یہوواہ کے گواہوں سے باتچیت
خدا کی بادشاہت نے کب حکمرانی کرنا شروع کی؟—پہلا حصہ
اِس مضمون میں دِکھایا گیا ہے کہ یہوواہ کے گواہ پاک کلام کے کسی موضوع پر لوگوں کے ساتھ کیسے بات کرتے ہیں۔ آئیں، دیکھیں کہ کرسٹوفر نامی ایک یہوواہ کا گواہ، سائمن نامی ایک آدمی کے گھر جا کر اُس سے کیسے بات کرتا ہے۔
’فہم [یعنی سمجھ] کی تلاش کرتے رہیں‘
کرسٹوفر: سائمن، مجھے آپ کے ساتھ بائبل پر باتچیت کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔a پچھلی بار جب ہم بات کر رہے تھے تو آپ نے مجھ سے خدا کی بادشاہت کے بارے میں ایک سوال پوچھا تھا۔ آپ نے پوچھا تھا کہ یہوواہ کے گواہ یہ کیوں مانتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت نے 1914ء میں حکمرانی کرنا شروع کی۔
سائمن: جی، مَیں نے آپ لوگوں کی ایک کتاب میں یہ پڑھا تھا کہ خدا کی بادشاہت نے 1914ء میں حکمرانی کرنا شروع کی۔ مَیں اِس بارے میں اَور جاننا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے سارے عقیدے بائبل پر مبنی ہوتے ہیں۔ مَیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ سن 1914ء کا بائبل سے تعلق کیسے ہے۔
کرسٹوفر: جی، بالکل صحیح کہا آپ نے۔
سائمن: مَیں نے پوری بائبل پڑھی ہے۔ لیکن مجھے نہیں یاد آتا کہ مَیں نے کوئی ایسی آیت پڑھی ہو جس میں 1914ء کا ذکر ہوا ہو۔ اِس لیے مَیں نے آنلائن بائبل دیکھی اور تلاش کے بٹن میں 1914ء ڈالا لیکن وہاں بھی کچھ نہیں ملا۔
کرسٹوفر: سائمن، ویسے مَیں آپ کی دو باتوں سے بہت متاثر ہوں۔ ایک تو یہ کہ آپ نے پوری بائبل پڑھی ہے۔ آپ کو یقیناً خدا کے کلام سے بہت محبت ہے۔
سائمن: جی بالکل۔ اِس جیسی کوئی اَور کتاب دُنیا میں ہے ہی نہیں۔
کرسٹوفر: صحیح کہا آپ نے۔ آپ کی دوسری بات جس سے مَیں بڑا متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے سوال کا جواب بائبل سے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ آپ نے وہی کِیا جو بائبل ہمیں کرنے کو کہتی ہے: ’فہم [یعنی سمجھ] کی تلاش کرتے رہیں۔‘b یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ اپنے سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے اِتنی کوشش کرتے ہیں۔
سائمن: شکریہ۔ مَیں اَور زیادہ سیکھنا چاہتا ہوں۔ دراصل مَیں نے 1914ء کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اُس کتاب میں بھی تھوڑی تحقیق کی جس سے آپ مجھے بائبل کورس کرا رہے ہیں۔ اِس میں ایک بادشاہ کے خواب کے بارے میں بتایا گیا ہے جس نے ایک بہت اُونچا درخت دیکھا۔ اِس درخت کو کاٹ ڈالا گیا لیکن پھر وہ دوبارہ بڑھ گیا۔
کرسٹوفر: جی جی۔ یہ دانیایل 4 باب میں لکھی پیشگوئی ہے۔ اِس میں بابل کے بادشاہ نبوکدنضر کے خواب کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
سائمن: جی جی یہی والی۔ مَیں نے اِس پیشگوئی کو بار بار پڑھا۔ لیکن سچ کہوں تو مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ اِس کا خدا کی بادشاہت یا 1914ء سے کیا تعلق ہے۔
کرسٹوفر: ویسے سائمن، جب دانیایل نبی نے خدا کے اِلہام سے یہ باتیں لکھیں تو وہ بھی اِن باتوں کو پوری طرح سے نہیں سمجھ پائے۔
سائمن: واقعی؟
کرسٹوفر: جی۔ دانیایل 12:8 میں اُنہوں نے کہا: ” مَیں نے سنا پر سمجھ نہ سکا ۔“
سائمن: چلیں اچھا ہے۔ مَیں اکیلا نہیں جو اِسے سمجھ نہیں پایا۔
