باب نمبر 3
خدا کے دوستوں کو اپنے دوست بنائیں
”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔“—امثال 13:20۔
1-3. (الف) امثال 13:20 سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (ب) ہمیں سوچ سمجھ کر دوستوں کا اِنتخاب کیوں کرنا چاہیے؟
کیا آپ نے کبھی غور کِیا ہے کہ ایک ننھا بچہ اپنے ماں باپ کو کتنے دھیان سے دیکھتا ہے؟ حالانکہ وہ ابھی بولنا بھی شروع نہیں کرتا لیکن جو کچھ وہ دیکھتا اور سنتا ہے، وہ سب اُس کے ذہن میں بیٹھتا جاتا ہے۔ پھر جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جاتا ہے، وہ اپنے ماں باپ جیسے کام کرنے لگتا ہے اور اُسے اِس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ایک بالغ شخص بھی جن لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے، اُنہی کی طرح سوچنے اور کام کرنے لگتا ہے۔
2 امثال 13:20 میں لکھا ہے: ”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا۔“ کسی کے ’ساتھ چلنے‘ میں اُس کے ساتھ وقت گزارنا شامل ہے۔ بائبل کے ایک عالم کے مطابق کسی کے ساتھ چلنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ اُس سے محبت کرتے ہیں اور وہ آپ کے دل کے بہت قریب ہے۔ واقعی ایسے لوگ ہم پر گہرا اثر ڈالتے ہیں جن کے ساتھ ہم زیادہ وقت گزارتے ہیں، خاص طور پر ایسے لوگ جو ہمیں بہت عزیز ہوتے ہیں۔
3 ہمارے دوست ہم پر اچھا یا بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ امثال 13:20 میں آگے بتایا گیا ہے: ”احمقوں کا ساتھی [یعنی دوست] ہلاک کِیا جائے گا۔“ لیکن اگر ہم ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں جو یہوواہ سے محبت کرتے ہیں تو وہ ہمیں اُس کا وفادار رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ ہم اچھے دوستوں کا اِنتخاب کیسے کر سکتے ہیں، آئیں، یہوواہ کی مثال پر غور کریں کہ وہ کس طرح کے لوگوں سے دوستی کرتا ہے۔
یہوواہ کس طرح کے لوگوں سے دوستی کرتا ہے؟
4. (الف) خدا کا دوست ہونا ہمارے لیے اعزاز کی بات کیوں ہے؟ (ب) یہوواہ نے ابراہام کو اپنا دوست کیوں کہا؟
4 کائنات کے حاکم یہوواہ نے ہمیں اپنا دوست بننے کا موقع دیا ہے۔ یہ ہمارے لیے واقعی بڑے اعزاز کی بات ہے! یہوواہ بہت دیکھبھال کر اپنے دوست چُنتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں سے دوستی کرتا ہے جو اُس سے محبت کرتے ہیں اور اُس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ذرا اِس سلسلے میں ابراہام کی مثال پر غور کریں۔ وہ یہوواہ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ اُنہوں نے بار بار ثابت کِیا کہ وہ یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں اور اُس کے فرمانبردار ہیں۔ وہ تو اپنے بیٹے اِضحاق کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار تھے۔ ابراہام کو پورا یقین تھا کہ ”خدا اُن کے بیٹے کو مُردوں میں سے بھی زندہ کر سکتا ہے۔“ (عبرانیوں 11:17-19؛ پیدایش 22:1، 2، 9-13) چونکہ ابراہام مضبوط ایمان کے مالک تھے اور خدا کے فرمانبردار تھے اِس لیے خدا نے اُنہیں اپنا دوست کہا۔—یسعیاہ 41:8؛ یعقوب 2:21-23۔
5. یہوواہ اُن لوگوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے جو اُس کے وفادار رہتے ہیں؟
