کیا دولت آپکو خوشی بخش سکتی ہے؟
سلیمان بادشاہ پیسے کی اہمیت سے بخوبی واقف تھا۔ اُس نے لکھا: ”ہنسنے کے لئے لوگ ضیافت کرتے ہیں اور مے جان کو خوش کرتی ہے اور روپیہ سے سب مقصد پورے ہوتے ہیں۔“ (واعظ ۱۰:۱۹) دوستوں کیساتھ کھاناپینا بہت پُرلطف ہو سکتا ہے، تاہم روٹی اور مے حاصل کرنے کیلئے آپکو پیسے کی ضرورت ہے۔ پیسے کی بدولت مادی اشیاء کے قابلِحصول ہونے کی وجہ سے ”سب مقصد پورے ہوتے ہیں۔“
اگرچہ سلیمان بےحد دولتمند تھا توبھی وہ جانتا تھا کہ دولت کی کچھ اپنی حدود ہیں۔ اُس نے تسلیم کِیا کہ مادہپرستانہ طرزِزندگی خوشی کا باعث نہیں بن سکتا۔ اُس نے لکھا: ”زردوست روپیہ سے آسودہ نہ ہوگا اور دولت کا چاہنے والا اُس کے بڑھنے سے سیر نہ ہوگا۔“—واعظ ۵:۱۰۔
فرض کریں کہ ایک دولتمند شخص بہت زیادہ دولت حاصل کر لیتا ہے۔ سلیمان بیان کرتا ہے: ”جب مال کی فراوانی ہوتی ہے تو اُس کے کھانے والے بھی بہت ہو جاتے ہیں۔“ (واعظ ۵:۱۱) جب کسی شخص کے ”مال“ یا اثاثوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اُس کی دیکھبھال کے لئے مزید لوگ درکار ہوتے ہیں۔ مرمت کرنے والے، دیکھبھال کرنے والے، خادم، حفاظتی عملہ اور دیگر—ان تمام لوگوں کو اُن کی خدمات کا معاوضہ دیا جانا چاہئے۔ پس اس کے لئے ہمیشہ زیادہ پیسہ درکار ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال ایک شخص کی خوشی پر براہِراست اثرانداز ہوتی ہے۔ چوتھی صدی ق.س.ع. کے ایک یونانی مؤرخ زینوفن نے دولتمند بننے والے ایک غریب شخص کے تاثرات قلمبند کئے:
”درحقیقت آپ یہ کیوں فرض کر لیتے ہیں . . . کہ میرے پاس جتنا زیادہ ہوگا، مَیں اتنا ہی زیادہ خوش رہونگا؟ آپ نہیں جانتے“ وہ مزید کہتا ہے ”کہ کھانے، پینے سونے سے جتنی خوشی مجھے اب حاصل ہوتی ہے غربت میں بھی اتنی ہی حاصل ہوتی تھی، اس میں رتیبھر فرق نہیں پڑا۔ اتنا کچھ پا لینے سے مجھے صرف یہ حاصل ہوا ہے کہ مجھے زیادہ چیزوں کی دیکھبھال کرنی پڑتی ہے، دوسروں کو زیادہ دینا پڑتا ہے اور پہلے کی نسبت کہیں زیادہ چیزوں کی فکر رکھنی پڑتی ہے۔ اِس لئےکہ بیشتر افرادِخانہ خوراک، پانی اور لباس کے لئے مجھ پر انحصار کرتے ہیں جبکہ بعض کو ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے؛ نیز کوئی میرے پاس یہ کہانی لے کر آتا ہے کہ بھیڑیے نے بھیڑ پر حملہ کر دیا یا بیل کسی چٹان سے گر کر مر گیا یا یہ کہنے کے لئے کہ مویشیوں میں کوئی بیماری پھیل گئی ہے۔ پس مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے . . . کہ گویا پہلے کی نسبت اب میرے پاس زیادہ تو ہے مگر مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔“
لوگ ہمیشہ زیادہ دولت کی جستجو میں کیوں رہتے ہیں، یسوع کے مطابق اِس کی ایک وجہ ”دولت کا فریب“ ہے۔ (متی ۱۳:۲۲) وہ اِس لئے فریب کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ جس دولت کی وہ اتنی جستجو کرتے ہیں، اُس سے اُنہیں وہ اطمینان اور خوشی کبھی حاصل نہیں ہوتی جسکے وہ متمنی تھے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ جو کام محدود دولت نہیں کر سکتی، دولت کی فراوانی اُسے انجام دے گی۔ لہٰذا مزید حاصل کرنے کی جدوجہد ہمیشہ جاری رہتی ہے۔
زر کی دوستی خوشی پر منتج نہیں ہوتی
اپنے اثاثوں کی بابت فکرمندی کسی دولتمند شخص کو رات کی میٹھی نیند سے لطفاندوز ہونے سے محروم رکھ سکتی ہے۔ سلیمان نے لکھا: ”محنتی کی نیند میٹھی ہے خواہ وہ تھوڑا کھائے خواہ بہت لیکن دولت کی فراوانی دولتمند کو سونے نہیں دیتی۔“—واعظ ۵:۱۲۔
جب دولت کے کھو جانے کا خوف شدت اختیار کر لیتا ہے تو پھر اس میں نیند کی کمی سے زیادہ کچھ شامل ہوتا ہے۔ کنجوس کی بابت سلیمان لکھتا ہے: ”وہ عمربھر بےچینی میں کھاتا ہے اور اُس کی دقداری اور بیزاری اور خفگی کی انتہا نہیں۔“ (واعظ ۵:۱۷) اپنی دولت سے خوش ہونے کی بجائے، وہ ”بےچینی“ سے کھاتا ہے گویا کہ اُسے کھانے کے لئے بھی بادلِنخواستہ پیسہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسا بیمار ذہنی میلان خراب صحت کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح خراب صحت کنجوس شخص کی پریشانی میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ یہ اُس کے مزید دولت جمع کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
شاید یہ آپ کو پولس رسول کی تحریر کی یاد دلائے: ”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔ کیونکہ زر کی دوستی ہر قسم کی برائی کی جڑ ہے جس کی آرزو میں بعض نے . . . اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰) پیسہ حاصل کرنے کی کوشش میں بہتیرے لوگ دھوکہدہی، جھوٹ، چوری، عصمتفروشی حتیٰکہ قتل بھی کر دیتے ہیں۔ دولت حاصل کرنے اور اُس پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی کوشش میں ایک شخص جذباتی طور پر، جسمانی طور پر اور روحانی طور پر غم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کیا یہ خوشی کی راہ معلوم ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں!