کرسٹوفر: دراصل دانیایل اِن باتوں کو اِس لیے نہیں سمجھ پائے کیونکہ تب خدا کا وہ مقررہ وقت نہیں آیا تھا جب اِنسان دانیایل کی کتاب میں لکھی باتوں کو پوری طرح سے سمجھ پاتے۔ لیکن آج ہم اِن کا مطلب پوری طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔
سائمن: یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟
کرسٹوفر: دانیایل نے 8 آیت میں جو کہا، ذرا اُس سے اگلی والی آیت پر غور کریں۔ دانیایل 12:9 میں لکھا ہے: ”اَے دانیؔایل تُو اپنی راہ لے کیونکہ یہ باتیں آخری وقت تک بندوسربمہر رہیں گی۔“ اِس لیے اِن پیشگوئیوں کو ”آخری وقت“ سے پہلے نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔ اور بہت جلد آپ بائبل کورس کے دوران اُن تمام ثبوتوں پر غور کریں گے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اِس آخری وقت میں رہ رہے ہیں۔c
سائمن: تو کیا آپ مجھے دانیایل کی یہ پیشگوئی سمجھا سکتے ہیں؟
کرسٹوفر: جی مَیں پوری کوشش کروں گا۔
نبوکدنضر کا خواب
کرسٹوفر: سب سے پہلے تو مَیں آپ کو مختصراً یہ بتاتا ہوں کہ بادشاہ نبوکدنضر نے اپنے خواب میں کیا کچھ دیکھا۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ اُن باتوں کا مطلب کیا ہے۔
سائمن: ٹھیک ہے۔
کرسٹوفر: خواب میں نبوکدنضر نے ایک بہت ہی اُونچا درخت دیکھا جو آسمان تک پہنچ گیا۔ پھر اُس نے خدا کے ایک فرشتے کی آواز سنی جس نے یہ حکم دیا کہ درخت کو کاٹ ڈالا جائے۔ لیکن اُس نے کہا کہ اِسے جڑ سے نہ اُکھاڑا جائے۔ ”سات دَور“ گزر جانے کے بعد اِس درخت نے دوبارہ اُگ جانا تھا۔d اِس پیشگوئی کی پہلی تکمیل نبوکدنضر پر ہوئی۔ وہ خواب میں بتائے اُونچے درخت کی طرح تھا جو آسمان تک پہنچ گیا یعنی اُس کے پاس بہت اِختیار تھا۔ لیکن اُسے ”سات دَور“ کے لیے کاٹ ڈالا گیا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ پیشگوئی کے مطابق کیا ہوا تھا؟
سائمن: نہیں، مجھے یاد نہیں۔
کرسٹوفر: کوئی بات نہیں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ نبوکدنضر ”سات دَور“ یعنی سات سالوں تک اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ اُس دوران وہ بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ مگر سات سال ختم ہونے کے بعد اُس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو گیا اور وہ پھر سے حکمرانی کرنے لگا۔e
سائمن: ٹھیک ہے۔ ابھی تک تو ساری باتیں مجھے سمجھ میں آ گئیں۔ لیکن اِس سب کا خدا کی بادشاہت یا 1914ء سے کیا تعلق ہے؟
کرسٹوفر: اِس پیشگوئی کی دو تکمیلیں ہیں۔ پہلی تکمیل اُس وقت ہوئی جب بادشاہ نبوکدنضر کی حکمرانی وقتی طور پر تھم گئی۔ دوسری تکمیل اُس وقت ہوئی جب خدا کی حکمرانی وقتی طور پر تھم گئی۔ لہٰذا دوسری تکمیل کا تعلق خدا کی بادشاہت سے ہے۔
سائمن: آپ یہ کیسے جانتے ہیں کہ اِس پیشگوئی کی دوسری تکمیل بھی ہے اور اِس کا تعلق خدا کی بادشاہت سے ہے؟
کرسٹوفر: اِس کا ایک اِشارہ تو ہمیں پیشگوئی میں ہی ملتا ہے۔ دانیایل 4:17 کے مطابق یہ پیشگوئی اِس لیے کی گئی تاکہ ”سب ذیحیات پہچان لیں کہ حقتعالیٰ آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اُسے دیتا ہے۔“ کیا آپ نے آیت میں اِصطلاح ”آدمیوں کی مملکت“ پر غور کِیا؟
سائمن: جی یہاں بتایا گیا ہے: ”حقتعالیٰ آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے۔“
