-
ایسی شادیاں جنہیں خدا اور انسان احترام کی نظر سے دیکھتے ہیںمینارِنگہبانی—2006ء | 1 نومبر
-
-
ایسی شادیاں جنہیں خدا اور انسان احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں
”قانایِگلیلؔ میں ایک شادی ہوئی۔ . . . یسوؔع اور اس کے شاگردوں کی بھی اس شادی میں دعوت تھی۔“—یوحنا ۲:۱، ۲۔
۱. یوحنا ۲:۱-۱۱ سے ہم شادی کے سلسلے میں کیا جان سکتے ہیں؟
ایک ایسی شادی جو خدا کے احکام کے مطابق کی جائے بڑی خوشی کا موقع ہوتی ہے۔ یسوع، اُس کی ماں اور اُس کے شاگرد اِس بات سے اچھی طرح واقف تھے کیونکہ یسوع نے اپنا پہلا معجزہ شادی کے ایک موقعے پر دکھایا تھا۔ (یوحنا ۲:۱-۱۱) شاید آپ نے بھی یہوواہ کے گواہوں کی ایک شادی میں شرکت کی ہے۔ یا پھر شاید آپ خود شادی کرنا چاہتے ہیں یا اپنے کسی دوست کی شادی کو خوشیوں کا موقع بنانا چاہتے ہیں۔ خدا کے احکام پر عمل کرتے ہوئے شادی کو خوشیوں کا موقع کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
۲. بائبل میں شادی کے بارے میں کونسی معلومات پائی جاتی ہے؟
۲ جب مرد اور عورت شادی کرنا چاہتے ہیں تو خدا کے کلام میں درج اصول اُن کے لئے بہت فائدہمند ہوتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) البتہ ہر ملک اور دَور میں شادی کی تقریب اور رسم فرق ہوتی ہے۔ اس لئے بائبل میں شادی کی تقریب کے بارے میں تفصیل سے ہدایت نہیں دی جاتی۔ مثال کے طور پر بنی اسرائیل کے زمانے میں شادی سے کوئی خاص رسمیں وابستہ نہیں تھیں اور نہ ہی نکاحنامے پر دستخط کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ دُلہا اپنی دُلہن کو اپنے باپ کے گھر یا پھر اپنے گھر لے آتا تھا اور یوں وہ اُس کی بیوی بن جاتی تھی۔—پیدایش ۲۴:۶۷؛ یسعیاہ ۶۱:۱۰؛ متی ۱:۲۴۔
۳. قانایِگلیلؔ میں یسوع کس قسم کی تقریب پر شریک ہوا؟
۳ اسرائیلیوں کی نظر میں جب دُلہا اپنی دُلہن کو اپنے گھر لے آتا تو شادی قانونی حیثیت اختیار کر لیتی تھی۔ اس کے بعد دُلہا دُلہن اکثر ایک ضیافت کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ یوحنا ۲:۱ میں ہم پڑھتے ہیں کہ ”قانایِگلیلؔ میں ایک شادی ہوئی۔“ اس آیت میں جس لفظ کا ترجمہ ”شادی“ سے کِیا گیا ہے اس کا مطلب ”شادی کی ضیافت“ یا ’شادی کا جشن‘ بھی ہے۔a (متی ۲۲:۲-۱۰؛ ۲۵:۱۰؛ لوقا ۱۴:۸) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح قانایِگلیل میں شادی کی ایک ضیافت میں شامل ہوا تھا۔ البتہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یسوع مسیح کے زمانے میں شادی کی تقریب آج کی شادیوں سے بہت فرق تھی۔
۴. کئی مسیحی شادی کی تقریب کے سلسلے میں کونسا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کی کیا وجہ ہے؟
۴ بہت سے ممالک میں جب لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں تو اُن کو حکومت کی چند شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد ہی سچے مسیحی شادی کر سکتے ہیں۔ البتہ وہ اپنی شادی کو قانونی حیثیت ضرور دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی ملکوں میں ایک قاضی، رجسٹرار یا پھر ایک مذہبی رہنما جو نکاحخواں کی حیثیت رکھتا ہے، شادی کروا سکتا ہے۔ کئی مسیحی نکاحنامے پر دستخط کرنے کے علاوہ شادی کی کوئی اَور تقریب نہیں کرتے۔ نکاحنامے پر دستخط کرنے کی تقریب کے لئے شاید وہ اپنے چند دوستوں اور رشتہداروں کو مدعو کریں تاکہ وہ اس سادہ سی تقریب کے گواہ ہوں اور اُن کی خوشی میں شامل ہو سکیں۔ (یرمیاہ ۳۳:۱۱؛ یوحنا ۳:۲۹) ایسے بھی مسیحی ہیں جو اپنی شادی کے سلسلے میں ایک بڑی ضیافت نہیں دیتے چونکہ اس کی تیاریوں میں بہت وقت لگتا ہے اور خرچہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اپنے فیصلے کے مطابق وہ چند دوستاحباب کو کھانے کی دعوت دینے کے علاوہ کوئی اَور انتظام نہیں کرتے۔ شادی کی تقریبات کے سلسلے میں ہمارا جو بھی نظریہ ہو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دوسرے پُختہ مسیحی اِس سے فرق نظریہ رکھ سکتے ہیں۔—رومیوں ۱۴:۳، ۴۔
۵. زیادہتر یہوواہ کے گواہ اپنی شادی پر ایک خاص تقریر پیش کرانے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں اور یہ تقریر کس چیز پر مبنی ہے؟
۵ زیادہتر یہوواہ کے گواہ اپنی شادی پر ایک ایسی تقریر پیش کرانے کا فیصلہ کرتے ہیں جو خدا کے کلام پر مبنی ہوتی ہے۔b سچے مسیحی جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہی نے شادی کی بنیاد ڈالی ہے اور اُس کے کلام میں شادی کو خوشحال بنانے کے سلسلے میں عمدہ راہنمائی پائی جاتی ہے۔ (پیدایش ۲:۲۲-۲۴؛ مرقس ۱۰:۶-۹؛ افسیوں ۵:۲۲-۳۳) اس کے علاوہ زیادہتر یہوواہ کے گواہ خوشی کے اس موقعے پر اپنے مسیحی دوستوں اور رشتہداروں کو شامل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ البتہ شادی کے سلسلے میں ہر مُلک میں مختلف قانونی شرائط اور رسمیں ہوتی ہیں۔ اس مضمون میں ان میں سے چند پر غور کِیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کے مُلک میں پائی جانے والی شرائط اور رسموں سے بہت فرق ہوں۔ اس کے باوجود خدا کے کلام میں شادی کے سلسلے میں چند ایسے اصول ہیں جن پر تمام یہوواہ کے گواہوں کو غور کرنا چاہئے، چاہے وہ دُنیا کے کسی بھی گوشے میں رہتے ہوں۔
اپنی شادی کو قانونی حیثیت دیں
۶، ۷. ہمیں اپنی شادی کو قانونی حیثیت کیوں دینی چاہئے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
۶ یہوواہ خدا ہی نے شادی کی بنیاد ڈالی۔ البتہ اُس نے شادی کے سلسلے میں حکومتوں کو شرائط عائد کرنے کا حق دیا ہے۔ یسوع نے کہا تھا کہ ”جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔“ (مرقس ۱۲:۱۷) اسی طرح پولس رسول نے بھی تاکید کی کہ ”ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔“—رومیوں ۱۳:۱؛ ططس ۳:۱۔
۷ جب دو مسیحی خدا کی نظروں میں شادی کرنے کی اجازت رکھتے ہیں تو وہ اپنے مُلک میں عائد قوانین پر پورا اُترتے ہوئے شادی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے مُلک کے قانون کے مطابق وہ شادی کا اجازتنامہ حاصل کریں گے، نکاحخواں کو بلائیں گے یا پھر نکاحنامے پر دستخط کریں گے۔ جب قیصر اَوگوستُس نے ”اسمنویسی“ کے سلسلے میں حکم جاری کِیا کہ لوگوں کے نام لکھے جائیں تو یوسف اور مریم اپنا ”نام لکھوانے کے لئے“ شہر بیتلحم کو گئے۔—لوقا ۲:۱-۵۔
