آپ کی زندگی میں سب سے اہم کون ہے؟
”تُو ہی . . . تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“—زبور ۸۳:۱۸۔
۱، ۲. اگر ہم نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خدا کا نام جاننا ہی کافی کیوں نہیں ہے؟
آپ نے شاید سب سے پہلے خدا کا نام اُس وقت دیکھا ہوگا جب کسی نے آپ کو زبور ۸۳:۱۸ دکھائی ہوگی۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”تاکہ وہ جان لیں کہ تُو ہی جس کا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“ آپ شاید یہ جان کر حیران ہوئے ہوں گے کہ خدا کا بھی ایک ذاتی نام ہے۔ اِس کے بعد سے آ پ بھی دوسروں کو خدا کا نام بتانے کے لئے یہی آیت استعمال کرتے ہوں گے۔—روم ۱۰:۱۲، ۱۳۔
۲ یہ بہت اہم ہے کہ لوگ خدا کا نام جانیں۔ مگر خدا کا نام جاننا ہی کافی نہیں ہے۔ زبورنویس نے خدا کا نام بتانے کے علاوہ یہ بھی کہا کہ یہوواہ خدا ”تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا کائنات کی سب سے اعلیٰ ہستی ہے۔ اِس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر ہم نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمارا خالق ہے اور اُس کی تابعداری کرنا ہمارا فرض ہے۔ (مکا ۴:۱۱) لیکن جس طرح سے ہم زندگی گزارتے ہیں، کیا اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا ہماری زندگی میں واقعی سب سے اہم ہے؟ ہم میں سے ہر ایک کو اِس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
حوا کی زندگی میں سب سے اہم کون تھا؟
۳، ۴. شیطان نے حوا کو اپنے جال میں کیسے پھنسا لیا اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟
۳ یہ اِتنا ضروری کیوں ہے کہ ہم اِس سوال پر غور کریں کہ کیا یہوواہ خدا ہماری زندگی میں واقعی سب سے اہم ہے؟ آئیں، اِس سلسلے میں اُن واقعات پر غور کریں جو باغِعدن میں پیش آئے تھے۔ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو حکم دیا تھا کہ وہ نیکوبد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھائیں۔ لیکن شیطان نے حوا کو ورغلایا کہ وہ خدا کے حکم کی پرواہ نہ کرے بلکہ اپنی منمانی کرے۔ (پید ۲:۱۷؛ ۲-کر ۱۱:۳) حوا، شیطان کے بہکاوے میں آ گئیں اور اُنہوں نے یہوواہ خدا کے حکم کو کوئی اہمیت نہ دی۔ یوں حوا نے ظاہر کِیا کہ اُن کی زندگی میں یہوواہ خدا سب سے اہم نہیں ہے۔ لیکن شیطان نے حوا کو اپنے جال میں کیسے پھنسا لیا؟
۴ شیطان نے طرحطرح کی چالیں چلنے سے حوا کو ورغلایا۔ (پیدایش ۳:۱-۵ کو پڑھیں۔) پہلی چال یہ تھی کہ اُس نے حوا سے بات کرتے وقت خدا کا ذاتی نام یہوواہ استعمال نہیں کِیا۔ اِس کے برعکس جب موسیٰ نے پیدایش کی کتاب لکھی تو اُنہوں نے پیدایش ۳:۱ میں نام یہوواہ استعمال کِیا۔ شیطان کی دوسری چال یہ تھی کہ اُس نے حوا سے یہ نہیں پوچھا کہ خدا نے اُنہیں کیا ”حکم“ دیا ہے بلکہ یہ پوچھا کہ خدا نے اُن سے کیا ”کہا“ ہے۔ (پید ۲:۱۶) اِس طرح شیطان نے یہ تاثر دیا کہ خدا کا حکم اِتنا اہم نہیں ہے۔ تیسری چال یہ تھی کہ شیطان نے حوا سے کہا کہ ”تُم ہرگز نہ مرو گے۔“ غور کریں کہ شیطان بات تو حوا سے کر رہا تھا لیکن اُس نے لفظ ”تُم“ آدم اور حوا دونوں کے لئے استعمال کِیا۔ یوں اُس نے حوا کو یہ احساس دلایا کہ وہ اِتنی اہم ہیں کہ وہ اپنی اور اپنے شوہر دونوں کی طرف سے بات کر سکتی ہیں۔ حوا میں غرور آ گیا اور اُنہوں نے اپنی اور اپنے شوہر کی طرف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔“
