خاکساری کی آزمائش پر پورا اُتریں
”[یہوواہ] تجھ سے اِس کے سوا کیا چاہتا ہے کہ تُو . . . اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چلے؟“—میکاہ 6:8۔
1-3. یہوداہ سے آنے والے نبی نے کیا نہیں کِیا اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
اِسرائیل کے بادشاہ یربعام نے ایک قربانگاہ بنوائی تاکہ اِس پر جھوٹے معبودوں کے لیے قربانیاں پیش کی جائیں۔ یہ دیکھ کر یہوواہ خدا کو بہت غصہ آیا اور اُس نے یہوداہ سے ایک نبی کو بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ بادشاہ کو سزا کا پیغام سنائے۔ جب بادشاہ نے اِس خاکسار نبی کا پیغام سنا تو وہ آگ بگولا ہو گیا۔ لیکن اِس سے پہلے کہ وہ نبی کو کوئی نقصان پہنچاتا، یہوواہ نے نبی کو بچا لیا۔—1-سلاطین 13:1-10۔
2 یہوواہ خدا نے اِس نبی کو حکم دیا تھا کہ وہ اِسرائیل کے علاقے میں کچھ نہ کھائے پیئے اور جس راستے سے وہ اِسرائیل آیا تھا، اُس راستے سے واپس نہ لوٹے۔ جب وہ نبی واپس یہوداہ جا رہا تھا تو راستے میں اُسے ایک بوڑھا آدمی ملا جس نے اُسے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ اِس آدمی نے نبی ہونے کا دعویٰ کِیا اور یہ جھوٹ بولا کہ وہ یہوواہ کے کہنے پر ہی اُسے دعوت دے رہا ہے۔ نبی نے یہوواہ خدا کی نافرمانی کی اور دعوت قبول کر لی۔ یہوواہ خدا نبی کی اِس حرکت پر بہت ناراض ہوا۔ جب اُس نبی نے اپنا سفر جاری رکھا تو ایک شیر نے اُس پر حملہ کِیا اور اُسے مار ڈالا۔—1-سلاطین 13:11-24۔
3 ہمیں نہیں معلوم کہ اِس نبی نے اُس بوڑھے آدمی کی بات کیوں مان لی۔ لیکن ایسا کرنے سے اُس نے خدا کی نافرمانی کی اور وہ ”اپنے خدا کے حضور فروتنی“ سے نہیں چلتا رہا۔ (میکاہ 6:8 کو پڑھیں۔) خدا کے ساتھ چلنے کا مطلب ہے: اُس پر بھروسا کرنا، اُس کی رہنمائی قبول کرنا اور اُس کا فرمانبردار ہونا۔ لہٰذا ایک خاکسار شخص خدا سے رہنمائی مانگتا ہے۔ اگر وہ نبی خاکساری سے کام لیتا تو وہ یہوواہ سے پوچھتا کہ کیا اُسے واقعی اُس آدمی کے ساتھ جانا چاہیے؟ کبھی کبھار ہمیں بھی ایسے معاملوں کا سامنا ہوتا ہے جن میں صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ یہوواہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ لیکن اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم یہوواہ خدا سے رہنمائی مانگیں گے تاکہ ہم کوئی غلط قدم نہ اُٹھائیں۔
4. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
4 پچھلے مضمون میں ہم نے دیکھا کہ خاکساری کی خوبی اہم کیوں ہے اور ایک خاکسار شخص کی پہچان کیا ہے۔ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے: ہم اَور زیادہ خاکسار کیسے بن سکتے ہیں؟ اور کس طرح کی صورتحال ہماری خاکساری کے لیے آزمائش بن سکتی ہیں؟ آئیں، اِس سلسلے میں تین صورتحال پر غور کریں اور دیکھیں کہ اِن میں ہم حکمت سے کام کیسے لے سکتے ہیں۔—امثال 11:2۔
جب ہمیں مزید ذمےداریاں ملتی ہیں
5، 6. برزلی خاکسار کیسے ثابت ہوئے؟
5 زندگی میں جب ہماری صورتحال بدل جاتی ہے یا ہمیں مزید ذمےداریاں ملتی ہیں تو ہمارے ردِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کتنے خاکسار ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم بادشاہ داؤد کے دوست برزلی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جب برزلی 80 سال کے تھے تو بادشاہ داؤد نے اُنہیں شاہی محل میں آ کر رہنے کی پیشکش کی۔ یہ ایک بہت بڑا شرف تھا لیکن برزلی نے اِسے قبول نہیں کِیا۔ اپنی عمر کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُنہوں نے داؤد سے کہا کہ وہ اُن پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ اِس لیے برزلی نے درخواست کی کہ اُن کی بجائے یہ شرف کمہام کو دیا جائے جو شاید اُن کے بیٹے تھے۔—2-سموئیل 19:31-37۔
