خالق آپکی زندگی کو بامقصد بنا سکتا ہے
”یہ سب خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے نام کی حمد کریں۔ کیونکہ اُس نے حکم دیا اور یہ پیدا ہو گئے۔“—زبور ۱۴۸:۵۔
۱، ۲. (ا) ہمیں کس سوال پر غور کرنا چاہئے؟ (ب) یسعیاہ کا سوال تخلیق سے کیسے تعلق رکھتا ہے؟
”کیا تُو نہیں جانتا؟“ یہ ایک ایمائی سوال معلوم ہو سکتا ہے جو بہتیروں کو یہ پوچھنے کی تحریک دیتا ہے کہ ’کیا جانیں؟‘ تاہم یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ لہٰذا ہم اسکے پسمنظر—بائبل میں یسعیاہ کی کتاب کے ۴۰ویں باب—پر غور کرنے سے اِسکے جواب کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ایک قدیم عبرانی شخص، یسعیاہ نے اسے تحریر کِیا، اسلئے یہ سوال بہت پُرانا ہے۔ تاہم، یہ نیا بھی ہے کیونکہ اسکا آپکی زندگی کے مقصد سے گہرا تعلق ہے۔
۲ اسقدر زیادہ اہم ہونے کی وجہ سے، یسعیاہ ۴۰:۲۸ میں درج یہ سوال ہماری طرف سے سنجیدہ غوروفکر کا مستحق ہے: ”کیا تُو نہیں جانتا؟ کیا تُو نے نہیں سنا کہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] خدایِابدیوتمام زمین کا خالق . . . ہے۔“ پس ’جاننے‘ کا تعلق زمین کے خالق سے ہے اور سیاقوسباق ظاہر کرتا ہے کہ اس میں زمین سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ اس سے پہلی دو آیات میں یسعیاہ نے ستاروں کی بابت لکھا: ”اپنی آنکھیں اُوپر اٹھاؤ اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے۔ وہی جو اُنکے لشکر کو شمار کرکے نکالتا ہے . . . اسکی قدرت کی عظمت اور اسکے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیرحاضر نہیں رہتا۔“
۳. خالق کی بابت زیادہ علم رکھنے کے باوجود آپ کو مزید جاننے کی خواہش کیوں رکھنی چاہئے؟
۳ جیہاں، سوال ”کیا تُو نہیں جانتا؟“ درحقیقت ہماری کائنات کے خالق کی بابت ہے۔ آپ شاید ذاتی طور پر یہ مانتے ہوں کہ یہوواہ خدا ”زمین کا خالق“ ہے۔ آپ غالباً اُسکی شخصیت اور اُسکی راہوں کی بابت بھی بہت علم رکھتے ہیں۔ تاہم اُس وقت کیا ہوگا جب آپکی ملاقات کسی ایسے مرد یا عورت سے ہوتی ہے جو خالق کے وجود کی بابت شک کرتا ہے یا واضح طور پر یہ نہیں جانتا کہ وہ کیسا ہے؟ ایسی ملاقات آپ کیلئے پریشانکُن نہیں ہونی چاہئے کیونکہ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو یا تو خالق سے ناواقف ہیں یا پھر اُس پر ایمان نہیں رکھتے۔—زبور ۱۴:۱؛ ۵۳:۱۔
۴. (ا) اس وقت خالق کی بابت سوچبچار کرنا کیوں موزوں ہے؟ (ب) سائنس کونسے جوابات فراہم نہیں کر سکتی؟
۴ تعلیمی ادارے ایسے مُتشکِک حضرات پیدا کرتے رہتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس کے پاس کائنات اور زندگی کی ابتدا کی بابت سوالات کے جواب موجود ہیں (یا پھر یہ انہیں ڈھونڈ نکالیگی۔) دی اوریجن آف لائف (ابتدائےحیات) میں مصنّفین ہیگن اور لینے تحریر کرتے ہیں: ”اکیسویں صدی کے آغاز پر بھی ابتدائےحیات پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ، جسے حل کرنا بہت مشکل ہے، خلا کی انتہائی وسعت سے لیکر مادے کے نہایت چھوٹے عنصر تک تمام شعبہجات میں تحقیقات کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔“ اس کے باوجود، آخری باب، ”دی کوئسچن ریمینز الائیو،“ (سوال ابھی باقی ہے) تسلیم کرتا ہے: ”ہم نے اس سوال کے چند سائنسی جوابات کی کھوج لگا لی ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ تاہم زندگی کا آغاز کیوں ہوا؟ کیا زندگی کا کوئی مقصد ہے؟ سائنس ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتی۔ یہ صرف اس بات کی تحقیق کرتی ہے کہ سب چیزیں ’کیسے‘ وجود میں آئیں۔ لیکن ’کیسے‘ اور ’کیوں‘ دو بالکل فرق سوال ہیں۔ . . . جہاں تک ’کیوں‘ کا سوال ہے تو فلسفے، مذہب اور—سب سے بڑھکر—ہم میں سے ہر ایک کو اس کا جواب تلاش کرنا چاہئے۔“
جوابات اور مقصد تلاش کرنا
۵. خالق کی بابت زیادہ سیکھنے سے کس قسم کے لوگ بالخصوص مستفید ہو سکتے ہیں؟
۵ جیہاں، ہم زندگی کی موجودگی کی وجہ جاننا چاہتے ہیں—اور بالخصوص یہ کہ ہم یہاں کیوں ہیں۔ مزیدبرآں، ہمیں ایسے لوگوں میں دلچسپی لینی چاہئے جو ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ کوئی خالق ہے اور وہ اُسکی راہوں کی بابت واقعی بہت کم علم رکھتے ہیں۔ یا پھر اُن لوگوں کی بابت سوچیں جنکا تعلق ایسے پسمنظر سے ہے جس میں خدا کی بابت نظریہ بائبل میں پیشکردہ نظریے سے بالکل فرق ہے۔ کروڑوں لوگوں نے مشرقِبعید میں یا پھر ایسے علاقوں میں پرورش پائی ہے جہاں بیشتر لوگ ایک شخصی خدا، کسی دلکش شخصیت کی مالک حقیقی ہستی کا تصور نہیں رکھتے۔ لفظ ”خدا“ اُنکے ذہن میں محض ایک مبہم قوت یا لاشخصی چیز کا خیال پیدا کرتا ہے۔ وہ ’خالق‘ یا اُسکی راہوں کو نہیں ’جانتے۔‘ اگر وہ ایسے ہی نظریات رکھنے والے لاکھوں لوگوں کیساتھ ملکر خالق کے وجود کے قائل ہو جائیں تو وہ ابدی امکانات سمیت کتنے شاندار فوائد حاصل کر سکتے ہیں! وہ ایک ایسی چیز بھی حاصل کر سکتے ہیں جو بڑی کمیاب ہے—زندگی میں حقیقی مقصد، حقیقی عزم اور ذہنی سکون۔
۶. آجکل بہتیرے لوگوں کی زندگیاں پال گوجن کے تجربے اور اُسکی تصاویر سے کیسے مشابہت رکھتی ہیں؟
۶ مثال کے طور پر: ۱۸۹۱ میں، فرانسیسی مُصوّر پال گوجن ایک تسکینبخش زندگی کی تلاش میں فرنچ پولینیشیا، ایک مجازی فردوس میں گیا۔ تاہم جلد ہی اُسکا اوباش ماضی اُسکے لئے اور دوسروں کیلئے بیماری کا باعث بن گیا۔ جب اُس نے محسوس کِیا کہ وہ قریبالمرگ ہے تو اُس نے کینوس کے ایک بہت بڑے ٹکڑے پر ایک تصویر بنائی جس میں اُس نے ’زندگی کی ایک بہت بڑے بھید کے طور پر عکاسی‘ کی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گوجن نے اُس تصویر کو کیا نام دیا؟ ”ہم کہاں سے آئے ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ ہم کدھر جا رہے ہیں؟“ آپ نے شاید دوسروں کو بھی اکثر ایسے ہی سوالات پوچھتے ہوئے سنا ہو۔ بہتیرے پوچھتے ہیں۔ تاہم جب اُنہیں کوئی تسلیبخش جواب—زندگی میں کوئی حقیقی مقصد—نہیں ملتا تو پھر وہ کس طرف رجوع کر سکتے ہیں؟ وہ شاید یہ نتیجہ اخذ کریں کہ اُنکی زندگی حیوانوں کی زندگی سے زیادہ فرق نہیں ہے۔—۲-پطرس ۲:۱۲۔a
۷، ۸. سائنس کی تحقیقات ازخود کافی کیوں نہیں ہیں؟