5 جو لوگ یہوواہ کے دوست ہوتے ہیں، اُن کے لیے اُس کا وفادار رہنا سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ (2-سموئیل 22:26 کو فٹنوٹ سے پڑھیں۔a) وہ اِس وجہ سے اُس کے وفادار اور فرمانبردار رہتے ہیں کیونکہ وہ اُس سے محبت کرتے ہیں۔ یہوواہ اپنے ایسے دوستوں کی بہت قدر کرتا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”راستبازوں کے ساتھ اُس کی رفاقت ہے۔“ (امثال 3:32، نیو اُردو بائبل ورشن) یہوواہ اُنہیں اپنے ’خیمے‘ میں رہنے یعنی اپنی عبادت کرنے اور بِلاجھجک دُعا کرنے کی دعوت دیتا ہے۔—زبور 15:1-5۔
6. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یسوع سے محبت کرتے ہیں؟
6 یسوع نے کہا: ”اگر کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے تو وہ میرے حکموں پر عمل کرے گا اور میرا باپ اُس سے محبت کرے گا۔“ (یوحنا 14:23) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے دوست بننے کے لیے ہمیں یسوع سے بھی محبت کرنی چاہیے اور اُن کی سکھائی ہوئی باتوں پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہمیں یسوع کے حکم کے مطابق بادشاہت کی مُنادی کرنی چاہیے اور لوگوں کو اُن کا شاگرد بنانا چاہیے۔ (متی 28:19، 20؛ یوحنا 14:15، 21) ہمیں ’اُن کے نقشِقدم پر بھی چلنا‘ چاہیے۔ (1-پطرس 2:21) جب یہوواہ دیکھتا ہے کہ ہم اپنی ہر بات اور کام سے یسوع کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اُسے بہت خوشی ہوتی ہے۔
7. ہمیں اُن لوگوں سے دوستی کیوں کرنی چاہیے جو یہوواہ کے دوست ہیں؟
7 یہوواہ ایسے لوگوں سے دوستی کرتا ہے جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں، اُس کے وفادار رہتے ہیں اور اُس کے بیٹے سے محبت کرتے ہیں۔ کیا آپ بھی اِسی طرح کے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں؟ اگر آپ کے دوست یسوع کی مثال پر عمل کرتے ہیں اور بادشاہت کی خوشخبری سنانے میں مگن رہتے ہیں تو وہ آپ کی بھی مدد کر سکتے ہیں کہ آپ ایک بہتر شخص بنیں اور یہوواہ کے وفادار رہیں۔
دوستی کی عمدہ مثالیں
8. رُوت اور نعومی کی دوستی کے حوالے سے آپ کو کون سی بات اچھی لگتی ہے؟
8 بائبل میں ہم ایسے کئی لوگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جن کی دوستی مثالی تھی۔ ذرا رُوت اور اُن کی ساس نعومی کی دوستی پر غور کریں۔ اِن دونوں عورتوں کا تعلق فرق فرق ملک اور پسمنظر سے تھا اور نعومی عمر میں رُوت سے کافی بڑی تھیں۔ لیکن وہ دونوں یہوواہ سے محبت کرتی تھیں اِس لیے اُن کی آپس میں گہری دوستی ہو گئی۔ جب نعومی نے ملک موآب کو چھوڑ کر ملک اِسرائیل واپس جانے کا فیصلہ کِیا تو ”رُؔوت اُس سے لپٹی رہی۔“ رُوت نے نعومی سے کہا: ”تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔“ (رُوت 1:14، 16) رُوت، نعومی کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ جب وہ دونوں اِسرائیل پہنچیں تو رُوت نے اپنی دوست کی روزمرہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ نعومی بھی رُوت سے بہت پیار کرتی تھیں اِس لیے اُنہوں نے رُوت کو بہت اچھا مشورہ دیا۔ جب رُوت نے اِس مشورے پر عمل کِیا تو اُن دونوں کو بہت سی برکتیں ملیں۔—رُوت 3:6۔
9. داؤد اور یونتن کی دوستی کے حوالے سے کس بات نے آپ کے دل کو چُھوا ہے؟