جوکچھ ہمارے پاس ہے اُسی پر قناعت کرنا
دولت کی بابت ایک متوازن نظریے کے سلسلے میں، سلیمان نے کچھ اَور بھی کہا تھا۔ اُس نے لکھا: ”جس طرح سے وہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اُسی طرح ننگا جیساکہ آیا تھا پھر جائیگا اور اپنی محنت کی اجرت میں کچھ نہ پائیگا جسے وہ اپنے ہاتھ میں لے جائے۔ لو! مَیں نے دیکھا کہ یہ خوب ہے بلکہ خوشنما ہے کہ آدمی کھائے اور پئے اور اپنی ساری محنت سے جو وہ دنیا میں کرتا ہے اپنی تمام عمر جو خدا نے اُسے بخشی ہے راحت اٹھائے کیونکہ اُس کا بخرہ یہی ہے۔“—واعظ ۵:۱۵، ۱۸۔
ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوشی کا انحصار اُس وقتکے لئے ڈھیروں دولت جمع کرنے کے لئے جدوجہد کرنے میں پنہاں نہیں جو ہماری زندگی میں کبھی نہیں آئیگا۔ یہ اُس سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی محنت کے کاموں سے خوش اور مطمئن ہوں۔ تیمتھیس کے نام اپنے الہامی خط میں پولس رسول نے یہ کہتے ہوئے ایسے ہی خیال کا اظہار کِیا: ”کیونکہ نہ ہم دنیا میں کچھ لائے اور نہ کچھ اس میں سے لے جا سکتے ہیں۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اسی پر قناعت کریں۔“—۱-تیمتھیس ۶:۷، ۸؛ مقابلہ کریں لوقا ۱۲:۱۶-۲۱۔
خوشی کی کُنجی
سلیمان کے پاس دولت اور خدائی حکمت دونوں کی فراوانی تھی۔ تاہم اُس نے خوشی کو پیسے کی بجائے حکمت سے جوڑا۔ اُس نے بیان کِیا: ”مبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور وہ جو فہم حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ اِس کا حصول چاندی کے حصول سے اور اِس کا نفع کندن سے بہتر ہے۔ وہ مرجان سے زیادہ بیشبہا ہے اور تیری مرغوب چیزوں میں بےنظیر۔ اُس کے دہنے ہاتھ میں عمر کی درازی ہے اور اُس کے بائیں ہاتھ میں دولتوعزت۔ اُس کی راہیں خوشگوار راہیں ہیں اور اُس کے سب راستے سلامتی کے ہیں۔ جو اُسے پکڑے رہتے ہیں وہ اُن کے لئے حیات کا درخت ہے اور ہر ایک جو اُسے لئے رہتا ہے مبارک ہے۔“—امثال ۳:۱۳-۱۸۔
حکمت مادی اثاثوں سے بالاتر کیوں ہے؟ سلیمان نے اس کی بابت لکھا: ”کیونکہ حکمت ویسی ہی پناہگاہ ہے جیسے روپیہ لیکن علم کی خاص خوبی یہ ہے کہ حکمت صاحبِحکمت کی جان کی محافظ ہے۔“ (واعظ ۷:۱۲) اگرچہ پیسہ اپنے مالک کو حسبِضرورت چیزوں کی خریداری کرنے کے قابل بناتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک تحفظ فراہم کرتا ہے تاہم، حکمت کسی شخص کو جانلیوا خطرات مول لینے سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ سچی حکمت نہ صرف ایک شخص کو بےوقت کی موت مرنے سے بچا سکتی ہے بلکہ معقول خدائی خوف پر مبنی ہونے کی بدولت یہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا باعث بنے گی۔
خدائی حکمت خوشی پر منتج کیوں ہوتی ہے؟ اس لئےکہ سچی خوشی صرف یہوواہ خدا کی طرف سے آ سکتی ہے۔ تجربہ اس بات کو واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ حقیقی خوشی صرف قادرِمطلق کی فرمانبرداری سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ دائمی خوشی کا انحصار خدا کے حضور ایک راست حیثیت رکھنے پر ہے۔ (متی ۵:۳-۱۰) بائبل مطالعہ سے سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کرنے سے ہم اُس ”حکمت“ کو پیدا کریں گے جو ”اُوپر سے آتی ہے۔“ (یعقوب ۳:۱۷) یہ ہمیں وہ خوشی عطا کرے گی جو دولت کبھی نہیں دے سکتی۔
[صفحہ 4 پر تصویریں]
بادشاہ سلیمان جانتا تھا کہ کیا چیز کسی انسان کو خوش کرتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں؟