شادی کا دن—خوشگوار مگر مشقتطلب
بائبل آشکارا کرتی ہے کہ یہوواہ خدا پہلی شادی کا منتظم ہونے کی وجہ سے انسانوں کی نسبت زیادہ علم رکھتا ہے۔ اُس نے شادی کو معاشرے کی بنیادی اکائی کے طور پر قائم کِیا۔ (پیدایش ۲:۱۸-۲۴) چنانچہ خدا کے الہامی کلام بائبل میں، ہمیں مختلف اُصول ملتے ہیں جو شادی کی منصوبہسازی کرتے وقت ہماری مدد کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، یسوع نے کہا کہ مسیحیوں کو ’جو قیصر کا ہے قیصر کو ادا کرنا چاہئے۔‘ (متی ۲۲:۲۱) پس اُنہیں ملکی قانون کی تابعداری کرنی چاہئے۔ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے والی شادی بیاہتا اشخاص کو بہت سے طریقوں سے محفوظ رکھتی ہے جیسےکہ بچوں کے سلسلے میں اُنکی پرورش اور تعلیموتربیت کے علاوہ وراثت کے حقوق ادا کرنے کی ذمہداریاں۔ ایسے قوانین بھی ہیں جو خاندانی افراد کو بدسلوکی اور ناانصافی سے محفوظ رکھتے ہیں۔a
تیاریاں
ایک بار جب یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایک جوڑا شادی کریگا اور یہ کہ شادی بائبل کے آئین اور اُصولوں اور ملکی قانون کی مطابقت میں انجام پائیگی تو کن عملی معاملات کو زلیصفنغور لانا چاہئے؟ اس میں شادی کی تقریب کے طریقۂکار اور تاریخ کا تعیّن کرنا شامل ہوتا ہے۔
اس موضوع پر ایک کتاب بیان کرتی ہے، ”ممکن ہے جوڑے کے نظریات مکمل طور پر والدین کے نظریات سے مطابقت نہ رکھتے ہوں اور شاید وہ اپنے منصوبوں اور خاندانی روایات کے سلسلے میں حتمی فیصلہ نہ کر پائیں۔“ اس صورت میں کیا کِیا جا سکتا ہے؟ ”غور سے سننے، مسائل پر گفتگو کرنے اور مصالحت کا رُجحان ظاہر کرنے کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔ یہ سب کے لئے ایک جذباتی وقت ہوتا ہے اور پیشگی سوچبچار اور فہموفراست اِن انتظامات کو بطرسنہلےاحسن انجام دینے میں معاون ثابت ہونگی۔“—دی کمپلیٹ ویڈنگ آرگنائزر اینڈ ریکارڈ۔
اگرچہ شفیق والدین اس دن کو کامیاب بنانے کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں تاہم اُنہیں اپنی مرضی مسلّط کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ دوسری طرف، حتمی فیصلے کرنے کے سلسلے میں دُلہے اور دُلہن کو بھی اچھی مشورت پر دھیان دینا چاہئے۔ جوڑے کو تجاویز کو قبول کرنے کا فیصلہ کرتے وقت اس بائبل مشورت کو یاد رکھنا چاہئے: ”سب چیزیں روا تو ہیں مگر سب چیزیں مفید نہیں۔ سب چیزیں روا تو ہیں مگر سب چیزیں ترقی کا باعث نہیں۔ کوئی اپنی بہتری نہ ڈھونڈے بلکہ دوسرے کی۔“—۱-کرنتھیوں ۱۰:۲۳، ۲۴۔
تیاری میں دعوتنامے ارسال کرنے سے لے کر استقبالیے تک مختلف کارگزاریاں شامل ہیں۔ ایچ بومین اپنی کتاب میرج ماڈرنز میں کہتا ہے، ”تیاری جتنی زیادہ منظم اور منصوبہسازی میں جتنا زیادہ بصیرت سے کام لیا جاتا ہے، اُتنی ہی بھاگدوڑ اور تناؤ کم ہوگا۔“ تاہم وہ آگاہ کرتا ہے کہ ”بہترین حالات کے تحت بھی، کسی حد تک بھاگدوڑ کا سامنا ہو سکتا ہے اور یہ معقول بات ہے کہ اسے کم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔“
مختلف کام سرانجام دینے کیساتھ ساتھ مہماننوازی بھی اہم حصہ ہے۔ کیا اس سلسلے میں دوستوں یا خاندان والوں کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے؟ کیا ایسے کام ہیں جو دُلہا دُلہن کے علاوہ دیگر ذمہدار اشخاص کے سپرد کئے جا سکتے ہیں؟
اخراجات
