جب کوئی گناہ نہ رہیگا
”کیا ہم گناہ میں پیدا ہوتے ہیں؟“ اِس سوال نے ریاستہائےمتحدہ میں ایک گریجویٹ سٹوڈنٹس کو بائبل کا مطالعہ شروع کرنے کے فوراً بعد حیرت میں ڈال دیا۔ اُس کے ہندو پسِمنظر کی وجہ سے، موروثی گناہ کا تصور اُس کے لئے ایک نئی بات تھی۔ تاہم، اُس نے استدلال کِیا کہ اگر گناہ واقعی موروثی ہے تو اِس کی حقیقت سے انکار کرنا یا نظرانداز کرنا بیکار ہوگا۔ کوئی اِس سوال کا جواب کیسے حاصل کر سکتا ہے؟
اگر گناہ موروثی ہے تو اِسکا کوئی نقطۂآغاز تو ضرور ہوگا۔ کیا پہلے انسان کو اپنے بچوں میں بُرے خصائل ہی منتقل کرنے کیلئے شریر خلق کِیا گیا تھا؟ یا نقص بعد میں پیدا ہوا؟ درحقیقت گناہ کب شروع ہوا؟ اِسکے برعکس، اگر گناہ محض کوئی بیرونی چیز، بدی کا وجود یا بنیادی حقیقت ہے تو کیا ہم اِس سے کبھی آزادی حاصل کرنے کی اُمید کر سکتے ہیں؟
ہندو اعتقاد کے مطابق، دُکھ اور بدی تخلیق کے وقت سے ہی چلے آ رہے ہیں۔ ایک ہندو مفکر بیان کرتا ہے کہ ”دُکھ [یا بدی] جوڑوں کے پُرانے درد کی طرح ہے جو محض ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے لیکن مکمل طور پر ختم نہیں کِیا جا سکتا۔“ بدی یقیناً نوعِانسان کی دُنیا کی تمام تحریری تاریخ کا حصہ بنی رہی ہے۔ اگر یہ انسان کے تاریخی ریکارڈ سے بھی پہلے کی ہے توپھر اِس کے آغاز کی بابت تسلیبخش جوابات کا انسان کی نسبت کسی بالاتر ماخذ سے ہی حاصل ہونا لازمی ہے۔ جواب خدا سے حاصل ہونے چاہئیں۔—زبور ۳۶:۹۔
انسان—گناہ کے بغیر خلق ہوا
ہندو مفکر ناکھلآنند تسلیم کرتا ہے کہ ویدوں میں انسانی تخلیق کی بابت بیانات علامتی ہیں۔ اِسی طرح، بیشتر مشرقی مذاہب تخلیق کی بابت اساطیری وضاحتیں ہی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، پہلے انسان کی تخلیق کی بابت بائبل سرگزشت کا یقین کرنے کی منطقی اور سائنسی دونوں وجوہات موجود ہیں۔a اِس کا پہلا باب ہی بیان کرتا ہے: ”خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کِیا۔ نروناری اُن کو پیدا کِیا۔“—پیدایش ۱:۲۷۔
”خدا کی صورت“ پر خلق کئے جانے کا کیا مطلب ہے؟ سادہ سی بات ہے: انسان کو خدائی صفات—جیسےکہ انصاف، حکمت، اور محبت—کیساتھ خدا کی مانند پیدا کِیا گیا تھا—جو اُسے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ (مقابلہ کریں کلسیوں ۳:۹، ۱۰۔) اِن صفات نے اُسے آزاد مرضی کا مالک بناتے ہوئے، نیکوبد میں امتیاز کرنے کی صلاحیت عطا کی۔ جب پہلے انسان کو خلق کِیا گیا تھا تو اُس میں کوئی گناہ نہیں تھا، اُسکی زندگی میں کوئی بدی یا دُکھدرد نہیں تھا۔
یہوواہ خدا نے انسان آدم کو یہ حکم دیا: ”تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بےروکٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیکوبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔“ (پیدایش ۲:۱۶، ۱۷) فرمانبرداری کا انتخاب کرنے سے آدم اور اُسکی بیوی حوا اپنے خالق کیلئے عزتوتمجید کا باعث بن سکتے اور گناہ سے آزاد رہ سکتے تھے۔ اِسکے برعکس، نافرمانی کا کوئی بھی فعل خدا کے کامل معیاروں پر پورا اُترنے میں اُنکی ناکامی کو ظاہر کریگا اور اُنہیں ناکامل—گنہگار بنا دیگا۔
