئے، غالباً بعض پیرؔیا کے صوبے میں پیلاؔ میں آباد ہو گئے۔ جنہوں نے یسوؔع کی آگاہی پر دھیان دیا، اُنہوں نے مالی اثاثے بچانے کیلئے احمقانہ طور پر واپس جانے کی کوشش نہ کی۔ (مقابلہ کریں لوقا ۱۴:۳۳۔) ان حالات کے تحت یرؔوشلیم سے رخصت ہوتے ہوئے، یقینی طور پر حاملہ عورتوں اور دُودھ پلانے والی ماؤں کو پیدل یہ سفر طے کرنا مشکل لگا تھا۔ سبت کے دن کی پابندیاں اُن کے بھاگ جانے کی راہ میں رُکاوٹ نہیں بنی تھیں، اور اگرچہ موسمِسرما قریب تھا، لیکن یہ ابھی تک شروع نہیں ہوا تھا۔ جنہوں نے فوری طور پر یسوؔع کی بھاگ جانے کی آگاہی پر دھیان دیا وہ جلد ہی بحفاظت یرؔوشلیم اور یہوؔدیہ سے باہر نکل گئے۔ اُن کی زندگیوں کا انحصار اسی چیز پر تھا۔—مقابلہ کریں یعقوب ۳:۱۷۔
۹. رومی فوجیں کتنی جلدی واپس لوٹیں اور کس نتیجے کیساتھ؟
۹ اگلے ہی سال، ۶۷ س.ع. میں، رومیوں نے یہودیوں کے خلاف ازسرِنو جنگی کارروائیاں شروع کر دیں۔ پہلے گلیلؔ کو زیر کِیا گیا۔ اگلے سال یہوؔدیہ کو تباہوبرباد کر دیا گیا۔ ۷۰ س.ع. تک، رومی فوجوں نے یرؔوشلیم کا بھی محاصرہ کر لیا۔ (لوقا ۱۹:۴۳) قحط انتہائی شدت اختیار کر گیا۔ جو لوگ شہر میں پھنس گئے تھے اُنہوں نے ایک دوسرے پر حملہ کر دیا۔ جس کسی نے فرار ہونے کی کوشش کی اُسے قتل کر دیا گیا۔ جس چیز کا اُنہوں نے تجربہ کِیا، وہ یسوؔع کے بیان کے مطابق ”بڑی مصیبت تھی۔“—متی ۲۴:۲۱۔
۱۰. اگر ہم بصیرت کیساتھ پڑھتے ہیں تو ہم اَور کس چیز پر غور کرینگے؟
۱۰ جوکچھ یسوؔع نے پیشینگوئی کی تھی کیا یہ اُسکی مکمل تکمیل تھی؟ نہیں، اور بہت کچھ ہونے والا تھا۔ جیسے یسوؔع نے نصیحت کی تھی، اگر ہم بصیرت کیساتھ صحائف کا مطالعہ کرتے ہیں تو جوکچھ ابھی ہونے والا ہے ہم اُس پر دھیان دینے میں ناکام نہیں ہونگے۔ نیز ہم اپنی نجی زندگیوں میں اسکے اطلاق کی بابت بھی سنجیدگی سے غور کرینگے۔
جدید زمانے کی ”مکروہ چیز“
۱۱. کونسے دیگر دو بیانات میں دانیؔایل ”مکروہ چیز“ کا حوالہ دیتا ہے اور یہاں کس وقتی میعاد پر باتچیت کی جا رہی ہے؟
۱۱ غور کریں کہ جوکچھ ہم نے دانیایل ۹:۲۷ میں دیکھا ہے، اس ”اُجاڑنے والی مکروہ چیز“ کی بابت دانیایل ۱۱:۳۱ اور ۱۲:۱۱ میں، مزید حوالے موجود ہیں۔ ان مابعدی واقعات میں کہیں پر بھی یرؔوشلیم کی بربادی کی بابت باتچیت نہیں کی گئی ہے۔ درحقیقت، جوکچھ دانیایل ۱۲:۱۱ میں کہا گیا صرف دو آیات بعد ”آخری زمانے“ کی بابت حوالے میں نظر آتا ہے۔ (دانیایل ۱۲:۹) ۱۹۱۴ سے لیکر ہم اسی طرح کے وقت میں رہ رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں جدید زمانے کی ”اُجاڑنے والی مکروہ چیز“ کی شناخت کرنے کی بابت چوکس رہنے اور اسکے بعد اس بات کا یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم خطرے والے اس علاقے سے باہر نکل آئیں۔
۱۲، ۱۳. لیگ آف نیشنز کو جدید زمانے کی ”مکروہ چیز“ کے طور پر بیان کرنا کیوں مناسب ہے؟
۱۲ جدید زمانے کی یہ ”مکروہ چیز“ کیا ہے؟ شہادت لیگ آف نیشنز کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس نے دُنیا کے اپنے خاتمے کے وقت میں داخل ہونے کے کچھ عرصہ بعد، ۱۹۲۰ میں کام کرنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ ”اُجاڑنے والی مکروہ چیز“ کیسے ہو سکتی ہے؟
