آپکا ایمان کتنا مضبوط ہے؟
”تم ایمان ہی سے قائم رہتے ہو۔“—۲-کرنتھیوں ۱:۲۴۔
۱، ۲. ہمیں ایمان کیوں رکھنا چاہئے اور یہ کیسے مضبوط ہو سکتا ہے؟
یہوواہ کے خادم جانتے ہیں کہ انہیں ایمان رکھنا چاہئے۔ درحقیقت، ’بغیر ایمان کے خدا کو پسند آنا ناممکن ہے۔‘ (عبرانیوں ۱۱:۶) لہٰذا، ہم دانشمندی سے رُوحاُلقدس کے علاوہ اس کے مرغوب پھلوں میں سے ایمان کے لئے بھی دُعا کرتے ہیں۔ (لوقا ۱۱:۱۳؛ گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) ساتھی ایمانداروں کے ایمان کی نقل کرنا بھی ہمارے اندر اس خوبی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔—۲-تیمتھیس ۱:۵؛ عبرانیوں ۱۳:۷۔
۲ اگر ہم اس روش کی جستجو کرتے ہیں جو خدا کا کلام تمام مسیحیوں کے لئے وضع کرتا ہے تو ہمارا ایمان مضبوطتر ہوتا جائے گا۔ روزانہ بائبل پڑھائی اور ”عقلمند داروغہ“ کے ذریعے فراہمکردہ مطبوعات کی مدد سے صحائف کے مستعد مطالعے سے ایمان بڑھتا ہے۔ (لوقا ۱۲:۴۲-۴۴؛ یشوع ۱:۷، ۸) ہم مسیحی اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں پر باقاعدہ حاضر ہونے سے ایک دوسرے کے ایمان سے باہمی حوصلہافزائی حاصل کرتے ہیں۔ (رومیوں ۱:۱۱، ۱۲؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) نیز جب ہم دوسروں کے ساتھ خدمتگزاری میں بات کرتے ہیں تو ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔—زبور ۱۴۵:۱۰-۱۳؛ رومیوں ۱۰:۱۱-۱۵۔
۳. ایمان کے سلسلے میں، ہم شفیق مسیحی بزرگوں سے کونسی مدد حاصل کرتے ہیں؟
۳ صحیفائی مشورت اور حوصلہافزائی دینے سے شفیق مسیحی بزرگ ہمارے ایمان کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ پولس رسول جیسا جذبہ رکھتے ہیں جس نے مسیحیوں کو کہا: ”ہم . . . خوشی میں تمہارے مددگار ہیں کیونکہ تم ایمان ہی سے قائم رہتے ہو۔“ (۲-کرنتھیوں ۱:۲۳، ۲۴) ایک اَور ترجمہ یوں بیان کرتا ہے: ”ہم تمہیں خوش کرنے کیلئے تمہارے ساتھ کام کر رہے ہیں کیونکہ تمہارا ایمان مضبوط ہے۔“ (کنٹمپریری انگلش ورشن) راستباز ایمان سے جیتا ہے۔ بیشک، کوئی دوسرا نہ تو ہمارے لئے ایمان ظاہر کر سکتا ہے اور نہ ہی ہمیں وفادار راستی برقرار رکھنے والا بنا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں، ’ہمیں اپنا ہی بوجھ اُٹھانا ہوگا۔‘—گلتیوں ۳:۱۱؛ ۶:۵۔
۴. خدا کے خادموں کی صحیفائی سرگزشتیں ہمارے ایمان کو مضبوط بنانے میں کیسے مدد کر سکتی ہیں؟
۴ صحائف میں ایسے اشخاص کی کافی زیادہ مثالیں پائی جاتی ہیں جو ایمان رکھتے تھے۔ ممکن ہے کہ ہم انکے بیشتر نمایاں کاموں سے واقف ہوں لیکن اُس ایمان کی بابت کیا ہے جو اُنہوں نے روزبروز، شاید اپنی تمام زندگی کے دوران ظاہر کِیا تھا؟ اس وقت اُس بات پر غور کرنا کہ اُنہوں نے ہمارے جیسے حالات میں کیسے اس خوبی کا مظاہرہ کِیا تھا ہمارے ایمان کو مضبوط بنانے کا سبب بن سکتا ہے۔
