ہمیشہ کی زندگی کا واحد راستہ
”راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔“—یوحنا ۱۴:۶۔
۱، ۲. یسوع نے ہمیشہ کی زندگی کے راستے کو کس سے تشبِیہ دی اور اس تمثیل کا کیا مطلب ہے؟
اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں، یسوع ہمیشہ کی زندگی کے راستے کو ایک سڑک سے تشبِیہ دیتا ہے جس میں کوئی شخص ایک دروازے سے داخل ہوتا ہے۔ غور کریں کہ یسوع اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ راستہ آسان نہیں ہے، وہ کہتا ہے: ”تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو [ابدی] زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُسکے پانے والے تھوڑے ہیں۔“—متی ۷:۱۳، ۱۴۔
۲ کیا آپ اس تمثیل کا مطلب سمجھتے ہیں؟ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ زندگی تک پہنچانے والا راستہ یا سڑک صرف ایک ہے اور زندگی کے اس راستے سے بھٹکنے سے بچنے کیلئے ہمیں احتیاط کی ضرورت ہوگی؟ تاہم ہمیشہ کی زندگی کا یہ واحد راستہ کونسا ہے؟
یسوع مسیح کا کردار
۳، ۴. (ا) بائبل ہماری نجات کے سلسلے میں یسوع کے اہم کردار کو کیسے نمایاں کرتی ہے؟ (ب) خدا نے سب سے پہلے اس بات کو کب آشکارا کِیا کہ نوعِانسان ابدی زندگی حاصل کر سکتے ہیں؟
۳ واضح طور پر اس راستے کے سلسلے میں یسوع ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جیسےکہ اُسکے رسول پطرس نے بیان کِیا: ”کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام [یسوع کے علاوہ] نہیں بخشا گیا جسکے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔“ (اعمال ۴:۱۲) پولس رسول نے بھی اسی طرح بیان کِیا: ”خدا کی بخشش ہمارے خداوند یسوؔع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (رومیوں ۶:۲۳) یسوع نے خود بھی آشکارا کِیا کہ صرف وہی ابدی زندگی کا واحد راستہ ہے، چنانچہ اُس نے کہا: ”راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔“—یوحنا ۱۴:۶۔
۴ پس ہمیشہ کی زندگی کو ممکن بنانے کے سلسلے میں یسوع کے کردار کو تسلیم کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔ پس آئیے اسکے کردار کا بغور جائزہ لیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آدم کے گناہ کرنے کے بعد یہوواہ خدا نے کب آشکارا کِیا کہ نوعِانسان ابدی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟ آدم کے گناہ کے فوراً بعد ہی ایسا کِیا گیا تھا۔ اب ہم اس بات کا جائزہ لینگے کہ یسوع مسیح کو نوعِانسان کے مُنجی کے طور پر پیش کرنے کی بابت پہلی پیشینگوئی کیسے کی گئی تھی۔
موعودہ نسل
۵. ہم حوا کو بہکانے والے سانپ کی شناخت کیسے کر سکتے ہیں؟
۵ یہوواہ خدا نے علامتی زبان میں موعودہ مُنجی کی شناخت کرائی۔ اُس نے ”سانپ“ کو سزا سناتے وقت ایسا کِیا جس نے حوا سے باتیں کی تھیں اور اُسے ممنوعہ پھل کھانے سے خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا تھا۔ (پیدایش ۳:۱-۵) بِلاشُبہ، وہ سانپ کوئی حقیقی سانپ نہیں تھا۔ وہ ایک طاقتور روحانی مخلوق تھا جسکی بائبل میں ”وہی پُرانا سانپ جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے“ کے طور پر شناخت کرائی گئی ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۹) شیطان نے حوا کو گمراہ کرنے کیلئے اس ادنیٰ جانور کو اپنے آلۂکار کے طور پر استعمال کِیا تھا۔ لہٰذا، شیطان کو سزا سناتے ہوئے، خدا نے اُس سے کہا: ”مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔ وہ [عورت کی نسل] تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا۔“—پیدایش ۳:۱۵۔