۱۳ یاد رکھیں، بائبل میں ”مکروہ چیز“ کے لئے عبرانی لفظ بنیادی طور پر بُتوں اور بُتپرستانہ کاموں کے حوالے سے استعمال ہوا ہے۔ کیا لیگ کی پرستش کی گئی تھی؟ بِلاشُبہ یہ کی گئی تھی! پادری طبقے نے اسے ”مُقدس مقام“ میں کھڑا کر دیا اور اُن کے حامیوں نے اسے والہانہ عقیدت دینا شروع کر دی۔ امریکہ میں چرچز آف کرائسٹ کی فیڈرل کونسل نے اعلان کِیا کہ لیگ ”زمین پر خدا کی بادشاہی کا سیاسی ظہور“ ہوگی۔ یو.ایس. سینٹ کو مذہبی جماعتوں کی طرف سے بہت سے خط موصول ہوئے جو اس پر لیگ آف نیشنز کے معاہدے کو تسلیم کرنے پر زور دے رہے تھے۔ برؔطانیہ میں بپٹسٹوں، کانگریگیشنلسٹوں اور پریسبٹیرینوں کی جنرل باڈی نے اسکی ”[زمین پر امن] بحال کرنے کیلئے واحد دستیاب ذریعہ“ کے طور پر تعریف کی۔—دیکھیں مکاشفہ ۱۳:۱۴، ۱۵۔
۱۴، ۱۵. کس طریقے سے پہلے لیگ اور بعد میں اقوامِمتحدہ ”مُقدس مقام“ میں داخل ہو گئیں؟
۱۴ خدا کی مسیحائی بادشاہت ۱۹۱۴ سے آسمانوں پر قائم ہو چکی ہے، لیکن قومیں اپنی ذاتی حاکمیت کے لئے لڑنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (زبور ۲:۱-۶) جب لیگ آف نیشنز کی تجویز پیش کی گئی تو جن اقوام نے پہلی عالمی جنگ لڑی تھی، اس کے علاوہ جن پادریوں نے اپنی افواج کو برکت دی تھی، پہلے ہی اس بات کا مظاہرہ کر چکے تھے کہ اُنہوں نے خدا کی شریعت کو نظرانداز کِیا تھا۔ اُن کی مسیح پر بطور بادشاہ اُمید وابستہ نہیں تھی۔ لہٰذا اُنہوں نے ایک انسانی تنظیم کو خدا کی بادشاہت کا کردار سونپ دیا؛ اُنہوں نے لیگ آف نیشنز کو ”مُقدس مقام“ پر کھڑا کر دیا، ایسا مقام جو اُس کا نہیں تھا۔
۱۵ لیگ کے بعد اس کی جانشین کے طور پر یونائیٹڈ نیشنز اکتوبر ۲۴، ۱۹۴۵ کو معرضِوجود میں آئی۔ بعدازاں، رؔوم کے پاپائے اعظموں نے اقوامِمتحدہ کی ”امن اور ہمآہنگی کیلئے آخری اُمید“ اور ”امن اور انصاف کی اعلیٰ عدالت“ کے طور پر تعریف کی۔ جیہاں، لیگ آف نیشنز اپنی جانشین، اقوامِمتحدہ سمیت، سچمچ خدا اور اُسکے لوگوں کی نظر میں ایک بُت، ایک ”مکروہ چیز“ بن گئی۔
کس چیز سے بھاگیں؟
۱۶. راستبازی سے محبت رکھنے والوں کو آجکل کس چیز سے نکلنے کی ضرورت ہے؟
۱۶ اس پر ’نظر پڑتے ہی‘ یہ سمجھنے کے بعد کہ یہ بینالاقوامی تنظیم کیا ہے اور کیسے اس کی پرستش کی جا رہی ہے، راستبازی سے محبت رکھنے والوں کو محفوظ مقام میں بھاگ جانے کی ضرورت ہے۔ کس چیز سے بھاگ جانے کی؟ اُس سے جو جدید زمانے کے بےوفا یرؔوشلیم کی علامت ہے، یعنی دُنیائے مسیحیت سے، اور جھوٹے مذہب کے عالمی نظام، بڑے بابلؔ سے۔—مکاشفہ ۱۸:۴۔
۱۷، ۱۸. جدید زمانے کی ”مکروہ چیز“ کس بربادی کا باعث بنے گی؟
۱۷ یہ بھی، یاد رکھیں کہ پہلی صدی میں، جب رومی فوجیں اپنے بُتپرستانہ پرچم کیساتھ یہودیوں کے مُقدس شہر میں داخل ہوئیں تو یہ یرؔوشلیم اور اُسکے پرستش کے نظام پر تباہی لانے کیلئے تھیں۔ ہمارے زمانے میں تباہی آنے والی ہے، نہ صرف ایک شہر پر، نہ صرف دُنیائے مسیحیت پر، بلکہ جھوٹے مذہب کے عالمی نظام پر۔—مکاشفہ ۱۸:۵-۸۔