ایمان ہمیں حوصلہ دیتا ہے
۵. اس بات کی کونسی صحیفائی شہادت پائی جاتی ہے کہ ایمان ہمیں دلیری کیساتھ خدا کا کلام سنانے کیلئے تقویت بخشتا ہے؟
۵ ایمان ہمیں خدا کے کلام کا پرچار کرنے کیلئے تقویت بخشتا ہے۔ حنوک نے دلیری کیساتھ الہٰی فیصلوں کی بابت پیشینگوئی کی تھی۔ اس نے کہا: ”دیکھو [یہوواہ] اپنے لاکھوں مُقدسوں کے ساتھ آیا۔ تاکہ سب آدمیوں کا اِنصاف کرے اور سب بیدینوں کو اُن کی بیدینی کے اُن سب کاموں کے سبب سے جو اُنہوں نے بیدینی سے کئے ہیں اور اُن سب سخت باتوں کے سبب سے جو بیدین گنہگاروں نے اُسکی مخالفت میں کہی ہیں قصوروار ٹھہرائے۔“ (یہوداہ ۱۴، ۱۵) ایسے الفاظ سُن کر، حنوک کے بیدین دشمن یقیناً اُسے قتل کرنا چاہتے ہونگے۔ تاہم، اُس نے ایمان کیساتھ کلام کِیا اور خدا نے اُسے موت کی تکلیف برداشت کئے بغیر موت کی نیند سلا دینے سے اُسے ”اُٹھا لیا“ تھا۔ (پیدایش ۵:۲۴؛ عبرانیوں ۱۱:۵) ہم ایسے معجزات کی توقع نہیں کرتے لیکن یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے تاکہ ہم ایمان اور جرأت کیساتھ اُس کے کلام کا پرچار کر سکیں۔—اعمال ۴:۲۴-۳۱۔
۶. خداداد ایمان اور دلیری نے نوح کی مدد کیسے کی تھی؟
۶ ایمان ہی سے نوح نے ”اپنے گھرانے کے بچاؤ کے لئے کشتی بنائی۔“ (عبرانیوں ۱۱:۷؛ پیدایش ۶:۱۳-۲۲) نوح ”راستبازی کی منادی کرنے والا“ بھی تھا جس نے جرأتمندی سے اپنے زمانے کے لوگوں کو خدا کی طرف سے آگاہی دی تھی۔ (۲-پطرس ۲:۵) اُنہوں نے آنے والے طوفان کی بابت اُسکے پیغام کا تمسخر اُڑایا، جس طرح ہمارا تمسخر اُڑایا جاتا ہے جب ہم اس موجودہ نظاماُلعمل کے جلد تباہ ہو جانے کی بابت صحیفائی ثبوت پیش کرتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۳-۱۲) تاہم، حنوک اور نوح کی مانند ہم اپنے خداداد ایمان اور دلیری کی بدولت ایسا پیغام دے سکتے ہیں۔
ایمان ہمیں صابر بناتا ہے
۷. ابرہام اور دیگر اشخاص نے کیسے ایمان اور صبر کا مظاہرہ کِیا؟
۷ جب ہم اس شریر نظاماُلعمل کے خاتمے کا انتظار کرتے ہیں تو ہمیں بالخصوص ایمان اور صبر کی ضرورت ہے۔ ’ایمان اور تحمل کے باعث وعدوں کے وارث ہونے والوں‘ میں خداترس آبائی بزرگ ابرہام بھی شامل ہے۔ (عبرانیوں ۶:۱۱، ۱۲) ایمان سے اس نے تمام فوائد سمیت اُور کا شہر چھوڑ دیا اور ایک پردیسی مُلک میں اجنبی بن کر رہنے لگا جس کا وعدہ خدا نے اُس سے کِیا تھا۔ اضحاق اور یعقوب اسی وعدے کے وارث تھے۔ تاہم، ”یہ سب ایمان کی حالت میں مرے اور وعدہ کی ہوئی چیزیں نہ پائیں۔“ ایمان کی وجہ سے ”وہ ایک بہتر یعنی آسمانی مُلک کے مشتاق تھے۔“ چنانچہ خدا نے ”ان کے لئے ایک شہر تیار کِیا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۸-۱۶) جیہاں، ابرہام، اضحاق اور یعقوب—اور انکی خداترس بیویوں—نے خدا کی آسمانی بادشاہت کا صبر سے انتظار کِیا جس کے تحت وہ زمین پر زندگی کیلئے قیامت حاصل کرینگے۔