کرسٹوفر: بالکل ٹھیک۔ آپ کے خیال میں ”حقتعالیٰ“ کون ہے؟
سائمن: میرے خیال میں تو یہاں خدا کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔
کرسٹوفر: جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔ اِس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پیشگوئی صرف نبوکدنضر کے بارے میں نہیں تھی۔ اِس میں ”آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی“ بھی شامل تھی یعنی اِنسانوں پر خدا کی حکمرانی۔ اور اگر ہم پیشگوئی کی آگے اور پیچھے والی آیتوں پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ بات سچ بھی ہے۔
سائمن: کیا مطلب؟
دانیایل کی کتاب کا مرکزی موضوع
کرسٹوفر: دانیایل کی کتاب میں ایک خاص موضوع کے بارے میں بار بار بات کی گئی ہے۔ اِس میں اِس بات کو نمایاں کِیا گیا ہے کہ خدا کے بیٹے یسوع کی حکمرانی کے تحت خدا کی بادشاہت قائم ہوگی۔ آئیں، اِس حوالے سے دانیایل کے پہلے چند ابواب پر غور کرتے ہیں۔ کیا آپ مہربانی سے دانیایل 2:44 پڑھیں گے؟
سائمن: جی ضرور۔ یہاں لکھا ہے: ”اُن بادشاہوں کے ایّام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تاابد نیست نہ ہوگی اور اُس کی حکومت کسی دوسری قوم کے حوالہ نہ کی جائے گی بلکہ وہ اِن تمام مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی ابد تک قائم رہے گی۔“
کرسٹوفر: شکریہ سائمن۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اِس آیت میں یہوواہ کی بادشاہت کے بارے میں بات کی جا رہی ہے؟
سائمن: اّم۔ پتہ نہیں۔
کرسٹوفر: غور کریں کہ آیت میں کہا گیا ہے کہ یہ بادشاہت ”ابد تک قائم رہے گی۔“ اور یہ صرف خدا کی بادشاہت کے بارے میں ہی کہا جا سکتا ہے نہ کہ کسی اِنسانی حکومت کے بارے میں۔ کیا خیال ہے؟
سائمن: جی آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔
کرسٹوفر: ذرا دانیایل کی کتاب میں ایک اَور پیشگوئی پر بھی غور کریں جو خدا کی بادشاہت کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ یہ پیشگوئی دانیایل 7:13، 14 میں کی گئی ہے۔ اِن آیتوں میں مستقبل کے بادشاہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ”سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تاکہ سب لوگ اور اُمتیں اور اہِللغت اُس کی خدمتگزاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہوگی۔“ کیا آپ نے اِس پیشگوئی میں کوئی ایسا لفظ نوٹ کِیا جس پر آپ نے ابھی کچھ دیر پہلے غور کِیا تھا؟
سائمن: جی، اِس میں لفظ ”مملکت“ یعنی بادشاہت کا ذکر ہوا ہے۔
کرسٹوفر: بالکل۔ اور کسی ایسی ویسی بادشاہت کا نہیں بلکہ غور کریں کہ آیت میں کہا گیا ہے کہ یہ بادشاہت ’سب لوگوں اور اُمتوں اور اہِللغت‘ پر حکمرانی کرے گی۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو یہ بادشاہت پوری دُنیا پر حکمرانی کرے گی۔
سائمن: مَیں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ لیکن آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آیت میں تو یہی لکھا ہے۔
کرسٹوفر: اِس پیشگوئی میں ایک اَور بات پر بھی غور کریں۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ ”اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہوگی۔“ یہ بات بالکل ویسی نہیں لگتی جیسی ہم نے دانیایل 2:44 میں پڑھی تھی؟
سائمن: جی!