۱۸ مکاشفہ ۱۷:۱۶ میں، یہ پیشینگوئی کی گئی ہے کہ قرمزی رنگ کا علامتی جنگلی حیوان، جوکہ اقوامِمتحدہ ثابت ہوا ہے، کسبینما بڑے بابلؔ پر حملہآور ہوگا اور بےرحمی کیساتھ اُسے ختم کر دیگا۔ واضح زبان استعمال کرتے ہوئے، یہ بیان کرتی ہے: ”جو دس سینگ تُو نے دیکھے وہ اور حیوان اُس کسبی سے عداوت رکھینگے اور اُسے بیکس اور ننگا کر دینگے اور اُسکا گوشت کھا جائینگے اور اُسکو آگ میں جلا ڈالینگے۔“ جوکچھ اِس کا مطلب ہوگا اُس کی بابت سوچنا انتہائی خوفزدہ کرنے والا ہے۔ یہ زمین کے تمام حصوں سے ہر طرح کے جھوٹے مذہب کے خاتمے پر منتج ہوگا۔ بِلاشُبہ یہ ظاہر کریگا کہ بڑی مصیبت شروع ہو چکی ہے۔
۱۹. کونسے عناصر اقوامِمتحدہ کے تشکیل دیئے جانے کے وقت سے لیکر اسکا حصہ رہے ہیں، اور یہ کیوں اہمیت کا حامل ہے؟
۱۹ یہ بات غورطلب ہے کہ ۱۹۴۵ میں یونائیٹڈ نیشنز کے کام شروع کرنے کے وقت سے لیکر، اس کی رُکنیت میں مُلحدانہ، مخالفِدین عناصر نمایاں رہے ہیں۔ پوری دُنیا میں مختلف وقتوں میں، یکسر تبدیلیوں کے حامی عناصر مذہبی کاموں پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کرنے یا مکمل طور پر بند کرنے میں آلۂکار ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم، گزشتہ چند سالوں میں، بہت سی جگہوں پر مذہبی جماعتوں پر حکومت کے دباؤ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کو شاید ایسا دکھائی دے کہ مذہب کے لئے ہر طرح کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
۲۰. دُنیا کے مذاہب نے اپنے لئے کس قسم کی شہرت کمائی ہے؟
۲۰ بڑے بابلؔ کے مذاہب ابھی بھی دُنیا میں شدت کیساتھ انتشارانگیز قوت ہیں۔ بارہا اخبارات کی شہسُرخیاں جھگڑالو پارٹیوں اور دہشتگرد جماعتوں کی شناخت اُس مذہب کے نام سے کراتی ہیں جسکی وہ تائید کرتی ہیں۔ حریف مذہبی پارٹیوں کے درمیان دنگافساد بند کرانے کیلئے متشدّد پولیس اور فوجیوں کو جبراً عبادتخانوں میں داخل ہونا پڑا ہے۔ مذہبی جماعتوں نے سیاسی انقلاب کی مالی امداد کی ہے۔ مذہبی نفرت نے نسلی گروہوں کے درمیان مستحکم تعلقات کو قائم رکھنے کی اقوامِمتحدہ کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ امن اور سلامتی کے نصبالعین کو حاصل کرنے کیلئے، اقوامِمتحدہ کے اندرونی عناصر ہر طرح کے مذہبی اثرورسوخ کا خاتمہ دیکھنا چاہینگے جو اُن کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔
۲۱. (ا) کون اس بات کا فیصلہ کریگا کہ کب بڑا بابلؔ برباد کِیا جائے؟ (ب) اس سے پہلے کیا کرنا اشد ضروری ہے؟
۲۱ ایک دوسرا اہم عنصر بھی توجہ کا حامل ہے۔ اگرچہ اقوامِمتحدہ کے اندر ہی سے فوجی سینگوں کو بڑے بابلؔ کو برباد کرنے کیلئے استعمال کِیا جائیگا، درحقیقت وہ بربادی الہٰی سزا کا اظہار ہوگی۔ عدالتی سزا خدا کے مقررہ وقت پر آئیگی۔ (مکاشفہ ۱۷:۱۷) اس اثنا میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ بائبل جواب دیتی ہے—”اُس میں سے نکل آؤ“—بڑے بابلؔ میں سے نکل آؤ۔—مکاشفہ ۱۸:۴۔
۲۲، ۲۳. ایسے فرار میں کیا کچھ شامل ہے؟
