مختلف رُجحانات کو فروغ دینے والے بھائی
والدین کے فیصلے لامحالہ اُن کے بچوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ بات آج بھی اتنی ہی سچ ہے جتنی کہ باغِعدن میں تھی۔ آدم اور حوا کی باغیانہ روش نے تمام نسلِانسانی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ (پیدایش ۲:۱۵، ۱۶؛ ۳:۱-۶؛ رومیوں ۵:۱۲) چنانچہ، ہم سب اپنے خالق کیساتھ ایک مثبت رشتہ قائم کرنے کے موقع سے فائدہ اُٹھانے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں پہلے دو بھائیوں، قائن اور ہابل کی مثال اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔
اس بات کا کوئی صحیفائی ریکارڈ موجود نہیں کہ عدن سے نکالے جانے کے بعد خدا نے آدم اور حوا سے باتچیت جاری رکھی۔ تاہم، یہوواہ نے اُنکے بیٹوں سے اپنا رابطہ منقطع نہیں کِیا تھا۔ یقیناً قائن اور ہابل نے اپنے والدین سے اُس واقعے کی بابت سن رکھا تھا۔ وہ ’کروبیوں کو اور زندگی کے درخت کی راہ کی حفاظت کرنے اور چوگرد گھومنے والی شعلہزن تلوار‘ کو دیکھ سکتے تھے۔ (پیدایش ۳:۲۴) یہ دونوں بھائی خدا کے اس بیان کی صداقت کو بھی سمجھ سکتے تھے کہ مشقت اور دُکھدرد زندگی کا حصہ بن جائینگے۔—پیدایش ۳:۱۶، ۱۹۔
قائن اور ہابل سانپ سے کہے گئے یہوواہ کے ان الفاظ سے بھی واقف ہونگے: ”مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹیگا۔“ (پیدایش ۳:۱۵) قائن اور ہابل یہوواہ کی بابت جو کچھ جانتے تھے وہ اُنہیں اُس کے ساتھ ایک خوشگوار رشتہ اُستوار کرنے کے قابل بنا سکتا تھا۔
یہوواہ کی پیشینگوئی اور ایک شفیق محسن کے طور پر اُس کی خوبیوں پر غوروخوض کرنے سے قائن اور ہابل میں الہٰی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ہوگی۔ تاہم وہ اس خواہش کو کس حد تک فروغ دینے کیلئے تیار تھے؟ کیا وہ خدا کی پرستش کی باطنی خواہش کے مطابق عمل کرنے اور اُس پر ایمان ظاہر کرنے کی حد تک اپنی روحانیت کو فروغ دینے کیلئے راضی تھے؟—متی ۵:۳۔
بھائی ہدیے لاتے ہیں
ایک وقت آیا جب قائن اور ہابل خدا کے حضور ہدیے لائے۔ قائن کھیت کے پھل پیش کرتا ہے اور ہابل اپنی بھیڑبکریوں کے کچھ پہلوٹھے لاتا ہے۔ (پیدایش ۴:۳، ۴) اِس وقت انکی عمریں تقریباً ۱۰۰ سال کی تھیں کیونکہ آدم ۱۳۰ سال کا تھا جب اُس کا بیٹا سیت پیدا ہوا۔—پیدایش ۴:۲۵؛ ۵:۳۔
ان کے ہدیوں نے ظاہر کِیا کہ قائن اور ہابل اپنی گنہگارانہ حالت سے واقف اور خدا کی خوشنودی کے خواہاں تھے۔ اُنہوں نے سانپ اور عورت کی نسل کی بابت یہوواہ کے وعدے پر کچھ غوروخوض کِیا ہوگا۔ یہ بیان نہیں کِیا گیا کہ قائن اور ہابل کو یہوواہ کیساتھ ایک موزوں رشتہ اُستوار کرنے میں کتنا وقت لگا۔ تاہم اُنکے ہدیوں کیلئے خدا کا جوابیعمل اُنکے باطنی خیالات کی بابت بصیرت عطا کرتا ہے۔
بعض علما کی رائے میں حوا قائن کو سانپ کو تباہ کرنے والی ”نسل“ خیال کرتی تھی کیونکہ اُسکی پیدائش پر اُس نے کہا تھا: ”مجھے [یہوواہ] سے ایک مرد ملا۔“ (پیدایش ۴:۱) اگر قائن بھی اس بات پر ایمان رکھتا تھا تو اُسکا اندازہ بالکل غلط تھا۔ اسکے برعکس، ہابل کی قربانی پُختہ ایمان کا مظہر تھی۔ لہٰذا، ”ایمان ہی سے ہابلؔ نے قاؔئن سے افضل قربانی خدا کیلئے گذرانی۔“—عبرانیوں ۱۱:۴۔