9 داؤد اور یونتن کی دوستی پر بھی غور کریں۔ وہ اِس لیے ایک دوسرے کے اچھے دوست بن گئے کیونکہ وہ دونوں یہوواہ کے وفادار تھے۔ یونتن، داؤد سے عمر میں تقریباً 30 سال بڑے تھے اور اُنہیں اپنے باپ ساؤل کے بعد اِسرائیل کا بادشاہ بننا تھا۔ (1-سموئیل 17:33؛ 2-سموئیل 5:4) لیکن جب اُنہیں پتہ چلا کہ یہوواہ نے داؤد کو اِسرائیل کا اگلا بادشاہ چُنا ہے تو اُنہوں نے نہ تو داؤد سے حسد کِیا اور نہ ہی اپنا حق چھیننے کی کوشش کی۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے داؤد کا پورا پورا ساتھ دیا۔ مثال کے طور پر جب داؤد کی جان خطرے میں تھی تو یونتن نے اُن کی حوصلہافزائی کی کہ وہ یہوواہ پر بھروسا رکھیں۔ اُنہوں نے تو داؤد کی خاطر اپنی جان تک خطرے میں ڈال دی۔ (1-سموئیل 23:16، 17) داؤد نے بھی یونتن کے ساتھ اپنی دوستی نبھائی۔ اُنہوں نے یونتن سے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اُن کے گھر والوں کا خیال رکھیں گے۔ اور اُنہوں نے یہ وعدہ یونتن کی موت کے بعد بھی نبھایا۔—1-سموئیل 18:1؛ 20:15-17، 30-34؛ 2-سموئیل 9:1-7۔
10. آپ نے تین عبرانی نوجوانوں کی دوستی سے کیا سیکھا ہے؟
10 تین عبرانی نوجوانوں یعنی سدرک، میسک اور عبدنجو کو بچپن میں اُن کے گھر والوں سے جُدا کر کے شہر بابل لے جایا گیا۔ اِن تینوں دوستوں نے یہوواہ کے وفادار رہنے میں ایک دوسرے کی بہت مدد کی۔ جب وہ بڑے ہوئے تو خدا کے لیے اُن کی وفاداری آزمائی گئی۔ بابل کے بادشاہ نبوکدنضر نے اپنی ساری عوام کو سونے کی ایک مورت کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ سدرک، میسک اور عبدنجو نے اِس مورت کو سجدہ کرنے سے اِنکار کر دیا اور بادشاہ سے کہا: ”ہم تیرے معبودوں کی عبادت نہیں کریں گے اور اُس سونے کی مورت کو جو تُو نے نصب کی ہے سجدہ نہیں کریں گے۔“ جب جب اِن تینوں دوستوں کے ایمان کا اِمتحان ہوا، وہ خدا کے وفادار رہے۔—دانیایل 1:1-17؛ 3:12، 16-28۔
11. پولُس اور تیمُتھیُس ایک دوسرے کے اچھے دوست کیوں بن گئے؟
11 جب پولُس کی ملاقات تیمُتھیُس نامی نوجوان سے ہوئی تو اُنہوں نے دیکھا کہ تیمُتھیُس یہوواہ سے بہت پیار کرتے ہیں اور اُنہیں کلیسیا کی بڑی فکر ہے۔ اِس لیے پولُس اُنہیں اپنے ساتھ مختلف علاقوں میں لے گئے اور اُن کی تربیت کی تاکہ وہ بہن بھائیوں کی مدد کر سکیں۔ (اعمال 16:1-8؛ 17:10-14) تیمُتھیُس نے اِتنی لگن سے خدمت کی کہ پولُس نے اُن کے بارے میں کہا: ”اُنہوں نے خوشخبری پھیلانے میں میرے ساتھ سخت محنت کی ہے۔“ پولُس کو پورا اِعتماد تھا کہ تیمُتھیُس سچے دل سے بہن بھائیوں کی فکر کریں گے۔ مل کر لگن سے یہوواہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست بن گئے۔—فِلپّیوں 2:20-22؛ 1-کُرنتھیوں 4:17۔
سوچ سمجھ کر دوست بنائیں
12، 13. (الف) ہمیں کلیسیا میں بھی سوچ سمجھ کر دوست کیوں بنانے چاہئیں؟ (ب) پولُس رسول نے 1-کُرنتھیوں 15:33 میں درج نصیحت کیوں کی؟