6 کیا برزلی نے داؤد کی پیشکش کو اِس لیے ٹھکرا دیا کیونکہ وہ مزید ذمےداریوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے؟ نہیں بلکہ برزلی نے خاکساری سے کام لیا۔ وہ جانتے تھے کہ بوڑھے ہونے کی وجہ سے اب وہ اِتنی ذمےداریاں نہیں سنبھال سکتے جتنی کہ وہ ایک زمانے میں سنبھالا کرتے تھے۔ (گلتیوں 6:4، 5 کو پڑھیں۔) ہمیں بھی برزلی کی طرح خاکساری سے کام لینا چاہیے۔ اگر ہم بس اِس لیے کوئی ذمےداری یا شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری بڑائی ہو تو ہم اناپرست ہوں گے اور مقابلہبازی کو فروغ دیں گے۔ (گلتیوں 5:26) لیکن اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم اپنے بہن بھائیوں کی بھلائی اور خدا کی بڑائی کا سوچیں گے۔—1-کُرنتھیوں 10:31۔
7، 8. ایک خاکسار شخص اپنی صلاحیتوں اور تجربے پر بھروسا کیوں نہیں کرتا؟
7 جب ہمیں مزید ذمےداریاں دی جاتی ہیں تو عموماً ہمارا اِختیار بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ہماری خاکساری کی آزمائش ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں نحمیاہ نے اچھی مثال قائم کی۔ جب اُنہوں نے سنا کہ یروشلیم میں یہودی کتنی مشکلوں سے گزر رہے ہیں تو اُنہوں نے یہوواہ سے مدد کی اِلتجا کی۔ (نحمیاہ 1:4، 11) یہوواہ خدا نے نحمیاہ کی سُن لی کیونکہ بادشاہ ارتخششتا نے نحمیاہ کو یہوداہ کا حاکم بنا دیا۔ اِتنا اُونچا مقام حاصل کرنے کے باوجود نحمیاہ نے کبھی اپنی صلاحیتوں اور تجربے پر بھروسا نہیں کِیا۔ وہ خاکساری سے خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اُنہوں نے یہوواہ خدا سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے باقاعدگی سے شریعت کا مطالعہ کِیا۔ (نحمیاہ 8:1، 8، 9) اُنہوں نے اپنے اِختیار کو کبھی اپنے فائدے کے لیے اِستعمال نہیں کِیا اور نہ ہی دوسروں پر سختی کی۔—نحمیاہ 5:14-19۔
8 اگر ہمیں مزید ذمےداریاں یا شرف ملتے ہیں تو نحمیاہ کی طرح ہمیں بھی خاکسار رہنا چاہیے اور اپنی صلاحیتوں اور تجربے پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ شاید ایک بزرگ دُعا کیے بغیر کلیسیا کے کام کرنے لگے۔ یا ایک بہن یا بھائی کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنے کے بعد ہی برکت کے لیے دُعا کرے۔ لیکن خاکسار شخص ہمیشہ یہوواہ سے رہنمائی مانگتا ہے، خواہ اُس نے وہ کام پہلے بھی کئی بار کیوں نہ کِیا ہو۔ وہ اپنی صلاحیتوں پر تکیہ کرنے کی بجائے یہوواہ کی رہنمائی پر بھروسا کرتا ہے۔ (امثال 3:5، 6 کو پڑھیں۔) دُنیا میں بہت سے لوگ خودغرض ہیں اور دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ لیکن یہوواہ کے خادم ایسے نہیں ہیں۔ چاہے کلیسیا میں ہماری کتنی ہی ذمےداریاں کیوں نہ ہوں، ہم خود کو دوسروں سے بہتر نہیں سمجھتے۔ ہم ”خدا کے گھرانے میں“ اپنے اپنے کردار سے مطمئن ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔—1-تیمُتھیُس 3:15۔
جب ہماری نکتہچینی یا تعریف کی جاتی ہے
9، 10. جب کوئی بِلاوجہ ہماری نکتہچینی کرتا ہے تو ہم خاکساری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