۸. یہوواہ کے گواہ شادی کے سلسلے میں کونسے کاموں سے کنارہ کرتے ہیں، اور کیوں؟
۸ جب یہوواہ کے گواہ اپنی شادی کو قانونی حیثیت دیتے ہیں تو اُن کا بندھن خدا کی نظر میں جائز بن جاتا ہے۔ اِس لئے وہ ایک ہی بار اپنی شادی کو قانونی حیثیت دیتے ہیں۔ اسی طرح سچے مسیحی شادی کا عہدوپیمان بھی بار بار نہیں کرتے، مثلاً وہ شادی کی پچیسویں یا پھر پچاسویں سالگرہ کے موقعے پر اس عہدوپیمان کو نہیں دُہراتے۔ (متی ۵:۳۷) (کئی چرچوں میں شادی کو اُس وقت تک جائز نہیں قرار دیا جاتا جب تک کہ پادری خود دُلہا دُلہن کا نکاح نہ پڑھوائے۔ ان چرچوں میں رجسٹرار یا قبیلے کے سردار کے ذریعے کئے گئے نکاح کو تسلیم نہیں کِیا جاتا۔) کئی حکومتیں یہوواہ کے گواہوں کے بزرگوں میں سے بھی بعض کو نکاحخواں کا درجہ دیتی ہیں۔ جب نکاحخواں ایک یہوواہ کا گواہ ہوتا ہے تو وہ کنگڈم ہال میں شادی کی تقریر کے وقت ہی نکاحنامے پر دستخط کرائے گا۔ شادی کی تقریر کو کنگڈم ہال ہی میں پیش کِیا جانا چاہئے کیونکہ سچے مسیحی یہاں پر یہوواہ خدا کی عبادت کرتے ہیں جس نے شادی کی بنیاد ڈالی ہے۔
۹. (ا) سرکاری دفتر میں شادی کرنے کے بعد یہوواہ کے گواہ کیا کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ (ب) کلیسیا کے بزرگ شادی کی تیاریوں میں دُلہا دُلہن کی راہنمائی کس طرح کر سکتے ہیں؟
۹ کئی ممالک میں شادی کو ایک سرکاری دفتر ہی میں یا پھر ایک رجسٹرار ہی کے ذریعے قانونی شکل دی جا سکتی ہے۔ ایسے ممالک میں سرکاری دفتر میں نکاحنامے پر دستخط کرنے کے بعد یہوواہ کے گواہ کنگڈم ہال میں شادی کی تقریر پیش کرانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ البتہ ایسا اُسی دن یا پھر اُس کے اگلے دن ہی کِیا جانا چاہئے۔ (جب دو یہوواہ کے گواہ سرکاری دفتر میں شادی کرتے ہیں تو اُن کی شادی خدا اور کلیسیا کی نظروں میں جائز ہو جاتی ہے۔ اس لئے کنگڈم ہال میں اُن کی شادی کی تقریر بہت دنوں بعد نہیں پیش کی جانی چاہئے۔) اگر ایک جوڑا سرکاری دفتر میں شادی کرنے کے بعد ایک کنگڈم ہال میں شادی کی تقریر پیش کرانا چاہتا ہے تو اسے پہلے ہی سے اُس کلیسیا کی خدمتی کمیٹی سے اجازت لے لینی چاہئے۔ خدمتی کمیٹی میں شامل بزرگ یہ دیکھیں گے کہ دُلہا دُلہن کا چالچلن مسیحی معیاروں کے مطابق رہا ہے یا نہیں۔ وہ یہ بھی دیکھیں گے کہ شادی کی تقریر اُس وقت نہ پیش کی جائے جب کنگڈم ہال میں اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں یا پھر عبادت کے سلسلے میں کوئی اَور بندوبست کِیا گیا ہو۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۳۳، ۴۰) وہ ہال کی سجاوٹ کے سلسلے میں بھی دُلہا دُلہن سے بات کریں گے تاکہ یہ مسیحیوں کے لئے مناسب ہو۔ اس کے علاوہ وہ اس بات کا بھی فیصلہ کریں گے کہ آیا کلیسیا میں شادی کی تقریر کا اعلان کِیا جائے یا نہیں۔
۱۰. اگر حکومت کی طرف سے سرکاری دفتر ہی میں شادی کو قانونی شکل دی جا سکتی ہے تو شادی کی تقریر پر اس کا کیا اثر ہوگا؟
۱۰ شادی کی تقریر پیش کرنے والا بزرگ تقریر میں بڑی نرمی اور شائستگی سے دُلہا دُلہن کی حوصلہافزائی کرے گا۔ اگر دُلہا دُلہن سرکاری دفتر میں شادی کو قانونی حیثیت دے چکے ہیں تو بزرگ تقریر میں اس کا ذکر ضرور کرے گا۔ اگر دفتر میں شادی کا عہدوپیمان نہیں کِیا گیا تو دُلہا دُلہن تقریر کے دوران ایسا کر سکتے ہیں۔c اور اگر دُلہا دُلہن نے سرکاری دفتر میں شادی کا عہدوپیمان کر لیا ہے تو وہ تقریر کے دوران خدا اور کلیسیا کے سامنے اسے دوبارہ سے دُہرانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ البتہ تب اُنہیں عہدوپیمان دُہرانے سے پہلے یہ کہنا چاہئے کہ ”مَیں یہ عہدوپیمان کر چکا ہوں کہ. . .۔“ اس طرح وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پہلے سے ہی ’جوڑے جا چکے ہیں۔‘—متی ۱۹:۶؛ ۲۲:۲۱۔
۱۱. کئی ممالک میں شادی کیسے کی جاتی ہے اور اس کا شادی کی تقریر پر کیا اثر ہوگا؟
۱۱ کئی حکومتیں شادی کے لئے کسی قسم کی رسمیں نہیں مقرر کرتیں۔ ایسے ممالک میں دُلہا دُلہن نکاحنامے پر دستخط کرکے اسے ایک رجسٹرار کو پیش کرتے ہیں جو نکاحنامے کی رجسٹری کر دیتا ہے۔ اسی وقت اُن کی شادی جائز ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کِیا گیا ہے اگر دُلہا دُلہن شادی کی تقریر پیش کرانا چاہتے ہیں تو اسے نکاحنامے کی رجسٹری کے فوراً بعد کنگڈم ہال میں پیش کِیا جانا چاہئے۔ تقریر پیش کرتے وقت مقرر اس بات کا ذکر کرے گا کہ دُلہا دُلہن نکاحنامے کی رجسٹری کر آئے ہیں۔ اگر دُلہا دُلہن شادی کا عہدوپیمان لینا چاہتے ہیں تو پیراگراف ۱۰ اور اُس کے فٹنوٹ میں دی گئی ہدایت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ کنگڈم ہال میں شادی کی تقریر کو سننے والے تمام لوگ دُلہا دُلہن کی خوشی میں شریک ہوں گے اور تقریر میں دی گئی نصیحت سے فائدہ حاصل کریں گے۔—غزلالغزلات ۳:۱۱۔
قبائیلی رسم کے مطابق شادی
۱۲. کئی ممالک میں کس قسم کی شادیاں قانونی حیثیت رکھتی ہیں؟ اور جو جوڑے ایسی شادی کرتے ہیں اُنہیں بزرگ کیا کروانے کی ہدایت دیتے ہیں؟
۱۲ اُس شادی کے بندھن کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو ایک قبیلے کی رسموں کے مطابق جوڑا جاتا ہے؟ ایسی شادیوں میں دُلہا اپنی دُلہن کے والدین کو ایک مقررہ رقم ادا کرتا ہے جس سے شادی خدا اور قانون کی نظروں میں جائز ٹھہرائی جاتی ہے۔ کئی ممالک میں قبائیلی رسم کے مطابق کی جانے والی شادیاں قانونی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِن ممالک میں دُلہا دُلہن ان رسموں کو ادا کرنے کے علاوہ بھی اپنی شادی کو رجسٹر کرا سکتے ہیں۔ ایسی شادی کو رجسٹر کرانے سے ایک جوڑے اور اُن کے آئندہ ہونے والے بچوں کو فائدہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر شوہر فوت ہو جائے۔ کلیسیا کے بزرگ ایسے جوڑوں کو جو قبائیلی رسم کے مطابق شادی کرتے ہیں، اُنہیں اپنی شادی جلد سے جلد رجسٹر کروانے کی ہدایت دیتے ہیں۔ جب بنی اسرائیل شریعت کے تحت تھے تو شادی کرنے والے جوڑے اپنے نام لکھواتے تھے اور جب اُن کے بچے پیدا ہوتے تو وہ اُن کے نام بھی رجسٹر کراتے تھے۔—متی ۱:۱-۱۶۔
۱۳. قبائیلی رسم کے مطابق شادی کرنے کے بعد کنگڈم ہال میں شادی کی تقریر پیش کرانا کیوں مناسب ہے؟