۷ پس، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ طبیعیات کے پروفیسر فریمین ڈیسن جیسا شخص یہ کیوں لکھ سکتا تھا: ”جب مَیں وہی سوالات پوچھتا ہوں جو ایوب نے پوچھے تھے تو بہت سے لوگ میری حمایت کرتے ہیں۔ ہم کیوں مصیبت اُٹھاتے ہیں؟ دُنیا میں اتنی ناانصافی کیوں ہے؟ دُکھدرد کا مقصد کیا ہے؟“ (ایوب ۳:۲۰، ۲۱؛ ۱۰:۲، ۱۸؛ ۲۱:۷) جیسےکہ پہلے ذکر کِیا گیا ہے کہ بہتیرے لوگ جوابات کیلئے خدا کی بجائے سائنس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ حیاتیات کے ماہرین، بحری جغرافیہ کے ماہرین اور ایسے ہی دیگر لوگ ہمارے کرۂارض اور اس پر پائی جانے والی زندگی کی بابت علم میں ترقی کرتے جا رہے ہیں۔ دوسری سمت ماہرینِفلکیات اور ماہرینِطبیعیات ہمارے نظامِشمسی، ستاروں، حتیٰکہ دُوراُفتادہ کہکشاؤں کی بابت تحقیق کرنے سے پہلے سے کہیں زیادہ علم حاصل کر رہے ہیں۔ (مقابلہ کریں پیدایش ۱۱:۶۔) ایسے حقائق کن معقول نتائج کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟
۸ بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ کائنات سے خدا کی ”عقل“ یا ”تخلیقی کام“ ظاہر ہوتے ہیں۔ تاہم کیا اس سے بنیادی نکتہ ماند پڑ سکتا ہے؟ سائنس میگزین نے بیان کِیا: ”جب محققین یہ کہتے ہیں کہ علمِکائنات سے خدا کی ’عقل‘ یا ’تخلیقی کام‘ ظاہر ہوتے ہیں تو وہ درحقیقت کائنات کے کم اہم پہلو یعنی اسکی طبیعیاتی ساخت کو الہٰی ذات سے منسوب کر رہے ہوتے ہیں۔“ دراصل، ماہرِطبیعیات اور نوبل اعزاز حاصل کرنے والے سٹیون وینبرگ نے لکھا: ”کائنات جتنی زیادہ قابلِادراک دکھائی دیتی ہے یہ اُتنی ہی زیادہ بےمقصد ہو جاتی ہے۔“
۹. کونسا ثبوت خالق کی بابت سیکھنے میں ہماری اور دوسروں کی مدد کر سکتا ہے؟
۹ پھربھی، آپکا شمار شاید اُن لاکھوں لوگوں میں ہو جنہوں نے بڑی سنجیدگی سے اس معاملے کی چھانبین کی ہے اور یہ سمجھ گئے ہیں کہ زندگی میں حقیقی مقصد خالق کو جاننے سے وابستہ ہے۔ ذرا پولس رسول کے تحریرکردہ الفاظ کو یاد کیجئے: ”انسان یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا کی بابت کچھ نہیں جانتے۔ دُنیا کی ابتدا ہی سے، انسان اُسکی بنائی ہوئی چیزوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کیسا ہے۔ اس سے اُسکی ہمیشہ قائم رہنے والی قوت ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا ہے۔“ (رومیوں ۱:۲۰، ہولی بائبل، نیو لائف ورشن) علاوہازیں، ہماری دُنیا اور ہماری اپنی بابت ایسے حقائق موجود ہیں جو خالق کو تسلیم کرنے اور اُس سے وابستہ مقصد کو حاصل کرنے میں لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اسکے تین پہلوؤں پر غور کریں: ہمارے اِردگرد کی کائنات، ابتدائےحیات اور ہماری اپنی ذہنی لیاقتیں۔
ایمان کی وجوہات
۱۰. ہمیں ”ابتدا“ پر کیوں غور کرنا چاہئے؟ (پیدایش ۱:۱؛ زبور ۱۱۱:۱۰)
