فہم کو اپنی حفاظت کرنے دیں
”تمیز تیری نگہبان ہوگی۔ فہم تیری حفاظت کریگا۔“—امثال ۲:۱۱۔
۱. فہم کس چیز سے ہماری حفاظت کر سکتا ہے؟
یہوواہ چاہتا ہے کہ آپ فہم کو عمل میں لائیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ مختلف خطرات سے آپ کی حفاظت کریگا۔ امثال ۲:۱۰-۱۹ ان الفاظ کے ساتھ شروع ہوتی ہیں: ”جب حکمت تیرے دل میں داخل ہوگی اور علم تیری جان کو مرغوب ہوگا۔ تمیز تیری نگہبان ہوگی۔ فہم تیری حفاظت کریگا۔“ کس چیز سے آپ کی حفاظت کریگا؟ ”شریر کی راہ،“ جیسی چیزوں سے جو راستبازی کو ترک کرتے ہیں اور جو لوگ اپنی عام روش میں کجرو ہیں۔
۲. فہم کیا ہے اور مسیحی بالخصوص کس قسم کے فہم میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
۲ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ فہم ایک ذہنی صلاحیت ہے جس سے یہ مختلف چیزوں میں امتیاز کرتا ہے۔ ایک فہیم شخص چیزوں یا نظریات کے افراق کو سمجھ لیتا ہے اور بہت زیادہ بصیرت کا مالک ہوتا ہے۔ مسیحیوں کے طور پر، ہم بالخصوص خدا کے کلام، بائبل کے صحیح علم پر مبنی روحانی فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم صحائف کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ گویا ایسے ہے کہ ہم روحانی فہم کے تعمیری بلاک نکال رہے ہیں۔ جوکچھ ہم سیکھتے ہیں ہمیں ایسے فیصلے کرنے میں مدد دے سکتا ہے جو یہوواہ کو خوش کرتے ہیں۔
۳. ہم روحانی فہم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
۳ جب خدا نے اسرائیل کے بادشاہ سلیمان سے پوچھا کہ وہ کیا برکت چاہتا ہے تو جوان بادشاہ نے کہا: ”تُو اپنے خادم کو اپنی قوم کا انصاف کرنے کے لئے سمجھنے والا دل عنایت کر تاکہ مَیں بُرے اور بھلے میں امتیاز کر سکوں۔“ سلیمان نے فہم کے لئے درخواست کی اور یہوواہ نے اُسے اِس سے بکثرت نوازا۔ (۱-سلاطین ۳:۹؛ ۴:۳۰) فہم حاصل کرنے کے لئے ہمیں دُعا کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے فراہمکردہ روشنخیالی بخشنے والی مطبوعات کی مدد سے خدا کے کلام کا مطالعہ بھی کرنا ہوگا۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) یہ ہمیں روحانی فہم کو اس حد تک ترقی دینے میں مدد دیگا کہ ہم ”سمجھ میں جوان،“ ”نیکوبد میں امتیاز [یا اُس میں تمیز]“ کرنے کے قابل بن جاتے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۰؛ عبرانیوں ۵:۱۴۔
فہم کی خاص ضرورت
۴. آنکھ ”سادہ“ رکھنے کا کیا مطلب ہے اور یہ ہمیں کیسے فائدہ پہنچا سکتی ہے؟
۴ موزوں فہم کے ساتھ، ہم یسوع کے الفاظ کی مطابقت میں عمل کر سکتے ہیں: ”تُم پہلے [خدا کی] بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب [مادّی] چیزیں بھی تُم کو مل جائینگی۔“ (متی ۶:۳۳) یسوع نے یہ بھی کہا: ”تیرے بدن کا چراغ تیری آنکھ ہے۔ جب تیری آنکھ دُرست [”سادہ،“ اینڈبلیو] ہے تو تیرا سارا بدن بھی روشن ہے۔“ (لوقا ۱۱:۳۴) آنکھ ایک علامتی چراغ ہے۔ ایک ”سادہ“ آنکھ مخلص، صرف ایک ہی سمت میں مرکوز ہوتی ہے۔ ایسی آنکھ کے ساتھ، ہم فہم کو ظاہر کر سکتے ہیں اور روحانی طور پر ٹھوکر کھائے بغیر چل سکتے ہیں۔
