قیامت کی تعلیم جو آپکو متاثر کرتی ہے
”خدا سے اُسی بات کی اُمید رکھتا ہوں . . . کہ راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔“—اعمال ۲۴:۱۵۔
۱. صدر عدالت میں قیامت کا موضوع کیسے ایک مسئلہ بن گیا؟
پولس رسول ۵۶ س.ع. میں، اپنی خدمتگزاری کے تیسرے دورے کے اختتام پر یروشلیم میں تھا۔ رومیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد، اُسے یہودیوں کی صدر عدالت کے سامنے حاضر ہونے کی اجازت دی گئی۔ (اعمال ۲۲:۲۹، ۳۰) جب پولس نے عدالت میں بیٹھے لوگوں پر نظر کی تو دیکھا کہ ان میں سے کچھ صدوقی اور کچھ فریسی ہیں۔ دونوں گروہوں کے اعتقادات میں واضح اختلاف پایا جاتا تھا۔ فریسی قیامت پر ایمان رکھتے تھے جبکہ صدوقی قیامت پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ تاہم اس سلسلے میں پولس نے اپنے ایمان کی بابت یوں بیان کِیا: ”اَے بھائیو! مَیں فریسی اور فریسیوں کی اولاد ہوں۔ مُردوں کی اُمید اور قیامت کے بارے میں مجھ پر مقدمہ ہو رہا ہے۔“ یہ سنتے ہی حاضرین میں پھوٹ پڑ گئی!—اعمال ۲۳:۶-۹۔
۲. پولس قیامت کے سلسلے میں اپنے اعتقاد کا دفاع کرنے کیلئے کیوں تیار تھا؟
۲ کئی سال پہلے جب پولس دمشق کے نزدیک سے گزر رہا تھا تو اُس نے ایک رویا میں یسوع مسیح کی آواز سنی تھی۔ پولس نے یسوع سے پوچھا: ”اَے خداوند مَیں کیا کروں؟“ یسوع نے جواب دیا: ”اُٹھ کر دمشقؔ میں جا جوکچھ تیرے کرنے کیلئے مقرر ہوا ہے وہاں تجھ سے سب کہا جائیگا۔“ دمشق آنے کے بعد، پولس ایک مددگار مسیحی شاگرد حننیاہ سے ملا جس نے اُسے بتایا کہ ”ہمارے باپدادا کے خدا نے تجھ کو اسلئے مقرر کِیا ہے کہ تُو اُسکی مرضی کو جانے اور اُس راستباز [قیامتیافتہ یسوع] کو دیکھے اور اُسکے مُنہ کی آواز سنے۔“ (اعمال ۲۲:۶-۱۶) اس واقعہ کے بعد اب پولس قیامت کے سلسلے میں اپنے اعتقاد کا دفاع کرنے کیلئے بالکل تیار تھا۔—۱-پطرس ۳:۱۵۔
اُمیدِقیامت کا پرچار کرنا
۳، ۴. پولس قیامت کا زبردست حامی کیسے تھا اور ہم اسکی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۳ کچھ عرصہ بعد پولس حاکم فیلکس کے سامنے حاضر ہوا۔ اس موقع پر، ایک ”وکیل“ ترطلس نے پولس کے خلاف یہودیوں کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے اُس پر فتنہانگیز اور بدعتی فرقے کا نگران ہونے کا الزام لگایا۔ پولس نے جواب میں صافصاف بیان کِیا: ”تیرے سامنے یہ اقرار کرتا ہوں کہ جس طریق کو وہ بدعت کہتے ہیں اُسی کے مطابق مَیں اپنے باپدادا کے خدا کی عبادت کرتا ہوں۔“ پھر وہ اصل مسئلے پر آتا اور کہتا ہے: ”خدا سے اسی بات کی اُمید رکھتا ہوں جسکے وہ خود بھی منتظر ہیں کہ راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔“—اعمال ۲۳:۲۳، ۲۴؛ ۲۴:۱-۸، ۱۴، ۱۵۔