۸. ابرہام، اضحاق اور یعقوب نے کس چیز کے باوجود صبر اور ایمان کا مظاہرہ کِیا؟
۸ ابرہام اضحاق اور یعقوب اپنے ایمان پر قائم رہے۔ وہ ملکِموعود پر قابض نہ ہو سکے اور اُنہوں نے ابرہام کی نسل کے وسیلے سے تمام قوموں کو برکت حاصل کرتے بھی نہ دیکھا۔ (پیدایش ۱۵:۵-۷؛ ۲۲:۱۵-۱۸) اگرچہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ’خدا کا بنایا‘ ہوا شہر حقیقت نہیں بنا توبھی ان آدمیوں نے اپنی ساری زندگی ایمان اور صبر کا مظاہرہ کِیا۔ یقیناً اس وقت جب مسیحائی بادشاہت ایک حقیقت بن چکی ہے کیا ہمیں بھی ایسا ہی میلان نہیں رکھنا چاہئے۔—زبور ۴۲:۵، ۱۱؛ ۴۳:۵۔
ایمان ہمیں بلند نصباُلعین دیتا ہے
۹. ایمان نصباُلعین اور مقاصد کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
۹ وفادار آبائی بزرگوں نے کبھی بھی گھٹیا کنعانی طرزِزندگی اختیار نہ کی کیونکہ ان کے نصباُلعین اور مقاصد کہیں زیادہ بلندتر تھے۔ اسی طرح ایمان ہمیں روحانی نصباُلعین عطا کرتا ہے جو ہمیں شیطان ابلیس کے قبضہ میں پڑی دُنیا میں کھو جانے کی مزاحمت کرنے کے قابل بناتا ہے۔—۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷؛ ۵:۱۹۔
۱۰. ہم اس بات کو کیسے جانتے ہیں کہ یوسف نے دُنیاوی رُتبے سے کہیں بلند نصباُلعین کی جستجو کی تھی؟
۱۰ خدائی راہنمائی کے ذریعے یعقوب کا بیٹا یوسف مصر میں خوراک کے ناظم کے عہدے پر مامور کِیا گیا لیکن اس کا نصباُلعین دُنیا کی ایک عظیم شخصیت بننا نہیں تھا۔ یہوواہ کے وعدوں کی تکمیل پر ایمان کیساتھ، ۱۱۰ سالہ یوسف نے اپنے بھائیوں کو بتایا: ”مَیں مرتا ہوں اور خدا یقیناً تمکو یاد کریگا اور تمکو اِس مُلک سے نکال کر اُس مُلک میں پہنچائے گا جس کے دینے کی قسم اُس نے اؔبرہام اور اِضحاؔق اور یعقوؔب سے کھائی تھی۔“ یوسف نے درخواست کی کہ اُسے ملکِموعود میں دفن کِیا جائے۔ مرنے کے بعد، اسکی لاش میں خوشبو بھری گئی اور اسے مصر ہی میں تابوت میں رکھا گیا۔ لیکن جب اسرائیلیوں کو مصر کی غلامی سے رہائی ملی تو موسیٰ نبی یوسف کی ہڈیاں دفنانے کے لئے اپنے ساتھ ملکِموعود کو لے گیا۔ (پیدایش ۵۰:۲۲-۲۶؛ خروج ۱۳:۱۹) یوسف جیسے ایمان کو ہمیں دُنیاوی رُتبے سے بھی بلند نصباُلعین قائم کرنے کی جستجو کی تحریک دینی چاہئے۔—۱-کرنتھیوں ۷:۲۹-۳۱۔
۱۱. کن طریقوں سے موسیٰ نے اس بات کی شہادت دی کہ وہ روحانی نصباُلعین رکھتا تھا؟
۱۱ موسیٰ نے مصر کے شاہی گھرانے کے تعلیمیافتہ فرد کی حیثیت سے ’گُناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے کی بجائے خدا کی اُمت کے ساتھ بدسلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کیا۔‘ (عبرانیوں ۱۱:۲۳-۲۶؛ اعمال ۷:۲۰-۲۲) اس وجہ سے اُسے دُنیاوی وقار اور شاید کسی مشہور مصری مقام پر ایک خوبصورت تابوت میں شاندار تدفین سے محروم ہونا پڑا۔ تاہم ”مردِخدا،“ شریعتی عہد کا درمیانی، یہوواہ کا نبی اور ایک بائبل مصنف ہونے کے شرف کے مقابلے میں اس کی کیا وقعت تھی۔ (عزرا ۳:۲) کیا آپ بھی دُنیاوی کامرانیوں کے خواہاں ہیں یا ایمان نے آپ کو بلند روحانی نصباُلعین دئے ہیں؟