۱۳ دُلہا دُلہن جونہی قبیلے کی رسموں پر پورا اُترتے ہیں، اُن کی شادی جائز ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر یہوواہ کے گواہ اس کے علاوہ بھی کنگڈم ہال میں شادی کی تقریر پیش کرانا اور شادی کا عہدوپیمان لینا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ تقریر کے دوران مقرر اس بات کا ذکر ضرور کرے گا کہ دُلہا دُلہن کی شادی قبائیلی رسم کے مطابق ہو چکی ہے یعنی وہ اپنی شادی کو قانونی حیثیت دے چکے ہیں۔ ایک جوڑے کی شادی کے سلسلے میں کنگڈم ہال میں صرف ایک ہی تقریر پیش کی جائے گی۔ بہتر یہی ہوگا کہ جس دن دُلہا دُلہن قبائیلی رسم کے مطابق شادی کرتے ہیں اُسی دن کنگڈم ہال میں شادی کی تقریر بھی پیش کی جائے تاکہ لوگ جان جائیں کہ شادی مسیحی لحاظ سے بھی جائز ہے۔
۱۴. اگر ایک حکومت قبائیلی رسم کے مطابق شادی کرنے کے علاوہ رجسٹرار کی موجودگی میں شادی کرنے کی بھی اجازت دیتی ہے تو سچے مسیحی کیا کر سکتے ہیں؟
۱۴ کئی ممالک میں حکومت لوگوں کو قبائیلی رسم کے مطابق شادی کرنے کے علاوہ رجسٹرار کی موجودگی میں شادی کرنے کی بھی اجازت دیتی ہے۔ ایک ایسی شادی میں عہدوپیمان کرنا اور نکاحنامہ پر دستخط کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ ایسے ممالک میں بعض یہوواہ کے گواہ رجسٹرار کی موجودگی میں شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں اُنہیں قبائیلی رسم کے مطابق شادی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چُونکہ حکومت دونوں قسم کی شادیوں کو قانونی قرار دیتی ہے اس لئے دُلہا دُلہن ان میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ البتہ ایسی صورتحال میں بھی دُلہا دُلہن پیراگراف ۹ اور ۱۰ میں شادی کی تقریر اور شادی کے عہدوپیمان کے بارے میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں گے۔ دُلہا دُلہن جس طریقے سے بھی شادی کرنے کا انتخاب کرتے ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان کے علاوہ خدا بھی اُن کی شادی کو احترام کی نظر سے دیکھے۔—لوقا ۲۰:۲۵؛ ۱-پطرس ۲:۱۳، ۱۴۔
شادی میں احترام کی اہمیت
۱۵، ۱۶. شادی کے سلسلے میں احترام کا کیا کردار ہے؟
۱۵ فارس کے بادشاہ کی شادی میں ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔ اس پر بادشاہ کے مشیر مموکان نے اُسے ایک ایسا کام کرنے کا مشورہ دیا جس کے نتیجے میں مُلک کی ’سب بیویاں اپنے اپنے شوہر کی عزت کرنے لگتیں۔‘ (آستر ۱:۲۰) مسیحی جوڑوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنے کے سلسلے میں کسی بادشاہ کے حکم کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مسیحی بیویاں خوشی سے اپنے شوہر کی عزت کرتی ہیں۔ اسی طرح مسیحی شوہر اپنی بیوی کی عزت کرتے ہیں اور اُس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ (امثال ۳۱:۱۱، ۳۰؛ ۱-پطرس ۳:۷) مسیحی میاں بیوی شادی کے پہلے دن سے ہی ایک دوسرے کی عزت کرنے کی بنیاد ڈالتے ہیں۔
۱۶ دُلہا دُلہن شادی کے دِن ہی نہیں بلکہ ہمیشہ تک ایک دوسرے کی عزت کریں گے۔ شادی کی تقریر پیش کرنے والا مسیحی بزرگ بھی اپنی تقریر میں دُلہا دُلہن کا احترام کرتا ہے۔ وہ تقریر دیتے وقت اُن سے مخاطب ہوگا۔ وہ تقریر میں ہنسیمذاق نہیں کرے گا اور نہ ہی اس میں کہاوتیں شامل کرے گا۔ وہ دُلہا دُلہن کے بارے میں ایسی باتوں کا ذکر بھی نہیں کرے گا جن سے وہ دونوں یا پھر دوسرے حاضرین شرمانے لگیں۔ اس کی بجائے مقرر اپنی تقریر میں شادی کے بانی یہوواہ خدا کے خیالات اور اصولوں کو پیش کرے گا اور بڑی شائستگی اور نرمی سے دُلہا دُلہن کی حوصلہافزائی کرے گا۔ اس طرح شادی کی تقریر کے ذریعے ایک ایسی شادی کی بنیاد ڈالی جائے گی جس سے یہوواہ خدا کی بڑائی ہوگی۔
۱۷. سچے مسیحی اپنی شادی کو قانونی حیثیت کیوں دیتے ہیں؟
۱۷ اس مضمون میں ہم نے شادی کو قانونی شکل دینے کے سلسلے میں بہت سی مختلف باتوں کا ذکر کِیا ہے۔ ان میں سے بعض باتیں آپ کے مُلک میں شاید عائد نہ ہوں۔ بہرحال، چاہے وہ دُنیا کے کسی بھی مُلک کے باشندے ہوں یہوواہ کے گواہ شادی کے سلسلے میں قیصر یعنی حکومت کے قانون پر پورا اُترتے ہیں۔ (لوقا ۲۰:۲۵) پولس رسول نے مسیحیوں کو یوں تاکید کی: ”سب کا حق ادا کرو۔ جس کو خراج چاہئے خراج دو۔ جس کو محصول چاہئے محصول۔ . . . جس کی عزت کرنا چاہئے اُس کی عزت کرو۔“ (رومیوں ۱۳:۷) جیہاں، حکومتیں یہوواہ خدا کی طرف سے قوانین عائد کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ سچے مسیحی شادی کی تقریب ہی سے یہوواہ خدا کے اس بندوبست کا احترام کرنا چاہتے ہیں۔
۱۸. شادی کی رسمیں ادا کرنے کے بعد بہت سے یہوواہ کے گواہ کس چیز کا انتظام کرتے ہیں؟ اس سلسلے میں ہم مزید معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟
۱۸ بہت سے یہوواہ کے گواہ شادی کی رسمیں ادا کرنے کے بعد ایک ضیافت کا انتظام کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یسوع مسیح بھی ایک ایسی ضیافت پر حاضر ہوا تھا۔ شادی کی ضیافت ایسی ہونی چاہئے کہ یہوواہ خدا، کلیسیا اور دُلہا دُلہن کی نیکنامی ہو۔ اِس سلسلے میں دُلہا دُلہن بائبل کے کن اصولوں پر عمل کر سکتے ہیں؟ اس موضوع پر اگلے مضمون میں بات کی جائے گی۔d
-
-
زندگی کے ہر پہلو میں اپنے ایمان کا ثبوت دیںمینارِنگہبانی—2006ء | 1 نومبر
-
-
زندگی کے ہر پہلو میں اپنے ایمان کا ثبوت دیں
”ایمان بھی اگر اُس کے ساتھ اعمال نہ ہوں تو اپنی ذات سے مُردہ ہے۔“—یعقوب ۲:۱۷۔
۱. ایمان اور اعمال کے تعلق کے بارے میں ابتدائی مسیحی کیا جانتے تھے؟
ابتدائی مسیحی اپنے اچھے چالچلن سے اپنے ایمان کا ثبوت دیتے تھے۔ یسوع کے شاگرد یعقوب نے تمام مسیحیوں کو یوں تاکید کی: ”کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے۔“ پھر اُس نے کہا: ”غرض جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔“ (یعقوب ۱:۲۲؛ ۲:۲۶) یعقوب کی اس تاکید کے ۳۵ سال بعد بھی زیادہتر مسیحی اُس کی بات پر عمل کر رہے تھے۔ اس وجہ سے یسوع مسیح نے سمرنہ کی کلیسیا کو داد دی۔ البتہ ایسے بھی مسیحی تھے جو اپنے چالچلن سے اپنے ایمان کا ثبوت نہیں دے رہے تھے۔ مثال کے طور پر سردیس کی کلیسیا کے چند لوگوں سے یسوع مسیح نے کہا کہ ”مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہوں کہ تُو زندہ کہلاتا ہے اور ہے مُردہ۔“—مکاشفہ ۲:۸-۱۱؛ ۳:۱۔
۲. مسیحیوں کو خود سے کونسے سوال کرنے چاہئیں؟