۲۲ تحفظ کیلئے یہ فرار کوئی جغرافیائی کوچ نہیں ہے، جیساکہ یہودی مسیحیوں نے یرؔوشلیم سے رخصت ہوتے ہوئے کِیا تھا۔ یہ دُنیائے مسیحیت کے مذاہب سے فرار ہے، جیہاں، بڑے بابلؔ کے ہر حصے سے فرار۔ اس کا مطلب اپنے آپکو نہ صرف جھوٹی مذہبی تنظیموں سے بلکہ اُنکے رسمورواج اور اُس روح سے بھی مکمل طور پر الگ کرنا ہے جو اُن میں پائی جاتی ہے۔ یہ یہوؔواہ کی تھیوکریٹک تنظیم کے اندر محفوظ مقام کی طرف فرار ہے۔—افسیوں ۵:۷-۱۱۔
۲۳ پہلی عالمی جنگ کے بعد، جب یہوؔواہ کے ممسوح خادموں نے پہلی مرتبہ، جدید زمانے کی مکروہ چیز، لیگ آف نیشنز کی شناخت کرائی تو گواہوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟ اُنہوں نے پہلے ہی سے مسیحی دُنیا کی کلیسیاؤں سے اپنی رُکنیت ختم کر لی تھی۔ لیکن اُنہوں نے بتدریج یہ محسوس کر لیا کہ وہ ابھی تک دُنیائے مسیحیت کی بعض رسومات اور کاموں سے چمٹے ہوئے ہیں، جیسےکہ کراس کا استعمال اور کرسمس اور دیگر مُلحدانہ تہواروں کا منانا۔ جب اُنہوں نے ان چیزوں کی بابت سچائی کو جان لیا تو اُنہوں نے فوری ردِعمل ظاہر کِیا۔ اُنہوں نے یسعیاہ ۵۲:۱۱ کی نصیحت پر دھیان دیا: ”اَے خداوند کے ظروف اُٹھانے والو! روانہ ہو روانہ ہو۔ وہاں سے چلے جاؤ۔ ناپاک چیزوں کو ہاتھ نہ لگاؤ۔“
۲۴. بالخصوص ۱۹۳۵ سے لیکر، کون اس فرار میں شامل ہوئے ہیں؟
۲۴ بالخصوص. ۱۹۳۵ سے لیکر، دوسرے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے، یعنی اُن لوگوں نے جنہوں نے فردوسی زمین پر ہمیشہ تک رہنے کے امکان کو قبول کِیا ہے، اسی طرح سے عمل کرنا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے بھی ’مُقدس مقام میں کھڑی ہوئی اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو دیکھ لیا ہے،‘ اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ فرار ہونے کا اپنا فیصلہ کرنے کے بعد، اُنہوں نے اُن تنظیموں کی رُکنیت سے اپنے نام خارج کروا دیئے ہیں جو بڑے بابلؔ کا حصہ ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۶:۱۴-۱۷۔
۲۵. اُس تعلق کو توڑنے کے علاوہ جو ایک شخص جھوٹے مذہب سے رکھ سکتا ہے اور کس چیز کا تقاضا کِیا جاتا ہے؟
۲۵ تاہم، بڑے بابلؔ میں سے نکلنے میں جھوٹے مذہب کو چھوڑ دینے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ اس میں کنگڈم ہال میں اجلاسوں پر حاضر ہونے یا مہینے میں ایک یا دو بار میدانی خدمت میں خوشخبری کی منادی میں شریک ہونے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی جسمانی طور پر بڑے بابلؔ سے باہر ہو، لیکن کیا اُس نے واقعی سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ کیا اُس نے خود کو اُس دُنیا سے الگ کر لیا ہے جس کا نمایاں حصہ بڑا بابلؔ ہے؟ کیا وہ ابھی تک اُن چیزوں سے چمٹا ہوا ہے جو اُس کی روح کو منعکس کرتی ہیں—ایک ایسی روح جو خدا کے راست معیاروں کی تحقیر کرتی ہے؟ کیا وہ جنسی اخلاقیات اور ازدواجی وفاداری کو معمولی خیال کرتا ہے؟ کیا وہ روحانی مفادات کی نسبت ذاتی اور مادّی مفادات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے؟ اُسے خود کو اس نظامالعمل کے ہمشکل نہیں بنانا چاہئے۔—متی ۶:۲۴؛ ۱-پطرس ۴:۳، ۴۔
کسی چیز کو اپنے فرار کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں!