معقول بجٹ بہت ضروری ہے۔ شادی کے سلسلے میں جوڑے یا اُنکے والدین سے ایسے اخراجات کی توقع کرنا معقول نہیں جو اُنکی استطاعت سے باہر ہیں اور جنکی وجہ سے وہ مقروض ہو سکتے ہیں۔ بیشتر لوگ جو زیادہ اخراجات کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ بھی اس تقریب کو سادہ رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ بہرکیف، بعض جوڑوں نے اندازاً اور اصلی اخراجات کی فہرست رکھنا مفید پایا ہے۔ ان تمام انتظامات کے سلسلے میں تاریخ مقرر کر لینا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سوچنا کہ سب باتوں کو یاد رکھا جا سکتا ہے بعدازاں پریشانکُن ہو سکتا ہے۔
شادی پر کتنے اخراجات ہونگے؟ یہ اخراجات مختلف جگہوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں مگر آپ جہاں کہیں بھی رہ رہے ہیں، خود سے یہ سوال پوچھنا بہتر ہوگا: ’ہم نے جو بھی منصوبہ بنایا ہے کیا ہم اِن تمام اخراجات کو پورا کر سکتے ہیں؟ کیا یہ واقعی ضروری ہیں؟‘ ایک نئی نویلی دُلہن ٹینا نے کہا: ”اُس وقت ’ناگزیر‘ دکھائی دینے والی چیزیں بھی بعد میں غیرضروری ثابت ہوئیں۔“ ذرا یسوع کی نصیحت پر غور کریں: ”تم میں ایسا کون ہے کہ جب وہ ایک بُرج بنانا چاہے تو پہلے بیٹھ کر لاگت کا حساب نہ کر لے کہ آیا میرے پاس اُس کے تیار کرنے کا سامان ہے یا نہیں؟“ (لوقا ۱۴:۲۸) اگر آپ اپنی پسند کی چیزیں لینے کی استطاعت نہیں رکھتے تو کچھ چیزیں فہرست سے نکال دیں۔ آپ مختلف چیزیں خریدنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود بھی سادگی برقرار رکھ سکتے ہیں۔
اٹلی میں، شادی کی خریداری کے سلسلے میں منعقد ہونے والے ایک میلے میں کچھ حسابات کا اندازہ لگایا گیا جن سے یہ ظاہر ہوا کہ ایک اطالوی دُلہن کتنا خرچ کر سکتی ہے۔ آرائشوزیبائش، ۴۵۰ ڈالر؛ کار کی سجاوٹ ۳۰۰ ڈالر؛ شادی کی ویڈیو ۶۰۰ ڈالر؛ شادی کا البم (تصاویر کے علاوہ) ۱۲۵ تا ۵۰۰ ڈالر؛ پھول ۶۰۰ ڈالر؛ بوکے، ۴۵-۹۰ ڈالر فیکس؛ لباس ۱،۲۰۰ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقریب کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی جدت پیدا کرنے کی خواہش یقینی ہے۔ تاہم ہر بات میں توازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔
اگرچہ بعض بےدریغ خرچ کرتے ہیں، دیگر سادگی سے خوش ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اُن کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا انتخاب نہیں ہوتا۔ ”ہم دونوں کُلوقتی مبشر تھے اور ہمارے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے مگر یہ بہت ضروری بھی نہیں تھا،“ ایک دُلہن نے کہا۔ ”میری ساس نے ڈریس کے لئے کپڑا خرید لیا اور میری ایک سہیلی نے یہ کہتے ہوئے اسکی سلائی کر دی کہ یہ میری طرف سے تمہاری شادی کا تحفہ ہے۔ دعوتنامے میرے شوہر نے خود لکھ لئے اور ایک مسیحی دوست نے ہمیں اپنی کار استعمال کرنے کے لئے دے دی۔ استقبالیے کے لئے ہم نے سامان خود خرید لیا اور کسی نے ہمیں وائن دے دی۔ اگرچہ یہ کوئی فضول خرچی نہیں تھی توبھی یہ کافی تھا۔“ ایک دُلہے کے مطابق، جب خاندان اور دوستاحباب مدد کرتے ہیں تو ”اخراجات بڑی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔“