۵. (الف) شیطان نے حوا کا دھیان کس چیز پر لگا دیا؟ (ب) حوا نے پھل کھا کر کیا ظاہر کِیا؟
۵ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو صرف ’نیکوبد کی پہچان کے درخت کا پھل‘ کھانے سے منع کِیا تھا۔ لیکن شیطان نے حوا سے پوچھا کہ ”کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟“ یہ سوال اُٹھانے سے شیطان نے یہ تاثر دیا کہ یہوواہ خدا کا حکم جائز نہیں ہے۔ اِس کے بعد شیطان نے حوا کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ وہ ”خدا کی مانند“ بن سکتی ہیں جس سے اُن کو بڑا فائدہ ہوگا۔ اِن سب باتوں سے شیطان نے حوا کا دھیان یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے سے ہٹا کر درخت کے پھل کو حاصل کرنے پر لگا دیا۔ (پیدایش ۳:۶ کو پڑھیں۔) افسوس کی بات ہے کہ حوا نے وہ پھل کھا لیا اور یہ ظاہر کِیا کہ اُن کی زندگی میں یہوواہ خدا سب سے اہم نہیں ہے۔
ایوب کی زندگی میں سب سے اہم کون تھا؟
۶. (الف) شیطان نے ایوب کے سلسلے میں کونسا دعویٰ کِیا؟ (ب) ایوب کو کیا کرنے کا موقع ملا؟
۶ باغِعدن میں ہونے والے واقعات کے کئی صدیاں بعد ایوب کو ایسی صورتحال کا سامنا ہوا جس میں وہ ظاہر کر سکتا تھا کہ اُس کی زندگی میں سب سے اہم کون ہے۔ جب یہوواہ خدا نے شیطان کو بتایا کہ ایوب کتنا راستباز انسان ہے تو شیطان نے بڑے طنز سے کہا: ”کیا اؔیوب یوں ہی خدا سے ڈرتا ہے؟“ (ایوب ۱:۷-۱۰ کو پڑھیں۔) شیطان نے یہ نہیں کہا کہ ایوب خدا کے فرمانبردار نہیں ہیں بلکہ اُس نے ایوب کی نیت پر شک ڈالا۔ شیطان نے ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ کہا کہ ایوب کو خدا سے کوئی محبت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے فائدے کے لئے خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ ایوب کو موقع ملا کہ وہ شیطان کے اِس دعوے کو جھوٹا ثابت کریں۔
۷، ۸. (الف) ایوب پر کونسی مصیبتیں آئیں؟ (ب) ایوب نے خدا کے وفادار رہنے سے کیا ثابت کِیا؟
۷ یہوواہ خدا نے شیطان کو اجازت دی کہ وہ ایوب کو پرکھ لے۔ شیطان، ایوب پر بہت سی مصیبتیں لایا۔ (ایو ۱:۱۲-۱۹) جب ایوب کی زندگی میں مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تو اُنہوں نے کیا کِیا؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ایوب نے ”نہ تو گُناہ کِیا اور نہ خدا پر بیجا کام کا عیب لگایا۔“ (ایو ۱:۲۲) لیکن شیطان نے پھر بھی ایوب پر الزام لگانا بند نہ کِیا۔ شیطان نے کہا کہ ”کھال کے بدلے کھال بلکہ انسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لئے دے ڈالے گا۔“ a (ایو ۲:۴) شیطان نے دعویٰ کِیا کہ اگر ایوب کسی جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوں گے تو وہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں گے۔