ایمان بااَجر زندگی پر منتج ہوتا ہے
۱۲. ایمان نے راحب کی زندگی کو کیسے متاثر کِیا؟
۱۲ ایمان لوگوں کو نہ صرف بلند نصباُلعین بلکہ بااَجر زندگی بھی دیتا ہے۔ یریحو کی راحب نے کسبی کے طور پر اپنی زندگی کو بےمعنی پایا ہوگا۔ تاہم، جب وہ ایمان لے آئی تو اسکی زندگی کسقدر بدل گئی! ”جب اُس نے [اسرائیلی] قاصدوں کو اپنے گھر میں اُتارا اور دوسری راہ سے رخصت کِیا“ جس کی وجہ سے اُنہوں نے اپنے دُشمنوں کو مغالطے میں ڈال دیا ”تو کیا [وہ باایمان] اعمال سے راستباز نہ ٹھہری؟“ (یعقوب ۲:۲۴-۲۶) یہوواہ کو سچا خدا تسلیم کرتے ہوئے، راحب نے فاحشہگری ترک کرنے سے بھی ایمان کا مظاہرہ کِیا۔ (یشوع ۲:۹-۱۱؛ عبرانیوں ۱۱:۳۰، ۳۱) اس نے ایک بےایمان کنعانی کی بجائے یہوواہ کے ایک خادم سے شادی کی۔ (استثنا ۷:۳، ۴؛ ۱-کرنتھیوں ۷:۳۹) یوں راحب کو مسیحا کی اسلاف بننے کا شاندار شرف حاصل ہوا۔ (۱-تواریخ ۲:۳-۱۵؛ روت ۴:۲۰-۲۲؛ متی ۱:۵، ۶) دوسروں کی طرح، جن میں سے بعض نے بداخلاق زندگی ترک کر دی ہے وہ ایک اَور اَجر—فردوسی زمین پر زندگی کی قیامت—حاصل کریگی۔
۱۳. داؤد نے بتسبع کے سلسلے میں گناہ کیسے کِیا لیکن اس نے کونسا رُجحان ظاہر کِیا؟
۱۳ اپنی گنہگارانہ زندگی ترک کرنے کے بعد، راحب بظاہر ایک راست روش پر چلتی رہی۔ تاہم، کافی عرصے سے خدا کے بعض مخصوصشُدہ خادم بھی سنگین گناہ کے مرتکب ہوئے۔ بادشاہ داؤد نے بتسبع سے زناکاری کی، اُسکے شوہر کو جنگ میں مروا دیا اور پھر اسے اپنی بیوی بنا لیا۔ (۲-سموئیل ۱۱:۱-۲۷) داؤد نے غم کی شدت کے ساتھ تائب ہوتے ہوئے یہوواہ سے منت کی: ”اپنی پاک روح کو مجھ سے جُدا نہ کر۔“ داؤد خدا کی روح سے محروم نہ ہوا۔ اسکا ایمان تھا کہ یہوواہ اپنے رحم میں، گناہ کے سلسلے میں ”شکستہ اور خستہدل کو حقیر نہ جانیگا۔“ (زبور ۵۱:۱۱، ۱۷؛ ۱۰۳:۱۰-۱۴) اپنے ایمان کی وجہ سے، داؤد اور بتسبع نے مسیحا کے شجرۂنسب میں بااَجر مقام سے استفادہ کِیا۔—۱-تواریخ ۳:۵؛ متی ۱:۶، ۱۶؛ لوقا ۳:۲۳، ۳۱۔
یقیندہانی کے ذریعے تقویتشُدہ ایمان
۱۴. جدعون نے کونسی یقیندہانیاں حاصل کیں اور اس سرگزشت کو ہمارے ایمان پر کیسا اثر ڈالنا چاہئے؟