۱۰ ہماری کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ آپ شاید خلائی دُوربینوں اور خلائی تحقیق کی بابت رپورٹوں کے حوالے سے جانتے ہوں کہ بیشتر سائنسدان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ اسکی ابتدا ہوئی تھی اور یہ وسیع ہوتی رہتی ہے۔ اسکا کیا مطلب ہے؟ ذرا ماہرِفلکیات سر برنارڈ لوول کے اس بیان کو سنیں: ”اگر ماضی میں کسی وقت کائنات ازحد چھوٹی اور لامتناہی کثافت کی غیرمعمولی حالت میں تھی تو ہمیں یہ سوچنا پڑیگا کہ پھر اس سے پہلے کیا تھا۔ . . . ہمیں ابتدا کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑیگا۔“
۱۱. (ا) کائنات کتنی وسیع ہے؟ (ب) کائنات میں موزوں تناسب کس بات کی دلالت کرتا ہے؟
۱۱ زمین سمیت کائنات کی ساخت حیرانکُن ہمآہنگی کو منعکس کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہمارے سورج اور دیگر ستاروں کی دو شاندار خوبیاں انکی طویلالمدت کارکردگی اور انکی قیامپذیری ہیں۔ حالیہ تخمینہجات کے مطابق دیدنی کائنات میں کہکشاؤں کی تعداد ۵۰ بلین (۵۰،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰) سے ۱۲۵ بلین تک ہے۔ نیز ہماری ملکی وے کہکشاں میں کروڑہا ستارے ہیں۔ اب ذرا غور فرمائیے: ہم جانتے ہیں کہ ایک آٹوموبائل انجن کو ایندھن اور ہوا کے مخصوص تناسب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کار ہے تو آپ اسکے انجن کی ٹیوننگ کرنے کیلئے کسی ماہر مکینک کی خدمات حاصل کرینگے تاکہ آپ کی کار روانی اور زیادہ اچھے طریقے سے چلے۔ اگر ایک انجن میں ایسا تناسب نہایت اہم ہوتا ہے تو پھر نہایت خوشاسلوبی کیساتھ ”روشنی دینے والے“ سورج کی بابت کیا ہے؟ واضح طور پر، اس میں شامل خاص قوتوں میں زمین پر زندگی کے وجود کیلئے موزوں تناسب قائم رکھا گیا ہے۔ کیا یہ خودبخود پیدا ہو گیا تھا؟ زمانۂقدیم کے ایوب سے سوال کِیا گیا: ”کیا آسمانوں کو منظم کرنے والے اصول تُو نے وضع کئے تھے یا زمین پر قوانینِفطرت کا تعیّن تُو نے کِیا تھا؟“ (ایوب ۳۸:۳۳، دی نیو انگلش بائبل) کسی انسان نے ایسا نہیں کِیا۔ پس یہ موزوں تناسب کہاں سے آ گیا؟—زبور ۱۹:۱۔
۱۲. اس پر غور کرنا کیوں نامعقول نہیں ہے کہ تخلیق کے پیچھے کوئی طاقتور فہیموعاقل ہستی ہے؟
۱۲ کیا یہ کسی ایسی چیز یا کسی ایسی ہستیکی طرف سے ہو سکتا ہے جسے انسانی آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں؟ جدید سائنس کی روشنی میں اس سوال پر غور کیجئے۔ بہتیرے ماہرینِفلکیات اب ایسے نہایت طاقتور اجرامِفلکی کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں جو بلیک ہولز کہلاتے ہیں۔ ان بلیک ہولز کو دیکھا تو نہیں جا سکتا مگر ماہرین اُنکی موجودگی کے قائل ہیں۔ اسی طرح، بائبل ایک ایسے عالم کا ذکر کرتی ہے جس میں طاقتور روحانی خلائق ہیں جنہیں دیکھا نہیں جا سکتا۔ اگر ایسی طاقتور، نادیدہ ہستیاں موجود ہیں تو کیا یہ معقول نہ ہو گا کہ کائنات میں پائے جانے والے موزوں تناسب کا مصدر بھی ایک نہایت طاقتور فہیموعاقل ہستی ہے؟—نحمیاہ ۹:۶۔
۱۳، ۱۴. (ا) سائنس ابتدائےحیات کی بابت درحقیقت کس نتیجے پر پہنچی ہے؟ (ب) زمین پر زندگی کی موجودگی کس بات کا اشارہ دیتی ہے؟