۲ یسوع مسیح نے سردیس کے مسیحیوں کی حوصلہافزائی کی کہ وہ بائبل کی سچائیوں کے لئے اپنی محبت کا ثبوت پیش کریں اور یہوواہ خدا کے نزدیک جائیں۔ (مکاشفہ ۳:۲، ۳) دراصل یسوع کی اس بات پر تمام مسیحیوں کو عمل کرنا چاہئے۔ اس لئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”کیا میرے اعمال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ میرا ایمان مضبوط ہے؟ کیا مَیں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنے پُختہ ایمان کا ثبوت پیش کر رہا ہوں یا کیا مَیں صرف مُنادی اور اجلاسوں کے سلسلے میں سرگرم ہوں؟“ (لوقا ۱۶:۱۰) یوں تو ہم زندگی کے بہت سے مختلف پہلوؤں پر غور کر سکتے ہیں۔ لیکن اس مضمون میں ہم دعوتوں اور ضیافتوں کے موضوع پر غور کریں گے اور خاص طور پر ایسی ضیافتوں پر جو شادی کے سلسلے میں کی جاتی ہیں۔
دعوت کرتے وقت
۳. دعوتوں کے سلسلے میں خدا کا نظریہ بیان کریں۔
۳ جب ایک مسیحی بہن یا بھائی ہمیں دعوت پر بلاتا ہے تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ اُس کے خادم خوش ہوں۔ اُس نے سلیمان کے ذریعے اپنے کلام میں یہ بات درج کروائی: ”دُنیا میں انسان کے لئے کوئی چیز اِس سے بہتر نہیں کہ کھائے اور پئے اور خوش رہے۔“ (واعظ ۳:۱، ۴، ۱۳؛ ۸:۱۵) واقعی سچے مسیحیوں کے پاس خوشی کے بہت سے موقعے ہوتے ہیں۔ اپنے خاندان کے ساتھ کھانا کھاتے وقت یا پھر چند مسیحی دوستوں کی دعوت کرتے وقت کیا ہم خوش نہیں ہوتے؟—ایوب ۱:۴، ۵، ۱۸؛ لوقا ۱۰:۳۸-۴۲؛ ۱۴:۱۲-۱۴۔
۴. جو مسیحی دعوت کرتا ہے اُس کی کیا خواہش ہونی چاہئے؟
۴ فرض کریں کہ آپ چند مسیحیوں کو کھانے پر بلانا چاہتے ہیں اور اس دعوت کی ذمہداری آپ ہی کے سر ہے۔ آپ کو پہلے ہی سے غور کرنا چاہئے کہ دعوت کے دوران کیا کچھ کِیا جائے گا۔ (رومیوں ۱۲:۱۳) یقیناً آپ چاہیں گے کہ دعوت کے دوران ”سب باتیں شایستگی . . . کے ساتھ عمل میں آئیں۔“ اس وجہ سے ”جو حکمت اوپر سے آتی ہے“ آپ اس کو کام میں لائیں گے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۴۰؛ یعقوب ۳:۱۷) پولس رسول نے لکھا کہ ”تُم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو۔“ پھر اُس نے یہ تاکید بھی کی کہ کسی ’کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنو۔‘ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱، ۳۲) دعوت پر ہم اور ہمارے مہمان جو کچھ بھی کریں، ہماری خواہش ہوگی کہ اس سے ہمارا ایمان ظاہر ہو۔ اس لئے آئیے دیکھتے ہیں کہ دعوت کی تیاری کرتے وقت کن باتوں پر غور کرنا فائدہمند ہوتا ہے۔—رومیوں ۱۲:۲۔
دعوت کی تیاری
۵. دعوت کی تیاری کرتے ہوئے میزبان کو موسیقی اور شراب کے سلسلے میں کن باتوں پر غور کرنا چاہئے؟
۵ کیا آپ اپنی دعوت میں شراب پیش کریں گے؟ یاد رکھیں کہ جب یسوع نے ایک بڑی بِھیڑ کو روٹیوں اور مچھلیوں سے سیر کرنے کا معجزہ دکھایا تھا تو اُس نے شراب نہیں پیش کی حالانکہ وہ ایسا معجزہ بھی دکھانے کا اختیار رکھتا تھا۔ (متی ۱۴:۱۴-۲۱) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دعوتیں شراب کے بغیر بھی پُرلطف ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ اپنے مہمانوں کے لئے شراب پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کی مقدار محدود رکھیں اور اُن مہمانوں کے لئے شربت وغیرہ کا انتظام ضرور کریں جو شراب نہیں پینا چاہتے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۲، ۳، ۸؛ ۵:۲۳؛ ۱-پطرس ۴:۳) کبھی کسی مہمان کو شراب پینے پر مجبور نہ کریں کیونکہ یہ ’سانپ کی طرح کاٹ سکتی ہے۔‘ (امثال ۲۳:۲۹-۳۲) کیا آپ دعوت میں موسیقی کا بندوبست کرنا چاہتے ہیں؟ اس صورت میں گانوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ اُن کے بول اور موسیقی کی تھاپ مسیحیوں کے لئے مناسب ہو۔ (کلسیوں ۳:۸؛ یعقوب ۱:۲۱) بہتیرے مسیحی میزبانوں نے دیکھا ہے کہ دعوت کے دوران کتابچہ یہوواہ کی حمد کے گیت گائیں کی کیسٹیں لگانے سے یا اس میں سے مل کر گیت گانے سے سب پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ (افسیوں ۵:۱۹، ۲۰) اس کے علاوہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ دعوت کے دوران موسیقی کبھی اتنی اُونچی نہ ہو کہ مہمان ایک دوسرے سے باتچیت نہ کر پائیں اور پڑوسیوں کو شکایت کا موقع ہو۔—متی ۷:۱۲۔
۶. ایک میزبان کیسے ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ مضبوط ایمان کا مالک ہے؟
۶ دعوت کے دوران مسیحی مختلف موضوعات پر باتچیت کر سکتے ہیں، کچھ پڑھ کر سنا سکتے ہیں یا پھر تجربے سنا سکتے ہیں۔ اگر کسی ایسے موضوع پر بات چھڑ جائے جو مسیحیوں کے لئے مناسب نہ ہو تو میزبان مہمانوں کی توجہ ایک اَور موضوع پر لا سکتا ہے۔ کبھیکبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہمانوں میں سے ایک شخص لگاتار باتیں کرتا ہے اور دوسروں کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ اس صورتحال میں میزبان کوئی ایسا موضوع چھیڑ سکتا ہے جس میں سب دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ بچوں اور نوجوانوں کو بھی گفتگو میں شامل کرے گا۔ یقیناً ایسی محفل سے بوڑھے اور جوان سب لطف اُٹھائیں گے۔ میزبان کے طور پر اگر آپ حکمت اور شائستگی سے کام لیں گے تو آپ کے مہمان جان جائیں گے کہ آپ مضبوط ایمان کے مالک ہیں اور آپ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
شادی کی ضیافت
۷. شادی کی ضیافت کا انتظام کرتے وقت مسیحیوں کو خوب سوچبچار کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟
۷ مسیحیوں کی شادیاں بڑی خوشی کا موقع ہوتی ہیں۔ بائبل میں خدا کے کئی خادموں کا ذکر ہے جو شادی کی ضیافتوں میں شامل ہوئے تھے۔ اس کی ایک مثال یسوع اور اُس کے شاگردوں کی ہے۔ (پیدایش ۲۹:۲۱، ۲۲؛ یوحنا ۲:۱، ۲) اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری شادی بھی خوشی کا موقع ہو تو اس بات پر خوب سوچبچار کریں کہ شادی کی ضیافت کا انتظام کیسا ہوگا۔ اس طرح شادی کی ضیافت حد میں رہے گی اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہوگی جو مسیحیوں کے لئے نامناسب ہو۔ شادی کی تقریب بھی زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جس سے ایک مسیحی اپنا پُختہ ایمان ظاہر کر سکتا ہے۔
۸، ۹. شادی کے سلسلے میں ۱-یوحنا ۲:۱۷،۱۶ کی بات کیسے سچ ثابت ہوتی ہے؟
