’ایک دوسرے کیلئے مہماننوازی دکھائیں‘
پہلی صدی کی ایک مسیحی خادمہ فیبے کو ایک مسئلہ درپیش تھا۔ وہ یونان کے شہر کنخریہ سے روم آ رہی تھی مگر وہ اُس شہر میں رہنے والے ساتھی ایمانداروں سے واقف نہیں تھی۔ (رومیوں ۱۶:۱، ۲) بائبل مترجم ایڈگر گڈسپیڈ کے مطابق، ”[اُس زمانے کی] رومی دُنیا انتہائی بداخلاق اور ظالم تھی۔ وہاں کے مسافرخانے یا سرائے اتنے بدنام تھے کہ کوئی شریف عورت بالخصوص ایک مسیحی عورت وہاں ٹھہرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔“ پس فیبے نے کہاں قیام کِیا؟
پُرانے وقتوں میں لوگ کافی زیادہ سفر کِیا کرتے تھے۔ بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرنے کیلئے یسوع مسیح اور اُسکے شاگردوں نے یہودیہ اور گلیل کے سارے علاقے کا سفر کِیا تھا۔ اسکے کچھ ہی عرصہ بعد، پولس جیسے دیگر مشنریوں نے رومی سلطنت کے دارالحکومت روم سمیت، بحیرۂروم کے مختلف علاقوں میں منادی کی تھی۔ پہلی صدی کے مسیحی جب یہودی علاقے کے اندر یا باہر سفر کرتے تھے تو وہ کہاں قیام کرتے تھے؟ رہائش تلاش کرتے وقت اُنہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا؟ مہماننوازی دکھانے کے سلسلے میں ہم اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
’آج مَیں آپکے گھر رہونگا‘
مہماننوازی کا مطلب ہے، ”مہمانوں کیلئے کھانے اور رہائش کا بندوبست کرنا“ اور یہ پُرانے وقتوں سے یہوواہ کے سچے پرستاروں کی نمایاں خوبی رہی ہے۔ مثال کے طور پر، ابرہام، لوط اور ربقہ نے مہماننوازی دکھائی۔ (پیدایش ۱۸:۱-۸؛ ۱۹:۱-۳؛ ۲۴:۱۷-۲۰) اجنبیوں کیساتھ اپنے رویے کی بابت آبائی بزرگ ایوب نے بیان کِیا: ”پردیسی کو گلیکوچوں میں ٹکنا نہ پڑا بلکہ مَیں مسافر کیلئے اپنے دروازے کھول دیتا تھا۔“—ایوب ۳۱:۳۲۔
ایک اسرائیلی کو اپنی قوم کے لوگوں کی طرف سے مہماننوازی سے فائدہ اُٹھانے کیلئے اکثر شہر کے پھاٹک پر بیٹھ کر صرف دعوت دئے جانے کا انتظار کرنا ہوتا تھا۔ (قضاۃ ۱۹:۱۵-۲۱) میزبان عموماً اپنے مہمانوں کے پاؤں دھوتے، اُنہیں کھانا اور پانی فراہم کرنے کے علاوہ اُنکے جانوروں کیلئے بھی چارا فراہم کرتے تھے۔ (پیدایش ۱۸:۴، ۵؛ ۱۹:۲؛ ۲۴:۳۲، ۳۳) جو مسافر اپنے میزبانوں کیلئے بوجھ بننا نہیں چاہتے تھے وہ اپنے لئے روٹی اور مے اور اپنے جانوروں کیلئے چارا ساتھ لیکر چلتے تھے۔ اُنہیں صرف رات گزارنے کیلئے جگہ کی ضرورت ہوتی تھی۔
اگرچہ بائبل میں واضح طور پر یہ بیان نہیں کِیا گیا کہ یسوع اور اُسکے شاگرد اپنی منادی کے دوران کہاں کہاں قیام کِیا کرتے تھے لیکن یہ ضرور ہے کہ اُنہیں رات کہیں نہ کہیں گزارنی پڑتی تھی۔ (لوقا ۹:۵۸) جب یسوع یریحو گیا تو اُس نے زکائی سے کہا تھا: ”آج مجھے تیرے گھر رہنا ضرور ہے۔“ پس زکائی ”خوشی سے“ اُسے اپنے گھر لے گیا۔ (لوقا ۱۹:۵، ۶) یسوع اکثر بیتعنیاہ میں مرتھا، مریم اور لعزر کے گھر قیام کِیا کرتا تھا۔ (لوقا ۱۰:۳۸؛ یوحنا ۱۱:۱، ۵، ۱۸) نیز ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کفرنحوم میں یسوع شمعون پطرس کے گھر ٹھہرا کرتا تھا۔—مرقس ۱:۲۱، ۲۹-۳۵۔