۱۳ خالق کو تسلیم کرنے میں لوگوں کی مدد کرنے والا دوسرا ثبوت ابتدائےحیات ہے۔ لوئیس پاسچر کے تجربات کے وقت سے اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ زندگی بغیر کسی چیز کے خودبخود پیدائش کے ذریعے وجود میں نہیں آتی۔ پس زمینی زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ سائنسدانوں نے ۱۹۵۰ کے دہے میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ابتدائی ماحول پر آسمانی بجلی کی مسلسل ضربیں لگنے سے زندگی نے آہستہآہستہ کسی سمندر میں فروغ پانا شروع کر دیا۔ تاہم، حالیہ ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ زمینی حیات کی ایسی ابتدا بعیدازقیاس ہے کیونکہ اس قسم کا ماحول کبھی موجود ہی نہیں تھا۔ نتیجتاً، بعض سائنسدان ایسی وضاحت کی تلاش میں ہیں جس میں نقص کی گنجائش کم ہو۔ تاہم کیا وہ بھی بنیادی نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟
۱۴ کئی عشروں تک کائنات اور اس میں پائی جانے والی حیات کا مطالعہ کرنے والے برطانوی سائنسدان سر فریڈ ہولے نے رائےزنی کی: ”قدرت کی بےہنگم قوتوں کے ذریعے زندگی کی ابتدا کے غیرمنطقی معمولی امکان کو تسلیم کرنے کی بجائے یہ خیال کرنا زیادہ معقول دکھائی دیتا ہے کہ ابتدائےحیات ایک دانستہ ذیشعور عمل تھا۔“ جیہاں، جتنا زیادہ ہم زندگی کے عجائب کی بابت سیکھتے ہیں یہ بات اُتنی ہی زیادہ منطقی بن جاتی ہے کہ زندگی ایک ذہین ماخذ سے ہے۔—ایوب ۳۳:۴؛ زبور ۸:۳، ۴؛ ۳۶:۹؛ اعمال ۱۷:۲۸۔
۱۵. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ آپ لاثانی ہیں؟
۱۵ پس، پہلی دلیل کائنات کے سلسلے میں اور دوسری زمین پر ابتدائےحیات کے حوالے سے پیش کی گئی ہے۔ اب تیسری شہادت یعنی ہماری اپنی لاثانیت پر غور کریں۔ تمام انسان کئی طریقوں سے لاثانی ہیں لہٰذا اسکا مطلب ہے کہ آپ بھی لاثانی ہیں۔ کیسے؟ آپ نے غالباً سنا ہو کہ دماغ کو طاقتور کمپیوٹر سے تشبِیہ دی جاتی ہے۔ تاہم، حالیہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ یہ موازنہ ہر لحاظ سے غیرموزوں ہے۔ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ایک سائنسدان نے بیان کِیا: ”آجکل کے کمپیوٹر تو ۴ سال کی عمر کے انسان کی دیکھنے، بولنے، حرکت کرنے اور فطری ذہانت کو عمل میں لانے کی صلاحیت کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ . . . یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ نہایت طاقتور سپرکمپیوٹر میں معلومات پہنچانے کی صلاحیت ایک گھونگھے کے اعصابی نظام—[آپکی] کھوپڑی کے سپرکمپیوٹر میں موجود طاقت کے ایک بہت ہی چھوٹے حصے—کے برابر ہے۔“
۱۶. آپ کی زبان کی صلاحیت کس بات کی نشاندہی کرتی ہے؟
۱۶ زبان ایک ایسی صلاحیت ہے جو آپکو اپنے دماغ کی وجہ سے حاصل ہے۔ بعض لوگ دو، تین یا زیادہ زبانیں بولتے ہیں لیکن ایک زبان بولنے کی صلاحیت بھی ہمیں لاثانی بنا دیتی ہے۔ (یسعیاہ ۳۶:۱۱؛ اعمال ۲۱:۳۷-۴۰) پروفیسر آر. ایس. اور ڈی. ایچ. فاؤٹس پوچھتے ہیں: ”کیا صرف انسان ہی . . . زبان کے ذریعے رابطہ کرنے کے قابل ہے؟ . . . تمام ذہین جانور بھی اشاروں، جسم کی بو، مخصوص آوازوں، چیخوپکار اور گیتوں کے ذریعے رابطہ رکھتے ہیں جبکہ شہد کی مکھیاں طرزِپرواز کے ذریعے ایسا کرتی ہیں۔ تاہم سوائے انسان کے جانوروں کے پاس گرامر کے مطابق کوئی مرتب زبان نہیں ہے۔ ایک نہایت اہم بات یہ بھی ہے کہ جانور ذہنی خاکے نہیں بنا سکتے۔ وہ محض بےمقصد نقشونگار بناتے ہیں۔“ واقعی، صرف انسان ہی بولنے اور پُرمطلب ذہنی خاکے بنانے کیلئے دماغ کو استعمال کر سکتے ہیں۔—مقابلہ کریں یسعیاہ ۸:۱؛ ۳۰:۸؛ لوقا ۱:۳۔