۸ بہت سے لوگ جو خدا کے معیاروں کے بارے میں نہ تو جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں وہ شادی کی تقریب کو بےتحاشا پیسے خرچ کرنے کا موقع خیال کرتے ہیں۔ یورپ میں شائع ہونے والے ایک رسالے میں ایک عورت بتاتی ہے کہ اُس کی شادی شہزادیوں جیسی تھی۔ وہ کہتی ہے: ”ہم دونوں ایک شاندار رتھ پر سوار تھے جسے چار گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ ہمارے پیچھے پیچھے ۱۲ خوبصورت تانگے آ رہے تھے۔ اس قافلے میں ایک خاص رتھ بھی شامل تھا جس پر سوار بینڈ موسیقی بجا رہا تھا۔ اس کے بعد ہم نے لذیذ کھانے کھائے اور عمدہ موسیقی سے لطفاندوز ہوئے۔ یہ دن اتنا شاندار تھا کہ مَیں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی۔ ہر بات میری خواہش کے مطابق ہوئی۔ مجھے لگا کہ مَیں رانی ہوں، رانی۔“
۹ یہ بات درست ہے کہ شادی کے رسمورواج ہر مُلک میں فرق ہوتے ہیں۔ لیکن اس عورت کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوحنا رسول کی یہ بات کتنی سچ ہے: ”جو کچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔“ کیا پُختہ مسیحی اپنی شادی کے موقعے پر ’شہزادیوں جیسی‘ تقریب کا انتظام کریں گے؟ کیا وہ چاہیں گے کہ اُن کی شادی اتنی شاندار ہو کہ وہ راجا رانی کی طرح محسوس کریں؟ اس کی بجائے اس بات کو مدِنظر رکھنا بہتر ہے کہ ”جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔“—۱-یوحنا ۲:۱۶، ۱۷۔
۱۰. (ا) مسیحی دُلہا دُلہن اپنی شادی کی تقریب کے سلسلے میں کس قسم کے فیصلے کریں گے؟ (ب) اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ شادی پر کتنے لوگوں کو بلایا جائے، اور وہ کس سے مشورہ لے گا؟
۱۰ مسیحی دُلہا دُلہن کو شادی کی تقریب کے سلسلے میں سمجھداری اور حقیقتپسندی سے کام لینا چاہئے۔ یہ بات صحیح ہے کہ شادی کا دن ان کی زندگی میں خاص مقام رکھتا ہے۔ لیکن یہ دن ایک مسیحی جوڑے کے طور پر اُن کی زندگی کا محض پہلا دن ہے جبکہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ یہ لازمی نہیں کہ وہ اپنی شادی کے موقعے پر بڑی سے بڑی ضیافت کریں۔ اور اگر وہ شادی کی ضیافت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اس بات پر سوچبچار کریں گے کہ ضیافت کتنی بڑی ہوگی اور اس پر کتنا پیسہ خرچ ہونا چاہئے۔ (لوقا ۱۴:۲۸) بائبل میں بتایا گیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کا سر ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳؛ افسیوں ۵:۲۲، ۲۳) اس کا مطلب ہے کہ شادی کی تقریب کے سلسلے میں تمام فیصلے دُلہا کرے گا کیونکہ یہ اُس کی ذمہداری ہے۔ البتہ دُلہا اس بات پر فیصلہ کرنے سے پہلے کہ ضیافت پر کتنے لوگوں کو بلایا جائے گا، اپنی دُلہن سے مشورہ ضرور لے گا۔ ہو سکتا ہے کہ دُلہا دُلہن اپنے تمام دوستوں اور رشتہداروں کو ضیافت میں نہیں بلا سکیں۔ اس لئے اُنہیں اس سلسلے میں سمجھداری سے کام لینا چاہئے۔ جن مسیحی دوستوں اور رشتہداروں کو وہ دعوت نہیں دے سکتے وہ اس بات پر خفا نہیں ہوں گے بلکہ اُن کی مجبوری کو سمجھیں گے۔—واعظ ۷:۹۔
”میرِمجلس“
۱۱. شادی کی تقریب میں ”میرِمجلس“ کی کیا ذمہداری ہوتی ہے؟
۱۱ اگر دُلہا دُلہن ضیافت دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اُنہیں کس طرح کی تیاری کرنی چاہئے تاکہ شادی کی تقریب میں کوئی غیرمناسب بات نہ پیش آئے؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یسوع قانایِگلیل میں جس شادی پر حاضر ہوا تھا وہاں ایک ”میرِمجلس“ یا ”میرِضیافت“ (کیتھولک ترجمہ) کا انتظام کِیا گیا تھا۔ یہ شخص یقیناً دُلہا کے مذہب ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ (یوحنا ۲:۹، ۱۰) بائبل کی اس مثال کی وجہ سے یہوواہ کے گواہوں کی شادیوں پر ایک ”میرِمجلس“ کو مقرر کرنے کا رواج عام ہے۔ یہ شخص ایک پُختہ مسیحی ہوتا ہے جو خدا کے معیاروں کی قدر کرتا ہے۔ دُلہا ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ میرِمجلس کی ذمہداری کس کو سونپی جائے گی۔ وہ میرِمجلس کو تفصیل سے بتائے گا کہ وہ شادی کی تقریب کے سلسلے میں کیا کچھ چاہتا ہے اور کن باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ میرِمجلس تقریب کی تیاریوں اور تقریب کے دوران بھی اس بات کا ذمہدار ہوتا ہے کہ دُلہے کی خواہشوں پر عمل کِیا جائے۔
۱۲. دُلہا تقریب پر شراب پیش کرنے کے سلسلے میں کن باتوں پر غور کرے گا؟
۱۲ جیسا کہ ہم پیراگراف ۵ میں دیکھ چکے ہیں، مہمانوں کو شراب پیش کرنا لازمی نہیں ہوتا۔ کئی دُلہا دُلہن اپنے مہمانوں کو نشہبازی کے خطرے سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اس لئے وہ شراب پیش نہیں کرتے۔ (رومیوں ۱۳:۱۳؛ ۱-کرنتھیوں ۵:۱۱) اگر دُلہا دُلہن مہمانوں کو شراب پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو دُلہا اسے محدود مقدار میں پیش کروائے گا۔ یاد رکھیں کہ یسوع جس شادی پر حاضر ہوا تھا وہاں مہمانوں کے لئے شراب موجود تھی۔ اس ضیافت میں یسوع نے خود بھی عمدہ قسم کی شراب مہیا کی تھی۔ جب میرِمجلس نے اس شراب کو چکھا تو اُس نے دُلہے سے کہا: ”ہر شخص پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے اور ناقص اس وقت جب پی کر چھک گئے مگر تُو نے اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔“ (یوحنا ۲:۱۰) یسوع نے یہ مے اس لئے نہیں مہیا کی کہ مہمان متوالے ہو جائیں۔ اُسے تو نشہبازی سے نفرت تھی۔ (لوقا ۱۲:۴۵، ۴۶) میرِمجلس نے اس بات کا ذکر اس لئے کِیا کیونکہ اُس نے ایسی شادیاں دیکھی تھیں جن میں لوگ نشے میں متوالے ہو گئے تھے۔ (اعمال ۲:۱۵؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۷) بائبل میں تاکید کی گئی ہے کہ ”شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اس سے بدچلنی واقع ہوتی ہے۔“ شادی کی تقریب میں دُلہا اور میرِمجلس دونوں اس بات کی ذمہداری رکھتے ہیں کہ تمام مہمان اس تاکید پر عمل کریں۔—افسیوں ۵:۱۸؛ امثال ۲۰:۱؛ ہوسیع ۴:۱۱۔
۱۳. اگر دُلہا دُلہن شادی کی تقریب میں موسیقی کا انتظام کرتے ہیں تو اُنہیں کن باتوں پر غور کرنا چاہئے اور کیوں؟