اُنکی مالی حالت خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو، مسیحیوں کو ہر قسم کی بےاعتدالی، مادہپرستی یا نمودونمائش سے بچنا چاہئے۔ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) یہ کتنے دُکھ کی بات ہوگی اگر شادی جیسی پُرمسرت تقریب پر کوئی شخص اعتدالپسندی کے صحیفائی اُصولوں پر عمل کرنے میں ناکام رہتا ہے، جو پیٹوپن، میخواری یا اسی طرح کی دیگر چیزوں کے خلاف آگاہ کرتے ہیں جو کسی شخص کے ”بےالزام“ رہنے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں!—امثال ۲۳:۲۰، ۲۱؛ ۱-تیمتھیس ۳:۲۔
دوسروں سے بڑی اور بہتر شادی کرنے کے رُجحان سے گریز کریں۔ ذرا غور کریں کہ ایک ملک میں دو دُلہنوں نے بہت بڑی بڑی ویلز پہنی جن میں سے ایک کا قطر ۱۳ میٹر اور وزن تقریباً ۵۰۰ پاؤنڈ تھا جبکہ دوسری کی ویل ۳۰۰ میٹر لمبی تھی جسے اُٹھانے کیلئے ۱۰۰ برائڈمیڈز درکار تھیں۔ کیا ایسی مثالوں کی نقل کرنا بائبل کی اعتدالپسندی کی نصیحت کی مطابقت میں ہوگا؟—فلپیوں ۴:۵۔
کیا روایات کی پیروی کرنی چاہئے؟
ہر ملک میں شادی کی رسومات مختلف ہوتی ہیں لہٰذا اِن تمام کو زلیصفنبحث لانا ناممکن ہے۔ کسی رسم کی ادائیگی کے سلسلے میں فیصلہ کرتے وقت ایک جوڑا آپس میں باتچیت کے دوران یہ طے کر سکتا ہے: اسکا مقصد کیا ہے؟ کیا اسکا تعلق توہمپرستی یا باروری سے ہے—جیسےکہ نئےجوڑے پر چاول پھینکنا؟ کیا یہ کسی طرح جھوٹے مذہب یا ایسے کاموں سے وابستہ تو نہیں جن کی بائبل مذمت کرتی ہے؟ کیا یہ نامعقول یا غیرمشفقانہ ہے؟ کیا یہ دوسروں کیلئے ندامت یا ٹھوکر کا باعث بن سکتی ہے؟ کیا یہ جوڑے کے محرکات کو مشکوک بنا سکتی ہے؟ کیا یہ قالصفناعتراض ہے؟‘ اگر ان میں سے کسی بھی رسم کی بابت شکوک پائے جاتے ہیں تو بہتر ہوگا کہ اس سے گریز کِیا جائے اور اگر ضروری ہو تو مہمانوں کو قبلازوقت اپنے فیصلے سے مطلع کر دیں۔
خوشی اور دیگر جذبات
اس اہم دن پر خوشی اور غم کے ملےجلے جذبات تجربہ میں آ سکتے ہیں۔ ”اُس دن کی خوشی اتنی زیادہ تھی کہ ایسا لگ رہا تھا کوئی خواب سچ ہو گیا ہے،“ ایک دُلہن کہتی ہے۔ لیکن ایک دُلہا یاد کرتا ہے: ”یہ میری زندگی کا بدترین مگر بہترین دن بھی تھا۔ میرے سُسرالی بہت زیادہ رو رہے تھے کیونکہ مَیں اُنکی پہلوٹھی بیٹی کو اُن سے دُور لیجا رہا تھا، اپنے والدین کو روتا دیکھ کر میری بیوی بھی رو رہی تھی اور آخرکار میرے بھی آنسو بہنے لگے کیونکہ میرے لئے اُنہیں ضبط کرنا مشکل تھا۔“
اس طرح کے ردِعمل سے پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ جذباتی دباؤ کے باعث ہیں۔ اگر خاندانی تعلقات یا جوڑا بذاتِخود کسی حد تک تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے تو اس سے بھی حیران نہیں ہونا چاہئے۔ ”ممکن ہے انہیں اس سے پہلے ایسی بڑی تقریب کو ترتیب دینے کا اتفاق نہ ہوا ہو اور جوشوجذبہ یقیناً اُنکے تعلقات کو متاثر کرتا ہے،“ دی کمپلیٹ ویڈنگ آرگنائزر اینڈ ریکارڈ بیان کرتی ہے۔ ”اگر کام آپکی توقع کے مطابق انجام نہیں پا رہے تو اس سے پریشان نہ ہوں؛ ایسے موقع پر مشورت اور مدد حاصل کرنا بہت معاون ثابت ہوگا۔“
ایک دُلہا بیان کرتا ہے: ”ایک چیز جس کے لئے مَیں انتہائی ممنون ہو سکتا تھا اور جسکا مجھے ہمیشہ ملال رہیگا وہ یہ ہے کہ ایک ایسا صلاحکار ہونا چاہئے جسے آپ محرمِراز بنا کر اپنے دلی احساسات میں شریک کر سکتے ہیں۔“ ایک پُختہ دوست یا رشتہدار یا مسیحی کلیسیا کے کسی تجربہکار رکن کے علاوہ کون یہ کردار ادا کر سکتا ہے؟