۱۷. کسی جانور کے آئینہ دیکھنے اور انسان کے آئینہ دیکھنے میں کیا بنیادی فرق ہے؟
۱۷ مزیدبرآں، آپ اپنی ذات سے واقف ہیں؛ آپ خود کو پہچانتے ہیں۔ (امثال ۱۴:۱۰) کیا آپ نے کبھی کسی پرندے، کتے یا بلی کو آئینہ دیکھ کر ٹھونگیں مارتے، غراتے یا حملہ کرتے دیکھا ہے؟ وہ اپنےآپ کو نہیں پہچانتا بلکہ وہ سوچتا ہے کہ شاید وہ کسی دوسرے جانور کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے برعکس جب آپ آئینہ دیکھتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ یہ آپ ہی ہیں۔ (یعقوب ۱:۲۳، ۲۴) آپ اپنی وضعقطع ٹھیک کر سکتے ہیں یا یہ سوچ سکتے ہیں کہ آپ آئندہ چند سالوں میں کیسے دکھائی دیں گے۔ جانور ایسا نہیں کرتے۔ جیہاں، آپ کا دماغ آپکو لاثانی بناتا ہے۔ اس کا سہرا کس کے سر ہے؟ اگر خدا نے نہیں تو پھر آپکا دماغ کس نے بنایا؟
۱۸. کونسی ذہنی صلاحیتیں آپکو جانوروں سے فرق کر دیتی ہیں؟
۱۸ آپکا دماغ آپکو اخلاقی حس کے علاوہ فن اور موسیقی سے بھی لطفاندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ (خروج ۱۵:۲۰؛ قضاۃ ۱۱:۳۴؛ ۱-سلاطین ۶:۱، ۲۹-۳۵؛ متی ۱۱:۱۶، ۱۷) جانوروں کے علاوہ، آپ ہی یہ صلاحیت کیوں رکھتے ہیں؟ جانور اپنا دماغ صرف فوری ضروریات—خوراک حاصل کرنے، ساتھی تلاش کرنے یا گھونسلا بنانے—کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ صرف انسان ہی دُوراندیشی سے کام لیتے ہیں۔ بعض تو یہاں تک سوچتے ہیں کہ اُن کے افعال آئندہ سالوں میں ماحول یا اُنکی اولاد پر کیا اثر ڈالینگے۔ کیوں؟ واعظ ۳:۱۱ انسانوں کی بابت کہتی ہے: ”[خالق] نے ابدیت کو بھی اُنکے دل میں جاگزین کِیا ہے۔“ جیہاں، ابدیت کے مفہوم کو سمجھنے یا نہ ختم ہونے والی زندگی کا تصور کرنے کی آپکی صلاحیت واقعی بڑی خاص ہے۔
خالق کو بامقصد بنانے دیں
۱۹. خالق کی بابت سوچنے میں دوسروں کی مدد کرنے کے لئے آپ کونسے تین دلائل استعمال کر سکتے ہیں؟
۱۹ ہم نے صرف تین حلقوں پر باتچیت کی ہے: وسیع کائنات میں پایا جانے والا موزوں تناسب، زمین پر ابتدائےحیات اور انسانی دماغ کی مختلف صلاحیتوں سمیت اس کی ناقابلِتردید لاثانیت۔ یہ تینوں کس کی نشاندہی کرتے ہیں؟ ایک دلیل یہ ہے، جسے آپ کسی نتیجے پر پہنچنے میں دوسروں کی مدد کرنے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ پہلے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں: کیا کائنات کی کوئی ابتدا ہوئی تھی؟ بیشتر اتفاق کریں گے کہ ہوئی تھی۔ اس کے بعد پوچھیں: کیا اُس ابتدا کا کوئی سبب تھا یا نہیں؟ بہتیرے لوگ سمجھتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کا کوئی سبب تھا۔ اس سے آخری سوال پیدا ہوتا ہے: اس ابتدا کا سبب کوئی ابدی چیز تھی یا کوئی ابدی ہستی؟ ان اہم نکات کو اگر واضح اور منطقی انداز میں پیش کِیا جائے تو بہتیروں کی اس نتیجے پر پہنچنے کے لئے مدد ہو سکتی ہے: کوئی خالق ضرور ہے! اگر ایسا ہے تو پھر کیا زندگی میں کسی مقصد کا ہونا ممکن نہیں ہونا چاہئے؟
