سوالات از قارئین
کیا یہوواہ کے گواہوں کو اپنے کسی ایسے رشتہدار یا دوست کی شادی میں شریک ہونا چاہئے جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے؟
بِلاشُبہ شادیاں خوشی کا موقع ہوتی ہیں اور مسیحی دوسروں کی خوشی میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔ اگر بچوں یا نوجوانوں کو کسی شادی میں شریک ہونے کی دعوت ملے تو اُن کے والدین یا سرپرست ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ اس دعوت کو قبول کریں گے یا نہیں۔ (افسیوں ۶:۱-۳) لیکن اگر ایک مسیحی عورت کا خاوند جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے یہ چاہتا ہے کہ اُس کی بیوی اُس کے ساتھ چرچ میں کسی کے نکاح پر حاضر ہو تو وہ کیا کرے گی؟ شاید وہ اپنے ضمیر کے مطابق یہ فیصلہ کرے کہ وہ نکاح کے لئے حاضر ہوگی لیکن کسی قسم کے مذہبی رسمورواج میں حصہ نہیں لے گی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مسیحی کو خود اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ کسی غیرگواہ کی شادی کی تقریب میں شریک ہوگا یا نہیں۔ البتہ یہوواہ کے گواہ جانتے ہیں کہ وہ یہوواہ خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اس لئے وہ بائبل کے اصولوں پر سوچبچار کرنے کے بعد ہی کسی ایسے شخص کی شادی میں شریک ہونے کا فیصلہ کریں گے جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔
ایک مسیحی کے لئے سب سے اہم بات یہی ہونی چاہئے کہ اُس کو یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہو۔ یسوع مسیح نے کہا کہ ”خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے پرستش کریں۔“ (یوحنا ۴:۲۴) اس وجہ سے یہوواہ کے گواہ کسی اَور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مذہبی رسمورواج میں حصہ نہیں لیتے اور نہ ہی اُن کی دُعاؤں میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ ایسے رسمورواج میں بھی حصہ نہیں لیتے جن سے خدا کے حکموں کی خلافورزی ہو۔—۲-کرنتھیوں ۶:۱۴-۱۷۔
مسیحی جانتے ہیں کہ وہ ایک معاملے کے بارے میں جیسا بھی فیصلہ کریں گے اس کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ شادی کی تقریب پر حاضر ہوں گے لیکن بعض رسمورواج میں حصہ نہیں لیں گے تو کیا آپ کے رشتہدار اسے بُرا مانیں گے؟ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ آپ کے فیصلے کا مسیحی بہنبھائیوں پر کیسا اثر ہو سکتا ہے۔ (رومیوں ۱۴:۱۳) ہو سکتا ہے کہ آپ یا آپ کے گھروالے فیصلہ کریں کہ شادی کی اس تقریب میں شریک ہونے سے آپ پر بُرا اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن کیا یہ آپ کے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے؟ اس شادی پر حاضر ہونے سے کیا آپ اُن کے ضمیر کو دُکھائیں گے؟
جب ایک مسیحی ایسے رشتہداروں کے نکاح پر حاضر ہوتا ہے جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں تو اُس کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو لڑکی یا لڑکے کے خاص دوست کے طور پر شادی کی رسموں میں حصہ لینے کو کہا جائے (یعنی برائڈزمیڈ یا بیسٹمین کے طور پر) تو آپ کیا کریں گے؟ یا پھر اگر آپ کا بیاہتا ساتھی یہوواہ کا گواہ نہیں ہے اور وہ شادی کی تمام رسموں میں حصہ لینا چاہتا ہے تو آپ کا فیصلہ کیا رہے گا؟ کبھیکبھار شادی کو ایک سرکاری دفتر میں رجسٹرار یا قاضی کے ذریعے قانونی شکل دی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اس میں شریک ہونے کا مطلب محض یہی ہے کہ آپ نکاحنامے پر دستخط ہوتے دیکھنے کے لئے حاضر ہوں۔
البتہ اگر نکاح ایک ایسی عمارت میں کِیا جائے جو کسی مذہب سے منسلک ہو مثلاً چرچ میں یا پھر اگر ایک پادری نکاح کروائے تو مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ آپ کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتے ہیں جس سے آپ کا ضمیر آپ کی عدالت کرنے لگے یا جس سے خدا کے احکام کی خلافورزی ہو۔ اس کے علاوہ آپ اپنے رشتہداروں اور دوستوں کے لئے شرمندگی کا باعث بھی نہیں بننا چاہتے ہیں۔ اس لئے شاید آپ نکاح پر حاضر نہ ہونے کا فیصلہ کریں۔ (امثال ۲۲:۳) اگر آپ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو آپ اپنے رشتہداروں یا دوستوں کو بتا سکتے ہیں کہ نکاح پر حاضر ہونے کی صورت میں آپ کن رسموں میں حصہ نہیں لیں گے کیونکہ ایسا کرنا آپ کے ایمان کی خلافورزی کے برابر ہوگا۔ اس طرح سب کی پریشانی قدراً کم ہو جائے گی۔
ان سب باتوں پر سوچبچار کرنے کے بعد ایک یہوواہ کا گواہ شاید یہ فیصلہ کرے کہ وہ نکاح پر حاضر تو ہوگا لیکن اس کی رسموں میں حصہ نہیں لے گا۔ لیکن اگر ایک مسیحی کا خیال ہے کہ ایک ایسی صورتحال میں وہ خدا کے حکموں کو نظرانداز کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتا ہے تو شاید وہ نکاح پر حاضر نہ ہونے کا فیصلہ کرے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اُسے شادی کے جشن پر آنے کی دعوت ملے تو وہ نکاح کے لئے نہ آئے لیکن بعد میں جشن میں شریک ہونے کا فیصلہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے جشن کے دوران بھی سب کچھ ”خدا کے جلال کے لئے“ کرنے کی ٹھان لینی چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱) اس معاملے میں فیصلہ کرتے وقت ہر ایک یہوواہ کا گواہ ”اپنا ہی بوجھ اٹھائے گا۔“ (گلتیوں ۶:۵) بہرحال، آپ کا فیصلہ جو بھی ہو آپ کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ آپ خدا کے سامنے صاف ضمیر رکھیں۔