یسوع نے اپنے ۱۲ رسولوں کو خدمتگزاری کی بابت جو ہدایات دیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسرائیلیوں سے کس قسم کے خیرمقدم کی توقع کر سکتے تھے۔ یسوع نے اُنہیں بتایا: ”نہ سونا اپنے کمر بند میں رکھنا نہ چاندی نہ پیسے۔ راستہ کیلئے نہ جھولی لینا نہ دو دو کُرتے نہ جُوتیاں نہ لاٹھی کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا حقدار ہے۔ اور جس شہر یا گاؤں میں داخل ہو دریافت کرنا کہ اُس میں کون لائق ہے اور جبتک وہاں سے روانہ نہ ہو اُسی کے ہاں رہنا۔“ (متی ۱۰:۹-۱۱) وہ جانتا تھا کہ خلوصدل لوگ اُسکے شاگردوں کو قبول کرینگے اور اُنہیں کھانا، رہائش اور دیگر ضروریاتِزندگی بھی فراہم کرینگے۔
تاہم، ایسا وقت آنے والا تھا جب سفر کرنے والے مبشروں کو خود ہی اپنے تمام اخراجات اُٹھانے ہونگے۔ مستقبل میں اپنے شاگردوں کیلئے دکھائی جانے والی نفرت اور اسرائیل کے علاقے سے باہر منادی کرنے کے پیشِنظر یسوع نے فرمایا: ”جسکے پاس بٹوا ہے وہ اسے لے اور اسی طرح جھولی بھی۔“ (لوقا ۲۲:۳۶) خوشخبری پھیلانے کیلئے سفر اور رہائش دونوں چیزیں لازمی تھیں۔
’مہماننوازی دکھاتے رہیں‘
پہلی صدی کے دوران رومی سلطنت میں امنوامان اور سڑکوں کے اچھے نظام کی وجہ سے لوگ سفر کرنا مشکل نہیں پاتے تھے۔a مسافروں کی بڑی تعداد کے باعث رہائش کی جگہوں کی بڑی مانگ تھی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے بڑی شاہراہوں پر جگہ جگہ سرائے تعمیر کئے گئے تھے۔ تاہم، ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”ادب میں ان سہولیات کو اچھے معنوں میں بیان نہیں کِیا گیا۔ ادبی اور اثریاتی ذرائع کے مطابق یہ جگہیں بہت ہی گندی تھیں جسکی وجہ سے بہت زیادہ کیڑےمکوڑے تھے اور یہاں رہائشی سہولیات بھی دستیاب نہیں تھیں۔ ناقص خوراک فراہم کی جاتی تھی۔ نیز ملازم ناقابلِبھروسا اور بداخلاق تھے۔“ واضح طور پر، ایک بااخلاق شخص یقیناً سفر کے دوران ایسی جگہوں پر قیام کرنے سے گریز کرتا ہوگا۔
اسی لئے پاک صحائف مسیحیوں کو ایک دوسرے کیلئے مہماننوازی دکھانے کی تاکید کرتے ہیں۔ پولس نے روم میں رہنے والے مسیحیوں کو تاکید کی تھی: ”مُقدسوں کی احتیاجیں رفع کرو۔ مسافرپروری میں لگے رہو۔“ (رومیوں ۱۲:۱۳) اُس نے یہودی مسیحیوں کو یاددہانی کرائی: ”مسافرپروری سے غافل نہ رہو کیونکہ اسی کی وجہ سے بعض نے بےخبری میں فرشتوں کی مہمانداری کی ہے۔“ (عبرانیوں ۱۳:۲) پطرس نے اپنے ہمایمان ساتھیوں کو نصیحت کی تھی کہ ”بغیر بڑبڑائے آپس میں مسافرپروری کرو۔“—۱-پطرس ۴:۹۔
تاہم، ایسے حالات پیدا ہو گئے جنکی وجہ سے مہماننوازی دکھانا موزوں نہیں رہا تھا۔ یوحنا رسول نے بیان کِیا: ”جو کوئی آگے بڑھ جاتا ہے اور مسیح کی تعلیم پر قائم نہیں رہتا . . . اُسے نہ گھر میں آنے دو اور نہ سلام کرو۔ کیونکہ جو کوئی ایسے شخص کو سلام کرتا ہے وہ اُسکے بُرے کاموں میں شریک ہوتا ہے۔“ (۲-یوحنا ۹-۱۱) غیرتائب گنہگاروں کی بابت پولس نے لکھا: ”اگر کوئی بھائی کہلا کر حرامکار یا لالچی یا بُتپرست یا گالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو اُس سے صحبت نہ رکھو بلکہ ایسے کیساتھ کھانا تک نہ کھانا۔“—۱-کرنتھیوں ۵:۱۱۔
جھوٹے اور دغاباز لوگوں نے یقیناً سچی مسیحیت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ دوسری صدی س.ع. میں مسیحی ایمان پر شائع ہونے والی ایک کتاب (بارہ رسولوں کی تعلیمات) میں سفری مناد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ ”ایک یا دو دن“ اُسکی خاطرداری کی جائے۔ اسکے بعد جب وہ روانہ ہوتا ہے تو اُسے ”راستے کیلئے کھانا دیا جائے۔ . . . لیکن اگر وہ روپےپیسے مانگتا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹا نبی ہے۔“ کتاب مزید بیان کرتی ہے: ”اگر وہ تمہارے ہاں کچھ اور وقت کیلئے قیام کرنا چاہتا ہے اور کوئی ہنر جانتا ہے تو اُسے اپنی کفالت کیلئے کام کرنے دو۔ لیکن اگر اُسکے پاس کوئی ہنر نہیں تو یہ جانتے ہوئے کہ وہ ایک مسیحی ہے اُسکی کوئی کام کرنے میں مدد کرو تاکہ تمہارے درمیان کوئی شخص بیکار نہ رہے۔ لیکن اگر وہ ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں تو سمجھ لیں کہ وہ ذاتی نفع کیلئے مسیحی بنا ہے؛ لہٰذا اُس سے خبردار رہیں۔“