۱۳ اگر شادی کی تقریب میں موسیقی کا انتظام کِیا گیا ہے تو اسے اتنا اُونچا نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ مشکل سے ایک دوسرے سے بات کر پائیں۔ کلیسیا کے ایک بزرگ اس سلسلے میں کہتے ہیں: ”مَیں نے دیکھا ہے کہ جوں جوں رونق بڑھتی ہے یا پھر لوگ ڈانس کرنا شروع کرتے ہیں، موسیقی کی آواز بھی بڑھنے لگتی ہے۔ اکثر یہ اتنی اُونچی ہو جاتی ہے کہ باتچیت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کیونکہ شادی کی ضیافت تو ایک دوسرے سے ملنے اور باتیں کرنے کا بہترین موقع ہے۔“ ضیافت کے دوران کس قسم کی موسیقی پیش کی جائے گی اور اس کی آواز کتنی مدھم رکھی جائے گی یہ ذمہداری بھی دُلہا اور میرِمجلس پر پڑتی ہے۔ وہ اس معاملے میں کسی بینڈ یا موسیقار کو اپنی منمانی نہیں کرنے دیں گے۔ پولس رسول نے لکھا کہ ”کلام یا کام جو کچھ کرتے ہو وہ سب خداوند یسوؔع کے نام سے کرو۔“ (کلسیوں ۳:۱۷) یہ بات موسیقی کے سلسلے میں دُلہا دُلہن کے انتخاب پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ کیا مہمان دیکھ سکتے ہیں کہ دُلہا دُلہن سب کچھ یسوع کے نام سے کر رہے ہیں؟
۱۴. مسیحی کس قسم کی شادیوں کو خوشی سے یاد کرتے ہیں؟
۱۴ اگر دُلہا دُلہن شادی کی ضیافت کے سلسلے میں بائبل کے اصولوں پر عمل کریں گے تو سب لوگ اُن کی شادی کو خوشی سے یاد کریں گے۔ آدم اور ایڈیٹا ۳۰ سال سے شادیشُدہ ہیں۔ وہ ایک شادی کے بارے میں یوں کہتے ہیں: ”یہ شادی سچے مسیحیوں کی شادیوں کی عمدہ مثال تھی۔ ضیافت کے دوران یہوواہ کی حمد کے گیت گائے گئے۔ موسیقی اور ڈانس کرنے پر اتنا زور نہیں دیا گیا۔ ضیافت کا ہر پہلو خوشگوار تھا اور بائبل کے اصولوں کے مطابق بھی تھا۔“ یقیناً شادی کی تقریب کے بہت سے پہلوؤں میں دُلہا دُلہن اپنے ایمان کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔
دُلہا دُلہن کے لئے تحفے
۱۵. شادی کے موقعے پر تحفے پیش کرنے کے سلسلے میں مسیحیوں کو بائبل کے کن اصولوں پر عمل کرنا چاہئے؟
۱۵ بہت سے ممالک میں شادی کے موقعے پر رشتہدار اور دوست دُلہا دُلہن کو تحفے پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مسیحیوں کو بائبل کے کن اصولوں پر عمل کرنا چاہئے؟ یوحنا رسول نے کہا تھا کہ ’زندگی کی شیخی دُنیا کی طرف سے ہے جو مٹتی جاتی ہے۔‘ (۱-یوحنا ۲:۱۶، ۱۷) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سچے مسیحی شیخی نہیں بگھارتے ہیں۔ اس وجہ سے دُلہا دُلہن شادی کی تقریب میں تحفے کے ساتھ اُس کے دینے والے کے نام کا اعلان نہیں کرائیں گے۔ یاد رکھیں کہ جب مکدنیہ اور اخیہ کے مسیحیوں نے یروشلیم کے مسیحیوں کے لئے چندہ دیا تھا تو چندہ دینے والوں کے نام کا ذکر نہیں کِیا گیا۔ (رومیوں ۱۵:۲۶) بہتیرے مسیحی یہ نہیں چاہیں گے کہ اُن کے تحفے کے ساتھ اُن کا نام لیا جائے کیونکہ وہ اپنی بڑائی نہیں کرانا چاہتے۔ اس سلسلے میں متی ۶:۱-۴ میں دی گئی ہدایت پر بھی غور کریں۔
۱۶. تحفوں کے سلسلے میں دُلہا دُلہن دوسروں کا لحاظ کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۶ بائبل میں تاکید کی گئی ہے کہ مسیحیوں کو ’ایک دوسرے کو چڑانا‘ نہیں چاہئے۔ لیکن اگر تحفے کے ساتھ دینے والے کا نام اعلان کِیا جائے تو کیا مہمان اس بات پر غور نہیں کریں گے کہ کس کا تحفہ زیادہ قیمتی ہے؟ اس طرح لوگوں میں مقابلہبازی ہو سکتی ہے اور جو شخص دُلہا دُلہن کو تحفہ نہیں دے سکتا، اُس کی شرمندگی ہوتی ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۶؛ ۶:۱۰) اس وجہ سے دُلہا دُلہن اپنے مہمانوں کا لحاظ رکھتے ہوئے تحفہ دینے والوں کے نام کا اعلان نہیں کرائیں گے۔ بیشک یہ بات غلط نہیں کہ تحفے کے ساتھ ایک کارڈ میں دینے والے کا نام دیا گیا ہو۔ لیکن اس کارڈ کو بھی سب کے سامنے پڑھا نہیں جانا چاہئے۔ مسیحی تحفے خریدتے، دیتے اور قبول کرتے وقت بھی اپنے مضبوط ایمان کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔a
۱۷. مسیحی اپنے ایمان اور اعمال سے کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں؟
۱۷ جیہاں، ایمان کا ثبوت بداخلاقی سے باز رہنے، اجلاسوں پر حاضر ہونے اور مُنادی میں حصہ لینے سے ہی نہیں پیش کِیا جاتا۔ ہم زندگی کے ہر پہلو میں ’کام کو پورا‘ کرنے سے اپنا ایمان ظاہر کر سکتے ہیں۔ (مکاشفہ ۳:۲) دُعا ہے کہ ہم زندگی کے ہر معاملے میں اپنے پُختہ ایمان کا ثبوت پیش کرتے رہیں۔
۱۸. یوحنا ۱۳:۱۷ کے الفاظ مسیحیوں کی شادی کی تقریبات کے سلسلے میں کیسے سچ ثابت ہو سکتے ہیں؟
۱۸ اپنے شاگردوں کے پاؤں دھونے کے بعد یسوع مسیح نے کہا ”اگر تُم ان باتوں کو جانتے ہو تو مبارک ہو بشرطیکہ ان پر عمل بھی کرو۔“ (یوحنا ۱۳:۴-۱۷) جس علاقے میں ہم رہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہاں مہمانوں کے پاؤں دھونے کا رواج نہ ہو۔ لیکن دعوتوں اور شادی کی تقریب کے سلسلے میں بہت سے ایسے معاملے ضرور ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم اپنے مہمانوں کے لئے اپنی محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔ جیہاں، چاہے ہماری اپنی شادی ہو رہی ہو یا ہم کسی شادی پر مہمان ہوں ہم اپنے ایمان کا ثبوت اپنے اعمال سے دینا چاہیں گے۔
[فٹنوٹ]
a شادی کی تقریبات کے سلسلے میں مزید تفصیل صفحہ ۱۴ پر مضمون ”شادی کی تقریب—ابدی خوشی کی بنیاد“ میں دی گئی ہے۔
آپ کا جواب کیا ہوگا؟
بتائے کہ مسیحی ان پہلوؤں میں اپنے ایمان کا ثبوت کیسے پیش کر سکتے ہیں:
• دوستوں کی دعوت کرتے وقت
• شادی کی ضیافت کا انتظام کرتے وقت
• شادی کے سلسلے میں تحفے دیتے یا قبول کرتے وقت
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
دوستوں کی دعوت کرتے وقت بھی ”جو حکمت اوپر سے آتی ہے“ اس کو کام میں لائیں
-
-
شادی کی تقریب—ابدی خوشی کی بنیادمینارِنگہبانی—2006ء | 1 نومبر
-
-
شادی کی تقریب—ابدی خوشی کی بنیاد
”میری شادی کا دِن میری زندگی کا سب سے اہم اور خوشگوار دِن تھا۔“ یہ ہیں گورڈن کے الفاظ جن کی شادی کو تقریباً ۶۰ سال ہو گئے ہیں۔ سچے مسیحیوں کے لئے شادی کا دِن اِس لئے اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس دن وہ یہوواہ خدا کے سامنے اپنے بیاہتا ساتھی کے ساتھ ایک عہد باندھتے ہیں۔ (متی ۲۲:۳۷؛ افسیوں ۵:۲۲-۲۹) دُلہا دُلہن چاہتے ہیں کہ اُن کی شادی خوشیوں کا موقع ہو۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ اس دن پر شادی کے بندھن کے بانی کی تعظیم بھی کرنا چاہتے ہیں۔—پیدایش ۲:۱۸-۲۴؛ متی ۱۹:۵، ۶۔
