سوالات از قارئین
ایک وفادار مسیحی بیوی کو اپنے شوہر کی طرف سے طلاق کی کارروائی کی کس حد تک مزاحمت کرنی چاہئے؟
جب انسان کے ازدواجی رشتے کا آغاز ہوا تو خدا نے کہا کہ شوہر اور بیوی آپس میں ’ملے‘ رہینگے۔ (پیدایش ۲:۱۸-۲۴) انسانوں کی ناکاملیت کی وجہ سے بہتیری شادیاں مسائل سے دوچار ہیں لیکن اِسکے باوجود خدا چاہتا ہے کہ بیاہتا ساتھی ایک دوسرے سے جُدا نہ ہوں۔ پولس رسول نے لکھا: ”جنکا بیاہ ہو گیا ہے اُنکو مَیں نہیں بلکہ خداوند حکم دیتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے جُدا نہ ہو۔ (اور اگر جُدا ہو تو یا بےنکاح رہے یا اپنے شوہر سے پھر ملاپ کر لے) نہ شوہر بیوی کو چھوڑے۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۱۰، ۱۱۔
اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ناکامل انسانوں کے طور پر بعضاوقات شریکِحیات قطعتعلق کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پولس نے کہا کہ اگر ایک بیاہتا ساتھی چھوڑ کر چلا جائے تو دونوں کو ”بےنکاح“ رہنا ہوگا۔ کیوں؟ اسلئے کہ بیاہتا ساتھیوں میں علیٰحدگی ہو جانے کے باوجود خدا کی نظر میں اُنکا بندھن قائم ہے۔ پولس یہ کہہ سکتا تھا کیونکہ یسوع نے ایک مسیحی شادی کیلئے یہ خاص معیار قائم کِیا تھا: ”جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری [یونانی، پورنیا] کے سوا کسی اَور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے۔“ (متی ۱۹:۹) جیہاں، صحیفائی طور پر شادی کو ختم کرنے کے لئے طلاق کی واحد بنیاد ”حرامکاری“ یعنی جنسی بداخلاقی ہے۔ بدیہی طور پر، پولس نے جس معاملے کا ذکر کِیا اُس میں دونوں ساتھیوں میں سے کوئی بھی بداخلاقی کا مُرتکب نہیں تھا اسلئے جب وہ دونوں جُدا ہوئے تو خدا کی نظر میں اُنکا ازدواجی بندھن ختم نہیں ہوا تھا۔
اِسکے بعد پولس نے ایک فرق حالت کا ذکر کِیا جس میں ایک سچے مسیحی کا بیاہتا ساتھی اُسکا ہمایمان نہیں ہے۔ پولس کی ہدایات پر غور کیجئے: ”لیکن مرد جو باایمان نہ ہو اگر وہ جُدا ہونا چاہے تو جُدا ہونے دو۔ ایسی حالت میں کوئی بھائی یا بہن پابند نہیں اور خدا نے ہم کو میلملاپ کے لئے بلایا ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۱۲-۱۶) اگر ایک وفادار بیوی کا بےایمان شوہر اُسے چھوڑ دیتا ہے اور قانونی طور پر طلاق دینا چاہتا ہے تو وہ کیا کریگی؟
ترجیحاً وہ چاہیگی کہ وہ اُس کیساتھ رہے۔ وہ اُس سے محبت کرتی رہیگی اور باہمی جذباتی اور جنسی ضروریات کے علاوہ اس بات کا بھی خیال رکھے گی کہ اُسے اور اُسکے چھوٹے بچوں کو مالی کفالت کی ضرورت ہے۔ وہ یہ اُمید بھی رکھ سکتی ہے کہ شاید وقت آنے پر اُسکا شوہر ایماندار بن کر اپنی زندگی بچانے کے قابل ہو جائے۔ تاہم، اگر وہ شادی کو (کسی غیرصحیفائی بنیاد پر) ختم کرنا چاہتا ہے تو پولس کے مشورے کے مطابق بیوی اُسے ”جُدا ہونے“ دے۔ اگر ایک ایماندار شوہر شادی کی بابت خدائی نظریے کی بےحُرمتی کرتے ہوئے علیٰحدہ ہونے پر مُصر ہے تو پھربھی اسی اصول کا اطلاق ہوگا۔
تاہم، ایسی صورت میں اُسے اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ کیسے؟ وہ اپنے پیارے بچوں کو اپنی تحویل میں ہی رکھنا چاہیگی تاکہ وہ ماں کی محبت سے کبھی محروم نہ ہوں اور اُنکی اخلاقی تربیت کیساتھ ساتھ اُن میں عمدہ بائبل تعلیمات پر مبنی ایمان بھی پیدا ہو۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۵) طلاق سے اُسکے اپنے حقوق کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، وہ حکام کے سامنے اپنا مؤقف درست طور پر پیش کرنے کیلئے اقدام اُٹھا سکتی ہے تاکہ اپنے بچوں سے ملاقات کے حق کی حفاظت اور اس بات کا یقین کر سکے کہ اُسکا شوہر جس خاندان کو چھوڑ رہا ہے اُسکی مالی کفالت کرتا رہے۔ بعض ممالک میں طلاق کا مقدمہ لڑنے والی عورت ایسی قانونی دستاویزات پر دستخط کر سکتی ہے جنکی رُو سے اُسے اپنے شوہر کی طرف سے طلاق کیساتھ رضامندی کے اظہار کے بغیر ہی بچوں کی تحویل اور مالی کفالت جیسی مراعات حاصل ہو سکتی ہیں۔ دیگر مقامات پر ان دستاویزات میں درج الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ طلاق پر راضی ہے اسلئے اگر اُسکا شوہر زناکاری کا مُرتکب تھا تو ایسی دستاویزات پر بیوی کے دستخط اس بات کا اظہار ہونگے کہ وہ اُسے رد کر رہی ہے۔