ہابل کی روحانی بصیرت اور قائن میں اسکی کمی ان دونوں بھائیوں کے درمیان واحد فرق نہیں تھا۔ ان کے رُجحانات بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ لہٰذا ”[یہوواہ] نے ہابلؔ کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کِیا۔ پر قاؔئن کو اور اُسکے ہدیہ کو منظور نہ کِیا۔“ قائن نے اپنے ہدیے پر زیادہ دھیان نہ دیتے ہوئے اسے محض رسمی طور پر پیش کِیا ہوگا۔ لیکن خدا رسمی پرستش کو پسند نہیں کرتا۔ قائن کا دل بُرا تھا اور یہوواہ جانتا تھا کہ اُس کے محرکات غلط ہیں۔ اُس کے ہدیے کے نامنظور کئے جانے پر قائن کے ردِعمل نے اُس کے حقیقی رُجحان کو واضح کر دیا۔ اپنے رُجحانات اور محرکات کو درست کرنے کی بجائے، ”قاؔئن نہایت غضبناک ہوا اور اُس کا مُنہ بگڑا۔“ (پیدایش ۴:۵) اُس کے رویے نے بُرے خیالات اور ارادوں کو ظاہر کِیا۔
آگاہی اور ردِعمل
قائن کے رُجحان کو بھانپتے ہوئے خدا نے اُسے نصیحت کی: ”تُو کیوں غضبناک ہوا؟ اور تیرا مُنہ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ اگر تُو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تُو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تُو اُس پر غالب آ۔“—پیدایش ۴:۶، ۷۔
یہ مثال ہم سب کیلئے سبقآموز ہے۔ درحقیقت گناہ ہمیں پھانسنے کیلئے ہم سب کے دروازوں پر دبکا بیٹھا ہے۔ تاہم، خدا نے ہمیں آزاد مرضی سے نوازا ہے اور ہم درست روش اختیار کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ یہوواہ نے قائن کو ’بھلا کرنے‘ کی نصیحت کی مگر تبدیلی لانے کیلئے اُس پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا تھا۔ قائن نے اپنا راستہ خود منتخب کِیا۔
الہامی سرگزشت مزید بیان کرتی ہے: ”قاؔئن نے اپنے بھائی ہابلؔ کو کچھ کہا اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہوا کہ قاؔئن نے اپنے بھائی ہابلؔ پر حملہ کِیا اور اُسے قتل کر ڈالا۔“ (پیدایش ۴:۸) یوں قائن ایک نافرمان، سفاک قاتل بن گیا۔ وہ اپنے کئے پر ذرا بھی پشیمان نہ ہوا جب یہوواہ نے اُسے پوچھا: ”تیرا بھائی ہابلؔ کہاں ہے؟“ اسکے برعکس، قائن نے سنگدلی اور گستاخی سے جواب دیا: ”مجھے معلوم نہیں۔ کیا مَیں اپنے بھائی کا محافظ ہوں؟“ (پیدایش ۴:۹) اس صاف جھوٹ اور غیرذمہداری کے اظہار نے قائن کی ظالمانہ فطرت کو بےنقاب کر دیا۔
یہوواہ نے قائن کو لعنتی ٹھہرایا اور عدن کے گردونواح سے نکال دیا۔ زمین پر جو لعنت تھی وہ قائن کے معاملے میں زیادہ سنگین ثابت ہوئی اور اُسکی کاشتکاری بےسود رہی۔ وہ زمین پر خانہخراب اور آوارہ پھرتا رہا۔ قائن نے اِس سخت سزا کی بابت جو شکایت کی اُس نے اُسکے بھائی کے قتل کے انتقام کی بابت اُسکی پریشانی کو ظاہر کِیا لیکن اِس میں مخلصانہ توبہ کا عنصر شامل نہیں تھا۔ یہوواہ نے قائن کیلئے ”ایک نشان“ ٹھہرایا یعنی اُسے انتقاماً قتل کئے جانے سے بچانے کیلئے ایک ایسا سنجیدہ فرمان صادر کِیا جسے سب جانتے اور مانتے تھے۔—پیدایش ۴:۱۰-۱۵۔
قائن ”[یہوواہ] کے حضور سے نکل گیا اور عدؔن کے مشرق کی طرف نوؔد کے علاقہ میں جا بسا۔“ (پیدایش ۴:۱۶) وہ اپنی کسی بہن، بھتیجی یا بھانجی کو بیوی بنا کر اپنے ساتھ لے گیا اور بعدازاں اپنے پہلوٹھے بیٹے، حنوک کے نام پر ایک شہر تعمیر کِیا۔ اپنے بیدین جد قائن کی طرح لمک بھی تشدد کی طرف مائل تھا۔ تاہم قائن کا خاندان نوح کے زمانہ کے طوفان میں ختم ہو گیا۔—پیدایش ۴:۱۷-۲۴۔
ہمارے لئے سبق