۸ شیطان نے ایوب کو ایک ایسی بھیانک بیماری میں مبتلا کر دیا جس سے اُن کا گوشت گل کر جھڑنے لگا۔ ایوب کو ایسی حالت میں دیکھ کر اُن کی بیوی اُن سے کہنے لگی کہ خدا کو بُرابھلا کہیں اور مر جائیں۔ اِس کے بعد ایوب کے تین دوستوں نے اُن پر یہ الزام لگایا کہ ضرور اُنہوں نے کوئی گُناہ کِیا ہے۔ (ایو ۲:۱۱-۱۳؛ ۸:۲-۶؛ ۲۲:۲، ۳) لیکن اِس تمام مشکل میں بھی ایوب اپنی راستی پر قائم رہے۔ (ایوب ۲:۹، ۱۰ کو پڑھیں۔) ایوب نے اپنی وفاداری سے ثابت کر دیا کہ اُن کی زندگی میں یہوواہ خدا سب سے اہم ہے۔ ایوب کی مثال سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ خطاکار انسان بھی شیطان کو جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں۔—امثال ۲۷:۱۱ پر غور کریں۔
یسوع مسیح کی زندگی میں سب سے اہم کون تھا؟
۹. (الف) شیطان نے یسوع مسیح کو بہکانے کے لئے سب سے پہلے کونسا طریقہ استعمال کِیا؟ (ب) یسوع مسیح نے شیطان کی کوشش کو کیسے ناکام کر دیا؟
۹ جب یسوع مسیح نے بپتسمہ لیا تو اُس کے کچھ دیر بعد شیطان نے یسوع مسیح کو ورغلانے کی کوشش کی۔ وہ چاہتا تھا کہ یسوع مسیح، یہوواہ خدا کو سب سے اہم خیال نہ کریں بلکہ اپنے فائدے کا سوچیں۔ ابلیس نے یسوع مسیح کو تین طریقوں سے غلط کام کرنے پر اُکسانے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے شیطان نے یسوع مسیح کو اُکسایا کہ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے معجزہ کریں۔ (متی ۴:۲، ۳) یسوع مسیح نے ۴۰ دن سے کچھ نہیں کھایا تھا جس کی وجہ سے اُنہیں بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ اِس لئے شیطان نے یسوع مسیح سے کہا کہ وہ پتھروں سے کہیں کہ روٹی بن جائیں۔ یسوع مسیح نے کیا کِیا؟ اُنہوں نے شیطان کو یہوواہ کے کلام سے جواب دیا۔ یسوع مسیح، شیطان کے بہکاوے میں نہ آئے جبکہ حوا، شیطان کے جال میں پھنس گئیں۔—متی ۴:۴ کو پڑھیں۔
۱۰. شیطان نے یسوع مسیح سے یہ کیوں کہا کہ اپنے آپ کو ہیکل کے کنگرے سے گِرا دیں؟
۱۰ شیطان نے یسوع مسیح کو ورغلانے کی دوبارہ کوشش کی۔ اُس نے یسوع مسیح سے کہا کہ اپنے آپ کو ہیکل کے کنگرے سے گِرا دیں۔ (متی ۴:۵، ۶) شیطان کا کہنا تھا کہ اگر یسوع مسیح کو کوئی چوٹ نہ آئی تو اِس سے ثابت ہو جائے گا کہ یسوع مسیح ’خدا کے بیٹے‘ ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ یسوع مسیح اپنی اہمیت پر توجہ دلائیں۔ شیطان جانتا تھا کہ انسان غرور میں آکر یا بےعزتی سے بچنے کے لئے خطرہ مول لینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ شیطان نے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے پاک کلام میں لکھی بات کو توڑمروڑ کر پیش کِیا۔ لیکن یسوع مسیح نے اُس کو ایسا جواب دیا جس سے ظاہر ہو گیا کہ وہ پاک کلام کا صحیح علم رکھتے ہیں۔ (متی ۴:۷ کو پڑھیں۔) اُنہوں نے شیطان کی بات کو رد کرکے یہ ثابت کِیا کہ اُن کی زندگی میں یہوواہ خدا سے بڑھ کر اَور کوئی نہیں ہے۔
۱۱. یسوع مسیح نے شیطان کی پیشکش کو کیوں ٹھکرا دیا؟
۱۱ شیطان نے دو مرتبہ ناکام ہونے کے بعد یسوع مسیح کو ورغلانے کے لئے اُن کو بہت بڑا لالچ دیا۔ (متی ۴:۸، ۹) شیطان نے یسوع مسیح کو دُنیا کی ساری سلطنتیں دکھائیں اور کہا: ”اگر تُو جھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا۔“ لیکن یسوع مسیح نے اِس پیشکش کو فوراً ٹھکرا دیا۔ وہ جانتے تھے کہ اِس پیشکش کو قبول کرنا یہوواہ خدا کی حکمرانی کو رد کرنے کے برابر ہے۔ (متی ۴:۱۰ کو پڑھیں۔) یسوع مسیح نے ہر بار شیطان کو جواب دینے کے لئے عبرانی صحیفوں میں سے ایسی آیتوں کو استعمال کِیا جن میں خدا کا نام درج تھا۔b