9 جب کوئی بِلاوجہ ہماری نکتہچینی کرتا ہے تو ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے۔ حنّہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ حنّہ کے شوہر اُن سے بہت پیار کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ خوش نہیں تھیں کیونکہ وہ بانجھ تھیں اور اُن کی سوتن فننہ اُن کو سارا وقت طعنے دیتی تھیں۔ ایک دن جب حنّہ بہت ہی بجھی بجھی تھیں تو وہ دُعا کرنے کے لیے خیمۂاِجتماع گئیں۔ وہاں کاہنِاعظم عیلی نے اُن پر نشے میں ہونے کا اِلزام لگایا۔ یہ تو سراسر نااِنصافی تھی! لیکن حنّہ غصے میں نہیں آئیں بلکہ اُنہوں نے بڑے احترام سے عیلی سے بات کی۔ بعد میں حنّہ نے ایک ایسی دُعا کی جس سے ظاہر ہوا کہ وہ یہوواہ خدا پر کتنا مضبوط ایمان رکھتی تھیں اور اُس سے کتنی محبت کرتی تھیں۔—1-سموئیل 1:5-7، 12-16؛ 2:1-10۔
10 اگر ہم خاکساری سے کام لیں گے تو ہم اِس نصیحت پر عمل کریں گے کہ ”اچھائی سے بُرائی پر غالب آئیں۔“ (رومیوں 12:21) شیطان کی دُنیا میں بہت زیادہ بُرائی اور نااِنصافی پائی جاتی ہے۔ ہم آسانی سے ”بدکرداروں کے سبب سے بیزار“ ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب ہم خود نااِنصافی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں اپنے احساسات کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ (زبور 37:1) مگر جب کلیسیا میں کوئی بہن یا بھائی بِلاوجہ ہماری نکتہچینی کرتا ہے تو ہمیں اَور بھی زیادہ چوٹ پہنچتی ہے۔ اگر کوئی ایسی بات ہو جائے تو ہمیں یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہیے جن کے بارے میں لکھا ہے کہ ”جب اُس کی بےعزتی کی گئی تو اُس نے بدلے میں بےعزتی نہیں کی . . . بلکہ اپنے آپ کو اُس کے سپرد کِیا جو راستی سے اِنصاف کرتا ہے۔“ (1-پطرس 2:23) یسوع مسیح خاکسار تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا ہی نااِنصافی کا بدلہ لے گا۔ (رومیوں 12:19) یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی ”بےعزتی کے بدلے کسی کی بےعزتی“ نہیں کرنی چاہیے۔—1-پطرس 3:8، 9۔
11، 12. (الف) خاکساری سے کام لینا اُس وقت کیوں اہم ہوتا ہے جب لوگ ہماری تعریفیں کرتے ہیں؟ (ب) ہمارے پہناوے اور کاموں سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم خاکسار ہیں؟
11 ہماری خاکساری کی آزمائش اُس وقت بھی ہوتی ہے جب لوگ ہماری چاپلوسی کرتے ہیں یا تعریفیں کرتے ہیں۔ آستر کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا۔ لوگ اُن کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے کیونکہ وہ ملک فارس کی خوبصورتترین لڑکیوں میں سے ایک تھیں۔ اُن کے حسن کو نکھارنے کے لیے ایک سال تک عطر اور تیل سے اُن کا بناؤسنگھار کِیا گیا۔ اُن کے ساتھ بہت سی اَور بھی خوبصورت لڑکیاں تھیں جن میں سے بادشاہ کو اپنی ملکہ چُننی تھی۔ لیکن بادشاہ نے آستر کو اپنی ملکہ بنا لیا۔ کیا اِس پر آستر مغرور، خودپرست اور خودغرض بن گئیں؟ نہیں بلکہ وہ خاکسار اور نرممزاج رہیں اور اُنہوں نے آئندہ بھی دوسروں کا احترام کِیا۔—آستر 2:9، 12، 15، 17۔
12 اگر ہم خاکسار ہیں تو ہمارے حُلیے، پہناوے اور حرکتوں سے ظاہر ہوگا کہ ہم دوسروں کے احساسات اور جذبات کا لحاظ کرتے ہیں۔ ہم شیخی نہیں ماریں گے اور دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ خود کو ”اُس پُرسکون اور نرم رویے“ سے سجائیں گے جو خدا کی نظر میں بہت ہی قیمتی ہے۔ (1-پطرس 3:3، 4 کو پڑھیں؛ یرمیاہ 9:23، 24) لیکن اگر ہم خود کو بہت ہی اہم سمجھتے ہیں تو یہ ہماری باتوں اور کاموں سے ظاہر ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر شاید ہم اپنی باتوں سے دوسروں کو احساس دِلانے کی کوشش کریں کہ ہم کوئی خاص شرف رکھتے ہیں یا ہمیں ایسی معلومات ملتی ہیں جو دوسروں کو نہیں ملتیں یا پھر ہماری ایسے بھائیوں سے دوستی ہے جو تنظیم میں بڑی بڑی ذمےداریاں رکھتے ہیں۔ شاید ہم دوسروں سے تعریف کا سہرا پانے کے لیے اُنہیں یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ فلاں کام ہم نے اپنے ہی بلبوتے پر کِیا جبکہ اصل میں دوسروں کا بھی اِس میں برابر کا حصہ تھا۔ اِس سلسلے میں بھی یسوع مسیح نے بہت اچھی مثال قائم کی۔ وہ دوسروں کو جتا سکتے تھے کہ وہ کتنے دانشمند ہیں۔ لیکن اُنہوں نے اکثر عبرانی صحیفوں کے حوالے اِستعمال کیے تاکہ لوگ جان جائیں کہ اُن کی تعلیم یہوواہ کی طرف سے ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ اُن کی نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی بڑائی کریں۔—یوحنا 8:28۔
جب ہمیں کوئی اہم فیصلہ کرنا پڑتا ہے
13، 14. خاکساری کی بدولت ہم اچھے فیصلے کیوں کر سکیں گے؟
13 ہمیں اُس وقت بھی خاکساری سے کام لینا چاہیے جب ہمیں کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ جب پولُس رسول قیصریہ میں تھے تو اُنہوں نے یروشلیم جانے کا اِرادہ کِیا۔ لیکن اگبُس نبی نے اُنہیں بتایا کہ اگر وہ یروشلیم گئے تو اُنہیں گِرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ سُن کر بھائیوں نے پولُس کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ اُنہیں خدشہ تھا کہ اُن کو مار ڈالا جائے گا۔ اِس کے باوجود پولُس رسول نے یروشلیم جانے کا فیصلہ نہیں بدلا۔ کیا اُنہوں نے یہ خطرہ اِس لیے مول لیا کیونکہ اُن کو خود پر بڑا مان تھا؟ نہیں بلکہ وہ اُس ذمےداری کو پورا کرنا چاہتے تھے جو خدا نے اُنہیں دی تھی۔ اِس لیے اُنہوں نے خاکساری سے یہوواہ خدا پر بھروسا کِیا۔ دوسرے بھائیوں نے بھی خاکساری سے پولُس کے فیصلے کا احترام کیا۔—اعمال 21:10-14۔
14 خاکساری کی خوبی کی وجہ سے ہم اُس وقت بھی ایک معاملے کے بارے میں اچھے فیصلے کر پائیں گے جب ہمیں سو فیصد پتہ نہ ہو کہ اِس کا کیا انجام نکلے گا۔ مثال کے طور پر شاید ہم کُلوقتی خدمت شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن ہمارے دل میں کچھ اِس طرح کے سوال کھٹک رہے ہیں: ”اگر مَیں بیمار ہو گیا تو مَیں کیا کروں گا؟ اگر میرے والدین بیمار ہو گئے تو کیا مَیں اُن کی مدد کر سکوں گا؟ جب مَیں بوڑھا ہو جاؤں گا تو کون میرا خیال رکھے گا؟“ چاہے ہم کتنی بھی دُعائیں اور سوچ بچار کریں، ہم اِن سوالوں کے جواب نہیں جان سکتے۔ یہ تو اُس وقت دیکھا جائے گا جب ایسی صورتحال پیدا ہوگی۔ (واعظ 8:16، 17) اگر ہم یہوواہ خدا پر بھروسا کریں گے تو ہم اِس بات کو تسلیم کریں گے کہ کچھ باتیں اور کام ہمارے بس میں نہیں ہیں۔ لہٰذا ہمیں کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اِس کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے، دوسروں سے مشورہ لینا چاہیے اور رہنمائی کے لیے دُعا کرنی چاہیے۔ پھر ہمیں پاک روح کی رہنمائی کے مطابق قدم اُٹھانا چاہیے۔ (واعظ 11:4-6 کو پڑھیں۔) اِسی صورت میں یہوواہ خدا ہمارے فیصلوں کو برکت دے سکتا ہے یا پھر ہماری رہنمائی کر سکتا ہے کہ ہم کسی اَور سمت قدم اُٹھائیں۔—امثال 16:3، 9۔
ہم اَور زیادہ خاکسار کیسے بن سکتے ہیں؟
15. یہوواہ خدا کی شخصیت پر سوچ بچار کرنے سے ہمیں اَور زیادہ خاکسار بننے کی ترغیب کیوں ملتی ہے؟