۶، ۷. (ا) ”نسل“ کو پیدا کرنے والی عورت کون ہے؟ (ب) موعودہ نسل کون ہے اور وہ کیا انجام دیتا ہے؟
۶ یہ ”عورت“ کون ہے جس سے شیطان عداوت یا نفرت رکھتا ہے؟ جس طرح مکاشفہ ۱۲ باب میں ”پرانے سانپ“ کی شناخت کرائی گئی ہے اُسی طرح اس عورت کی بھی شناخت کرائی گئی ہے جس سے شیطان نفرت کرتا ہے۔ پہلی آیت میں غور فرمائیں کہ وہ ”آفتاب کو اوڑھے ہوئے تھی اور چاند اُس کے پاؤں کے نیچے تھا اور بارہ ستاروں کا تاج اُس کے سر پر“ تھا۔ یہ عورت وفادار فرشتوں پر مشتمل خدا کی آسمانی تنظیم کی نمائندگی کرتی ہے اور جس ”بیٹے“ کو وہ جنم دیتی ہے وہ خدا کی بادشاہت کی نمائندگی کرتا ہے جسکا بادشاہ یسوع مسیح ہے۔—مکاشفہ ۱۲:۱-۵۔
۷ پس، اس عورت کا بیٹا یا ”نسل“ کون ہے جس کا ذکر پیدایش ۳:۱۵ میں کِیا گیا ہے جو شیطان کے ”سر کو کچلے گا“ اور یوں اُس کو موت کے گھاٹ اُتار دیگا؟ یہ وہی ہے جسے خدا نے معجزانہ طور پر ایک کنواری سے انسان کے طور پر، جیہاں، یسوع کو پیدا ہونے کیلئے آسمان سے بھیجا تھا۔ (متی ۱:۱۸-۲۳؛ یوحنا ۶:۳۸) مکاشفہ ۱۲ باب ظاہر کرتا ہے کہ قیامتیافتہ آسمانی حکمران کی حیثیت سے وہ نسل، یسوع مسیح، شیطان پر فتح پانے میں پیشوائی کرے گا اور جیساکہ مکاشفہ ۱۲:۱۰ کہتی ہے، یہ ”ہمارے خدا کی . . . بادشاہی اور اُسکے مسیح کا اختیار“ ظاہر کرنے کا سبب بنیگا۔
۸. (ا) اپنے ابتدائی مقصد کے سلسلے میں خدا کونسی نئی چیز فراہم کرتا ہے؟ (ب) خدا کی نئی حکومت کو کون تشکیل دیتے ہیں؟
۸ پس یہ بادشاہت مسیح کے ہاتھوں میں ایک نئی چیز ہے جو خدا نے انسانوں کیلئے زمین پر ہمیشہ کی زندگی سے لطف اُٹھانے کے اپنے ابدی مقصد کے سلسلے میں فراہم کی ہے۔ یہوواہ نے شیطان کی بغاوت کے بعد فوراً انتظام کِیا کہ اس نئی بادشاہتی حکومت کے ذریعے بدکاری کے تمام اثرات کو مٹائے۔ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے آشکارا کِیا کہ وہ اس حکومت میں اکیلا نہیں ہوگا۔ (لوقا ۲۲:۲۸-۳۰) نوعِانسان میں سے اَور لوگوں کا بھی انتخاب کِیا جائیگا جو آسمان پر حکمرانی کرنے میں اسکے ساتھ شریک ہوں گے اور یوں وہ عورت کی نسل کے ثانوی حصے کو تشکیل دیں گے۔ (گلتیوں ۳:۱۶، ۲۹) بائبل میں یسوع کے ساتھی حکمرانوں کی تعداد ۱،۴۴،۰۰۰ بتائی گئی ہے اور ان سب کو زمین پر گنہگار نوعِانسانی میں سے منتخب کِیا گیا ہے۔—مکاشفہ ۱۴:۱-۳۔
۹. (ا) یسوع کو بطور انسان زمین پر آنے کی ضرورت کیوں تھی؟ (ب) یسوع نے ابلیس کے کاموں کو کیسے مٹایا؟
۹ تاہم، اُس بادشاہت کے حکومت شروع کرنے سے پہلے نسل کے بنیادی حصے یسوع مسیح کا زمین پر ظاہر ہونا ضروری تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُسے یہوواہ خدا کی طرف سے مقرر کِیا گیا ہے کہ وہ ”ابلیس کے کاموں کو مٹائے [یا ختم کرے]۔“ (۱-یوحنا ۳:۸) شیطان کے کاموں میں آدم کو گناہ کے لئے اُکسانا بھی شامل تھا جس کے باعث آدم کی تمام اولاد موت اور گناہ کی سزاوار ٹھہری۔ (رومیوں ۵:۱۲) یسوع نے اپنی جان فدیے کے طور پر دیکر ابلیس کے اس کام کے اثر کو مٹایا۔ اس طرح اُس نے نوعِانسان کے لئے گناہ اور موت کی سزا سے چھوٹ کر ہمیشہ کی زندگی پانے کی راہ کھول دی۔—متی ۲۰:۲۸؛ رومیوں ۳:۲۴؛ افسیوں ۱:۷۔