کرسٹوفر: ابھی تک ہم نے جو باتچیت کی ہے، آئیں، جلدی سے اُس کی دُہرائی کر لیتے ہیں۔ دانیایل 4 باب میں لکھی پیشگوئی اِس لیے کی گئی تاکہ سب لوگ یہ جان جائیں کہ ”حقتعالیٰ آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے۔“ اِن الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی صرف نبوکدنضر پر ہی پوری نہیں ہونی تھی بلکہ اِس کی ایک بڑی تکمیل بھی ہونی تھی۔ اور پوری دانیایل کی کتاب میں ہمیں ایسی پیشگوئیاں ملتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے بیٹے کی حکمرانی کے تحت خدا کی بادشاہت قائم ہوگی۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اِس بِنا پر ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ دانیایل 4 باب میں لکھی پیشگوئی کا خدا کی بادشاہت سے بھی تعلق ہے؟
سائمن: ہاں آپ کہہ تو صحیح رہے ہیں۔ لیکن مجھے ابھی بھی یہ سمجھ نہیں رہا کہ اِس کا تعلق 1914ء سے کیسے ہے۔
”سات دَور گزر جائیں“
کرسٹوفر: آئیں، پھر سے نبوکدنضر کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ پیشگوئی کی پہلی تکمیل اُس پر ہوئی جس میں اُسے ایک درخت سے تشبیہ دی گئی۔ اُس کی حکمرانی اُس وقت وقتی طور پر تھم گئی جب درخت کو کاٹ ڈالا گیا اور سات دَور تک اِسے چھوڑ دیا گیا۔ اِس عرصے میں اُس نے اپنا ذہنی توازن کھو دیا۔ یہ سات دَور اُس وقت ختم ہوئے جب نبوکدنضر کا ذہنی توازن ٹھیک ہو گیا اور اُس نے دوبارہ سے حکمرانی کرنا شروع کی۔ دوسری تکمیل میں خدا کی حکمرانی نے وقتی طور پر تھم جانا تھا لیکن اِس لیے نہیں کہ خدا حکمرانی کرنے کے قابل نہیں تھا۔
سائمن: یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔
کرسٹوفر: قدیم زمانے میں بنیاِسرائیل کے جو بادشاہ یروشلیم میں حکمرانی کرتے تھے، اُن کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ”[یہوواہ] کے تخت پر“ بیٹھتے ہیں۔f وہ یہوواہ کے بندوں پر حکمرانی کرنے سے اُس کی نمائندگی کرتے تھے۔ سو اِن بادشاہوں کی حکمرانی دراصل خدا کی حکمرانی کی نمائندگی کرتی تھی۔ لیکن بعد میں اِن بادشاہوں میں سے زیادہتر نے خدا کی نافرمانی کی اور اُن کے دیکھا دیکھی اُن کی زیادہتر رعایا بھی ایسا کرنے لگی۔ اِسرائیلیوں کی نافرمانی کی وجہ سے خدا نے 607 قبلازمسیح میں اُنہیں بابلیوں کے ہاتھ سے نہیں بچایا۔ اُس وقت سے یروشلیم میں یہوواہ کی نمائندگی کرنے والا کوئی بادشاہ نہیں رہا۔ اِس لحاظ سے خدا کی حکمرانی وقتی طور پر تھم گئی۔ کیا ابھی تک کی باتچیت آپ کو سمجھ آ رہی ہے نا؟
سائمن: جی جی۔
کرسٹوفر: تو 607 قبلازمسیح سے سات دَور شروع ہوئے یعنی وہ عرصہ جب خدا کی حکمرانی وقتی طور پر تھم گئی۔ اِس عرصے کے ختم ہونے پر خدا نے ایک نیا حکمران مقرر کرنا تھا جس نے اُس کی نمائندگی کرنی تھی۔ لیکن اِس بار یہ حکمران آسمان پر مقرر ہونا تھا۔ تب ہی وہ دیگر پیشگوئیاں بھی پوری ہونی تھیں جو ہم نے دانیایل کی کتاب میں پڑھیں۔ لیکن اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سات دَور کب ختم ہوئے؟ اگر ہم اِس سوال کا جواب جان لیں تو ہم یہ بھی جان جائیں گے کہ خدا کی بادشاہت نے کب حکمرانی کرنا شروع کی۔
سائمن: جی مَیں سمجھ گیا۔ سات دَور 1914ء میں ختم ہوئے نا؟
کرسٹوفر: جی، آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔
سائمن: لیکن ہمیں یہ کیسے پتہ چلتا ہے؟