۵. کاروباری تعلقات کے سلسلے میں، ہمیں مسیحی کلیسیا کے مقصد کی بابت کونسی بات ذہن میں رکھنی چاہئے؟
۵ اپنی آنکھ کو سادہ رکھنے کی بجائے بعض نے تحریصانہ کاروباری لیندین سے اپنی زندگیوں اور دوسروں کی زندگیوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مسیحی کلیسیا ”حق کا ستون اور بنیاد“ ہے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱۵) ایک عمارت کے ستونوں کی مانند، کلیسیا خدا کی سچائی کو سربلند رکھتی ہے کسی شخص کے کاروباری کارنامے کو نہیں۔ یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیائیں تجارتی مفادات، مالِتجارت یا خدمات کے لئے تشکیل نہیں دی گئیں۔ ہمیں کنگڈم ہال میں ذاتی کاروباری معاملات کے حصول سے اجتناب کرنا چاہئے۔ فہم یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہال، کلیسیائی کتابی مطالعے، اسمبلیاں اور کنونشنیں مسیحی رفاقت اور روحانی گفتوشنید کے مقام ہوتے ہیں۔ اگر ہم روحانی تعلقات کو کسی بھی قسم کی تجارت کو فروغ دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو کیا یہ روحانی اقدار کے لئے قدردانی کی کمی کو ظاہر نہیں کریگا؟ کلیسیائی تعلقات سے کبھی بھی مالی نفع کے حصول کے لئے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھانا چاہئے۔“
۶. کلیسیائی اجلاس پر تجارتی اشیاء اور خدمات کو کیوں فروخت نہیں کِیا جانا چاہئے یا فروغ کیوں نہیں دینا چاہئے؟
۶ بعض نے تھیوکریٹک تعلقات کو بیماریوں کے طریقۂعلاج یا کاسمیٹک، وٹامن پروڈکٹس، ٹیلیکمیونیکیشن سروسز، تعمیراتی سازوسامان، سفری سہولیات، کمپیوٹر پروگرام اور آلات، وغیرہ فروخت کرنے کے لئے استعمال کِیا ہے۔ تاہم، کلیسیائی اجلاس تجارتی مصنوعات یا خدمات کو فروغ دینے یا فروخت کرنے کی جگہیں نہیں ہیں۔ ہم اس کی تہہ میں بنیادی اُصول کو سمجھ سکتے ہیں اگر ہم یہ یاد رکھیں کہ یسوع نے: ”سب کو یعنی بھیڑوں اور بیلوں کو ہیکل سے نکال دیا اور صرافوں کی نقدی بکھیر دی اور اُن کے تختے اُلٹ دیئے۔ اور کبوتر فروشوں سے کہا اِن کو یہاں سے لے جاؤ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناؤ۔“—یوحنا ۲:۱۵، ۱۶۔
سرمایہکاری کی بابت کیا ہے
۷. سرمایہکاریوں کے سلسلے میں فہم اور احتیاط کیوں ضروری ہیں؟
۷ کسی کاروباری معاہدے میں سرمایہ لگاتے وقت فہم اور احتیاط دونوں ہی ضروری ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ کوئی شخص پیسہ اُدھار لینا چاہتا ہے اور اس قسم کے وعدے کرتا ہے: ”مَیں گارنٹی دیتا ہوں کہ آپکو نفع ہوگا۔“ ”آپ کی رقم ضائع نہیں ہو سکتی۔ یہ یقینی بات ہے۔“ جب کوئی اس طرح کی یقیندہانیاں کراتا ہے تو خبردار رہیں۔ یا تو وہ حقیقتپسند نہیں ہوتا یا پھر وہ بددیانت ہوتا ہے کیونکہ سرمایہ لگانا شاذونادر ہی یقینی چیز ہے۔ دراصل، بعض چکنیچپڑی باتیں کرنے والے، بددیانت اشخاص نے کلیسیا کے ارکان کو ٹھگ لیا ہے۔ یہ ہمیں اُن ”بےدین آدمیوں“ کی یاد دلاتا ہے جو پہلی صدی میں مسیحی کلیسیا میں گھس آئے تھے اور جنہوں نے ’ہمارے خدا کے فضل کو بدچلنی کا بہانہ بنا لیا تھا۔ وہ نوکیلی پوشیدہ چٹانوں کی مانند تھے جو تیراکوں کو چیر یا ہلاک کر سکتی تھیں۔ (یہوداہ ۴، ۱۲) سچ ہے کہ حریص دھوکےبازوں کے محرکات مختلف ہوتے ہیں لیکن وہ بھی کلیسیا کے ارکان کو نشانہ بناتے ہیں۔
۸. بظاہر بعض نفعبخش کاروباری معاہدوں کے معاملے میں کیا واقع ہوا ہے؟
۸ یہانتککہ خلوصدل بھائیوں نے بھی بظاہر نفعبخش معاہدوں کی بابت دوسروں تک معلومات پہنچائی ہیں اور وہ، بمع اُن لوگوں کے جنہوں نے اُن کے نمونے کی نقل کی اُس سرمایے سے محروم ہو گئے ہیں جو اُنہوں نے لگایا تھا۔ نتیجتاً، کئی مسیحی کلیسیا میں اپنے استحقاق کھو بیٹھے ہیں۔ جب جلد امیر بننے کے معاہدے دھوکےبازی کے منصوبے ثابت ہوتے ہیں تو فائدہ اُٹھانے والا واحد شخص دھوکےباز ہی ہوتا ہے جو جلد رُوپوش ہو جاتا ہے۔ فہم ایک شخص کی ایسے حالات سے بچنے میں کیسے مدد کر سکتا ہے؟
۹. سرمایہکاری کے دعوؤں کا اندازہ لگانے کے لئے فہم کیوں درکار ہے؟
۹ فہم کا مطلب ہے کسی مبہم بات کو سمجھنے کے قابل ہونا۔ یہ خوبی سرمایہکاری کے دعوؤں کی بابت اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہے۔ مسیحی ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور بعض شاید دلیل پیش کریں کہ روحانی بھائی اور بہنیں ایسے پُرخطر معاہدوں میں ملوث نہیں ہونگے جو ساتھی ایمانداروں کے وسائل کو خطرے میں ڈال دینگے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی بزنسمین کا مسیحی ہونا اس بات کی گارنٹی نہیں کہ اُسے کاروباری معاملات میں سبقت حاصل ہے یا یہ کہ اُس کا کاروبار ہمیشہ کامیاب ہوگا۔
۱۰. بعض مسیحی ساتھی ایمانداروں سے کاروباری قرضے کیوں مانگتے ہیں اور ایسی سرمایہکاریوں کے ساتھ کیا واقع ہو سکتا ہے؟
۱۰ بعض مسیحی بھائیوں اور بہنوں سے کاروباری قرضے لینے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ قرضے دینے والی مشہور ایجنسیاں ان کے پُرخطر کاروبار کے لئے کبھی پیشگی رقم نہیں دیتیں۔ بہتیرے یہ یقین کرنے سے بیوقوف بن گئے ہیں کہ محض اپنا سرمایہ لگانے سے، وہ بہت زیادہ کام یا شاید کوئی بھی کام کئے بغیر جلدی اور آسانی کے ساتھ اپنا مقدر بنا سکتے ہیں۔ بعض کسی سرمایہکاری سے وابستہ ظاہری شانوشوکت کی وجہ سے اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور یوں زندگیبھر کی بچت گنوا بیٹھتے ہیں! ایک مسیحی نے محض دو ہفتوں میں ۲۵ فیصد کی شرح سے نفع حاصل کرنے کی توقع میں فراخدلی سے سرمایہ لگا دیا۔ جب دیوالیہ ہو جانے کا اعلان کِیا گیا تو وہ تمام رقم گنوا بیٹھا! ایک دوسرے کاروباری معاہدے میں، ایک غیرمنقولہ جائیداد کو فروغ دینے والے شخص نے کلیسیا میں دوسروں سے بھاری رقم اُدھار لے لی۔ اُس نے نامعقول طور پر زیادہ منافع کا وعدہ کِیا۔ لیکن اس کا دیوالیہ ہو گیا اور اُدھار لئے ہوئے فنڈ ضائع ہو گئے۔