فدیہ کیا کام انجام دیتا ہے
۱۰. یسوع اور آدم کیسے مشابہ تھے؟
۱۰ یسوع کی زندگی کو ایک عورت کے رحم میں آسمان سے منتقل کئے جانے کی وجہ سے وہ آدم کے گناہ سے بیداغ، کامل انسان کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ اُس کے پاس زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کا امکان تھا۔ اسی طرح آدم کو بھی زمین پر ہمیشہ کی زندگی سے لطف اُٹھانے کے امکانات کے ساتھ کامل بنایا گیا تھا۔ پولس رسول کے ذہن میں ان دونوں آدمیوں کے مابین پائی جانے والی مشابہت تھی جب اس نے لکھا: ”پہلا آدمی یعنی آدؔم زندہ نفس بنا۔ پچھلا آدؔم [یسوع مسیح] زندگی بخشنے والی روح بنا۔ پہلا آدمی زمین سے یعنی خاکی تھا۔ دوسرا آدمی آسمانی ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۵، ۴۷۔
۱۱. (ا) آدم اور یسوع نے نوعِانسان پر کیا اثر کِیا ہے؟ (ب) ہمیں یسوع کی قربانی کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۱ ان دونوں کے مابین مشابہت—صرف یہی دو کامل انسان زمین پر ہو گزرے ہیں—بائبل کے اس بیان سے عیاں ہے کہ یسوع نے ”اپنے آپ کو سب کے [”مساوی،“ اینڈبلیو] فدیہ میں دیا۔“ (۱-تیمتھیس ۲:۶) یسوع کس کے مساوی تھا؟ بیشک، آدم کے مساوی تھا جس وقت کہ وہ کامل انسان تھا! پہلے آدم کا گناہ تمام نسلِانسانی کیلئے سزا پر منتج ہوا۔ ”پچھلے آؔدم“ کی قربانی گناہ اور موت سے نجات کی بنیاد فراہم کرتی ہے تاکہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں۔ یسوع کی قربانی کتنی گراںبہا ہے! پطرس رسول نے بیان کِیا: ”تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی۔“ اسکے برعکس، پطرس نے وضاحت کی: ”ایک بےعیب اور بےداغ بّرے یعنی مسیح کے بیشقیمت خون سے۔“—۱-پطرس ۱:۱۸، ۱۹۔
۱۲. بائبل ہم پر سے موت کی سزا کے ہٹائے جانے کو کیسے بیان کرتی ہے؟
۱۲ بائبل نہایت عمدہ طریقے سے وضاحت کرتی ہے کہ انسانی خاندان پر سے موت کی سزا کیسے ہٹائی جائیگی، یہ بیان کرتی ہے: ”غرض جیسا [آدم کے] ایک گناہ کے سبب سے وہ فیصلہ ہؤا جسکا نتیجہ سب آدمیوں کی سزا کا حکم تھا ویسا ہی راستبازی [یسوع کی تمامتر راست روش جو اُسکی موت پر انتہا کو پہنچی] کے وسیلہ سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جس سے راستباز ٹھہر کر زندگی پائیں۔ کیونکہ جس طرح ایک ہی شخص [آدم] کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک [یسوع] کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہرینگے۔“—رومیوں ۵:۱۸، ۱۹۔
ایک شاندار امکان
۱۳. بہتیرے لوگ ہمیشہ زندہ رہنے کی بابت جیسا محسوس کرتے ہیں اُسکی وجہ کیا ہے؟
۱۳ ہمیں خدا کی اس بخشش سے نہایت خوش ہونا چاہئے! کیا آپ اس کی بابت پُرجوش نہیں ہیں کہ ایک نجاتدہندہ فراہم کِیا گیا ہے؟ جب امریکہ کے ایک بڑے شہر کے ایک اخبار کے سروے میں یہ پوچھا گیا کہ ”کیا ہمیشہ تک زندہ رہنے کا امکان آپکو اچھا لگتا ہے؟“ تو حیرانی کی بات ہے کہ ۴.۶۷ فیصد کا جواب تھا کہ ”نہیں۔“ اُنہوں نے یہ کیوں کہا کہ وہ ہمیشہ تک زندہ نہیں رہنا چاہتے؟ بدیہی طور پر اسلئے کہ اس زمین پر زندگی انگنت مسائل سے پُر ہے۔ ایک خاتون نے تو یہ کہا: ”مَیں نہیں چاہتی کہ مَیں ۲۰۰ سال کی بوڑھی نظر آؤں۔“
۱۴. ہمیشہ زندہ رہنا مکمل شادمانی کیوں ہوگا؟