آدم اور حوا کو الہٰی خصوصیات کیساتھ خلق نہیں کِیا گیا تھا۔ تاہم، وہ کسی حد تک الہٰی صفات اور اخلاقی فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ خدا کی مخلوق ہونے کی بدولت وہ بیگناہ یا کامل تھے۔ (پیدایش ۱:۳۱؛ استثنا ۳۲:۴) اُنکے وجود میں آنے سے وہ ہمآہنگی درہم برہم نہ ہوئی جو اُنکی تخلیق کے وقت تک خدا اور کائنات کے مابین کئی زمانوں سے پائی جاتی تھی۔ پس، گناہ کا آغاز کیسے ہوا؟
گناہ کا آغاز
گناہ پہلےپہل روحانی عالم میں واقع ہوا۔ زمین اور انسان کی تخلیق سے پہلے، خدا ذیشعور روحانی خلائق—فرشتگان کو خلق کر چکا تھا۔ (ایوب ۱:۶؛ ۲:۱؛ ۳۸:۴-۷؛ کلسیوں ۱:۱۵-۱۷) اُن فرشتوں میں سے ایک اپنے حسنوجمال اور ذہانت پر بہت گھمنڈ کرنے لگا۔ (مقابلہ کریں حزقیایل ۲۸:۱۳-۱۵۔) آدم اور حوا کو اولاد پیدا کرنے کی خدا کی ہدایت سے، یہ فرشتہ سمجھ سکتا تھا کہ بہت جلد ساری زمین راستباز لوگوں سے معمور ہو جائیگی جو سب کے سب خدا کی پرستش کرینگے۔ (پیدایش ۱:۲۷، ۲۸) اِس روحانی مخلوق نے اُن سے اپنی پرستش کرانے کی خواہش کی۔ (متی ۴:۹، ۱۰) اِسی خواہش پر توجہ مرکوز رکھنا اُس کیلئے غلط روش اختیار کرنے کا سبب بنا۔—یعقوب ۱:۱۴، ۱۵۔
حوا سے ایک سانپ کے ذریعے مخاطب ہوتے ہوئے باغی فرشتے نے کہا کہ نیکوبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے منع کر کے خدا اُسے اُس علم سے محروم رکھ رہا ہے جو اُسکے پاس ہونا چاہئے۔ (پیدایش ۳:۱-۵) یہ کہنا ایک نفرتانگیز جھوٹ—گنہگارانہ فعل تھا۔ یہ جھوٹ بول کر اُس فرشتے نے خود کو گنہگار بنا لیا۔ نتیجتاً وہ ابلیس، تہمتی اور شیطان، خدا کا مخالف کہلانے لگا۔—مکاشفہ ۱۲:۹۔
شیطان کی پُرفریب دلیل کا حوا پر بُرا اثر پڑا۔ آزمانے والے کی باتوں کا بھروسہ کرنے سے وہ اُسکے جھانسے میں آ گئی اور ممنوعہ درخت سے کچھ پھل کھا لیا۔ اُسکا شوہر آدم بھی پھل کھانے میں اُسکے ساتھ شریک ہو گیا اور یوں دونوں گنہگار بن گئے۔ (پیدایش ۳:۶؛ ۱-تیمتھیس ۲:۱۴) واضح طور پر، خدا کی نافرمانی کرنے کا انتخاب کرنے سے ہمارے پہلے والدین کاملیت کے نشانے سے چوک گئے اور گنہگار بن گئے۔
آدم اور حوا کی اولاد کی بابت کیا ہے؟ بائبل وضاحت کرتی ہے: ”جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِسلئے کہ سب نے گناہ کِیا۔“ (رومیوں ۵:۱۲) قانونِتوارث پہلے ہی اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ آدم اپنے بچوں کو ایسی کوئی بھی چیز نہیں دے سکتا تھا جو اُسکے پاس نہیں تھی۔ (ایوب ۱۴:۴) کاملیت کھو دینے سے، اپنے بچوں کے استقرارِحمل کے وقت پہلا جوڑا گنہگار تھا۔ نتیجتاً، ہم سب نے—بِلاامتیاز—گناہ کو ورثے میں پایا ہے۔ (زبور ۵۱:۵؛ رومیوں ۳:۲۳) یوں، گناہ محض بدی اور دُکھدرد کا باعث بنا ہے۔ علاوہازیں، اِسکی وجہ سے، ہم سب بوڑھے ہوتے اور مرتے ہیں، ”کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے۔“—رومیوں ۶:۲۳۔