۱۴ اگرچہ ہم ایمان پر چلتے ہیں توبھی ہمیں بعضاوقات الہٰی مدد کی یقیندہانی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ یہ بات قاضی جدعون کے سلسلے میں سچ تھی جو ان میں سے ایک تھا جنہوں نے ”ایمان ہی کے سبب سے سلطنتوں کو مغلوب کِیا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۳۲، ۳۳) جب مدیانیوں اور اُنکے اتحادیوں نے اسرائیل پر حملہ کِیا تو خدا کی روح جدعون پر نازل ہوئی۔ یہوواہ کی حمایت کی یقیندہانی کے لئے اُس نے بھیڑ کی اُون کو راتبھر کھلیہان میں رکھنے کے ذریعے مختلف طرح سے آزمائشوں کی تجویز پیش کی۔ پہلی آزمائش میں، اوس صرف اُون پر پڑی جبکہ زمین خشک رہی۔ دوسری آزمائش میں صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ ان یقیندہانیوں سے تقویت حاصل کرکے، چوکس جدعون نے ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کی دُشمن فوجوں کو شکست دی۔ (قضاۃ ۶:۳۳-۴۰؛ ۷:۱۹-۲۵) اگر ہم فیصلے کرتے وقت یقیندہانی کے طلبگار ہوتے ہیں تو اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم میں ایمان کی کمی ہے۔ ہم دراصل فیصلے کرتے وقت بائبل اور مسیحی مطبوعات سے مشورت حاصل کرنے اور رُوحاُلقدس کی راہنمائی کے لئے دُعا کرنے سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔—رومیوں ۸:۲۶، ۲۷۔
۱۵. برق کے ایمان پر غور کرنا ہمارے لئے کیسے فائدہمند ثابت ہو سکتا ہے؟
۱۵ قاضی برق کے ایمان کو حوصلہافزائی کی صورت میں تقویت حاصل ہوئی تھی۔ دبورہ نبِیّہ نے اسکی حوصلہافزائی کی کہ کنعانی بادشاہ یابین کے مظالم سے اسرائیلیوں کو آزاد کرانے میں پہل کرے۔ برق نے ایمان اور الہٰی یقیندہانی کے ساتھ، ۱۰،۰۰۰ ناتجربہکار آدمیوں کی جنگ میں راہنمائی کی اور یابین کے لشکر کے سردار سیسرا کی طاقتور فوج کو شکست دی۔ اس فتح کا جشن دبورہ اور برق کے پُرمسرت گیت کیساتھ منایا گیا۔ (قضاۃ ۴:۱–۵:۳۱) دبورہ نے برق کی حوصلہافزائی کی کہ وہ خدا کے مقررہ اسرائیلی راہنما کے طور پر کارروائی کرے کیونکہ وہ یہوواہ کے اُن خادموں میں سے ایک تھا جنہوں نے ایمان کے سبب سے ”غیروں کی فوجوں کو بھگا دیا۔“ (عبرانیوں ۱۱:۳۴) اگر ہم یہوواہ کی خدمت میں کسی چیلنجخیز تفویض کو پورا کرنے میں کچھ جھجھک محسوس کرتے ہیں تو ایمان کیساتھ کارروائی کرنے کیلئے برق پر خدا کی برکت پر غور کرنا ہمیں بھی عمل کرنے کی تحریک دے سکتا ہے۔
ایمان امن کو فروغ دیتا ہے
۱۶. ابرہام نے لوط کیساتھ پُرامن تعلقات قائم رکھنے کے سلسلے میں کونسی عمدہ مثال قائم کی تھی؟
۱۶ جس طرح ایمان خدا کی خدمت میں مشکل تفویضات کو پورا کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے اُسی طرح یہ امن کو بھی فروغ دیتا ہے۔ جب عمررسیدہ ابرہام اور اُسکے کمعمر بھتیجے لوط کے چرواہوں کے درمیان جھگڑا ہوا اور اُنہیں علیٰحدہ ہونا پڑا تو اُس نے اپنے بھتیجے کو بہترین چراگاہیں منتخب کرنے کی اجازت دی۔ (پیدایش ۱۳:۷-۱۲) ابرہام نے اس مسئلے کو نپٹانے کیلئے یقیناً خدا سے مدد کے لئے ایمان کے ساتھ دُعا کی ہوگی۔ اپنے مفادات کو ترجیح دینے کی بجائے اُس نے امن کے ساتھ معاملات کو سلجھایا۔ ہمیں بھی اپنے مسیحی بھائی کیساتھ نااتفاقی کی صورت میں ایمان کے ساتھ دُعا کرتے اور ”صلح کا طالب“ ہوتے ہوئے ابرہام کی مشفقانہ فکرمندی کی مثال کو یاد رکھنا چاہئے۔—۱-پطرس ۳:۱۰-۱۲۔
۱۷. ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پولس، برنباس اور مرقس کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی پُرامن طریقے سے ختم ہو گئی تھی؟
۱۷ غور کریں کہ ایمان کیساتھ مسیحی اصولوں کا اطلاق امن کو فروغ دینے میں ہمیں کیسے مدد دے سکتا ہے۔ پولس کے دوسرے مشنری دورے کے آغاز پر برنباس نے کُپرس اور ایشیائےکوچک کی کلیسیاؤں کا دوبارہ دورہ کرنے کی تجویز کو قبول کِیا۔ تاہم برنباس اپنے رشتہدار مرقس کو بھی ساتھ لیجانا چاہتا تھا۔ پولس اس بات سے متفق نہ تھا اسلئےکہ مرقس پمفیلیہ میں اُن سے الگ ہو گیا۔ وہ ”سخت تکرار“ کے بعد ایک دوسرے سے جُدا ہو گئے۔ برنباس مرقس کو لے کر کُپرس چلا گیا جبکہ پولس نے اپنے ساتھی کے طور پر سیلاس کو منتخب کِیا اور ”کلیسیاؤں کو مضبوط کرتا ہوا سوؔریہ اور کِلکیہؔ سے گزرا۔“ (اعمال ۱۵:۳۶-۴۱) وقت آنے پر یہ کشیدگی ختم ہو گئی کیونکہ مرقس روم میں پولس کیساتھ تھا اور رسول نے اسکی تعریف بھی کی تھی۔ (کلسیوں ۴:۱۰؛ فلیمون ۲۳، ۲۴) جب پولس تقریباً ۶۵ س.ع. میں روم میں قید تھا تو اُس نے تیمتھیس کو بتایا: ”مرقس کو ساتھ لے کر آ جا کیونکہ خدمت کے لئے وہ میرے کام کا ہے۔“ (۲-تیمتھیس ۴:۱۱) بدیہی طور پر پولس نے برنباس اور مرقس کے ساتھ اپنے رشتے کو ایمان کیساتھ اپنی دُعا کا موضوع بنایا تھا جو اُس امن پر منتج ہوا جو ’خدا کے اطمینان‘ کیساتھ منسوب ہے۔—فلپیوں ۴:۶، ۷۔
۱۸. یووؔدیہ اور سنتخےؔ کے معاملے میں غالباً کیا واقع ہوا تھا؟
۱۸ بیشک، ناکامل ہونے کی وجہ سے ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔“ (یعقوب ۳:۲) دو مسیحی بہنوں میں بھی مشکلات پیدا ہوئیں جنکی بابت پولس نے لکھا تھا: ”مَیں یووؔدیہ کو بھی نصیحت کرتا ہوں اور سنتخےؔ کو بھی کہ وہ خداوند میں یکدل رہیں۔ . . . ان عورتوں کی مدد کر کیونکہ اُنہوں نے میرے ساتھ خوشخبری پھیلانے میں . . . جانفشانی کی۔“ (فلپیوں ۴:۱-۳) بہت ممکن ہے کہ ان خداپرست عورتوں نے متی ۵:۲۳، ۲۴ میں درج مشورت کا اطلاق کرتے ہوئے پُرامن طریقے سے اپنے مسئلے کو حل کر لیا تھا۔ ایمان کیساتھ صحیفائی اُصولوں کا اطلاق آجکل بھی امن کو فروغ دیتا ہے۔
ایمان ہمیں برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے
۱۹. کونسی صبرآزما صورتحال اضحاق اور ربقہ کے ایمان کو تباہ نہیں کر سکی تھی؟