دُلہا کیا کر سکتا ہے تاکہ شادی کے تمام پہلو یہوواہ خدا کے معیاروں کے مطابق ہوں؟ دُلہن اپنے دُلہا اور یہوواہ خدا کی تعظیم کرنے کے لئے کیا کر سکتی ہے؟ مہمان اِس دن کو ایک خوشگوار موقع کیسے بنا سکتے ہیں؟ اِن سوالوں کے جواب کے لئے آئیں ہم بائبل میں سے کچھ اصولوں پر غور کرتے ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے شادی تمام لوگوں کے لئے خوشی کا موقع ہوگی۔
ذمہداری کس کی ہے؟
بہتیرے ممالک میں یہوواہ کے گواہوں کا ایک بزرگ شادی کی رسم کو پورا کرکے اِس کو قانونی شکل دے سکتا ہے۔ ایسے ممالک میں جہاں سرکاری رجسٹرار شادی کی رسم کو پورا کرتا ہے، وہاں بھی دُلہا دُلہن خدا کے کلام پر مبنی ایک تقریر پیش کرا سکتے ہیں۔ اِس تقریر میں دُلہے کو خدا کے کلام میں درج اس کی ذمہداریوں کی یاد دلائی جاتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳) چونکہ شوہر اپنی بیوی کا سر ہے اس لئے شادی کی تقریب میں جو کچھ ہوتا ہے دُلہا اِس کا ذمہدار ہے۔ لیکن اِس سلسلے میں مسئلے کھڑے ہو سکتے ہیں کیونکہ شادی کی تیاریاں بہت پہلے سے شروع ہوتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کبھیکبھار لڑکے یا لڑکی کے رشتہدار اپنی مرضی کے مطابق شادی کی تقریب کو ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ روڈالفو جس نے بہتیری شادیوں میں حصہ لیا ہے یوں کہتا ہے: ”کبھیکبھار لڑکے پر بہت دباؤ ڈالا جاتا ہے کیونکہ اُس کے رشتہدار چاہتے ہیں کہ شادی کی تقریب اُن کی خواہشوں کے مطابق کی جائے، خاص طور پر اگر وہ شادی کا خرچہ اُٹھا رہے ہوں۔ لیکن لڑکے پر ایسا دباؤ ڈالنا بائبل کے اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ بائبل کے مطابق یہ ذمہداری لڑکے پر پڑتی ہے۔“
میکس کو ۳۵ سال سے شادیوں کی تقریر پیش کرنے کا شرف حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”مَیں نے دیکھا ہے کہ آجکل اکثر دُلہن ہی تقریب اور ضیافت کے سلسلے میں فیصلے کرتی ہے اور دُلہا ان باتوں میں اپنے خیالات کا اظہار کم ہی کرتا ہے۔“ ڈیوڈ جنہوں نے بہتیرے جوڑوں کو شادی کے بندھن میں جوڑا ہے، وہ کہتے ہیں: ”یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دُلہا ذمہداری اُٹھانے کا عادی نہ ہو۔ اِس لئے شادی کی تیاریوں میں وہ ذمہداری نہیں لیتا۔“ ایک دُلہا شادی کی تیاریوں کے معاملے میں اپنی ذمہداری کیسے نبھا سکتا ہے؟
کُھل کر بات کریں
اپنی ذمہداری پر پورا اُترنے کے لئے دُلہے کو کُھل کر بات کرنی چاہئے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”صلاح کے بغیر ارادے پورے نہیں ہوتے۔“ (امثال ۱۵:۲۲) دُلہے کو چاہئے کہ وہ اپنی دُلہن اور اپنے خاندانوالوں سے شادی کے پورے بندوبست کے بارے میں باتچیت کرے۔ وہ اُن لوگوں سے بھی مشورہ لے سکتا ہے جو اُسے خدا کے کلام کی بِنا پر صلاح دے سکتے ہیں۔
یہ بہت ضروری ہے کہ دُلہا دُلہن ایک دوسرے سے شادی کے انتظام کے بارے میں باتچیت کریں۔ کیوں؟ کیونکہ کبھیکبھار وہ شادی کے انتظام کے بارے میں ایک دوسرے سے فرق نظریہ رکھتے ہیں۔ یہ بات آئیون اور ڈیلوِن کے بارے میں سچ تھی جو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ آئیون بتاتا ہے: ”مَیں نے پہلے سے ہی طے کر لیا تھا کہ میری شادی کی تقریب کیسی ہوگی۔ مَیں چاہتا تھا کہ شادی کا کیک ہو، ضیافت میں میرے تمام دوست حاضر ہوں اور میری دُلہن سفید قیمتی جوڑا پہنے۔ لیکن ڈیلوِن چاہتی تھی کہ شادی کی تقریب سادہ ہو اور شادی کے کیک کے بغیر کی جائے۔ شادی کے جوڑے کی بجائے وہ ایک سادہ لباس پہننے کا سوچ رہی تھی۔“
یہ جوڑا اپنی شادی کی تقریب کے بارے میں فیصلہ کیسے کر پایا؟ اُنہوں نے بڑے شفیق انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ کُھل کر بات کی۔ (امثال ۱۲:۱۸) آئیون کہتا ہے: ”ہم نے بائبل پر مبنی ایسے مضامین پڑھے جو شادی کی تقریب کے متعلق ہیں۔ ان میں سے کچھ مینارِنگہبانی جون ۱۹۸۵ میں شائع ہوئے تھے۔a ایسا کرنے سے ہم خدا کا نظریہ اپنا سکے۔ اور چونکہ ہم مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اِس لئے ہم نے ایک دوسرے کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے فیصلہ کِیا۔“
ایک اَور جوڑا، آریٹ اور پینی نے بھی اپنی شادی کی تقریب کا بندوبست کرتے وقت کچھ ایسا ہی کِیا۔ آریٹ بتاتا ہے: ”شادی کی تقریب کے سلسلے میں پینی اور مَیں مختلف خواہشات رکھتے تھے۔ اِس کے بارے میں باتچیت کرنے کے بعد ہم ایسے فیصلے کر پائے جن سے ہم دونوں خوش تھے۔ ہم نے اپنی شادی کی تقریب کے لئے یہوواہ خدا سے برکت مانگی۔ مَیں نے اپنے والدین اور دوسرے پُختہ مسیحیوں سے بھی مشورہ لیا۔ اُن کے مشورے بہت فائدہمند ثابت ہوئے اور ہماری شادی کی تقریب بڑی خوبصورتی سے اپنے انجام تک پہنچی۔“
مناسب لباس کا انتخاب
یہ بات سچ ہے کہ دُلہا اور دُلہن شادی کے دِن دلکش لگنا چاہتے ہیں۔ (زبور ۴۵:۸-۱۵) دُلہا دُلہن کے لئے مناسب جوڑوں کا انتخاب کرنے میں شاید وقت لگے اور اِس پر پیسے بھی خرچ ہوں گے۔ اس سلسلے میں بائبل میں کون سے اصول پائے جاتے ہیں؟
دُلہن کا لباس مُلک مُلک میں فرق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی پسند میں بھی فرق ہوتا ہے۔ لیکن بائبل کی یہ صلاح ہر جگہ لاگو ہوتی ہے: ”عورتیں حیادار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں۔“ مسیحی عورتیں ہر موقعے پر، یہاں تک کہ اپنی شادی کے دِن پر بھی اس صلاح پر عمل کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک خوشگوار شادی کے لئے ضروری نہیں کہ دُلہن ”قیمتی پوشاک“ پہنے۔ (۱-تیمتھیس ۲:۹؛ ۱-پطرس ۳:۳، ۴) جب اِس بات پر عمل کِیا جاتا ہے تو شادی کی تقریب خوشگوار رہتی ہے۔
ڈیوڈ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہتے ہیں: ”بہتیرے جوڑے بائبل کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں اور ہم اُنہیں اس بات کی داد دیتے ہیں۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ دُلہنیں اور اُن کی سہیلیوں کے لباس کے گلے بہت گہرے ہوتے ہیں یا پھر کپڑا اتنا باریک ہوتا ہے کہ اِس میں سے جسم نظر آتا ہے۔“ ایک بزرگ کہتا ہے کہ جب وہ دُلہا دُلہن سے شادی سے پہلے ملاقات کرتا ہے تو وہ اُن کو ہدایات دیتا ہے کہ اُن کو خدا کا نظریہ مدِنظر رکھنا چاہئے۔ وہ دُلہا دُلہن سے پوچھتا ہے کہ کیا اُن کا شادی کا جوڑا اتنا حیادار ہے کہ اُسے مسیحی اجلاس پر بھی پہنا جا سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ شادی کے جوڑے اور مسیحی اجلاسوں پر پہنے جانے والے لباس میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا لباس ہمیشہ حیادار اور مسیحی معیاروں کے مطابق ہونا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ کئی دُنیاوی لوگ بائبل میں پائے جانے والے اصولوں کو سخت خیال کریں لیکن سچے مسیحی ایسی دُنیاوی سوچ کبھی نہیں اپنائیں گے۔—رومیوں ۱۲:۲؛ ۱-پطرس ۴:۴۔