12 کلیسیا میں ہم اپنے بہن بھائیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور یہوواہ کے وفادار رہنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ (رومیوں 1:11، 12 کو پڑھیں۔) لیکن ہمیں کلیسیا میں بھی سوچ سمجھ کر دوست بنانے چاہئیں۔ ہماری کلیسیاؤں میں فرق فرق ثقافتوں اور پسمنظر سے تعلق رکھنے والے بہن بھائی ہیں۔ اِن میں سے بعض حال ہی میں یہوواہ کے گواہ بنے ہیں جبکہ دیگر بہت سالوں سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ جس طرح ایک پھل کو پکنے میں وقت لگتا ہے اُسی طرح ایک شخص کو یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے میں وقت لگتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ صبر اور محبت سے پیش آنا چاہیے اور ہمیشہ سوچ سمجھ کر دوست بنانے چاہئیں۔—رومیوں 14:1؛ 15:1؛ عبرانیوں 5:12–6:3۔
13 کبھی کبھار کلیسیا میں سنگین مسئلے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ کوئی بہن یا بھائی کوئی ایسا کام کرے جو یہوواہ کے اصولوں کے خلاف ہو۔ یا شاید وہ ہر وقت دوسروں پر نکتہچینی کرے جس سے کلیسیا کا امن برباد ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پہلی صدی عیسوی میں بھی کلیسیا میں کبھی کبھار اِس طرح کے مسئلے کھڑے ہوئے تھے۔ اِسی لیے پولُس رسول نے اپنے زمانے کے مسیحیوں کو خبردار کِیا کہ ”دھوکا نہ کھائیں۔ بُرے ساتھی اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتے ہیں۔“ (1-کُرنتھیوں 15:12، 33) اُنہوں نے تو تیمُتھیُس کو بھی نصیحت کی کہ وہ اِس بات کا خیال رکھیں کہ وہ کلیسیا میں کن لوگوں سے دوستی کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی پولُس کی اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔—2-تیمُتھیُس 2:20-22 کو پڑھیں۔
14. ہم جس طرح کے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں، وہ یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی پر کیا اثر ڈال سکتے ہیں؟
14 یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی ہمارے لیے بیشقیمت ہے۔ اِس لیے ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے کہ اِس دوستی میں کوئی دراڑ نہ آئے۔ ہمیں ایسے لوگوں سے دوستی نہیں کرنی چاہیے جو ہمارے ایمان کو کمزور کر سکتے ہیں اور یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ اگر ہم ایک سپنج کو گندے پانی میں ڈبوئیں گے تو کیا سپنج صاف رہے گا؟ ہرگز نہیں۔ اِسی طرح اگر ہماری دوستی ایسے لوگوں سے ہے جو غلط کام کرتے ہیں تو ہمارے لیے صحیح کام کرنا آسان نہیں ہوگا۔ لہٰذا ہمیں بہت سوچ سمجھ کر دوست بنانے چاہئیں۔—1-کُرنتھیوں 5:6؛ 2-تھسلُنیکیوں 3:6، 7، 14۔
15. کلیسیا میں اچھے دوست بنانے کے لیے آپ کیا کر سکتے ہیں؟
15 کلیسیا میں آپ کو ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو یہوواہ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور آپ کے قریبی دوست بن سکتے ہیں۔ (زبور 133:1) صرف ایسے لوگوں سے دوستی نہ کریں جو آپ کے ہمعمر ہیں یا جن کا پسمنظر آپ جیسا ہے۔ یاد رکھیں کہ یونتن عمر میں داؤد سے کافی بڑے تھے اور رُوت عمر میں نعومی سے کافی چھوٹی تھیں۔ لہٰذا ہمیں بائبل میں لکھی اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے: ”اپنے دلوں میں . . . زیادہ جگہ بنائیں۔“ (2-کُرنتھیوں 6:13؛ 1-پطرس 2:17 کو پڑھیں۔) جتنا زیادہ آپ یہوواہ کی مثال پر عمل کریں گے اُتنا زیادہ دوسرے لوگ آپ سے دوستی کرنا چاہیں گے۔
جب مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں
16، 17. اگر کلیسیا کا کوئی بہن یا بھائی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہمیں کیا نہیں کرنا چاہیے؟
16 ہر خاندان میں موجود افراد کی شخصیت، خیالات اور کام کرنے کا طریقہ ایک دوسرے سے فرق ہوتا ہے۔ یہ بات کلیسیا کے بہن بھائیوں کے بارے میں بھی سچ ہے۔ فرق فرق شخصیت کی وجہ سے زندگی کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اور ہمیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن اِس بات سے بھی اِنکار نہیں کِیا جا سکتا کہ ایک دوسرے سے فرق ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار ہمارے درمیان غلطفہمیاں اور اِختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی بہن بھائی کی کسی بات یا کام سے ہمیں ٹھیس پہنچے۔ (امثال 12:18) کیا ایسے مسئلوں کی وجہ سے ہمیں بےحوصلہ ہو جانا چاہیے یا کلیسیا سے دُور ہو جانا چاہیے؟
17 ہرگز نہیں۔ اگر کلیسیا کا کوئی بہن یا بھائی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو تب بھی ہمیں اِجلاسوں میں جانا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ نے تو ہمیں ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اُس نے تو ہمیں زندگی اور دوسری نعمتیں دی ہیں۔ اِس لیے وہ ہماری محبت کا حقدار ہے اور ہمیں اُس کا وفادار رہنا چاہیے۔ (مکاشفہ 4:11) کلیسیا یہوواہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے جس کی مدد سے ہم اپنا ایمان مضبوط رکھ سکتے ہیں۔ (عبرانیوں 13:17) ہمیں کبھی بھی محض اِس وجہ سے یہوواہ کے اِس تحفے کی ناقدری نہیں کرنی چاہیے کہ کسی اِنسان نے ہمارا دل دُکھایا ہے۔—زبور 119:165 کو پڑھیں۔
18. (الف) ہم بہن بھائیوں کے ساتھ صلح صفائی سے رہنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟ (ب) ہمیں دوسروں کو معاف کیوں کرنا چاہیے؟
18 ہم اپنے بہن بھائیوں سے پیار کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ صلح صفائی سے رہنا چاہتے ہیں۔ یہوواہ کسی اِنسان سے یہ توقع نہیں کرتا کہ وہ کبھی کوئی غلطی نہ کرے اور ہمیں بھی ایسی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ (امثال 17:9؛ 1-پطرس 4:8) ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن محبت کی خوبی ہمیں ”دل سے ایک دوسرے کو معاف“ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ (کُلسّیوں 3:13) اگر ہم اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرتے ہیں تو ہم چھوٹی چھوٹی غلطفہمیوں کو بڑا مسئلہ نہیں بنائیں گے۔ سچ ہے کہ جب کوئی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو اِس بات کو ذہن سے نکالنا آسان نہیں ہوتا اور ہم اپنے دل میں اُس شخص کے لیے غصہ پالنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے سے ہمارے اندر تلخی پیدا ہوگی اور ہماری ہی خوشی برباد ہوگی۔ لیکن جب ہم اُس شخص کو معاف کر دیتے ہیں تو ہمیں ذہنی سکون ملتا ہے، کلیسیا کا اِتحاد برقرار رہتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی قائم رہتی ہے۔—متی 6:14، 15؛ لُوقا 17:3، 4؛ رومیوں 14:19۔
جب کسی کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے
19. ہمیں کن دو صورتوں میں کلیسیا کے کسی رُکن سے تعلق توڑ دینا چاہیے؟