۲۰، ۲۱. زندگی کو بامقصد بنانے کیلئے خالق کی بابت جاننا کیوں ضروری ہے؟
۲۰ ہمارے وجود بشمول ہماری اخلاقی حس اور اخلاقیات کو خالق سے ہی منسوب ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر رولو مے نے ایک مرتبہ لکھا: ”اخلاقیات کا واحد موزوں ڈھانچہ زندگی کے بنیادی مقصد پر مبنی ہے۔“ اسے کہاں تلاش کِیا جا سکتا ہے؟ وہ مزید بیان کرتا ہے: ”بنیادی ڈھانچہ خدا کے اوصاف کا مجموعہ ہی ہے۔ خدائی اصول ہی وہ اصول ہیں جو تخلیق کی ابتدا سے اختتام تک زندگی کی بنیاد ہیں۔“
۲۱ پس ہم خوب سمجھتے ہیں کہ زبورنویس نے فروتنی اور حکمت کا مظاہرہ کیوں کِیا جب اُس نے خالق سے التجا کی: ”اَے خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] اپنی راہیں مجھے دکھا۔ اپنے راستے مجھے بتا دے۔ مجھے اپنی سچائی پر چلا اور تعلیم دے۔ کیونکہ تُو میرا نجات دینے والا خدا ہے۔“ (زبور ۲۵:۴، ۵) خالق کو بہتر طور پر جاننے سے، زبورنویس کو واقعی زندگی میں زیادہ مدعاومقصد اور راہنمائی حاصل ہوئی ہوگی۔ ہم سب کیساتھ بھی ایسا ہی واقع ہو سکتا ہے۔—خروج ۳۳:۱۳۔
۲۲. خالق کی راہوں کو جاننے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۲۲ خالق کی ”اپنی راہوں“ کی بابت جاننے میں یہ بات زیادہ بہتر طور پر جاننا شامل ہے کہ وہ کیسا ہے، اُسکی شخصیت اور اسکی راہیں کیسی ہیں۔ چونکہ خالق نادیدہ اور نہایت طاقتور ہے اسلئے ہم اُسے بہتر طور پر کیسے جان سکتے ہیں؟ اگلا مضمون اس پر بات کریگا۔
[فٹنوٹ]
a نازی مراکزِاسیران میں پیش آنے والے تجربات کی بِنا پر ڈاکٹر وِکٹر ای. فرینکل نے تسلیم کِیا: جانوروں میں پائے جانے والے ”جبلّی رجحانات کی ’ثانوی تصویب‘ کی نسبت کسی مقصد کیلئے انسان کی تلاش اُس کی زندگی میں بنیادی محرک ہوتا ہے۔“ اُس نے مزید بیان کِیا کہ دوسری عالمی جنگ کے عشروں بعد، فرانس کے ایک سروے نے یہ ”ظاہر کر دیا کہ رائےدہندگان میں سے ٪۸۹ نے تسلیم کِیا کہ انسان کو زندہ رہنے کے لئے ’کسی چیز‘ کی ضرورت ہے۔“
اپ کیسے جواب دینگے؟
◻اپنی کائنات کی بابت ہمیں محض سائنسی معلومات سے زیادہ جاننے کی ضرورت کیوں ہے؟
◻خالق کی بابت سوچبچار کرنے میں دوسروں کی مدد کرنے کیلئے آپ کس طرف اشارہ کر سکتے ہیں؟
◻خالق کی بابت جاننا زندگی میں تسلیبخش مقصد حاصل کرنے کی کُنجی کیوں ہے؟
[صفحہ 18 پر ڈائیگرام/تصویر]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟
ہماری کائنات
↓ ↓
کوئی ابتدا ابتدا
نہیں ہوئی تھی ہوئی تھی
↓ ↓
کوئی سبب نہیں تھا سبب تھا
↓ ↓
کوئی ابدی کوئی ابدی
چیز ہستی
[صفحہ 15 پر تصویر]
کائنات کی وسعت اور اس کا موزوں تناسب بہتیروں کیلئے خالق کی بابت سوچنے کا باعث بنا ہے
[تصویر کا حوالہ]
Pages 15 and 18: Jeff Hester )Arizona State University( and NASA