علاقے اور کلیسیا کے بیشتر لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ آیا طلاق صحیفائی وجوہات کی بِنا پر ہوئی ہے یا نہیں۔ لہٰذا، اس سے پہلے کہ معاملہ اس نوبت کو پہنچے بیوی کیلئے قرینِمصلحت یہی ہے کہ وہ (ترجیحاً تحریر میں) صدارتی نگہبان اور کلیسیا میں کسی دوسرے بزرگ کو تمام حقائق سے آگاہ کر دے۔ اس طرح مستقبل میں یا اِس وقت کوئی بھی مسئلہ برپا ہونے کی صورت میں حقائق دستیاب ہونگے۔
آئیے یسوع کی بات پر دوبارہ غور کریں: ”جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اَور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے۔“ اگر ایک شوہر واقعی جنسی بداخلاقی کا مُرتکب ہے لیکن اپنی بیوی کیساتھ رہنا چاہتا ہے توپھر، بیوی (یسوع کی مثال کے مطابق بےقصور ساتھی) کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اُسے معاف کرکے اُس کیساتھ ازدواجی تعلقات قائم رکھے گی یا اُسے چھوڑ دیگی۔ اگر وہ اُسے معاف کرکے اُس کیساتھ ازدواجی بندھن قائم رکھتی ہے تو اُسکا دامن پاک ہی رہیگا۔—ہوسیع ۱:۱-۳؛ ۳:۱-۳۔
بداخلاق شوہر کی طرف سے طلاق کے مطالبے کے باوجود، بیوی اُسکی واپسی کی اُمید میں اُسے معاف کرنے کیلئے رضامند ہو سکتی ہے۔ اپنے ضمیر اور حالات کے مطابق فیصلہ اُسی کو کرنا ہے کہ آیا وہ اُسکی طرف سے طلاق کے مقدمے کیخلاف لڑیگی یا نہیں۔ بعض ممالک میں طلاق کا مقدمہ لڑنے والی عورت ایسے کاغذات پر دستخط کرنے کے قابل ہوتی ہے جنکے مطابق اُسے طلاق پر راضی ہوئے بغیر ہی بچوں کی تحویل اور مالی کفالت حاصل ہو جاتی ہے۔ ایسے کاغذات پر دستخط کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ وہ اُسے چھوڑ رہی ہے۔ تاہم، کچھ ممالک میں طلاق کا مقدمہ لڑنے والی عورت سے ایسے کاغذات پر دستخط کرنے کا تقاضا کِیا جا سکتا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طلاق پر راضی ہے۔ ایسے کاغذات پر دستخط کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے قصوروار شوہر کو رد کر رہی ہے۔
غلطفہمی سے بچنے کیلئے، اس صورت میں بھی بیوی کو خط کے ذریعے کلیسیائی نمائندوں کو بتا دینا چاہئے کہ وہ کونسے اقدام اُٹھا رہی ہے اور کن محرکات کے تحت ایسا کِیا جا رہا ہے۔ وہ بیان کر سکتی ہے کہ اُس نے اپنے شوہر کو بتا دیا ہے کہ وہ اُسے معاف کرنے اور ازدواجی بندھن قائم رکھنے کیلئے تیار ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ طلاق اُسکی مرضی کے خلاف ہے اور وہ اُسے رد کرنے کی بجائے اب بھی اُسے معاف کرنے کیلئے تیار ہے۔ معاف کرنے اور ازدواجی بندھن قائم رکھنے کیلئے رضامندی کا اظہار کرنے کے بعد، مالی یا بچوں کی تحویل کے معاملات نپٹانے کیلئے کاغذات پر دستخط کرنا شوہر کو رد کرنے کی علامت نہیں ہوگا۔a
اگر بیوی طلاق کے بعد بھی معاف کرنے پر رضامند ہے تو وہ دونوں کسی دوسرے کیساتھ شادی کرنے کیلئے آزاد نہیں ہونگے۔ تاہم، اگر بیوی، بےقصور ساتھی جسکی معافی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا گیا تھا بعدازاں، اپنے شوہر کو اُسکی بداخلاقی کیلئے چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہے توپھر دونوں آزاد ہونگے۔ یسوع نے واضح کِیا کہ بےقصور ساتھی ایسا فیصلہ کرنے کا حقدار ہے۔—متی ۵:۳۲؛ ۱۹:۹؛ لوقا ۱۶:۱۸۔
[فٹنوٹ]
a ہر ملک میں قانونی طریقۂکار اور کاغذی کارروائی مختلف ہوتی ہے۔ دستخط کرنے سے پہلے قانونی کاغذات میں درج طلاق کی شرائط کا بغور جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اگر بےقصور ساتھی ایسے کاغذات پر دستخط کرتا ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ اُسے (مرد یا عورت) اپنے شریکِحیات کی طرف سے طلاق کے دعوے پر کوئی اعتراض نہیں تو یہ اُسے رد کرنے کے مترادف ہوگا۔—متی ۵:۳۷۔