کیا ہمارا مستقبل پہلے ہی سے تحریر ہے؟
مسیحی مسلمان، یہودی، ہندو یا کسی دوسرے مذہب کے معتقد—ہر عقیدے کے لوگ المناک واقعات کا تجربہ کرتے اور اس پر آنسو بہاتے ہیں۔
مثال کے طور پر، دسمبر ۶، ۱۹۹۷ میں، سائبیریا کے ایک شہر ارکٹسک میں ایک المناک واقعہ پیش آیا۔ ایک بہت بڑا ۱۲۴-AN سامانبردار جہاز ابھی فضا میں بلند ہوا ہی تھا کہ اسکے دو انجنوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ ایندھن سے بھرا یہ جہاز ایک رہائشی عمارت سے جا ٹکرایا۔ کئی اپارٹمنٹ شعلوں کی لپیٹ میں آ گئے جو بہت سے بےبس مکینوں کی موت اور زخمی ہونے کا سبب بنے جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔
سائبیریا کے جس علاقے میں یہ حادثہ پیش آیا غالباً وہاں مختلف مذہبی نظریات کے لوگ ہیں۔ بعض شاید مسیحیت کے معتقد ہیں۔ پھر بھی وہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ المناک واقعہ مقدر کا لکھا تھا۔ شاید وہ اور دیگر لوگ یہ محسوس کریں کہ ’یہ خدا کی مرضی تھی اور اس حادثے میں موت کا شکار ہونے والے لوگ اگر اسطرح نہ مرتے تو کسی دوسرے طریقے سے مر گئے ہوتے—یہ ان کا مقدر تھا۔‘
ایسی سوچ کا اظہار کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ ایسے نقطۂنظر—مقدر کی عکاسی کرتا ہے جو ساری دُنیا میں بہتیرے مذاہب کا حصہ ہے۔ بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل کسی نہکسی طرح، ہماری پیدائش کے دن سے لیکر ہماری موت تک، پہلے ہی سے تحریر ہے۔
قسمت پر اعتقاد کے مختلف صورتیں اختیار کرنے کی وجہ سے ایک جامع تعریف کرنا مشکل ہے۔ قسمت کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ جوکچھ بھی وقوعپذیر ہوتا ہے، ہر عمل، ہر واقعہ—خواہ اچھا ہو یا بُرا—وہ ناگزیر ہے؛ اس کا واقع ہونا اٹل ہے کیونکہ اسکا تعیّن ایک ایسی اعلیٰ قوت نے پہلے ہی سے کر رکھا ہے جس پر انسان کا اختیار نہیں ہے۔ ایسا نظریہ علمِنجوم، ہندومت اور بدھمت کے کرما اور مسیحیت میں تقدیر کے عقیدے کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قدیم بابل میں، لوگ یقین رکھتے تھے کہ دیوتے ایک تحریری دستاویز کے ذریعے قسمت اور مستقبل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مبیّنہ طور پر ان ”مقدر کی تختیوں“ پر اختیار رکھنے والا دیوتا ہی آدمیوں، حکومتوں حتیٰکہ دیوتاؤں کی قسمت کا فیصلہ کر سکتا تھا۔
بیشتر معتقدین یقین رکھتے ہیں کہ انسانوں کی پیدائش سے قبل، الہٰی مرضی کے موافق، خدا لوگوں کے عرصۂحیات سمیت سب باتوں کا فیصلہ کرتا ہے کہ اُن کے ساتھ کیا واقع ہوگا، آیا وہ نر ہوں گے یا ناری، امیر ہوں گے یا غریب، غمزدہ ہوں گے یا خوش۔ اس کی بابت کہا جاتا ہے کہ جوکچھ واقع ہوتا ہے وہ سب خدا کے ذہن میں ہوتا ہے یا کسی کتاب میں قلمبند ہوتا ہے۔ لہٰذا جب مصیبت آتی ہے تو ایمان رکھنے والے کسی شخص کا ”مکتوب“—یہ لکھا ہے! کہنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ علاوہازیں، یہ استدلال کِیا جاتا ہے کہ چونکہ خدا ہر بات سے پہلے ہی سے واقف ہے لہٰذا وہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون اس کی فرمانبرداری کرے گا اور کون نافرمانی کرے گا۔ لہٰذا بہت سے پیروکار یہ ایمان رکھتے ہیں کہ کسی شخص کی پیدائش سے قبل ہی خدا طے کر چکا ہوتا ہے کہ جنت میں ابدی برکات اس کا مقدر ہوں گی یا وہ ابدی ہلاکت پائے گا۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ دُنیائےمسیحیت کی بعض کلیسیاؤں میں سکھائے جانے والے تقدیر کے عقیدے سے مشابہت رکھتا ہے۔ تقدیر کا اوّلین پروٹسٹنٹ حامی، ۱۶ویں صدی کا فرانسیسی مصلح جان کیلون تھا۔ اس نے تقدیر کی تعریف یوں بیان کی ”خدا کی ابدی مرضی جس کی بنیاد پر وہ تعیّن کرتا ہے کہ وہ ہر ایک شخص کیساتھ کیا کرنا چاہتا ہے۔ سب کو ایک جیسے حالات کے تحت پیدا نہیں کِیا جاتا تاہم بعض کیلئے ابدی زندگی جبکہ دیگر کیلئے ابدی ہلاکت کا تعیّن پہلے سے کر دیا گیا ہے۔“ کیلون نے یہ دعویٰ بھی کِیا: ”خدا نے پہلے آدمی کے گناہ میں مبتلا ہونے اور اس طرح اس کی خوشحالی کی تباہی کو نہ صرف پہلے سے دیکھ لیا تھا بلکہ اپنے لطف کے لئے اس کا انتظام کِیا۔“
تاہم، تقدیر یا قسمت کی تعلیم دینے والے مذاہب کے تمام ارکان اس پر ذاتی طور پر یقین نہیں رکھتے۔ بعض بجا طور پر بیان کرتے ہیں کہ مذہبی تحریریں انسان کی آزاد مرضی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ درحقیقت، انسان کے افعال کی بابت اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ انسان کے آزادانہ انتخاب کا نتیجہ ہیں یا خدا کی طرف سے مقررکردہ ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض استدلال کرتے ہیں کہ خدا جو انصافپسند ہے جب وہ انسان کو اسکے اعمال کیلئے ذمہدار اور جوابدہ ٹھہراتا ہے تو انسان کو انتخاب اور عمل کی آزادی ہونی چاہئے۔ دوسروں نے اظہارِخیال کِیا ہے کہ خدا نے انسان کے اعمال ٹھہرائے تھے تاہم انسان کو کسی نہکسی طرح اُن تک ”دسترس“ حاصل ہو گئی ہے اور یوں اسے ان کیلئے ذمہدار ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ عام طور پر، بہتیرے یقین رکھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں چھوٹا یا بڑا ہر واقعہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔
آپ کیا یقین رکھتے ہیں؟ کیا خدا نے پہلے ہی سے اس بات کا تعیّن کر دیا ہے کہ آپکا مستقبل کیسا ہوگا؟ کیا انسان واقعی آزاد مرضی، اپنے مستقبل کے لئے حقیقی انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ہماری تقدیر کس حد تک ہمارے اپنے اعمال پر موقوف ہے؟ اگلا مضمون ان سوالات کے جواب دیگا۔
[صفحہ 3 پر تصویر کا حوالہ]
SEL/Sipa Press