۴ دو برس گزر جانے کے بعد جب پُرکیس فیستُس، فیلکس کی جگہ حاکم مقرر ہوا تو اُس نے ہیرودیس اگرپا کو دعوت دی کہ وہ ملزم پولس کے مقدمہ کی تحقیقات کرے۔ فیستُس نے کہا کہ پولس پر مقدمہ کرنے والوں نے اس دعویٰ کی بابت بحث کی ہے کہ ایک ”شخص یسوع . . . جو مر گیا تھا . . . زندہ“ ہے۔ اپنے دفاع میں پولس نے پوچھا: ”جب کہ خدا مرُدوں کو جِلاتا ہے تو یہ بات تمہارے نزدیک کیوں غیرمعتبر سمجھی جاتی ہے؟“ پھر اُس نے بیان کِیا: ”خدا کی مدد سے مَیں آج تک قائم ہوں اور چھوٹے بڑے کے سامنے گواہی دیتا ہوں اور اُن باتوں کے سوا کچھ نہیں کہتا جنکی پیشینگوئی نبیوں اور موسیٰؔ نے بھی کی ہے۔ کہ مسیح کو دُکھ اُٹھانا ضرور ہے اور سب سے پہلے وہی مُردوں میں سے زندہ ہوکر اس اُمت کو اور غیرقوموں کو بھی نور کا اشتہار دیگا۔“ (اعمال ۲۴:۲۷؛ ۲۵:۱۳-۲۲؛ ۲۶:۸، ۲۲، ۲۳) پولس قیامت کا زبردست حامی تھا! پولس کی طرح ہم بھی یقینِکامل کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ قیامت ہوگی۔ لیکن ہم لوگوں سے کس قِسم کے ردِعمل کی توقع کر سکتے ہیں؟ بالکل اُسی طرح کا ردِعمل جسکا سامنا پولس کو ہوا۔
۵، ۶. (ا) جب رسولوں نے قیامت کا پرچار کِیا تو اُنہیں کس قِسم کے ردِعمل کا سامنا ہوا؟ (ب) جب ہم قیامت پر اپنی اُمید کا اظہار کرتے ہیں تو کونسی چیز نہایت ضروری ہے؟
۵ غور کریں کہ پولس کے دوسرے مشنری دورے (تقریباً ۴۹-۵۲ س.ع.) کے دوران جب وہ اتھینے میں تھا تو کیا واقع ہوا۔ وہ اُن لوگوں سے دلیلیں دے دے کر بات کرنے لگا جو دیوتاؤں کے بڑے ماننے والے تھے۔ اُس نے اُنہیں خدا کے مقصد پر غور کرنے کی تاکید کی کہ وہ راستی سے اس دُنیا کی عدالت اُس آدمی کی معرفت کریگا جسے اُس نے مقرر کِیا ہے۔ یہ آدمی یسوع مسیح ہے۔ پولس وضاحت کرتا ہے کہ خدا نے یسوع کو مرُدوں میں سے جِلا کر یہ بات ثابت کر دی ہے۔ تاہم اُنکا ردِعمل کیا تھا؟ ہم پڑھتے ہیں: ”جب اُنہوں نے مُردوں کی قیامت کا ذکر سنا تو بعض ٹھٹھا مارنے لگے اور بعض نے کہا کہ یہ بات ہم تجھ سے پھر کبھی سنینگے۔“—اعمال ۱۷:۲۹-۳۲۔
۶ ایسے ہی ردِعمل کا تجربہ پطرس اور یوحنا کو پنتکست ۳۳ س.ع. کے کچھ عرصے بعد ہوا تھا۔ اُس وقت بھی صدوقی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ اس واقعہ کی بابت اعمال ۴:۱-۴ میں یوں بیان کِیا گیا ہے: ”جب وہ لوگوں سے یہ کہہ رہے تھے تو کاہن اور ہیکل کا سردار اور صدوقی اُن پر چڑھ آئے۔ وہ سخت رنجیدہ ہوئے کیونکہ یہ لوگوں کو تعلیم دیتے اور یسوؔع کی نظیر دے کر مرُدوں کے جی اُٹھنے کی منادی کرتے تھے۔