جب کاروباری معاہدے ناکام ہو جاتے ہیں
۱۱. پولس نے لالچ اور زر کی دوستی کی بابت کیا مشورت پیش کی؟
۱۱ کاروبار میں ناکامی مایوسی پر منتج ہوئی ہے اور یہانتککہ بعض ایسے مسیحیوں کے معاملے میں روحانی نقصان کا موجب بنی ہے جو پُرخطر معاہدوں میں شریک ہوئے تھے۔ فہم کو بطور حفاظت کام کرنے کی اجازت دینے میں ناکامی کا انجام دلیصدمہ اور تلخی ہوا ہے۔ لالچ بہتیرے اشخاص کے لئے پھندا ثابت ہوا ہے۔ ”جیساکہ مُقدسوں کو مناسب ہے تُم میں . . . لالچ کا ذکر تک نہ ہو،“ پولس نے لکھا۔ (افسیوں ۵:۳) اور اُس نے آگاہ کِیا: ”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔ کیونکہ زر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے جسکی آرزو میں بعض نے ایمان سے گمراہ ہو کر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا۔“—۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰۔
۱۲. اگر مسیحی ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں تو اُنہیں کونسی بات خاص طور پر یاد رکھنی چاہئے؟
۱۲ اگر ایک مسیحی زردوست بن جاتا ہے تو وہ خود کو بہت زیادہ روحانی نقصان پہنچائیگا۔ فریسی زر دوست تھے اور یہ ان آخری ایّام میں بہتیرے لوگوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ (لوقا ۱۶:۱۴؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱، ۲) اس کے برعکس، ایک مسیحی کی طرزِزندگی ”زر کی دوستی سے خالی“ ہونی چاہئے۔ (عبرانیوں ۱۳:۵) بِلاشُبہ، مسیحی ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کر سکتے ہیں یا اکٹھے ملکر کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ تاہم، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو باتچیت اور معاہدوں کو کلیسیائی معاملات سے الگ رکھا جانا چاہئے۔ اور یاد رکھیں: روحانی بھائیوں کے مابین بھی کاروباری معاہدوں کو ہمیشہ تحریر میں رکھیں۔ اس سلسلے میں نہایت مفید مضمون ”اسے تحریر کر لیں!“ فروری ۸، ۱۹۸۳، کے اویک! صفحات ۱۳ تا ۱۵ میں شائع ہوا تھا۔
۱۳. آپ کاروباری معاہدوں پر امثال ۲۲:۷ کا اطلاق کیسے کرینگے؟
۱۳ امثال ۲۲:۷ ہمیں بتاتی ہے: ”قرض لینے والا قرض دینے والے کا نوکر ہے۔“ اکثر ہمارے لئے یہ غیردانشمندانہ بات ہوگی کہ خود کو یا اپنے بھائی کو نوکر کے مرتبے پر رکھیں۔ جب کوئی ہم سے کاروباری کام کے لئے پیسہ اُدھار مانگتا ہے تو رقم واپس لوٹانے کی اس کی استعداد پر غور کرنا قرینِمصلحت ہوگا۔ کیا وہ قابلِبھروسہ اور قابلِاعتماد ہونے کی شہرت رکھتا ہے؟ بِلاشُبہ، ہمیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ اس صورت میں قرض دینے کا مطلب پیسہ گنوانا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے کاروباری منصوبے ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایک معاہدہ بذاتِخود کاروبار کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا۔ اور یقینی طور پر کسی کے لئے بھی یہ عقلمندی کی بات نہیں ہوگی کہ جتنا نقصان وہ برداشت نہیں کر سکتا اُس سے زیادہ کو خطرے میں ڈال دے۔