ضمیر ’الزام لگاتا‘ یا ’معذور‘ رکھتا ہے
پہلے انسانی جوڑے کے روّیے پر گناہ کے اثر پر بھی غور کریں۔ اُنہوں نے اپنے بدن کے بعض حصوں کو ڈھانپ لیا اور خود کو خدا سے چھپانے کی کوشش کی۔ (پیدایش ۳:۷، ۸) پس گناہ نے اُنہیں خطا، پریشانی اور ندامت کا احساس دلایا۔ آجکل نوعِانسان اِن جذبات سے بخوبی واقف ہے۔
کون ہے جو کسی حاجتمند سے مہربانی کو روک رکھنے سے تکلیفدہ احساسات سے نہیں گزرا یا ایسی بات کہنے کی وجہ سے پشیمان نہیں ہوا جو کبھی بھی مُنہ سے نہیں نکلنی چاہئے تھی؟ (یعقوب ۴:۱۷) ہمارے اندر ایسے تکلیفدہ احساسات کیوں اُبھرتے ہیں؟ پولس رسول وضاحت کرتا ہے کہ ’شریعت ہمارے دِلوں پر لکھی ہوئی ہے۔‘ جبتک ہمارے ضمیر مُردہ نہیں ہو جاتے، اُس شریعت کی کسی بھی طرح کی حکمعدولی باطنی بےچینی پیدا کر دیتی ہے۔ پس ضمیر کی یہی آواز ہم پر ’الزام لگاتی‘ یا ’معذور رکھتی‘ ہے۔ (رومیوں ۲:۱۵؛ ۱-تیمتھیس ۴:۲؛ ططس ۱:۱۵) ہم خواہ اِسے محسوس کریں یا نہ کریں ہم غلطی، گناہ کا ایک اندرونی احساس رکھتے ہیں!
پولس اپنے گنہگارانہ رُجحانات سے بخوبی واقف تھا۔ ”جب نیکی کا ارادہ کرتا ہوں تو بدی میرے پاس آ موجود ہوتی ہے،“ اُس نے تسلیم کِیا۔ ”کیونکہ باطنی انسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔ مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔“ پس پولس نے پوچھا: ”اِس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائیگا؟“—رومیوں ۷:۲۱-۲۴۔
گناہ سے آزادی—کیسے؟
”ہندو روایت میں مُکتی سے مُراد،“ ایک ہندو مفکر کہتا ہے ”باربار پیدا ہونے اور مرنے سے مُکتی ہے۔“ اِسی طرح بدھمت بھی نروان—بیرونی حقیقت سے فراموشی کی حالت—کا حل کے طور پر اشارہ دیتا ہے۔ موروثی گناہ کے نظریے کو نہ سمجھتے ہوئے، ہندومت محض زندگی سے رہائی کا وعدہ کرتا ہے۔
اِسکے برعکس، بائبل کا ذریعۂنجات حقیقتاً گنہگارانہ حالت کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ پوچھنے کے بعد کہ وہ گناہ سے کیسے بچ سکتا ہے، پولس رسول جواب دیتا ہے: ”اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا شکر کرتا ہوں۔“ (رومیوں ۷:۲۵) جیہاں، خدا یسوع مسیح کے ذریعے چھٹکارا فراہم کرتا ہے
متی کی انجیل کے مطابق، ”ابنِآدم،“ یسوع مسیح آیا کہ ”اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔“ (متی ۲۰:۲۸) جیسےکہ ۱-تیمتھیس ۲:۶ میں درج ہے، پولس نے لکھا کہ یسوع نے ”اپنے آپ کو سب کے [”مساوی،“ اینڈبلیو] فدیہ میں دیا۔“ لفظ ”فدیہ“ اسیروں کو چھڑانے کی قیمت ادا کرنے کا مفہوم دیتا ہے۔ فدیے کے مساوی ہونے کی حقیقت انصاف کے پلڑے برابر کرنے کیلئے قیمت کے قابلِعمل ہونے پر زور دیتی ہے۔ لیکن ایک آدمی کی موت کو ”سب کے [”مساوی،“ اینڈبلیو] فدیہ“ کے طور پر کیسے خیال کِیا جا سکتا ہے؟