“ تاہم بیشتر نے مثبت ردِعمل دکھایا۔ ”کلام کے سننے والوں میں سے بہتیرے ایمان لائے۔ یہاں تک کہ مردوں کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہو گئی۔“ لہٰذا ہم بھی جب قیامت کی بابت بات کرتے ہیں تو ایسے ہی مثبت اور منفی ردِعمل کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ اسکے پیشِنظر، اس تعلیم پر پُختہ ایمان رکھنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔
ایمان اور قیامت
۷، ۸. (ا) جیساکہ پہلی صدی میں کرنتھس کی کلیسیا کے نام خط میں واضح کِیا گیا ہے ایمان کیسے بےفائدہ ہو سکتا ہے؟ (ب) قیامت کی بابت صحیح سمجھ سچی مسیحیت کو جھوٹی تعلیم سے کیسے الگ کرتی ہے؟
۷ تاہم پہلی صدی س.ع. میں، مسیحی بننے والے تمام لوگوں نے قیامت پر ایمان رکھنے کو آسان نہیں پایا تھا۔ بعض لوگ جن کیلئے یہ مشکل تھا وہ کرنتھس کی کلیسیا سے تعلق رکھتے تھے۔ پولس نے اُنکو لکھا: ”مَیں نے سب سے پہلے تُم کو وہی بات پہنچا دی جو مجھے پہنچی تھی کہ مسیح کتابِمُقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کیلئے مؤا۔ اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتابِمُقدس کے مطابق جی اُٹھا۔“ پولس یہ بیان کرتے ہوئے اس سچائی کی تصدیق کرتا ہے کہ قیامتیافتہ یسوع مسیح ”پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیا۔“ پولس مزید کہتا ہے کہ اُن میں اکثر اب تک موجود ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳-۸) وہ مزید دلیل دیتا ہے: ”پس جب مسیح کی یہ منادی کی جاتی ہے کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تو تُم میں سے بعض کسطرح کہتے ہیں کہ مُردوں کی قیامت ہے ہی نہیں؟ اگر مُردوں کی قیامت نہیں تو مسیح بھی نہیں جی اُٹھا۔ اور اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو ہماری منادی بھی بیفائدہ ہے اور [ہمارا] ایمان بھی بیفائدہ۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۲-۱۴۔
۸ جیہاں، قیامت بنیادی تعلیم ہے اور اگر قیامت کو ایک حقیقت کے طور پر قبول نہ کِیا جائے تو مسیحی ایمان بےفائدہ ہے۔ واقعی، قیامت کے بارے میں صحیح سمجھ سچی مسیحیت کو جھوٹی تعلیم سے الگ کرتی ہے۔ (پیدایش ۳:۴؛ حزقیایل ۱۸:۴) لہٰذا پولس قیامت کی تعلیم کو مسیحیت کی ابتدائی تعلیم قرار دیتا ہے۔ اسی لئے ہمارا یہ عزم ہونا چاہئے کہ ہم ”کمال کی طرف قدم بڑھائیں۔“ پولس تاکید کرتا ہے کہ اگر ”خدا چاہے تو ہم یہی کرینگے۔“—عبرانیوں ۶:۱-۳۔
قیامت کی اُمید
۹، ۱۰. جب بائبل قیامت کا ذکر کرتی ہے تو اسکا کیا مطلب ہے؟