۱۴. اگر ہم نے کسی ایسے ساتھی مسیحی کو پیسہ اُدھار دیا ہے جسکا کاروبار ناکام ہو جاتا ہے تو ہمیں فہم دکھانے کی ضرورت کیوں ہے؟
۱۴ اگر ہم نے کسی مسیحی کو کاروباری مقاصد کے لئے رقم دی ہے اور پیسہ ضائع ہو گیا ہے تو ہمیں فہم سے کام لینے کی ضرورت ہے اگرچہ بددیانتی کا کوئی بھی کام اس میں شامل نہیں تھا۔ اگر کاروباری ناکامی ہمارے ساتھی ایماندار کی غلطی نہیں تھی جس نے رقم اُدھار لی تھی تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کہیں نہ کہیں غلطی کی تھی؟ نہیں، اسلئے نہیں کہ ہم نے اپنی مرضی سے قرض دیا تھا، غالباً ہم اس پر منافع لیتے رہے ہیں اور کوئی بددیانتی وقوعپذیر نہیں ہوئی ہے۔ چونکہ اس میں بددیانتی شامل نہیں تھی، اسلئے ہمارے پاس قرضدار کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ درحقیقت، ایک دیانتدار ساتھی مسیحی پر مقدمہ چلانے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا جو نیکنیتی پر مبنی ایک کاروباری منصوبہ ناکام ہونے کی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا ہے؟—۱- کرنتھیوں ۶:۱۔
۱۵. اگر دیوالیہ ہو جانے کا اعلان کِیا جاتا ہے تو کن عناصر پر غوروخوض کرنے کی ضرورت ہوگی؟
۱۵ کاروباری ناکامیوں کے تجربے سے گزرنے والے لوگ بعضاوقات دیوالیہ ہو جانے کا اعلان کرنے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسیحی چونکہ اپنے قرضے سے غافل نہیں ہوتے اس لئے اگر قرض دینے والے ادائیگی کو قبول کرتے ہیں تو بعض نے قرضاجات سے قانونی طور پر آزاد ہونے کے بعد بھی منسوخشُدہ قرضوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنے کے لئے اخلاقی فرض کو محسوس کِیا ہے۔ تاہم، اگر ایک مقروض اپنے بھائی کی رقم ضائع کر دیتا ہے اور اس کے بعد خود نسبتاً پُرآسائش طریقے سے زندگی بسر کرتا ہے تو کیا ہو؟ یا اگر ایک اُدھار لینے والا جو قرض لیا گیا تھا اُسے واپس کرنے کے لئے رقم رکھتا ہے لیکن اپنے بھائی کے لئے مالی لحاظ سے اُس کا جو اخلاقی فرض ہے اُسے وہ پسِپُشت ڈال دیتا ہے تو کیا ہو؟ ایسے حالات کے تحت، کلیسیا میں ذمہداری کے عہدے پر خدمت انجام دینے کی اُس کی لیاقتوں کے متعلق شک کا اظہار کِیا جا سکتا ہے۔—۱-تیمتھیس ۳:۳، ۸؛ دیکھیں دی واچٹاور، ستمبر ۱۵، ۱۹۹۴، صفحات ۳۰-۳۱۔
فراڈ کی صورت میں کیا ہو؟
۱۶. اگر ہم کاروباری فراڈ کا نشانہ بنتے دکھائی دیتے ہیں تو کونسے اقدام کئے جانے چاہئیں؟