آدم نے تمام نوعِانسان کو، بشمول ہمارے، گناہ اور موت کے ہاتھوں بیچ دیا۔ اُس نے جو قیمت یا ہرجانہ ادا کِیا وہ اُسکی کامل انسانی زندگی تھی۔ اُس کا ازالہ کرنے کے لئے، ایک اَور کامل انسانی زندگی—ایک مساوی فدیہ ادا کِیا جانا تھا۔ (خروج ۲۱:۲۳؛ استثنا ۱۹:۲۱؛ رومیوں ۵:۱۸، ۱۹) چونکہ کوئی بھی ناکامل انسان یہ فدیہ ادا نہیں کر سکتا تھا اِسلئے خدا نے اپنی بےپناہ حکمت کی بدولت اِن مشکلات سے نکلنے کی راہ کھول دی۔ (زبور ۴۹:۶، ۷) اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کی کامل زندگی آسمانوں سے زمین پر ایک کنواری کے رحم میں منتقل کر دی تاکہ وہ ایک کامل انسان کے طور پر پیدا ہو۔—لوقا ۱:۳۰-۳۸؛ یوحنا ۳:۱۶-۱۸۔
نوعِانسان کو چھڑانے کا کام انجام دینے کی خاطر، یسوع کو اپنی تمام زمینی زندگی میں اپنی راستبازی قائم رکھنا تھی۔ اُس نے ایسا ہی کِیا۔ اِسکے بعد وہ قربانی کی موت مرا۔ اِس طریقے سے یسوع نے یقینی بنا دیا کہ ایک کامل انسانی زندگی—اُسکی اپنی زندگی—نوعِانسان کو چھڑانے کیلئے فدیہ ادا کرنے کی خاطر دستیاب ہوگی۔—۲-کرنتھیوں ۵:۱۴؛ ۱-پطرس ۱:۱۸، ۱۹۔
مسیح کا فدیہ ہمارے لئے کیا کر سکتا ہے
یسوع کی فدیے کی قربانی ہمیں اب بھی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اِس پر ایمان لانے سے ہم خدا کے حضور ایک پاک حیثیت سے لطف اُٹھا سکتے ہیں اور یہوواہ کی پُرمحبت اور پُرشفقت نگرانی میں آ سکتے ہیں۔ (اعمال ۱۰:۴۳؛ رومیوں ۳:۲۱-۲۴) ہم سے جو گناہ سرزد ہوئے ہیں اُن کیلئے احساسِخطا تلے دبے رہنے کی بجائے ہم فدیے کی بِنا پر آزادانہ طور پر خدا سے معافی حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔—یسعیاہ ۱:۱۸؛ افسیوں ۱:۷؛ ۱-یوحنا ۲:۱، ۲۔
مستقبل قریب میں، فدیہ گناہ کی وجہ سے نوعِانسان کی بیمار حالت سے مکمل شفا کو ممکن بنائیگا۔ بائبل کی آخری کتاب بیان کرتی ہے کہ ”آبِحیات کا ایک دریا“ خدا کے تخت سے نکل کر بہتا ہے۔ دریا کے کناروں پر افراط کیساتھ پھل دینے والے درخت ہیں جنکے پتوں سے ”قوموں کو شفا ہوتی“ ہے۔ (مکاشفہ ۲۲:۱، ۲) علامتی طور پر، بائبل یہاں یسوع کے فدیے کی قربانی کی بِنا پر نوعِانسان کو ہمیشہ کیلئے گناہ اور موت سے آزاد کرانے کیلئے خالق کے شاندار بندوبست کا ذکر کرتی ہے۔
مکاشفہ کی کتاب کی نبوّتی رویتیں بہت جلد پوری ہو جائینگی۔ (مکاشفہ ۲۲:۶، ۷) اِسکے بعد تمام راستدل اشخاص ”فنا کے قبضہ سے چھوٹ کر“ کامل بن جائینگے۔ (رومیوں ۸:۲۰، ۲۱) کیا اِس سے ہمیں یہوواہ خدا اور اُسکے وفادار بیٹے، یسوع مسیح کی بابت جو فدیہ بنا اَور زیادہ سیکھنے کی تحریک نہیں ملنی چاہئے؟—یوحنا ۱۷:۳۔
]فٹ نوٹس[
a واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ کتاب لائف—ہاؤ ڈِڈ اِٹ گیٹ ہئیر؟ بائے ایولوشن اور بائے کریئیشن؟
[صفحہ 6 پر تصویر]
آدم نوعِانسان پر گناہ اور موت لے آیا
[صفحہ 7 پر تصویر]
یسوع کے فدیے کی قربانی گناہ اور موت سے آزادی دلاتی ہے