۱۲. (الف) جب یسوع مسیح کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اُنہیں کس مشکل صورتحال کا سامنا ہوا؟ (ب) یسوع مسیح کی وفاداری سے کیا ثابت ہوا؟
۱۲ جب یسوع مسیح کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اُنہیں ایک انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہوا۔ اُنہوں نے اپنی خدمت کے دوران باربار کہا کہ وہ اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ (متی ۲۰:۱۷-۱۹، ۲۸؛ لو ۱۲:۵۰؛ یوح ۱۶:۲۸) لیکن وہ جانتے تھے کہ اُن پر خدا کے خلاف کفر بکنے کا جھوٹا الزام لگایا جائے گا اور اِس الزام میں یہودی عدالت اُنہیں موت کی سزا سنائے گی۔ یسوع مسیح سے یہ بات گوارا نہ ہو رہی تھی کہ اُنہیں کفر بکنے والے کے طور پر قتل کِیا جائے گا۔ اِس لئے اُنہوں نے کہا: ”میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔“ لیکن غور کریں کہ اُنہوں نے پھر کیا کہا: ”تَو بھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے ویسا ہی ہو۔“ (متی ۲۶:۳۹) یسوع مسیح نے آخری دم تک خدا کا وفادار رہ کر یہ ثابت کر دیا کہ اُن کی زندگی میں سب سے اہم کون ہے۔
ہماری زندگی میں سب سے اہم کون ہے؟
۱۳. ہم نے حوا، ایوب اور یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟
۱۳ ہم نے سیکھ لیا ہے کہ جو لوگ حوا کی طرح اپنی من مانی کرتے ہیں اور خود کو بہت اہم سمجھتے ہیں، وہ دراصل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں یہوواہ خدا سب سے اہم نہیں ہے۔ ایوب کی مثال سے ہم نے یہ سیکھا کہ خطاکار انسان مشکلات میں بھی یہوواہ خدا کے وفادار رہ سکتے ہیں حالانکہ کبھیکبھار وہ یہ نہیں جانتے کہ اُن پر ایک مصیبت کیوں آئی ہے۔ (یعقو ۵:۱۱) یسوع مسیح سے ہم نے یہ سیکھا کہ ہمیں ذلت برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور اِس بات کی حد سے زیادہ فکر نہیں کرنی چاہئے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔ (عبر ۱۲:۲) ہم اِن مثالوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۱۴، ۱۵. (الف) شیطان کے اُکسانے پر حوا اور یسوع مسیح کے ردِعمل میں کیا فرق تھا؟ نیچے دی گئی تصویر پر تبصرہ کریں۔ (ب) ہم یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۱۴ جب آپ کو غلط کام کرنے پر اُکسایا جائے تو اپنا دھیان یہوواہ خدا کو خوش کرنے پر رکھیں۔ جب شیطان نے حوا کو پھل کھانے پر اُکسایا تو وہ بڑے دھیان سے اُس پھل کو دیکھنے لگی۔ حوا نے دیکھا کہ یہ پھل ”کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے۔“ (پید ۳:۶) اِس کے برعکس جب شیطان نے یسوع مسیح کو غلط کام کرنے پر اُکسانے کی کوشش کی تو یسوع مسیح نے کیا کِیا؟ اُنہوں نے اُس کام کے عارضی فائدے پر دھیان دینے کی بجائے یہوواہ خدا کو خوش کرنا زیادہ اہم سمجھا۔ یسوع مسیح نے شیطان کو جواب دینے کے لئے پاک کلام سے حوالہ دیا اور یہوواہ کا نام استعمال کِیا۔