۹ قیامت پر اپنے ایمان کو اَور زیادہ مضبوط کرنے کیلئے آئیے چند سوالوں پر غور کریں جیسےکہ جب بائبل قیامت کا ذکر کرتی ہے تو اسکا کیا مطلب ہے؟ قیامت کی تعلیم یہوواہ کی محبت کی بڑائی کیسے کرتی ہے؟ ان سوالوں کے جواب ہمیں خدا کے نزدیک لے جائینگے اور دوسروں کو تعلیم دینے کے قابل بنائینگے۔—۲-تیمتھیس ۲:۲؛ یعقوب ۴:۸۔
۱۰ لفظ قیامت یونانی لفظ کا ترجمہ ہے اور اسکا لفظی مطلب ”دوبارہ اُٹھ کھڑے ہونا“ ہے۔ اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے؟ بائبل کے مطابق، قیامت کی اُمید اس بات کا پُختہیقین ہے کہ مُردے دوبارہ زندہ ہونگے۔ بائبل مزید بیان کرتی ہے کہ آسمانی اُمید رکھنے والا شخص قیامت میں روحانی بدن حاصل کریگا اور زمینی اُمید رکھنے والا شخص جسمانی بدن حاصل کریگا۔ جب ہم قیامت کی اس شاندار اُمید میں ظاہر کی جانے والی یہوواہ کی محبت، انصاف اور طاقت پر غور کرتے ہیں تو ہم حیران رہ جاتے ہیں۔
۱۱. قیامت کے سلسلے میں ممسوح اشخاص کیلئے خدا کونسا امکان پیش کرتا ہے؟
۱۱ قیامت میں یسوع اور اُس کے ممسوح بھائیوں کو آسمان پر خدمت انجام دینے کے لئے روحانی بدن دئے جائینگے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۵-۳۸، ۴۲-۵۳) وہ سب ملکر مسیحائی بادشاہت میں حکمرانوں کے طور پر کام کرینگے۔ یہ مسیحائی بادشاہت زمین کو فردوس بنائیگی۔ سردار کاہن یسوع کے ماتحتوں کے طور پر ممسوح اشخاص شاہی کاہن ہونگے۔ وہ راستبازوں کی نئی دُنیا میں نسلِانسانی کو یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کے فوائد پہنچائینگے۔ (عبرانیوں ۷:۲۵، ۲۶؛ ۹:۲۴؛ ۱-پطرس ۲:۹؛ مکاشفہ ۲۲:۱، ۲) تاہم، جو ممسوح اشخاص ابھی تک اسی زمین پر زندہ ہیں وہ خدا کے حضور قابلِقبول رہنے کے خواہشمند ہیں۔ مرنے کے بعد، وہ قیامت کے ذریعے آسمان میں غیرفانی زندگی کا انعام حاصل کرینگے۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۱-۳، ۶-۸، ۱۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۱، ۵۲؛ مکاشفہ ۱۴:۱۳) پولس نے لکھا: ”جب ہم اُسکی موت کی مشابہت سے اُسکے ساتھ پیوستہ ہو گئے تو بیشک اُسکے جی اُٹھنے کی مشابہت سے بھی اُسکے ساتھ پیوستہ ہونگے۔“ (رومیوں ۶:۵) لیکن زمین پر انسانی زندگی پانے والوں کی بابت کیا ہے؟ قیامت کی اُمید اُنہیں کیسے خدا کے نزدیک لائیگی؟ ہم ابرہام کی مثال سے مزید سیکھ سکتے ہیں۔
قیامت اور یہوواہ کیساتھ دوستی
۱۲، ۱۳. ابرہام کے پاس قیامت پر ایمان رکھنے کی کونسی ٹھوس وجہ موجود تھی؟