۱۴ تاہم، بائبل ایسی دُنیا میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی بات نہیں کرتی جہاں لوگوں کو بیماری، بڑھاپے اور دیگر تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بجائے، خدا کی بادشاہت کے حکمران کے طور پر یسوع، شیطان کے پیداکردہ تمام مسائل کو ختم کر دیگا۔ بائبل کے مطابق، خدا کی بادشاہت اس دُنیا کی تمام ظالم حکومتوں کو ”ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کریگی۔“ (دانیایل ۲:۴۴) اُس وقت، یسوع کی اپنے شاگردوں کو سکھائی ہوئی دُعا کے جواب میں، خدا کی ”مرضی“ جس طرح ”آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی“ پوری ہوگی۔ (متی ۶:۹، ۱۰) خدا کی نئی دُنیا میں زمین کو تمام برائی سے پاک کر دئے جانے کے بعد، یسوع کے فدیے کے فوائد کا پوری طرح اطلاق کِیا جائے گا۔ جیہاں، لائق ٹھہرنے والے تمام لوگوں کو کامل صحت عطا کی جائیگی!
۱۵، ۱۶. خدا کی نئی دُنیا میں کیسی حالتیں ہونگی؟
۱۵ خدا کی نئی دُنیا میں زندہ رہنے والے لوگوں کے سلسلے میں بائبل کے اس بیان کا اطلاق ہوگا: ”اُس کا جسم بچے کے جسم سے بھی تازہ ہوگا اور اُس کی جوانی کے دن لوٹ آتے ہیں۔“ (ایوب ۳۳:۲۵) بائبل کے ایک اَور وعدے کی بھی تکمیل ہوگی: ”اندھوں کی آنکھیں وا کی جائینگی اور بہروں کے کان کھولے جائینگے۔ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھرینگے اور گونگے کی زبان گائیگی۔“—یسعیاہ ۳۵:۵، ۶۔
۱۶ ذرا سوچئے: خواہ ہم ۸۰، ۸۰۰ یا اس سے بھی زیادہ سال کے ہوں، ہماری طبعی عمر سے قطعنظر، ہمارے جسم چاقوچوبند ہونگے۔ یہ بائبل کے اس وعدے کے عین مطابق ہوگا: ”وہاں کے باشندوں میں سے بھی کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔“ اُس وقت یہ وعدہ بھی پورا ہوگا: ”[خدا] اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۴؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
۱۷. خدا کی نئی دُنیا میں ہم لوگوں سے کونسی کامرانیوں کی توقع کر سکتے ہیں؟
۱۷ اُس نئی دُنیا میں ہم اپنے حیرتانگیز ذہن کو اپنے خالق کی خواہش کے مطابق استعمال کر سکیں گے جسے اُس نے سیکھنے کی لامحدود صلاحیت کے ساتھ خلق کِیا تھا۔ واہ، ذرا اُن حیرتانگیز کاموں کے بارے میں سوچئے جو ہم وہاں انجام دے سکیں گے! ناکامل انسانوں نے بھی زمین کے مختلف عناصر سے بےشمار چیزیں بنائی ہیں—سیلولر فونز، مائیکروفونز، گھڑیاں، پیجر، کمپیوٹرز، ہوائی جہاز، جیہاں آپ کسی بھی چیز کا نام لے سکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسے سامان سے نہیں بنی جسے وہ کائنات کے کسی دورافتادہ حصے سے لائے ہوں۔ آنے والے زمینی فردوس میں غیرمختتم زندگی کیساتھ تخلیقی کامرانی کا امکان بھی لامحدود ہوگا!—یسعیاہ ۶۵:۲۱-۲۵۔
۱۸. خدا کی نئی دُنیا میں زندگی کبھی اُکتانے والی کیوں نہیں ہوگی؟
۱۸ لہٰذا زندگی اُکتانے والی نہیں ہوگی۔ ہم اب بھی اپنے اگلے کھانے کی بابت سوچتے ہیں جبکہ ہم ہزاروں مرتبہ کھانا کھا چکے ہیں؟ انسانی کاملیت کے وقت ہم زمینی فردوس سے حاصل ہونے والی اس سے کہیں زیادہ خوشذائقہ خوراک سے لطفاندوز ہوں گے۔ (یسعیاہ ۲۵:۶) نیز ہمیں زمین کے حیوانات کی دیکھبھال کرنے اور اسکے دلکش غروبِآفتاب، پہاڑوں، دریاؤں اور وادیوں کے مناظر سے لطفاندوز ہونے کی ابدی خوشی حاصل ہوگی۔ واقعی خدا کی نئی دُنیا میں زندگی کبھی بھی بےکیف نہیں ہوگی!—زبور ۱۴۵:۱۶۔