۱۹ ایمان ہمیں مصیبت برداشت کرنے کے قابل بھی بناتا ہے۔ ہم شاید اپنے خاندان کے کسی بپتسمہیافتہ فرد کی وجہ سے پریشان ہیں جس نے ایک بےایمان سے شادی کرکے خدا کی نافرمانی کی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹) اضحاق اور ربقہ کے لئے ان کے بیٹے عیسو کی بیدین عورتوں سے شادی تکلیف کا باعث بنی تھی۔ اُس کی حتی بیویاں اُن کے لئے اسقدر ”وبالِجان ہوئیں“ کہ ربقہ نے کہا: ”مَیں حتی لڑکیوں کے سبب سے اپنی زندگی سے تنگ ہوں۔ سو اگر یعقوؔب حتی لڑکیوں میں سے جیسی اِس مُلک کی لڑکیاں ہیں کسی سے بیاہ کرلے تو میری زندگی میں کیا لطف رہے گا؟“ (پیدایش ۲۶:۳۴، ۳۵؛ ۲۷:۴۶) تاہم یہ صبرآزما صورتحال کبھی بھی اضحاق اور ربقہ کے ایمان کو تباہ نہیں کر سکی تھی۔ دُعا ہے کہ اگر کٹھن حالات ہمارے لئے چیلنجخیز ثابت ہوتے ہیں توبھی ہم پُختہ ایمان برقرار رکھ سکیں۔
۲۰. ہمیں روت اور نعومی میں ایمان کی کونسی مثالیں ملتی ہیں؟
۲۰ عمررسیدہ بیوہ نعومی یہودی تھی اور وہ یہ جانتی تھی کہ یہوداہ کی بعض عورتوں کے بیٹے مسیحا کے جد بنیں گے۔ تاہم مسیحائی نسل کیساتھ اُسکے خاندان کے تعلق کا امکان نہایت ہی کم تھا اسلئےکہ اُس کے بیٹے بےاولاد مر گئے تھے اور وہ بھی سنِیاس کو پہنچ چکی تھی۔ اسکے باوجود اُسکے بیٹے کی بیوی روت عمررسیدہ بوعز کی بیوی بنی اور اُسکے بیٹا ہوا اور وہ مسیحا یعنی یسوع کی اُمالاسلاف بنی! (پیدایش ۴۹:۱۰، ۳۳؛ روت ۱:۳-۵؛ ۴:۱۳-۲۲؛ متی ۱:۱، ۵) نعومی اور روت کا ایمان مصائب برداشت کرنے اور انہیں خوشی بخشنے کا باعث بنا۔ اگر ہم بھی مصیبت میں اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں تو بڑی خوشی کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
۲۱. ایمان ہمارے لئے کیا کر سکتا ہے اور ہمارا عزم کیا ہونا چاہئے؟
۲۱ اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ انفرادی طور پر کل ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، توبھی ایمان کیساتھ ہم ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ایمان ہمیں دلیر اور صابر بناتا ہے۔ یہ ہمیں بلند نصباُلعین اور بااَجر زندگی بخشتا ہے۔ ایمان دوسروں کیساتھ ہمارے تعلقات پر مثبت اثر ڈالتا ہے اور ہر طرح کی مشکلات پر غالب آنے میں مدد کرتا ہے۔ پس دُعا ہے کہ ہم ’ایمان رکھنے والے ہوں کہ جان بچائیں۔‘ (عبرانیوں ۱۰:۳۹) آئیے اپنے شفیق خدا یہوواہ کی طاقت سے اُسکے جلال کیلئے مضبوط ایمان کا مظاہرہ کرتے رہیں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ہمارے پاس کیا صحیفائی ثبوت ہے کہ ایمان ہمیں دلیری بخش سکتا ہے؟
• ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایمان ہماری زندگی کو بااَجر بناتا ہے؟
• ایمان امن کو کیسے فروغ دیتا ہے؟
• اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایمان ہمیں مشکلات برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویریں]
ایمان نے نوح اور حنوک کو یہوواہ کے پیغامات کا اعلان کرنے کی طاقت عطا کی
[صفحہ ۱۷ پر تصویریں]
موسیٰ جیسا ایمان ہمیں روحانی نصباُلعین قائم کرنے کی تحریک دیتا ہے
[صفحہ ۱۸ پر تصویریں]
الہٰی مدد کی یقیندہانی نے برق، دبورہ اور جدعون کے ایمان کو تـقویت بخشی