۱۲ ابرہام اپنے غیرمعمولی ایمان کی وجہ سے ”خدا کا دوست“ کہلایا۔ (یعقوب ۲:۲۳) عبرانیوں ۱۱ باب میں درج ایماندار عورتوں اور مردوں کی فہرست میں پولس تین بار ابرہام کا ذکر کرتا ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۸، ۹، ۱۷) وہ تیسری مرتبہ ابرہام کے ایمان کے اس واقعے کا ذکر کرتا ہے جب وہ فرمانبرداری کرتے ہوئے اپنے بیٹے اضحاق کو قربان کرنے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔ ابرہام کو اس بات کا پُختہ یقین تھا کہ اضحاق کے ذریعے نسل کے وعدہ کی ضمانت یہوواہ نے دی ہے۔ اگر اضحاق قربان ہوکر مر بھی جاتا توبھی ابرہام کو یہ یقین تھا کہ ”خدا [اُسے] مُردوں میں سے جِلانے پر بھی قادر ہے۔“
۱۳ جب یہوواہ خدا نے ابرہام کے مضبوط ایمان کو دیکھا تو اس نے قربانی کیلئے ایک جانور کا بندوبست کر دیا۔ تاہم، اضحاق کا معاملہ قیامت کی ایک تمثیل ہے جیساکہ پولس رسول نے کہا کہ وہاں ابرہام کو اضحاق تمثیل کے طور پر بھی ملا۔ (عبرانیوں ۱۱:۱۹) اسکے علاوہ، ابرہام کے پاس پہلے ہی سے قیامت پر ایمان رکھنے کی ٹھوس وجہ موجود تھی۔ کیا یہوواہ خدا نے معجزانہ طور پر ابرہام کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کو بحال نہیں کِیا تھا تاکہ وہ اپنے بیٹے اضحاق کو جنم دے سکیں جبکہ وہ اور اُسکی بیوی سارہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے؟—پیدایش ۱۸:۱۰-۱۴؛ ۲۱:۱-۳؛ رومیوں ۴:۱۹-۲۱۔
۱۴. (ا) عبرانیوں ۱۱:۹، ۱۰ کے مطابق ابرہام کس چیز کا اُمیدوار ہے؟ (ب) نئی دُنیا میں بادشاہتی برکات حاصل کرنے کیلئے ابرہام کیساتھ کیا ہوگا؟ (پ) ہم بادشاہتی برکات کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۴ پولس رسول نے ابرہام کو پردیسی اور خیموں میں رہنے والے کے طور پر بیان کِیا جوکہ ”اُس پایدار شہر کا اُمیدوار تھا جسکا معمار اور بنانے والا خدا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۹، ۱۰) یہ شہر یروشلیم کے شہر جیسا نہیں تھا جہاں خدا کی ہیکل تھی۔ اسکی بجائے یہ ایک علامتی شہر تھا۔ یہ خدا کی آسمانی بادشاہت تھی جوکہ یسوع مسیح اور اسکے ۱،۴۴،۰۰۰ ساتھی حکمرانوں پر مشتمل تھی۔ ان ۱،۴۴،۰۰۰ اشخاص کو آسمانی جلال میں ”شہرِمُقدس نئے یرؔوشلیم“ اور یسوع کی ”دلہن“ کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔ (مکاشفہ ۲۱:۲) سن ۱۹۱۴ میں یہوواہ نے یسوع کو مسیحائی بادشاہ کے طور پر تختنشین کِیا اور اُسے اپنے دشمنوں پر حکمرانی کرنے کا حکم دیا۔ (زبور ۱۱۰:۱، ۲؛ مکاشفہ ۱۱:۱۵) اس بادشاہت کی برکات حاصل کرنے کیلئے ”خدا کا دوست“ ابرہام دوبارہ زندہ ہوگا۔ بڑی بِھیڑ کے ارکان ہرمجدون سے بچ کر خدا کی نئی دُنیا میں زندہ ہی داخل ہو جائینگے۔ تاہم جو اس سے پہلے مر چکے ہیں وہ نئی دُنیا میں زندہ ہونگے۔ اگر ہم بادشاہتی برکات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ان دونوں گروہوں میں سے ایک میں ہونا ضروری ہے۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) تاہم قیامت کی اُمید کی بنیاد کیا ہے؟
خدا کی محبت—قیامت کی اُمید کی بنیاد
۱۵، ۱۶. (ا) بائبل کی پہلی پیشینگوئی قیامت کی بنیاد کیسے ڈالتی ہے؟ (ب) قیامت پر ایمان ہمیں کیسے یہوواہ کے نزدیک لے آتا ہے؟
۱۵ آسمانی باپ کیساتھ ہماری قریبی رفاقت، ابرہام کی طرح ہمارا مضبوط ایمان اور خدا کے احکامات کی فرمانبرداری کے باعث ہم اُسکے حضور راستباز ٹھہرینگے اور یہوواہ ہمیں اپنا دوست خیال کریگا۔ اسکے ذریعے ہمیں بادشاہتی حکمرانی سے برکات حاصل ہونگی۔ خدا کے کلام کی سب سے پہلی پیشینگوئی جو پیدایش ۳:۱۵ میں درج ہے قیامت کی اُمید اور خدا سے دوستی کی بنیاد ڈالتی ہے۔ اس میں شیطان کے سر کو کچلنے کے علاوہ خدا کی وفادار عورت کی نسل کی ایڑی پر کاٹے جانے کی بھی پیشینگوئی کی گئی تھی۔ سولی پر یسوع کی موت کے وقت علامتی لحاظ سے اُسکی ایڑی پر کاٹا گیا تھا۔ تاہم تیسرے دن اُسکی قیامت نے یہ زخم بھر دیا اور یہ ممکن بنا دیا کہ اُسکے خلاف فیصلہکُن کارروائی کا آغاز کِیا جائے اور ”اُسکو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔“—عبرانیوں ۲:۱۴۔
۱۶ پولس یاددہانی کراتا ہے کہ ”خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر مؤا۔“ (رومیوں ۵:۸) اس فضل کی قدردانی ہمیں اپنے شفیق آسمانی باپ یہوواہ اور یسوع مسیح کے نزدیک لے آتی ہے۔—۲-کرنتھیوں ۵:۱۴، ۱۵۔
۱۷. (ا) ایوب کیا اُمید رکھتا تھا؟ (ب) ایوب ۱۴:۱۵ یہوواہ کے بارے میں کیا ظاہر کرتی ہے اور اس پر غور کرنے سے آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۱۷ مسیحی زمانے سے پہلے رہنے والا وفادار شخص ایوب بھی قیامت کا منتظر تھا۔ اُس نے شیطان کے ہاتھوں سخت اذیت اُٹھائی تھی۔ ایوب کے جھوٹے دوستوں نے قیامت کا ذکر تک نہ کِیا لیکن ایوب نے اپنی اُمید سے تسلی حاصل کی کیونکہ اُس نے پوچھا: ”اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟“ وہ خود ہی جواب دیتا ہے: ”مَیں اپنی جنگ کے کُل ایّام میں منتظر رہتا جبتک میرا چھٹکارا نہ ہوتا۔“ اپنے خدا کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اُس نے تسلیم کِیا: ”تُو مجھے پکارتا اور مَیں تجھے جواب دیتا۔“ اپنے خالق کے احساسات کے بارے میں ایوب بتاتا ہے: ”تجھے اپنے ہاتھوں کی صنعت کی طرف رغبت ہوتی۔“ (ایوب ۱۴:۱۴، ۱۵) جیہاں، یہوواہ اُس وقت کا شدت سے منتظر ہے جب قیامت میں تمام وفادار اشخاص زندہ ہونگے۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم ناکامل انسانوں کیلئے خدا نے انتہائی محبت اور فضل دکھایا ہے تو ہم اسکے اَور زیادہ قریب آ جاتے ہیں!—رومیوں ۵:۲۱؛ یعقوب ۴:۸۔
۱۸، ۱۹. (ا) دانیایل کے پاس دوبارہ زندہ ہونے کا کیا امکان ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں کس نکتے پر بات کی جائیگی؟
۱۸ خدا کا فرشتہ دانیایل کو ”عزیز مرد“ کہہ کر مخاطب کرتا ہے کیونکہ اُس نے طویل عرصہ تک وفاداری سے خدا کی خدمت کی تھی۔ (دانیایل ۱۰:۱۱، ۱۹) یہوواہ خدا کیلئے دانیایل کی راستی ۶۱۷ ق.س.ع. میں اپنی اسیری سے لیکر ۵۳۶ ق.س.ع. میں فارس کے بادشاہ خورس کی حکومت کے تیسرے سال میں رویا حاصل کرنے کے بعد اپنی موت تک اُٹوٹ تھی۔ (دانیایل ۱:۱؛ ۱۰:۱) خورس کی حکومت کے تیسرے سال کے دوران دانیایل نے عالمی طاقتوں کے عروجوزوال کی رویا دیکھی۔ یہ عالمی طاقتیں آنے والی بڑی مصیبت پر ختم ہو جائینگی۔ (دانیایل ۱۱:۱–۱۲:۱۳) جب دانیایل رویا کو پوری طرح نہ سمجھ پایا تو اُس نے فرشتہ سے پوچھا: ”اَے میرے خداوند انکا انجام کیا ہوگا؟“ فرشتے نے جواب دیتے ہوئے اُسکی توجہ ”آخری وقت“ پر دلائی جسکے دوران ”دانشور سمجھیں گے۔“ لیکن دانیایل کیلئے کیا امکان ہوگا؟ فرشتہ اقرار کرتا ہے: ”تُو آرام کریگا اور ایّام کے اختتام پر اپنی میراث میں اُٹھ کھڑا ہوگا۔“ (دانیایل ۱۲:۸-۱۰، ۱۳) دانیایل مسیح کی ہزارسالہ حکومت میں ”راستبازوں کی قیامت“ میں دوبارہ زندہ ہوگا۔—لوقا ۱۴:۱۴۔
۱۹ یہ دُنیا ختم ہونے والی ہے۔ جس وقت ہم نے سچائی سیکھی تھی اسکی نسبت مسیح کی ہزارسالہ بادشاہت بہت نزدیک ہے۔ لہٰذا ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں: کیا مَیں نئی دُنیا میں ابرہام، ایوب، دانیایل اور دیگر وفادار اشخاص سے ملونگا؟ اگر ہم یہوواہ کی قربت حاصل کریں اور اُسکے احکام بجا لائیں تو ایسا ضرور ہوگا۔ ہمارے اگلے مضمون میں اُمیدِقیامت پر مزید بات کی جائیگی تاکہ ہم جان سکیں کہ کون لوگ قیامت پائینگے۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• جب پولس نے قیامت کے سلسلے میں اپنی اُمید کا اظہار کِیا تو اُسے کس قِسم کے ردِعمل کا تجربہ ہوا؟
• اُمیدِقیامت سچے مسیحیوں کو جھوٹی تعلیم سے الگ کیوں کرتی ہے؟
• ہم کیسے جانتے ہیں کہ ابرہام، ایوب اور دانیایل قیامت پر ایمان رکھتے تھے؟
[صفحہ ۹ پر تصویریں]
پولس نے حاکم فیلکس کے سامنے پُختہ یقین کیساتھ قیامت کی اُمید کا پرچار کِیا
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
ابرہام قیامت پر کیوں یقین رکھتا تھا؟
[صفحہ ۱۲ پر تصویریں]
ایوب نے قیامت کی اُمید سے تسلی حاصل کی
[صفحہ ۱۲ پر تصویریں]
دانیایل راستبازوں کی قیامت میں زندہ ہوگا