۱۶ فہم ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ تمام سرمایہکاری نفع پر منتج نہیں ہوتی۔ اگر فراڈ شامل ہے تو کیا ہو؟ فراڈ ”دغا، فریب، یا کسی دوسرے شخص کو اُس کی کسی قیمتی چیز میں کسی کو حصہدار بنانے یا کسی قانونی حق سے دستبردار کرنے کے لئے سچائی کو توڑمروڑ کر استعمال کرنے“ کو کہتے ہیں۔ یسوع مسیح نے ایسے اقدام کی خاکہکشی کی جو اُس وقت اُٹھائے جا سکتے ہیں جب ایک شخص سوچتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک ساتھی پرستار نے فراڈ کیا ہے۔ متی ۱۸:۱۵-۱۷ کے مطابق، یسوع نے کہا: ”اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے تو جا اور خلوت میں باتچیت کرکے اُسے سمجھا۔ اگر وہ تیری سنے تو تُو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔ اور اگر نہ سنے تو ایک دو آدمیوں کو اپنے ساتھ لے جا تاکہ ہر ایک بات دو تین گواہوں کی زبان سے ثابت ہو جائے۔ اگر وہ انکی سننے سے بھی انکار کرے تو کلیسیا سے کہہ اور اگر کلیسیا کی سننے سے بھی انکار کرے تو تُو اُسے غیرقوم والے اور محصول لینے والے کے برابر جان۔“ اس کے بعد یسوع نے جو تمثیل پیش کی وہ ظاہر کرتی ہے کہ اُس کے ذہن میں دھوکے سمیت، مالی معاملات سے تعلق رکھنے والے گناہ تھے۔—متی ۱۸:۲۳-۳۵۔
۱۷، ۱۸. اگر کوئی نامنہاد مسیحی ہم سے دھوکا کرتا ہے تو فہم ہماری حفاظت کیسے کریگا؟
۱۷ اگر کاروباری معاملات میں فراڈ کا کوئی ثبوت یا کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا تو متی ۱۸:۱۵-۱۷ میں بیان کردہ اقدام اُٹھانے کی کوئی صحیفائی بنیاد نہیں ہوگی۔ تاہم اگر کسی نامنہاد مسیحی نے ہمارے ساتھ واقعی فراڈ کیا ہے تو کیا ہو؟ فہم ہمیں کوئی بھی ایسی کارروائی کرنے سے روک سکتا ہے جو کلیسیا کی نیکنامی کو خراب کر سکتی ہے۔ پولس رسول نے ساتھی مسیحیوں کو کسی بھائی کو عدالت تک لے جانے کی بجائے قصوروار بننے اور دھوکا کھانے کی صلاح دی۔—۱-کرنتھیوں ۶:۷۔
۱۸ ہمارے سچے بھائی اور بہنیں بریسوع جادوگر کی طرح ’فراڈ اور شرارت سے بھرے ہوئے‘ نہیں ہیں۔ (اعمال ۱۳:۶-۱۲) لہٰذا جب ساتھی ایمانداروں کے ساتھ کاروباری معاہدوں میں رقم ضائع ہو جاتی ہے تو آئیے فہم کو عمل میں لائیں۔ اگر ہم قانونی کارروائی کرنے کی بابت سوچ رہے ہیں تو ہمیں ذاتی طور پر اپنے اوپر، دوسرے شخص یا اشخاص پر، کلیسیا پر اور باہر والوں پر اس کے ممکنہ اثرات کی بابت ضرور غور کرنا چاہئے۔ عوضانہ حاصل کرنا ہمارا بہت سا وقت، توانائی اور دیگر ذرائع کو برباد کر سکتا ہے۔ اس سے محض وکیلوں اور دیگر پیشہور اشخاص کی جیب گرم ہو سکتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض مسیحیوں نے ان غیر ضروری چیزوں میں حد سے زیادہ مگن ہو جانے کی وجہ سے تھیوکریٹک استحقاقات کو قربان کر دیا ہے۔ ہمارا اس طرح سے بھٹک جانا شیطان کو لازمی طور پر خوش کریگا لیکن ہم یہوواہ کے دل کو شاد کرنا چاہتے ہیں۔ (امثال ۲۷:۱۱) اس کی دوسری جانب، نقصان کو قبول کر لینا ہمیں اور بزرگوں کو تکالیف اور وقت کے ضیاع سے بچا سکتا ہے۔ یہ کلیسیا کے اَمن کو محفوظ رکھنے میں مدد کریگا اور ہمیں بادشاہتی مفادات کو پہلا درجہ دینے کے قابل بنائیگا۔
فہم اور فیصلے کرنا
۱۹. جب ہم دباؤ ڈالنے والے فیصلے کر رہے ہوں تو روحانی فہم اور دُعا ہمارے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