جب والدین اپنے بچے کو گھر سے رُخصت ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ خوشی، فخر، گزرے وقت کی یادوں اور شدید گھبراہٹ کے ملےجلے احساسات کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، اُنہیں بےغرضی کے جذبے کی روشنی میں یاد رکھنا چاہئے کہ اب خالق کے مقصد کے مطابق اُن کے بچے کے لئے ”اپنے ماں باپ کو“ چھوڑنے اور اپنے ساتھی کے ساتھ رہنے اور ”ایک تن ہونے“ کا وقت ہے۔ (پیدایش ۲:۲۴) ایک ماں اپنے پہلوٹھے بیٹے کی شادی کی بابت اپنے ردِعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے یاد کرتی ہے: ”میری آنکھوں میں آنسو تھے مگر افسردگی کے ساتھ ساتھ یہ خوشی کے آنسو بھی تھے کہ مجھے ایک پیاری سی بہو مل رہی تھی۔“
اس تقریب کو خوشگوار اور حوصلہافزا بنانے کیلئے والدین اور دُلہے اور دُلہن کو تعاون، اطمینان، بےغرضی اور رواداری جیسی مسیحی خوبیوں کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۸؛ گلتیوں ۵:۲۲-۲۴؛ فلپیوں ۲:۲-۴۔
بعض دُلہنیں اس خوف کا شکار رہتی ہیں کہ اُن کی شادی کے دن کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہوگی۔ کار کا ٹائر پنکچر ہو جانے کی وجہ سے پہنچنے میں تاخیر ہو جائیگی، موسم خراب ہو جائیگا یا شاید آخری لمحوں میں شادی کے لباس کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ممکن ہے ایسا کچھ نہ ہو۔ تاہم، حقیقتپسند بنیں۔ سب کام تو پوری طرح اطمینان بخش نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی طرح کی رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔ (واعظ ۹:۱۱) مشکلات کی صورت میں اپنے مزاح کی حس نہ کھوئیں اور اپنی سوچ کو مثبت رکھیں۔ اگر کچھ گڑبڑ ہو بھی جاتی ہے تو یاد رکھیں کہ آنے والے سالوں کے دوران آپ اس کی بابت بیان کرکے ضرور محظوظ ہونگے۔ چھوٹیموٹی غلطیوں کو شادی کی خوشی پر حاوی نہ ہونے دیں۔
[فٹنوٹ]
a اس سلسلے میں، کئی ممالک دو زوجیت، محرمات سے شادی یا مباشرت، دھوکادہی، ازدواجی تشدد اور نابالغوں کی شادی کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔
[صفحہ ۷ پر عبارت]
”اُس وقت ’ناگزیر‘ دکھائی دینے والی چیزیں بھی بعد میں غیرضروری ثابت ہوئیں۔“—دُلہن ٹینا بیان کرتی ہے
[صفحہ ۷ پر بکس/تصویریں]
تیاریوں کی فہرست کا ایک نمونہb
۶ ماہ یا اس سے بھی پہلے
❑ منصوبہسازی کے سلسلے میں مستقبل کے شوہر اور بیوی، سُسرالیوں اور والدین کیساتھ گفتگو کریں
❑ اس بات کا تعیّن کریں کہ آپ کیسی شادی چاہتے ہیں
❑ بجٹ تیار کریں
❑ قانونی تقاضوں کا جائزہ لیں
❑ استقبالیے کی جگہ بُک کروائیں
❑ فوٹوگرافر سے رابطہ کریں
۴ ماہ
❑ اس بات کا فیصلہ کریں کہ آپ شادی کا لباس (الماری میں پہلے سے موجود) کپڑوں سے بنائینگے، خریدیں گے یا سلائی کروائیں گے
❑ پھولوں کا آرڈر دیں
❑ دعوتناموں کا انتخاب کریں اور آرڈر دیں
۲ ماہ
❑ دعوتنامے بھیجیں
❑ انگوٹھیاں خریدیں
❑ ضروری کاغذات مکمل کریں
۱ ماہ
❑ شادی کا لباس پہن کر دیکھ لیں
❑ آرڈرز اور دیگر انتظامات کی تصدیق کر لیں
❑ پہلے سے موصول ہو جانے والے تحائف کے لئے شکریہ کے خطوط لکھیں
۲ ہفتے
❑ ذاتی چیزوں کو رہائش کی نئی جگہ پر منتقل کرنا شروع کر دیں
۱ ہفتہ
❑ اس بات کا یقین کر لیں کہ مدد کرنے والے تمام لوگ اپنے اپنے کام سے بخوبی واقف ہیں
❑ کرایے پر یا اُدھار حاصل کی جانے والی چیزوں کی واپسی کا بندوبست بنا لیں
❑ اگر ممکن ہو تو تمام کام دوسروں میں بانٹ دیں
[فٹنوٹ]
b اس میں مقامی قانونی تقاضوں اور ذاتی حالات کے مطابق ردوبدل کِیا جا سکتا ہے۔
[صفحہ ۸ پر تصویر]
”جسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے“