کیا آپکی زندگی آپکے حالات کے تابع ہے؟
اِن ’بُرے دنوں‘ میں طرح طرح کی مشکلات اور بگڑتے ہوئے حالات بہت عام ہو گئے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) بعض مشکلات تو صرف تھوڑی دیر کیلئے ہوتی ہیں جبکہ کئی مسئلوں کو تو ہمیں سالوں تک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بہت سے لوگ داؤد کی طرح محسوس کرتے ہیں جس نے یہوواہ سے فریاد کی: ”میرے دل کے دُکھ بڑھ گئے۔ تُو مجھے میری تکلیفوں سے رہائی دے۔“—زبور ۲۵:۱۷۔
کیا آپکو ایسا لگتا ہے جیسے آپ مشکلات کے تلے دب رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ داؤد اور یوسف کے نمونے سے سیکھ سکتے ہیں۔ اُنہوں نے مصیبتوں کا سامنا کیسے کِیا؟ اُنکے نمونے سے آپ بھی آج کی دُنیا میں بُرے حالات سے نپٹنا سیکھ سکتے ہیں۔
کٹھن حالات کا سامنا
یوسف ۱۷ سال کی عمر میں اپنے بھائیوں کی نفرت کا نشانہ بنا۔ اُسکے بھائیوں نے دیکھا کہ اُنکا باپ یعقوب ”اُسکے سب بھائیوں سے زیادہ [یوسف] کو پیار کرتا ہے۔“ اسلئے ”وہ اُس سے بغض رکھنے لگے اور ٹھیک طور سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔“ (پیدایش ۳۷:۴) یوسف اِس صورتحال میں بہت ہی پریشان ہوا ہوگا۔ انجامکار، اُسکے بھائی یوسف سے اتنی نفرت کرنے لگے کہ اُنہوں نے اُسے غلام کے طور پر بیچ دیا۔—پیدایش ۳۷:۲۶-۳۳۔
جب وہ مصر میں غلام تھا تو اُسے اپنے آقا کی بیوی کے بداخلاق منصوبوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اِس پر اُسکے آقا کی بیوی بہت غصہ ہوئی۔ اُس نے یوسف پر یہ جھوٹا اِلزام لگایا کہ اُس نے اسکی عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے۔ اِس وجہ سے ’یوسف کو قیدخانہ میں ڈالدیا گیا،‘ جہاں ”اُنہوں نے اُسکے پاؤں کو بیڑیوں سے دُکھ دیا۔ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑا رہا۔“ (پیدایش ۳۹:۷-۲۰؛ زبور ۱۰۵:۱۷، ۱۸) کیا آپ یوسف کی پریشانی کا تصور کر سکتے ہیں؟ یوسف نے اپنی زندگی کے تیرہ سال غلامی اور قید میں گزارے۔ اِس میں یوسف کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن اُسکے اپنے خاندان کے افراد کے علاوہ دوسرے اُس پر یہ مصیبت لائے تھے۔—پیدایش ۳۷:۲؛ ۴۱:۴۶۔
داؤد کو بھی اپنی جوانی میں آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ سالوں تک داؤد اپنی جان بچانے کیلئے بادشاہ ساؤل سے بھاگتا رہا، جیسے ایک جانور شکاری سے بھاگتا ہے۔ داؤد کی جان خطرے میں تھی۔ اس دوران وہ ایک دفعہ اخیملک کاہن کے پاس گیا کیونکہ اُسے کھانے پینے کی چیزوں کی ضرورت تھی۔ (۱-سموئیل ۲۱:۱-۷) جب ساؤل کو پتا چلا کہ اخیملک نے داؤد کی مدد کی ہے تو اُس نے اخیملک اور تمام کاہنوں اور اُنکے خاندانوں کے قتل کا حکم دے دیا۔ (۱-سموئیل ۲۲:۱۲-۱۹) جب داؤد نے سنا کہ اُسکی وجہ سے کاہنوں پر کونسی آفت آن پڑی ہے تو اُسکا دِل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کیا آپ اُسکی افسردگی کا تصور کر سکتے ہیں؟
ذرا سوچیں کہ یوسف اور داؤد کتنے عرصے تک ان مشکل حالات کو برداشت کرتے رہے۔ اِن حالات میں اُنکے ردِّعمل سے ہم بہت اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ آئیے ہم اِن میں سے تین اسباق پر غور کرتے ہیں۔
نفرت اور غصہ کی آگ سے بچیں!
یوسف اور داؤد نے اپنے آپکو نفرت اور غصے کی آگ میں جلنے نہیں دیا۔ جب یوسف قید تھا تو اسکے دِل میں اپنے بھائیوں کیلئے زہر پیدا ہو سکتا تھا اور وہ اُن سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنا سکتا تھا۔ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یوسف نے ایسے تباہکُن خیالات کا مقابلہ کِیا؟ جب یوسف کے بھائی اناج خریدنے کیلئے مصر آئے تو اُس نے اپنے بھائیوں سے بدلہ لینے کا نہیں سوچا تھا۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”تب [یوسف] اُنکے پاس سے ہٹ گیا اور رویا۔ . . . پھر یوؔسف نے حکم کِیا کہ [اُسکے بھائیوں] کے بوروں میں اناج بھریں اور ہر شخص کی نقدی اُسی کے بورے میں رکھ دیں اور اُنکو زادِراہ بھی دیدیں۔“ جب یوسف کے بھائی اپنے باپ کو مصر لانے کیلئے رخصت ہو رہے تھے تو یوسف نے اُن سے کہا: ”کہیں راستہ میں تُم جھگڑا نہ کرنا۔“ یوسف نے اپنے الفاظ اور کاموں سے دکھایا کہ اُس نے غصے اور نفرت کے زہر کو اپنے دِل میں پھیلنے نہیں دیا۔—پیدایش ۴۲:۲۴، ۲۵؛ ۴۵:۲۴۔
اِسی طرح داؤد نے بھی اپنے دل میں بادشاہ ساؤل کیلئے نفرت پیدا نہیں کی۔ داؤد کو دو مرتبہ بادشاہ ساؤل کو ہلاک کرنے کا موقع ملا۔ لیکن جب داؤد کے آدمیوں نے اُسے ساؤل کو مار ڈالنے کیلئے اُکسایا تو داؤد نے کہا: ”[یہوواہ] نہ کرے کہ مَیں اپنے مالک سے جو [یہوواہ] کا ممسوح ہے اَیسا کام کروں کہ اپنا ہاتھ اُس پر چلاؤں اِسلئے کہ وہ [یہوواہ] کا ممسوح ہے۔“ داؤد نے اس معاملے کو یہوواہ پر چھوڑتے ہوئے اپنے آدمیوں سے کہا: ”[یہوواہ] کی حیات کی قسم [یہوواہ] آپ اُسکو ماریگا یا اُسکی موت کا دن آئیگا یا وہ جنگ میں جا کر مر جائیگا۔“ اِسکے بعد جب داؤد نے ساؤل اور اُسکے بیٹے یونتن کی موت کی خبر سنی تو اُس نے دونوں کیلئے ماتم کرتے ہوئے ایک گیت بھی گایا۔ یوسف کی طرح داؤد بھی انتقام کی آگ میں نہ جلتا رہا۔—۱-سموئیل ۲۴:۳-۶؛ ۲۶:۷-۱۳؛ ۲-سموئیل ۱:۱۷-۲۷۔
اگر ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو کیا ہم نفرت اور غصے کو اپنے دل میں رکھتے ہیں؟ اگر ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتے تو ایسا ہو سکتا ہے اور یہ ہمارے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ (افسیوں ۴:۲۶، ۲۷) ہمیں دوسروں کے اعمال پر اختیار تو نہیں ہے لیکن اپنے ردِّعمل پر اختیار ضرور ہے۔ اگر ہمارا ایمان ہے کہ یہوواہ مسائل کو اپنے وقت پر حل کریگا تو ہم غصے اور نفرت کو اپنے دل سے نکال پھینکیں گے۔—رومیوں ۱۲:۱۷-۱۹۔
کٹھن صورتحال کے باوجود اچھائی کریں
اس لے علاوہ ہمیں کسی صورتحال کو اپنی راہ میں رُکاوٹ بننے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ شاید ہم اپنی مشکلات پر حد سے زیادہ توجہ دے رہے ہوں اور یہ بھول جائیں کہ ہم اس صورتحال میں کیا کچھ کرنے کے قابل ہیں۔ اسطرح ہم خود کو اپنے حالات کے تابع کر دینگے۔ یوسف کیساتھ ایسا ہو سکتا تھا لیکن اُس نے کٹھن حالات کے باوجود نیکی کرنے کی کوشش کی۔ اسلئے ”یوؔسف [اپنے آقا] کی نظر میں مقبول ٹھہرا اور وہی اُسکی خدمت کرتا تھا اور اُس نے اُسے اپنے گھر کا مختار بنا کر اپنا سب کچھ اُسے سونپ دِیا۔“ یوسف نے قیدخانہ میں بھی ایسا ہی رُجحان ظاہر کِیا۔ اُس نے محنت سے کام کِیا اور یہوواہ اُسکے ساتھ تھا۔ اسلئے ”قیدخانہ کے داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوؔسف کے ہاتھ میں سونپا اور جوکچھ وہ کرتے اُسی کے حکم سے کرتے تھے۔“—پیدایش ۳۹:۴، ۲۱-۲۳۔
جس دوران داؤد بادشاہ ساؤل سے بچنے کیلئے مارا مارا پھر رہا تھا تو وہ اپنی مشکل کے باوجود بھی دوسروں کی مدد کرتا رہا۔ داؤد اور اُسکے آدمی دشتِفاران میں نابال نامی ایک شخص کے گلّوں کو ڈاکوؤں سے بچاتے رہے۔ نابال کے ایک چرواہے نے کہا کہ ”وہ رات دن ہمارے لئے گویا دیوار تھے۔“ (۱-سموئیل ۲۵:۱۶) بعدازاں، جب داؤد شہر صقلاج میں رہنے لگا تو اُس نے اُن شہروں پر حملہ کِیا جو اسرائیل کے دُشمنوں کے قبضے میں تھے۔ اسطرح اُس نے یہوداہ کی سرحد کو محفوظ کِیا۔—۱-سموئیل ۲۷:۸؛ ۱-تواریخ ۱۲:۲۰-۲۲۔
کیا ہم بھی مشکل حالات کے باوجود اچھائی کرنے کی اپنی کوشش جاری رکھ سکتے ہیں؟ شاید ایسا کرنا ہمارے لئے آسان نہیں لیکن ہم اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اپنی زندگی پر غور کرتے ہوئے پولس رسول نے لکھا: ”مَیں نے یہ سیکھا ہے کہ جس حالت میں ہوں اسی پر راضی رہوں۔ . . . ہر ایک بات اور سب حالتوں میں مَیں نے سیر ہونا بھوکا رہنا اور بڑھنا گھٹنا سیکھا ہے۔“ پولس نے یہ نظریہ کیسے اختیار کِیا؟ اُس نے یہوواہ پر پورا بھروسا رکھا۔ اُس نے تسلیم کِیا: ”جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“—فلپیوں ۴:۱۱-۱۳۔
یہوواہ پر بھروسا رکھیں
اپنے حالات میں تبدیلی لانے کیلئے ہمیں غلط کاموں کا سہارا نہیں لینا چاہئے۔ اسکی بجائے ہمیں اپنے مسئلوں کے حل کیلئے یہوواہ پر بھروسا رکھنا چاہئے۔ یعقوب شاگرد نے لکھا: ”صبر کو اپنا پورا کام کرنے دو تاکہ تُم پورے اور کامل ہو جاؤ اور تُم میں کسی بات کی کمی نہ رہے۔“ (یعقوب ۱:۴) اگر ہم صبر کو ’اپنا پورا کام کرنے دینگے‘ تو ہم اپنی آزمائشوں کو ختم کرنے کیلئے غلط طریقے استعمال نہیں کرینگے۔ پھر ان آزمائشوں سے گزر کر ہمارا ایمان اَور بھی مضبوط ہو جائیگا۔ یوسف اور داؤد نے صبر سے کام لیا۔ اُنہوں نے اپنی مصیبتوں کا ایسا حل تلاش نہیں کِیا جس سے یہوواہ ناراض ہوتا۔ اسکی بجائے اُنہوں نے یہوواہ کی مدد کا انتظار کِیا۔ یہوواہ اس رویے سے بہت خوش ہوا اور اُس نے ان دونوں کو اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے استعمال کِیا۔—پیدایش ۴۱:۳۹-۴۱؛ ۴۵:۵؛ ۲-سموئیل ۵:۴، ۵۔
شاید ہمیں بھی ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے جن سے نپٹنے کیلئے ہم خود کو بائبل کے معیاروں کے خلاف قدم اُٹھانے پر مجبور سمجھیں۔ مثال کے طور پر، مناسب ساتھی نہ ملنے کی وجہ سے شاید آپ بےحوصلہ ہو گئے ہوں۔ ایسی صورتحال میں بھی ’صرف خداوند میں شادی کرنے‘ کا پکا ارادہ رکھیں۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹) کیا شادیشُدہ زندگی میں آپ مسائل کا سامنا کر رہے ہیں؟ دُنیا میں لوگ ایسی صورتحال میں اکثر علیٰحدہ ہو جاتے ہیں یا طلاق لے لیتے ہیں۔ ایسا کرنے کی بجائے آپ اپنے بیاہتا ساتھی کیساتھ ملکر ان مسئلوں کا حل ڈھونڈیں۔ (ملاکی ۲:۱۶؛ افسیوں ۵:۲۱-۳۳) کیا آمدنی کم ہونے کی وجہ سے آپ کیلئے اپنے خاندان کی دیکھبھال کرنا مشکل ہو رہا ہے؟ اگر آپ یہوواہ پر بھروسا رکھینگے تو آپ کسی ناجائز طریقے سے پیسے کمانے کی کوشش نہیں کرینگے۔ (زبور ۳۷:۲۵؛ عبرانیوں ۱۳:۱۸) چاہے ہم کسی بھی صورتحال میں ہوں ہمیں یہوواہ کی برکت حاصل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں اُس وقت کے منتظر رہنا چاہئے جب یہوواہ ہماری ہر مشکل کو دُور کر دیگا۔—میکاہ ۷:۷۔
یہوواہ آپکو سنبھالے گا
یوسف اور داؤد اپنی مشکل پر غالب آئے۔ انکی مثال پر غور کرنا ہمارے لئے حوصلہافزا ہو سکتا ہے۔ انکی داستانیں بائبل کے چند ہی صفحوں پر درج ہیں لیکن انہوں نے کئی سالوں تک ان آزمائشوں کا سامنا کِیا۔ آپ شاید سوچ رہے ہونگے: ’خدا کے خادموں نے ایسی مشکلات کا سامنا کیسے کِیا؟ اُن میں ایسی کونسی خوبیاں تھیں جنکی بدولت وہ ان کٹھن حالات میں بیدل ہونے سے بچے رہے؟‘
آجکل بھی بہت سے یہوواہ کے گواہ مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انکے صبر سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ (۱-پطرس ۵:۹) مینارِنگہبانی اور جاگو! کے رسالوں میں بہنبھائیوں کے تجربے ہوتے ہیں۔ کیا آپ ان وفادار بہنبھائیوں کی کہانیاں پڑھتے اور اُن پر غور کرتے ہیں؟ اسکے علاوہ ہماری کلیسیاؤں میں بھی بہت سے ایسے بہنبھائی ہیں جو مشکلات کا کامیابی سے سامنا کر رہے ہیں۔ اجلاسوں پر کیا آپ اُن کیساتھ باقاعدگی سے باتچیت کرتے اور اُنکے نمونے سے سیکھتے ہیں؟—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
جب آپکو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے تو یاد رکھیں کہ یہوواہ آپ کے ساتھ ہے اور آپ کی مدد کریگا۔ (۱-پطرس ۵:۶-۱۰) اپنے حالات سے مغلوب ہونے کی بجائے اُن سے نپٹنے کی بھرپور کوشش کریں۔ یوسف اور داؤد کے نمونے پر چلیں اور نفرت کو اپنے دل سے نکال دیں۔ اُس وقت کا انتظار کریں جب یہوواہ آپ کی مشکل ختم کر دیگا۔ اپنی روحانیت کو برقرار رکھیں اور دُعا کے ذریعے یہوواہ کے نزدیک جائیں۔ اسطرح آپ یہوواہ کی خدمت میں مشکلات کے باوجود خوش رہ سکتے ہیں۔—زبور ۳۴:۸۔
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
یوسف کٹھن صورتحال کے باوجود پورے دِل سے یہوواہ کی خدمتکرتا رہا
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
داؤد نے اپنے مسائل کے حل کیلئے یہوواہ پر بھروسا رکھا