کرسٹوفر: جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ سات دَور اُس وقت بھی ختم نہیں ہوئے تھے۔g تو اِس کا مطلب ہے کہ سات دَور کافی لمبا عرصہ تھا۔ یہ عرصہ یسوع مسیح کے زمین پر آنے سے سینکڑوں سال پہلے شروع ہوا اور اِسے یسوع کے آسمان پر واپس جانے کے بعد بھی کچھ وقت تک جاری رہنا تھا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ دانیایل کی پیشگوئیوں کا مطلب تب تک پوری طرح سے سمجھ نہیں آنا تھا جب تک ”آخری وقت“ نہ آ جاتا۔h یہ بڑی دلچسپی کی بات ہے کہ 18ویں صدی کے آخر میں سچائی کے پیاسے کچھ لوگوں نے اِس پیشگوئی اور بائبل میں لکھی کچھ اَور پیشگوئیوں کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کِیا۔ وہ یہ سمجھ گئے کہ سات دَور کا عرصہ 1914ء میں ختم ہوگا۔ اور اِس سال سے دُنیا میں جو بڑے بڑے واقعات ہو رہے ہیں، اُن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہی وہ سال تھا جب خدا کی بادشاہت نے آسمان پر حکمرانی کرنا شروع کی۔ اور اِسی سال سے اِس دُنیا کا ”آخری وقت“ یعنی آخری زمانہ شروع ہوا۔ مَیں سمجھ سکتا ہوں کہ اِن سب باتوں کو ایک دم سے سمجھنا اِتنا آسان نہیں ہے۔
سائمن: یہ تو ہے۔ مَیں اِن سب باتوں کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے دوبارہ سے اِن پر غور کروں گا ۔
کرسٹوفر: جی جی ضرور۔ لیکن فکر نہ کریں۔ مجھے بھی اِس بات کو سمجھنے میں کافی وقت لگا کہ یہ سب کڑیاں آپس میں کیسے جُڑتی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ابھی تک ہم نے جو باتچیت کی ہے، اُس سے آپ یہ دیکھ پائے ہوں گے کہ خدا کی بادشاہت کے حوالے سے یہوواہ کے گواہوں کے عقیدے بائبل پر مبنی ہیں۔
سائمن: بالکل، اَور مَیں اِس بات سے بہت متاثر بھی ہوں کہ آپ لوگ اِس بات کا بہت دھیان رکھتے ہیں کہ آپ کے عقیدے بائبل کے مطابق ہوں۔
کرسٹوفر: اور مَیں بھی یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ آپ اپنے سوالوں کے جواب بائبل سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا، اِن سب باتوں کو ایک دم سے سمجھنا مشکل ہے۔ یقیناً آپ کے ذہن میں ابھی بھی کچھ سوال ہوں گے۔ مثال کے طور پر ہم نے یہ تو دیکھ لیا ہے کہ سات دَور کا تعلق خدا کی بادشاہت سے ہے اور یہ عرصہ 607 قبلازمسیح میں شروع ہوا۔ لیکن ہم یہ پورے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سات دَور 1914ء میں جا کر ختم ہوئے؟i
سائمن: جی مَیں بالکل یہی سوچ رہا تھا۔
کرسٹوفر: بائبل ہی یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرے گی کہ اصل میں سات دَور کا عرصہ کتنا لمبا تھا۔ کیوں نہ ہم اگلی بار اِسی بارے میں بات کریں؟j
سائمن: جی ضرور!
کیا آپ پاک کلام سے متعلق کسی موضوع کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟ یا کیا آپ یہوواہ کے گواہوں کے عقیدوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کریں۔ وہ خوشی سے آپ کے سوالوں کے جواب دیں گے۔
a جب یہوواہ کے گواہ دوسروں کو بائبل کورس کراتے ہیں تو وہ اکثر بائبل کے کسی موضوع پر ترتیب سے باتچیت کرتے ہیں۔
b امثال 2:3-5۔
c کتاب ”پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں“ کے باب نمبر 9 کو دیکھیں۔ یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔ یہ ویبسائٹ www.jw.org پر بھی دستیاب ہے۔
d دانیایل 4:13-17۔
e دانیایل 4:20-36۔
g آخری زمانے کے بارے میں پیشگوئی کرتے ہوئے یسوع مسیح نے کہا: ” یروشلیم کو [جو کہ خدا کی حکمرانی کی نمائندگی کرتا ہے] اُس وقت تک قوموں کے پیروں تلے روندا جائے گا جب تک کہ قوموں کا مقررہ وقت پورا نہ ہو جائے۔ “ (لُوقا 21:24) لہٰذا خدا کی حکمرانی یسوع مسیح کے زمانے میں بھی تھمی رہی اور اِس نے آخری زمانے تک تھمے رہنا تھا۔
h دانیایل 12:9۔
i کتاب ”پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں“ میں حصہ مزید معلومات میں ”سن 1914 کے متعلق پاک صحائف کی پیشینگوئیاں“ کو دیکھیں۔
j مضامین کے اِس سلسلے کے اگلے مضمون میں بائبل کی کچھ ایسی آیتوں پر غور کِیا جائے گا جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سات دَور کتنے لمبے تھے۔