15 ہم نے دیکھا ہے کہ خاکسار ہونے کے کتنے فائدے ہیں۔ تو پھر ہم اِس خوبی کو ظاہر کرنے میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں؟ اِس سلسلے میں چار طریقوں پر غور کریں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی شخصیت پر سوچ بچار کریں۔ جب ہم اُس کی صفات اور قدرت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اُس کے آگے کتنے چھوٹے ہیں۔ (یسعیاہ 8:13) اِس کے علاوہ جب ہم یاد رکھتے ہیں کہ ہم کسی اِنسان یا فرشتے کی خدمت نہیں بلکہ کائنات کے خالقومالک کی خدمت کر رہے ہیں تو ہمارے لیے ’خاکسار بننا اور خدا کے زورآور ہاتھ کے نیچے رہنا‘ زیادہ آسان ہوگا۔—1-پطرس 5:6۔
16. یہوواہ خدا کی محبت پر سوچ بچار کرنے سے ہمیں خاکسار ہونے کی ترغیب کیوں ملتی ہے؟
16 اَور زیادہ خاکسار بننے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی محبت پر سوچ بچار کریں۔ پولُس رسول نے کلیسیا کو اِنسان کے جسم سے تشبیہ دی۔ جس طرح یہوواہ کی نظر میں جسم کا ہر عضو اہم ہے اِسی طرح اُس کی نظر میں کلیسیا کا ہر فرد بھی اہم ہے۔ (1-کُرنتھیوں 12:23، 24) وہ ہماری خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ہم سے محبت کرتا ہے۔ وہ کبھی دوسروں کے ساتھ ہمارا موازنہ نہیں کرتا۔ وہ تب بھی ہم سے محبت کرتا ہے جب ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے۔ خدا کے گھرانے میں چاہے ہم کہیں بھی خدمت کر رہے ہوں، ہم یہوواہ کی محبت کے سائے میں خوش رہتے ہیں۔
17. دوسروں کی خوبیوں اور صلاحیتوں پر دھیان دینے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
17 زیادہ خاکسار بننے کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کی خوبیوں اور صلاحیتوں پر دھیان دیں۔ یہ سمجھنے کی بجائے کہ سارا علم ہم پر ہی ختم ہوتا ہے، ہمیں دوسروں سے مشورہ لینا چاہیے اور اِس پر عمل کرنے کو تیار ہونا چاہیے۔ (امثال 13:10) جب ہمارے بہن بھائیوں کو کوئی خاص شرف ملتا ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ دیکھ کر بھی یہوواہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ پوری دُنیا میں ہمارے ہمایمانوں کو برکت دے رہا ہے۔—1-پطرس 5:9۔
18. اپنے ضمیر کی تربیت کرنے سے ہم زیادہ خاکسار کیوں بنتے ہیں؟
18 زیادہ خاکسار بننے کا چوتھا طریقہ یہ ہے کہ ہم بائبل میں درج اصولوں کے مطابق اپنے ضمیر کی تربیت کریں۔ اِن اصولوں پر سوچ بچار کرنے سے ہم جان جائیں گے کہ ایک معاملے کے بارے میں یہوواہ کی سوچ کیا ہے۔ جب ہم خدا کے کلام کا مطالعہ کریں گے، دُعا کریں گے اور سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کریں گے تو ہمارا ضمیر بہتر طور پر کام کرے گا۔ (1-تیمُتھیُس 1:5) یوں ہم دوسروں کے احساسات کو اپنی پسند یا ناپسند سے زیادہ اہم سمجھیں گے۔ اگر ہم اِن باتوں پر عمل کریں گے تو یہوواہ ہماری ”اچھی طرح تربیت“ کرے گا تاکہ ہم زیادہ خاکسار بن سکیں۔—1-پطرس 5:10۔
19. ہم ہمیشہ خاکسار کیسے رہ سکتے ہیں؟
19 کیا آپ کو وہ نبی یاد ہے جس کے بارے میں اِس مضمون کے شروع میں بتایا گیا تھا؟ وہ خاکسار نہیں رہا جس کی وجہ سے اُس نے یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو دی اور اپنی جان گنوا دی۔ لیکن ہم نے خدا کے بہت سے وفادار بندوں کی مثال پر بھی غور کِیا ہے جو اُس وقت بھی خاکسار رہے جب اُن کی خاکساری آزمائی گئی۔ اِن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بھی ہر صورت میں خاکساری سے کام لے سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے ہمیں جتنا زیادہ عرصہ ہو گیا ہے، اُتنا ہی زیادہ ہمیں خاکسار ہونا چاہیے۔ (امثال 8:13) ہماری صورتحال چاہے کچھ بھی ہو، ہم اپنے خدا کے حضور فروتنی سے چل سکتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا شرف ہے۔ اگر ہم اِس شرف کی قدر کریں گے تو ہم ہمیشہ خاکسار رہیں گے۔