ہمارے لئے قائن اور ہابل کی مثالیں سبقآموز ہیں۔ یوحنا رسول مسیحیوں کو فہمائش کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوئے ”قاؔئن کی مانند نہ بنیں جو اُس شریر سے تھا اور جس نے اپنے بھائی کو قتل کِیا۔“ قائن کے ”کام بُرے تھے اور اُسکے بھائی کے کام راستی کے تھے۔“ یوحنا مزید بیان کرتا ہے: ”جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے اور تم جانتے ہو کہ کسی خونی میں ہمیشہ کی زندگی موجود نہیں رہتی۔“ جیہاں، ساتھی مسیحیوں کیساتھ ہمارا رویہ خدا کیساتھ ہمارے رشتے اور آئندہ زندگی کے امکانات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ہم کسی ساتھی ایماندار سے نفرت کرکے خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے۔—۱-یوحنا ۳:۱۱-۱۵؛ ۴:۲۰۔
قائن اور ہابل نے ایک جیسی پرورش پائی تھی لیکن قائن نے خدا پر ایمان کی کمی ظاہر کی۔ درحقیقت اُس نے پہلے ’خونی اور جھوٹ کے باپ‘ ابلیس جیسی روح کا مظاہرہ کِیا۔ (یوحنا ۸:۴۴) قائن کی روش ظاہر کرتی ہے کہ ہم سب کے پاس انتخاب کا موقع ہے، گنہگارانہ روش کا انتخاب کرنے والے خدا سے دُور ہو جاتے ہیں اور یہوواہ غیرتائب لوگوں کے خلاف عدالتی کارروائی کرتا ہے۔
اس کے برعکس ہابل نے یہوواہ پر ایمان ظاہر کِیا۔ واقعی، ”ایمان ہی سے ہابلؔ نے قاؔئن سے افضل قربانی خدا کے لئے گذرانی اور اُسی کے سبب سے اُس کے راستباز ہونے کی گواہی دی گئی کیونکہ خدا نے اُس کی نذروں کی بابت گواہی دی۔“ اگرچہ صحائف میں ہابل کی کوئی بات درج نہیں توبھی اپنے قابلِتقلید ایمان سے وہ ”اب تک کلام کرتا ہے۔“—عبرانیوں ۱۱:۴۔
ہابل سب سے پہلا راستی برقرار رکھنے والا شخص تھا۔ اُسکا خون جو ’زمین سے یہوواہ کو پکارتا‘ تھا فراموش نہیں کِیا گیا۔ (پیدایش ۴:۱۰؛ لوقا ۱۱:۴۸-۵۱) اگر ہم ہابل کی طرح ایمان ظاہر کریں تو ہم بھی یہوواہ کیساتھ ایک بیشقیمت اور دائمی رشتے سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
[صفحہ ۲۲ پر بکس]
کسان اور چوپان
زمین کی کاشتکاری اور جانوروں کی دیکھبھال آدم کی کچھ ابتدائی خداداد ذمہداریاں تھیں۔ (پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۱۵؛ ۳:۲۳) اُسکا بیٹا قائن کھیتیباڑی کرنے لگا اور ہابل چرواہا بنا۔ (پیدایش ۴:۲) چونکہ طوفان سے پہلے نسلِانسانی کی غذا صرف پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل تھی توپھر بھیڑیں پالنے کی کیا ضرورت تھی؟—پیدایش ۱:۲۹؛ ۹:۳، ۴۔
بھیڑوں کی تعداد میں اضافے کیلئے انسانی نگرانی ضروری ہے۔ ہابل کا پیشہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انسانی تاریخ کی ابتدا ہی سے انسان مویشی پالتے آئے ہیں۔ صحائف یہ بیان نہیں کرتے کہ آیا ابتدائی انسان خوراک کیلئے جانوروں کا دودھ استعمال کرتے تھے لیکن سبزیخور لوگ بھی بھیڑوں سے حاصل ہونے والی اُون استعمال کر سکتے ہیں۔ نیز مرنے کے بعد بھیڑوں کی کھال کئی طریقوں سے کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آدم اور حوا کو یہوواہ نے ”چمڑے کے کُرتے“ فراہم کئے تھے۔—پیدایش ۳:۲۱۔
بہرصورت، یہ بات تسلیم کرنا معقول ہے کہ قائن اور ہابل شروع شروع میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے خاندان کیلئے ایسی چیزیں فراہم کیں جو اُنکے لباس اور خوراک کیلئے ضروری تھیں۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
قائن کے ”کام بُرے تھے اور اُسکے بھائی کے کام راستی کے تھے“