پینی کہتی ہے: ”لباس یا ضیافت کو زیادہ اہمیت دینے کی بجائے مَیں اور آریٹ نے شادی کی تقریر اور عہدوپیمان پر زیادہ توجہ دی۔ یہی ہمارے لئے تقریب کا سب سے اہم حصہ تھا۔ اُس دن کی یادیں ان باتوں سے وابستہ نہیں ہیں کہ مَیں نے کیا پہن رکھا تھا یا مَیں نے کیا کھایا تھا۔ میری خوشی تو اِس بات میں تھی کہ مَیں اپنے عزیزوں کے ساتھ یہ دِن منا رہی تھی اور مَیں اُس شخص سے شادی کر رہی تھی جس سے مجھے پیار ہے۔“ شادی کی تیاریاں کرتے وقت ایک مسیحی جوڑے کو ایسی ہی باتوں پر دھیان دینا چاہئے۔
کنگڈم ہال میں شادی کی رسم
اگر اُن کے مُلک میں ایسا کرنے کی اجازت ہے تو بہتیرے مسیحی شادی کی رسم کنگڈم ہال ہی میں ادا کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایک جوڑے نے اِس بات کی یوں وضاحت کی: ”چونکہ یہوواہ خدا ہی شادی کے مُقدس بندھن کا بانی ہے اِس لئے ہمیں لگا کہ کنگڈم ہال میں شادی کرنے سے ہم شروع سے ہی اُسے اپنے بندھن میں شامل کر رہے ہیں۔ کنگڈم ہال میں شادی کرنے کا ایک اَور فائدہ یہ تھا کہ ہمارے ایسے رشتہدار جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں، وہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ یہوواہ خدا کی عبادت ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔“
اگر کلیسیا کے بزرگ کنگڈم ہال میں شادی کی رسم ادا کرنے کی اجازت دیں تو دُلہا دُلہن کو چاہئے کہ وہ اُنہیں تمام انتظامات کے بارے میں بتائیں۔ شادی کی رسم کے سلسلے میں دُلہا دُلہن کو وقت کی پابندی کرنی چاہئے۔ اِس طرح وہ اپنے مہمانوں کے لئے قدر دکھاتے ہیں۔ شادی کی تقریب کی ہر بات کو شائستگی کے ساتھ کِیا جانا چاہئے۔b (۱-کرنتھیوں ۱۴:۴۰) اِس طرح مسیحیوں کی شادی میں دُنیاوی شادیوں جیسا دکھاوا نہیں ہوگا۔—۱-یوحنا ۲:۱۵، ۱۶۔
شادی کی تقریب میں حاضر مہمان بھی یہ دکھا سکتے ہیں کہ وہ شادی کے بارے میں خدا کا نظریہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اس بات کی توقع نہیں رکھیں گے کہ شادی کی تقریب دوسری شادیوں کی نسبت زیادہ دھومدھام سے منائی جائے۔ وہ اُس تقریب کا کسی دوسری شادی کے ساتھ مقابلہ بھی نہیں کریں گے۔ پُختہ مسیحی یہ بھی جانتے ہیں کہ کنگڈم ہال میں بائبل پر مبنی شادی کی تقریر پر حاضر ہونا شادی کی ضیافت پر حاضر ہونے سے زیادہ اہم ہے۔ اگر وقت یا صورتحال کی وجہ سے ایک مسیحی صرف ایک ہی موقعے پر حاضر ہو سکتا ہے تو ضیافت کی بجائے تقریر پر حاضر ہونا زیادہ بہتر ہے۔ ایک بزرگ کہتا ہے: ”اگر ایک مہمان شادی کی تقریر سے غیرحاضر ہے اور اِس کی کوئی خاص وجہ نہیں اور پھر بعد میں وہ ضیافت پر حاضر ہوتا ہے تو وہ اِس بات کی قدر نہیں دکھاتا کہ یہوواہ خدا شادی کا بانی ہے۔ اگر ہمیں ضیافت میں مدعو نہیں کِیا گیا ہو تو بھی ہم کنگڈم ہال میں شادی کی رسم پر حاضر ہو کر دُلہا اور دُلہن کی خوشی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اور اگر دُلہا دُلہن کے رشتہداروں میں سے کچھ یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں تو یہ موقع اُن کے لئے ایک اچھی گواہی ثابت ہو سکتا ہے۔“
خوشیوں کی بنیاد ڈالیں
شادی کی تقریبات سے بہت منافع کمایا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک شادی کا خرچہ اوسطاً ۲۲،۰۰۰ ڈالر ہوتا ہے۔ یہ رقم امریکہ میں تقریباً آدھے سال کی کمائی کے برابر ہے۔ اشتہارات سے متاثر ہو کر دُلہا دُلہن یا اُن کے خاندانوالے شادی کی تقریبات کا خرچہ اُٹھانے کے لئے سالوں تک قرضے کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ کیا قرضہ اُٹھا کر بیاہتا زندگی کا آغاز کرنا دانشمندی کی بات ہے؟ شاید ایسے لوگ جو بائبل کے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی نہیں جیتے وہ شادی کو فضولخرچی کرنے کا موقع سمجھیں۔ لیکن سچے مسیحی ایسا نہیں کرتے۔
اگر ضیافت بہت بڑی نہ ہو تو اس کا خرچہ بھی حد میں رہے گا۔ ضیافت کی بجائے شادی کی تقریر اور رسم پر زیادہ توجہ دینے سے دُلہا اور دُلہن اپنا وقت اور مال خدا کی خدمت میں استعمال کر سکتے ہیں۔ (متی ۶:۳۳) لائیڈ اور الیگزینڈرا اپنی شادی کے بعد سے یعنی ۱۷ سال سے کُلوقتی طور پر خدا کی خدمت کرتے آ رہے ہیں۔ لائیڈ کہتا ہے: ”کئی لوگوں نے سوچا ہوگا کہ ہماری شادی کی تقریب بہت سادہ تھی لیکن مَیں اور الیگزینڈرا بہت خوش تھے۔ شادی یہوواہ خدا کا ایک ایسا بندوبست ہے جس سے دو اشخاص کو بہت سی خوشیاں ملتی ہیں۔ ہم اِس خوشی کو منانا چاہتے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ تقریب ہماری شادیشُدہ زندگی پر قرضے کا بوجھ ڈالے۔“
الیگزینڈرا کہتی ہے: ”شادی سے پہلے مَیں کُلوقتی طور پر خدمت کر رہی تھی اور مَیں یہ نہیں چاہتی تھی کہ ایک بہت ہی شاندار شادی کا خرچہ پورا کرنے کے لئے مجھے اس خدمت کو چھوڑنا پڑے۔ ہمارے لئے شادی کا دِن بہت اہمیت رکھتا تھا۔ لیکن ایک بیاہتا جوڑے کے طور پر یہ صرف ہمارا پہلا دِن تھا۔ شادی کی تقریب کو بہت زیادہ اہمیت دینے کی بجائے ہم نے یہوواہ خدا کی راہنمائی چاہی تاکہ ہم اپنی شادی میں کامیاب رہیں۔ اِس سے ہمیں یہوواہ خدا کی برکات پانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔“c
جیہاں، شادی کا دِن آپ کے لئے ایک بہت ہی خاص دِن ہے۔ یہ دِن آپ کی بیاہتا زندگی پر اثر کرے گا۔ اِس لئے یہوواہ خدا کی راہنمائی کے لئے دُعا کریں۔ (امثال ۳:۵، ۶) شادی کی تقریب کے دوران یہوواہ خدا کے نظریے کو زیادہ اہمیت دیں۔ شادی کے سلسلے میں جو ذمہداریاں خدا نے آپ پر عائد کی ہیں اِن کو پورا کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اِس طرح آپ اپنی شادی کے لئے ایک اچھی بنیاد ڈال رہے ہوں گے اور یہوواہ خدا کی برکت حاصل کریں گے۔ اس برکت کے بلبوتے آپ دونوں نہ صرف اپنی شادی کے دِن بلکہ ہمیشہ تک خوش رہیں گے۔—امثال ۱۸:۲۲۔
-