خدائی تقاضوں پر پورا اُترنا
۱۹. یہ یقین رکھنا کیوں معقول ہے کہ زندگی کی خدائی بخشش حاصل کرنے کے تقاضے ہیں؟
۱۹ کیا آپ فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کی شاندار خدائی بخشش کوشش کئے بغیر ہی حاصل کرنے کی توقع کرینگے؟ کیا یہ معقول نہیں ہے کہ خدا ہم سے کسی چیز کا تقاضا کرے؟ یقیناً ایسا ہی ہے۔ درحقیقت خدا ہم کو ایسے ہی یہ بخشش نہیں دے گا۔ وہ اسے ہمارے لئے فراہم کرتا ہے لیکن ہمیں اسے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ جیہاں، اس میں جدوجہد شامل ہے۔ شاید آپ بھی وہی سوال پوچھیں جو کہ ایک جوان امیر سردار نے یسوع سے پوچھا تھا: ”مَیں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟“ یا شاید آپ وہی سوال پوچھیں جو فلپی کے ایک داروغہ نے پولس رسول سے پوچھا تھا: ”مَیں کیا کروں کہ نجات پاؤں؟“—متی ۱۹:۱۶؛ اعمال ۱۶:۳۰۔
۲۰. ہمیشہ کی زندگی کیلئے ایک لازمی تقاضا کیا ہے؟
۲۰ اپنی موت سے پہلے کی رات، یسوع نے اپنے باپ سے دُعا میں ایک بنیادی تقاضے کا ذکر کِیا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) کیا یہ معقول تقاضا نہیں کہ ہم یہوواہ کی بابت علم حاصل کریں جس نے ہمارے لئے ہمیشہ کی زندگی کو ممکن بنایا اور یسوع مسیح کی بابت بھی علم حاصل کریں جس نے ہماری خاطر جان دی؟ تاہم، محض ایسا علم حاصل کرنے سے زیادہ کچھ کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔
۲۱. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم ایمان ظاہر کرنے کا تقاضا پورا کر رہے ہیں؟
۲۱ بائبل یہ بھی کہتی ہے: ”جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے۔“ اس کے بعد یہ مزید کہتی ہے: ”جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھیگا بلکہ اس پر خدا کا غضب رہتا ہے۔“ (یوحنا ۳:۳۶) آپ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے اور اسے خدا کی مرضی کے مطابق بنانے سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ بیٹے پر ایمان رکھتے ہیں۔ آپ کو ہر غلط روش کو ترک کرکے خدا کو خوش کرنے والے کام کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپ کو پطرس رسول کے اس حکم کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے: ”توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے حضور سے تازگی کے دن آئیں۔“—اعمال ۳:۱۹۔
۲۲. یسوع کے نقشِقدم پر چلنے میں کونسے اقدام شامل ہیں؟
۲۲ دُعا ہے کہ ہم کبھی نہ بھولیں کہ ہم صرف یسوع پر ایمان ظاہر کرنے سے ہی ہمیشہ کی زندگی سے لطفاندوز ہو سکتے ہیں۔ (یوحنا ۶:۴۰؛ ۱۴:۶) ہم ’اُسکے نقشِقدم پر چلنے‘ سے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یسوع پر ایمان رکھتے ہیں۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) ایسا کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟ موزوں طور پر، یسوع نے دُعا میں کہا: ”دیکھ مَیں آیا ہوں تاکہ اَے خدا تیری مرضی پوری کروں۔“ (عبرانیوں ۱۰:۷) خدا کی مرضی بجا لانے اور یہوواہ کیلئے اپنی زندگی مخصوص کرنے کا فیصلہ کرنے کیلئے یسوع کی تقلید کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بعد آپکو اپنی مخصوصیت کے اظہار میں پانی میں بپتسمہ لینا چاہئے؛ یسوع نے بھی خود کو بپتسمے کیلئے پیش کِیا تھا۔ (لوقا ۳:۲۱، ۲۲) ایسے اقدام اُٹھانا بالکل معقول بات ہے۔ پولس رسول نے لکھا کہ ”مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی“ ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۴، ۱۵) کس طریقے سے؟ موزوں طور پر، محبت نے یسوع کو ہماری خاطر اپنی جان دینے کی تحریک دی تھی۔ کیا اسی سے ہمیں اُس پر ایمان ظاہر کرنے کی تحریک نہیں ملنی چاہئے؟ جیہاں، اسے ہمیں تحریک دینی چاہئے کہ ہم دوسروں کی مدد کرنے کیلئے خود کو وقف کر دینے کے اُسکے مشفقانہ نمونے کی پیروی کریں۔ مسیح نے خدا کی مرضی پوری کرنے کیلئے زندگی گزاری؛ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے کہ آئندہ کو اپنے لئے نہ جئیں۔
۲۳. (ا) زندگی حاصل کرنے والوں کو کن میں شامل ہو جانا چاہئے؟ (ب) مسیحی کلیسیا میں شامل لوگوں سے کیا تقاضا کِیا جاتا ہے؟
۲۳ یقیناً معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ جب ۳۳ س.ع. پر ۳۰۰۰ نے بپتسمہ لیا تو وہ ”اُن میں مل گئے۔“ کس میں مل گئے؟ لوقا وضاحت کرتا ہے کہ ”یہ رسولوں سے تعلیم پانے اور رفاقت رکھنے . . . میں مشغول رہے۔“ (اعمال ۲:۴۱، ۴۲) جیہاں، وہ بائبل کا مطالعہ کرنے اور رفاقت رکھنے کیلئے باہم جمع ہوتے تھے اور یوں وہ مسیحی کلیسیا میں مل گئے یا اس کا حصہ بن گئے۔ ابتدائی مسیحی روحانی ہدایت حاصل کرنے کے لئے باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے تھے۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۵) آجکل یہوواہ کے گواہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ ان اجلاسوں پر حاضر ہونے کیلئے آپکی حوصلہافزائی کرنا پسند کرینگے۔
۲۴. ”حقیقی زندگی“ کیا ہے اور یہ کیسے اور کب حاصل ہوگی؟
۲۴ اب لاکھوں لوگ زندگی کو پہنچانے والے اس سکڑے راستے پر چل رہے ہیں۔ اس سکڑے راستے پر چلتے رہنے کیلئے کوشش درکار ہے! (متی ۷:۱۳، ۱۴) پولس رسول نے اپنی پُرتپاک اپیل میں اس بات کا اظہار کِیا: ”ایمان کی اچھی کشتی لڑ۔ اس ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ کر لے جسکے لئے تُو بلایا گیا تھا۔“ ”ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ“ کرنے کیلئے یہ کشتی لڑنا نہایت ضروری ہے۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۲، ۱۹) وہ زندگی دُکھ تکلیف اور آدم کے گناہ کی وجہ سے آنے والی مصیبتوں سے پُر موجودہ زندگی نہیں ہے۔ اسکے برعکس، یہ خدا کی نئی دُنیا میں زندگی ہے جو اس نظامالعمل کے خاتمے کے بعد یہوواہ خدا اور اُسکے بیٹے سے محبت رکھنے والے تمام لوگوں کی خاطر مسیح کے فدیے کی قربانی کا اطلاق کرنے کے نتیجے میں جلد حاصل ہوگی۔ دُعا ہے کہ ہم سب زندگی—”حقیقی زندگی“—خدا کی شاندار نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی کا انتخاب کریں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻پیدایش ۳:۱۵ کا سانپ، عورت اور نسل کون ہیں؟
◻یسوع آدم کے مساوی کیسے تھا اور فدیے سے کیا ممکن ہوا ہے؟
◻آپ کونسی ایسی چیز کے منتظر ہیں جو خدا کی نئی دُنیا کو آپ کیلئے پُرلطف بنا دیگی؟
◻خدا کی نئی دُنیا میں رہنے کیلئے ہمیں کن تقاضوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے؟
[صفحہ 10 پر تصویر]
جوانوں اور بوڑھوں کے لئے یسوع ہی غیرمختتم زندگی کا واحد راستہ ہے
[صفحہ 11 پر تصویر]
خدا کے مُتعیّنوقت پر بوڑھے جوان ہو جائینگے