19 ذرا ایک ایسے خاندان کا تصور کریں جس کے افراد ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پھر گھر کا ایک فرد غلط کام کرنے لگتا ہے۔ گھر کے باقی افراد بار بار اُس کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ کسی کی نہیں سنتا۔ آخرکار شاید وہ خود گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرے یا پھر گھر کا سربراہ اُسے گھر چھوڑنے کو کہے۔ اِس طرح کی صورتحال کلیسیا میں بھی کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ایسے کام کرے جو یہوواہ کو پسند نہیں ہیں اور جن سے کلیسیا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور جب اُس کی مدد کی جائے تو وہ اِسے قبول کرنے سے اِنکار کر دے اور اپنے کاموں سے ظاہر کرے کہ وہ کلیسیا کا حصہ نہیں رہنا چاہتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود کلیسیا سے تعلق توڑنے کا فیصلہ کرے یا شاید اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جائے۔ جب ایسی صورتحال کھڑی ہوتی ہے تو بائبل میں یہ واضح ہدایت دی گئی ہے کہ ہم اُس شخص کے ساتھ ”اُٹھنا بیٹھنا بالکل چھوڑ دیں۔“ (1-کُرنتھیوں 5:11-13 کو پڑھیں؛ 2-یوحنا 9-11) لیکن ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر اگر وہ شخص ہمارا دوست یا گھر کا کوئی فرد ہو۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے یہوواہ کا وفادار رہنا، اُس شخص سے وفاداری نبھانے سے زیادہ اہم ہونا چاہیے۔—کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 8 کو دیکھیں۔
20، 21. (الف) سنگین گُناہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے خارج کرنے کے بندوبست سے یہوواہ کی محبت کیسے ظاہر ہوتی ہے؟ (ب) سوچ سمجھ کر دوستوں کا اِنتخاب کرنا اِتنا اہم کیوں ہے؟
20 سنگین گُناہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے خارج کرنے کے بندوبست سے یہوواہ کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔ اِس طرح کلیسیا ایسے لوگوں کے اثر سے محفوظ رہتی ہے جو یہوواہ کے معیاروں کو ناچیز خیال کرتے ہیں۔ (1-کُرنتھیوں 5:7؛ عبرانیوں 12:15، 16) اِس بندوبست کی حمایت کرنے سے ہم یہوواہ خدا، اُس کے نام اور اُس کے معیاروں کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں۔ (1-پطرس 1:15، 16) اِس کے علاوہ اِس سے اُس شخص کے لیے بھی محبت ظاہر ہوتی ہے جو اب کلیسیا کا رُکن نہیں ہے۔ اِس بندوبست کے ذریعے گُناہ کرنے والے شخص کی اِصلاح ہوتی ہے جس سے اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو سکتا ہے اور خود میں تبدیلی لانے کی ترغیب مل سکتی ہے۔ بہت سے لوگ جنہیں ماضی میں کلیسیا سے خارج کِیا گیا تھا، بعد میں یہوواہ کی طرف لوٹ آئے اور کلیسیا نے اُنہیں خوشی سے قبول کِیا۔—عبرانیوں 12:11۔
21 ہم سیکھ چُکے ہیں کہ ہمارے دوست ہم پر اچھا یا بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر دوستوں کا اِنتخاب کریں۔ اگر ہم ایسے لوگوں سے محبت کریں گے جن سے یہوواہ محبت کرتا ہے تو ہم ایسے دوست بنائیں گے جو ہمیشہ تک یہوواہ کا وفادار رہنے میں ہماری مدد کریں گے۔
a 2-سموئیل 22:26 (نیو اُردو بائبل ورشن): ”وفادار کے ساتھ تُو وفاداری سے پیش آتا ہے، اور راستباز کے ساتھ راستبازی سے۔“