پولس اس معاملے میں بہت احتیاط سے کام لیتا تھا تاکہ کچھ شہروں میں اپنے طویل قیام کے دوران اپنے میزبانوں کیلئے غیرضروری بوجھ نہ بنے۔ اپنی کفالت کرنے کیلئے اُس نے خیمہدوزی کا کام کِیا۔ (اعمال ۱۸:۱-۳؛ ۲-تھسلنیکیوں ۳:۷-۱۲) ابتدائی مسیحی مستحق مسافروں کی مدد کرنے کیلئے سفارشی خطوط بھی لکھا کرتے تھے، جیسے پولس نے فیبے کا تعارف کراتے ہوئے لکھا تھا: ”مَیں تُم سے فیبےؔ کی جو ہماری بہن اور کنخرؔیہ کی کلیسیا کی خادمہ ہے سفارش کرتا ہوں۔ کہ تُم اُسے خداوند میں قبول کرو . . . اور جس کام میں وہ تمہاری محتاج ہو اُسکی مدد کرو۔“—رومیوں ۱۶:۱، ۲۔
مہماننوازی دکھانے کی برکات
پہلی صدی کے مسیحی مشنری اپنی تمام ضروریات کی فراہمی کیلئے یہوواہ پر بھروسا رکھتے تھے۔ مگر کیا وہ ساتھی ایمانداروں کی طرف سے مہماننوازی کی توقع کر سکتے تھے؟ جیہاں، لدیہ نے پولس اور دیگر کو اپنے گھر میں قیام کرنے کی پیشکش کی تھی۔ پولس کرنتھس میں اکولہ اور پرسکلہ کیساتھ ٹھہرا تھا۔ فلپی کے ایک داروغہ نے پولس اور سیلاس کیلئے مہماننوازی دکھائی تھی۔ پولس کیلئے تھسلنیکے میں یاسون نے، قیصریہ میں فلپس نے اور قیصریہ سے یروشلیم جاتے وقت مناسون نے مہماننوازی کا مظاہرہ کِیا۔ رومہ کا سفر کرتے وقت پتیلی کے بھائیوں نے پولس کی خاطرداری کی تھی۔ جن میزبانوں نے پولس کی مہمانداری کی اُن کیلئے یہ مواقع یقیناً روحانی طور پر بااَجر ثابت ہوئے ہونگے!—اعمال ۱۶:۳۳، ۳۴؛ ۱۷:۷؛ ۱۸:۱-۳؛ ۲۱:۸، ۱۶؛ ۲۸:۱۳، ۱۴۔
عالم فریڈرک ایف. بروس بیان کرتا ہے: ”پولس کی مدد کرنے کے سلسلے میں ان دوستوں، ساتھی کارکنوں، میزبان عورتوں اور مردوں کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ پولس اور اُسکے مالک یسوع مسیح سے محبت رکھتے تھے جسکی وہ خدمت کر رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ پولس کی خدمت کرنے سے وہ دراصل یسوع کی خدمت کر رہے ہیں۔“ ایسی سوچ کتنی عمدہ ہے۔
مہماننوازی دکھانے کی ضرورت آج بھی ہے۔ یہوواہ کے گواہوں کے ہزاروں سفری نمائندے ساتھی ایمانداروں کی مہماننوازی سے استفادہ کرتے ہیں۔ بعض بادشاہتی مناد دُوردراز کے علاقوں میں منادی کرنے کیلئے اپنے اخراجات خود برداشت کرتے ہیں۔ تاہم، ایسے اشخاص کو اپنے گھروں پر ٹھہرانے سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ گرمجوش مہماننوازی میں اپنے ساتھ ایک سادہ سے کھانے پر مدعو کرنا بھی ’آپس کی تسلی‘ اور اپنے خدا اور اپنے بھائیوں کیلئے محبت دکھانے کا شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔ (رومیوں ۱:۱۱، ۱۲) ایسے مواقع بالخصوص میزبانوں کیلئے بااَجر ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“—اعمال ۲۰:۳۵۔
[فٹنوٹ]
a ایک اندازے کے مطابق، ۱۰۰ س.ع. میں آمدورفت کیلئے ۸۰،۰۰۰ کلومیٹر تک رومی سڑکوں کے نظام کا جال بچھا ہوا تھا۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
مسیحی ’مہماننوازی دکھاتے ہیں‘