۱۵ جب ہمیں غلط کام کرنے پر اُکسایا جاتا ہے تو ہم اپنا دھیان کس بات پر رکھتے ہیں؟ جتنا ہم اُس کام کے عارضی فائدے کے بارے میں سوچیں گے اُتنا ہی ہمارے اندر اُس کام کو کرنے کی خواہش بڑھے گی۔ (یعقو ۱:۱۴، ۱۵) یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ’اگر تیرا ہاتھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے کاٹ کر پھینک دے۔‘ (متی ۵:۲۹، ۳۰) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہمارے دل میں غلط کام کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو ہمیں اُسے اپنے دل سے نکالنے کی سخت کوشش کرنی چاہئے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ہمیں یسوع مسیح کی طرح اِس بات پر دھیان دینا چاہئے کہ اِس کام کا انجام کیا ہوگا؟ کیا یہ کام کرنے سے ہم یہوواہ خدا سے دُور ہو جائیں گے؟ ہمیں خدا کے کلام سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ یوں ہم یہ ثابت کریں گے کہ ہماری زندگی میں یہوواہ خدا ہی سب سے اہم ہے۔
۱۶-۱۸. (الف) ہم کیوں بےحوصلہ ہو سکتے ہیں؟ (ب) ہم مصیبتوں کو برداشت کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟
۱۶ مصیبت اور پریشانی کے وقت میں یہوواہ خدا سے ناراض نہ ہوں۔ (امثا ۱۹:۳) جوںجوں اِس بُری دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے، یہوواہ خدا کے بہت سے خادم مختلف آفتوں اور افسوسناک واقعات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ہم یہ توقع تو نہیں کرتے کہ یہوواہ خدا ہمیں اِن سے بچائے گا۔ لیکن جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے یا ہمیں تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے تو شاید ہم ایوب کی طرح بےحوصلہ ہو جائیں۔
۱۷ ایوب کی طرح کبھیکبھار ہمارے لئے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا بعض واقعات کیوں ہونے دیتا ہے۔ شاید ہم نے سنا ہو کہ ہمارے کچھ وفادار بہنبھائی ہیٹی میں آنے والے زلزلے یا کسی اَور قدرتی آفت میں ہلاک ہو گئے۔ یا شاید ہم کسی ایسے وفادار بھائی یا بہن کو جانتے ہوں جو کسی بھیانک حادثے یا تشدد کے کسی واقعے کا شکار ہو گیا۔ یا پھر شاید ہم خود کسی مصیبت میں مبتلا ہیں یا ناانصافی کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب ہم ایسے واقعات کے بارے میں سنتے ہیں یا خود تکلیف سہتے ہیں تو شاید ہم سوچیں کہ ”یہوواہ خدا! میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میرا کیا قصور تھا؟“ (حبق ۱:۲، ۳) ایسی صورت میں ہم تسلی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۸ جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہم سے ناراض ہے۔ اِس سلسلے میں یسوع مسیح نے دو ایسے واقعات کی مثال دی جو اُن کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ (لوقا ۱۳:۱-۵ کو پڑھیں۔) اکثر ہم پر جو مصیبتیں آتی ہیں، وہ ’وقت اور حادثے‘ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ (واعظ ۹:۱۱) مصیبتیں خواہ کسی بھی وجہ سے آئیں، اگر ہم ’ہر طرح کی تسلی کے خدا‘ پر بھروسا رکھیں گے تو ہم اِن کو برداشت کر سکتے ہیں۔ یہوواہ خدا ہمیں طاقت بخشے گا تاکہ ہم وفاداری سے اُس کی خدمت کرتے رہیں۔—۲-کر ۱:۳-۶۔
۱۹، ۲۰. (الف) یسوع مسیح کس وجہ سے ذلت کو برداشت کرنے کے قابل ہوئے؟ (ب) ہم ذلت کو برداشت کرنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟
۱۹ اپنی عزت اور اہمیت کی فکر میں نہ رہیں۔ یسوع مسیح اِتنے خاکسار تھے کہ اُنہوں نے ”اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی۔“ (فل ۲:۵-۸) وہ یہوواہ خدا پر بھروسا کرنے کی وجہ سے ذلت کو برداشت کرنے کے قابل ہوئے۔ (۱-پطر ۲:۲۳، ۲۴) اُن کا دھیان اِس بات پر رہا کہ وہ یہوواہ خدا کی مرضی پر چلتے رہیں۔ اِس کے بدلے میں یہوواہ خدا نے بھی یسوع مسیح کو ایک اعلیٰ مقام بخشا۔ (فل ۲:۹) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بھی ایسی ہی زندگی گزارنے کا مشورہ دیا۔—متی ۲۳:۱۱، ۱۲؛ لو ۹:۲۶۔
۲۰ بعض اوقات ہمیں اِس لئے شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے کیونکہ ہم خدا کی راہ پر قائم رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں پولس رسول کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے: ”اِسی باعث سے مَیں یہ دُکھ بھی اُٹھاتا ہوں لیکن شرماتا نہیں کیونکہ جس کا مَیں نے یقین کِیا ہے اُسے جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری امانت کی اُس دن تک حفاظت کر سکتا ہے۔“—۲-تیم ۱:۱۲۔
۲۱. چاہے دُنیا میں لوگ کتنے ہی خودغرض کیوں نہ ہوں، ہمیں کیا عزم کرنا چاہئے؟
۲۱ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں لوگ ”خودغرض“ ہوں گے۔ (۲-تیم ۳:۲) یہ بات واقعی سچ ہے کہ ہم ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جس میں زیادہتر لوگ بس اپنے ہی فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن ہمیں ایسی سوچ سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ چاہے ہمیں غلط کام کرنے پر اُکسایا جائے، ہم پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑے یا پھر ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کی جائے، ہمیں ہر صورت میں یہ ظاہر کرنے کا عزم کرنا چاہئے کہ ہماری زندگی میں یہوواہ خدا ہی سب سے اہم ہے۔
[فٹنوٹ]
a بعض عالموں کا خیال ہے کہ اصطلاح ”کھال کے بدلے کھال“ اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایوب اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے بچوں اور جانوروں کو موت کی بھینٹ چڑھانے کے لئے تیار ہو جاتے۔ کچھ عالموں کا کہنا ہے کہ اصطلاح ”کھال کے بدلے کھال“ جان بچانے کے لئے کچھ زخم برداشت کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ سر کو چوٹ سے بچانے کے لئے شاید بازو پر چوٹ کھا لیں۔ اِس اصطلاح کا مطلب خواہ کچھ بھی ہو، شیطان کا دعویٰ تھا کہ ایوب اپنی جان بچانے کے لئے اپنا سب کچھ دے ڈالنے کو تیار ہو جائیں گے۔
b اِن آیتوں میں خدا کا نام عبرانی زبان میں موجود ہے۔
کیا آپ نے غور کِیا؟
• شیطان نے جس طرح سے حوا کو اپنے جال میں پھنسایا، اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
• جب ہمیں مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے تو ہم ایوب کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• یسوع مسیح کا دھیان کس بات پر رہا اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
یسوع مسیح، شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئے۔ اُن کا دھیان خدا کو خوش کرنے پر رہا۔
[صفحہ ۲۲ پر تصویریں]
یہوواہ کے گواہ ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بعد خیموں میں مُنادی کر رہے ہیں۔
مصیبت کے دوران ہم ’ہر طرح کی تسلی کے خدا‘ پر بھروسا رکھ سکتے ہیں۔