۲۶. کیا چیز نہ صرف فرار کا آغاز کرنے بلکہ کامیابی کیساتھ اسے مکمل کرنے میں ہماری مدد کریگی؟
۲۶ تحفظ کیلئے ہمارے فرار میں یہ اشد ضروری ہے کہ ہم پیچھے کی چیزوں پر اشتیاق کیساتھ نظر نہ کریں۔ (لوقا ۹:۶۲) ہمیں اپنے دماغوں اور دلوں کو مضبوطی کیساتھ خدا کی بادشاہی اور اُسکی راستبازی پر لگائے رکھنا ہے۔ کیا ہم پہلے ان کی تلاش کرتے ہوئے اپنے اس ایمان کا مظاہرہ کرنے کا عزمِمُصمم رکھتے ہیں کہ یہوؔواہ ایسی وفادارانہ روش کو برکت دیگا؟ (متی ۶:۳۱-۳۳) جب ہم اشتیاق کیساتھ منظرِعالم پر انکشافات کے کھلنے کا انتظار کرتے ہیں تو صحائف پر مبنی ہمارے اعتقادات کو ہمیں ہمارے اس مقصد کیلئے ترغیب دینی چاہئے۔
۲۷. جو سوال یہاں پوچھے گئے ہیں ان کی بابت سنجیدگی سے غور کرنا کیوں ضروری ہے؟
۲۷ الہٰی سزا کی تکمیل بڑے بابلؔ کی بربادی کے ساتھ شروع ہوگی۔ جھوٹے مذہب کی اس کسبینما مملکت کا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیگا۔ وہ وقت بالکل قریب ہے! جب وہ فیصلہکُن وقت آتا ہے تو انفرادی طور پر ہماری کیا حیثیت ہوگی؟ اور بڑی مصیبت کے عروج پر، جب شیطان کا باقیماندہ شریر نظام خاتمے کو پہنچتا ہے تو ہم کس طرف پائے جائینگے؟ اگر ہم اب ضروری کارروائی کرتے ہیں تو ہمارا تحفظ یقینی ہے۔ یہوؔواہ ہمیں بتاتا ہے: ”جو میری سنتا ہے وہ محفوظ ہوگا۔“ (امثال ۱:۳۳) اس نظام کے خاتمے کے دوران وفاداری اور شادمانی کے ساتھ یہوؔواہ کی خدمت کرتے رہنے سے، ہم ہمیشہ تک یہوؔواہ کی خدمت کرنے کے اہل ثابت ہو سکتے ہیں۔ (۱۴ ۰۶/۰۱ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ انسائٹ آن دی سکرپچرز، جلد ۱، صفحات ۶۳۴-۶۳۵ کو دیکھیں۔
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ جدید زمانے کی ”مکروہ چیز“ کیا ہے؟
▫ کس مفہوم میں ”مکروہ چیز . . . مُقدس مقام میں“ ہے؟
▫ اس وقت محفوظ مقام کی طرف فرار میں کیا کچھ شامل ہے؟
▫ ایسی کارروائی کیوں اشد ضروری ہے؟
[تصویر]
بچنے کے لئے، یسوؔع کے پیروکاروں کو بِلاتاخیر بھاگنا تھا