۱۹ مالی یا کاروباری معاملات کی بابت فیصلے کرنا بہت زیادہ دباؤ ڈال سکتا ہے۔ لیکن روحانی فہم تمام عناصر پر احتیاط سے غور کرنے اور دانشمندانہ فیصلے کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ مزیدبرآں، یہوواہ پر دُعائیہ توکل ہمیں ”خدا کا اطمینان“ عطا کر سکتا ہے۔ (فلپیوں ۴:۶، ۷) یہ وہ دلجمعی اور سکون ہے جو یہوواہ کے ساتھ قریبی ذاتی رشتے کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ یقیناً، جب ہمیں مشکل فیصلوں کا سامنا ہو تو اپنا توازن برقرار رکھنے کے لئے ایسا اطمینان ہماری مدد کر سکتا ہے۔
۲۰. جہاں تک کاروباری معاملات اور کلیسیا کا تعلق ہے ہمیں کیا کرنے کا عزم کرنا چاہئے؟
۲۰ دُعا ہے کہ ہم کاروباری جھگڑوں کو اپنے یا کلیسیا کے اَمن کو تباہ کرنے کی اجازت نہ دینے کے لئے ثابتقدم رہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسیحی کلیسیا تجارتی حاصلات کے مرکز کی بجائے ہمیں روحانی طور پر مدد دینے کے لئے کام کرتی ہے۔ کاروباری معاملات کو ہمیشہ کلیسیائی کارگزاریوں سے الگ رکھا جانا چاہئے۔ کاروباری معاہدوں کا آغاز کرتے وقت ہمیں فہم اور احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور بادشاہتی مفادات کو پہلا درجہ دیتے ہوئے، آئیے ہمیشہ کاروباری معاملات کی بابت متوازن نظریہ قائم رکھیں۔ اگر اپنے ساتھی پرستاروں کے ساتھ کوئی کاروباری معاہدہ ناکام ہو جاتا ہے تو ہمیں وہی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو تمام متعلقہ لوگوں کے لئے بہتر ہے۔
۲۱. ہم فہم کو کیسے استعمال میں لا سکتے ہیں اور فلپیوں ۱:۹-۱۱ کے مطابق عمل کر سکتے ہیں؟
۲۱ مالی معاملات اور دیگر کم اہم چیزوں کی بابت حد سے زیادہ فکرمند ہونے کی بجائے دُعا ہے کہ ہم سب فہم پر دل لگائیں، خدا کی ہدایت کے لئے دُعا کریں اور بادشاہتی مفادات کو مُقدم رکھیں۔ پولس کی دُعا کے مطابق، ’خدا کرے کہ ہماری محبت صحیح علم اور کامل فہم کے ساتھ زیادہ ہوتی جائے تاکہ ہم زیادہ اہم باتوں کا یقین کر سکیں اور دوسروں کے لئے یا اپنے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں۔‘ اب جبکہ مسیح بادشاہ اپنے آسمانی تخت پر بیٹھا ہے، آئیے زندگی کے ہر پہلو میں روحانی فہم دکھائیں۔ اور ’خدا کرے کہ ہم اپنے خدا،‘ حاکمِاعلیٰ یہوواہ کے ’جلال اور اُس کی ستایش کے لئے یسوع مسیح کے سبب سے راستبازی کے پھل سے بھرے رہیں۔‘—فلپیوں ۱:۹-۱۱۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ فہم کیا ہے؟
▫ مسیحیوں کے درمیان کاروباری لین دین کے سلسلے میں فہم دکھانے کی خاص ضرورت کیوں ہے؟
▫ اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ کسی ساتھی ایماندار نے ہمارے ساتھ دھوکا کِیا ہے تو فہم کیسے ہماری مدد کریگا؟
▫ فیصلے کرنے میں فہم کیا کردار ادا کرتا ہے؟
[صفحہ 15 پر تصویر]
فہم بادشاہت کی پہلے تلاش کرتے رہنے کیلئے یسوع کی مشورت کا اطلاق کرنے میں ہماری مدد کرے گا
[صفحہ 17 پر تصویر]
کاروباری معاہدوں کو ہمیشہ تحریر میں رکھیں