ہم پہلے انسانی جوڑے سے سبق سیکھ سکتے ہیں
خدا نے کرۂارض کا جائزہ لیا۔ وہ اِسے انسانی رہائش کیلئے آراستہوپیراستہ کر رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ اُسکی تمام مصنوعہ چیزیں اچھی تھیں۔ دراصل، جب تمام کام مکمل ہو گیا تو اُس نے کہا کہ ”بہت اچھا“ ہے۔ (پیدایش ۱:۱۲، ۱۸، ۲۱، ۲۵، ۳۱) تاہم، اس کامل اختتام پر پہنچنے سے پہلے، خدا نے ایک چیز کی بابت کہا کہ وہ ’اچھی نہیں‘ ہے۔ بِلاشُبہ، خدا کی خلقت میں کوئی نقص نہیں تھا۔ بات صرف یہ تھی کہ ابھی اُس کی تخلیق مکمل نہیں ہوئی تھی۔ یہوواہ نے فرمایا: ”آدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کیلئے ایک مددگار اُسکی مانند بناؤنگا۔“—پیدایش ۲:۱۸۔
یہوواہ کا مقصد تھا کہ انسانی معاشرہ زمینی فردوس میں تندرستی، خوشحالی اور دیگر بیشمار چیزوں کے ساتھ ابدی زندگی سے لطفاندوز ہو۔ آدم تمام نوعِانسان کا باپ تھا۔ اُس کی بیوی، حوا ”سب زندوں کی ماں“ بنی۔ (پیدایش ۳:۲۰) اِس وقت زمین اُن کے اربوں بچوں سے معمور تو ہے مگر وہ سب ناکامل ہیں۔
آدم اور حوا کی کہانی بہت مشہور ہے۔ مگر اس سے ہمیں کونسا عملی فائدہ پہنچتا ہے؟ ہم پہلے انسانی جوڑے کے تجربات سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
”نروناری اُنکو پیدا کِیا“
جب آدم جانوروں کے نام رکھ رہا تھا تو اُس نے دیکھا کہ تمام جانوروں کے جوڑے ہیں مگر اُسکا کوئی ساتھی نہیں ہے۔ لہٰذا، جب یہوواہ اُسی کی پسلی سے حسنوجمال کی پیکر ایک عورت کو بنا کر اُسکے پاس لایا تو اُسے دیکھ کر وہ خوشی کے مارے جھوم اُٹھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ اُسی کے جسم کا ایک حصہ ہے آدم نے کہا: ”یہ تو اب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اِس لئے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی۔“—پیدایش ۲:۱۸-۲۳۔
آدمی کو ایک ”مددگار“ کی ضرورت تھی۔ اب اُسے بالکل موزوں مددگار مِل گیا تھا۔ حوا اپنے باغنما گھر اور جانوروں کی دیکھبھال، افزائشِنسل اور مخلص رفیقِحیات کے طور پر تائیدوحمایت کے سلسلے میں آدم کی حقیقی تکملہ تھی۔—پیدایش ۱:۲۶-۳۰۔
یہوواہ نے اس جوڑے کی تمام معقول خواہشات کی تسکین کا بندوبست کر رکھا تھا۔ خدا حوا کو اُسکے شوہر کے پاس لایا اور اُنہیں ایک دائمی بندھن میں باندھ دیا اور یوں معاشرے کی تنظیم کیلئے شادی اور خاندان کے دستورات کا آغاز ہوا۔ پیدایش کا بیان یوں کہتا ہے: ”مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑیگا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہونگے۔“ چنانچہ جب یہوواہ نے پہلے بیاہتا جوڑے کو پھلنےپھولنے کی برکت دی تو اس کا مقصد یہی تھا کہ ہر بچہ ایک پُرمحبت خاندان میں پیدا ہو جہاں باپ اور ماں اُس کی نگہداشت کریں۔—پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۲۴۔
”خدا کی صورت پر“
آدم خدا کا کامل بیٹا تھا جو اُسکی ’صورت اور شبِیہ‘ پر بنا تھا۔ تاہم، ”خدا رُوح ہے“ اسلئے یہ مشابہت جسمانی نہیں ہو سکتی تھی۔ (پیدایش ۱:۲۶؛ یوحنا ۴:۲۴) یہ صفاتی مشابہت تھی جس نے انسان کو اشرفالمخلوقات بنا دیا۔ انسان میں شروع ہی سے محبت، حکمت، قدرت اور انصاف کی صفات جاگزین کی گئی تھیں۔ اُسے آزاد مرضی اور روحانیت کی صفت سے بھی نوازا گیا تھا۔ ایک پیدائشی اخلاقی حس یا ضمیر نے اُسے صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے کے قابل بنایا تھا۔ انسان اپنی ذہنی صلاحیت کی بدولت انسانی تخلیق کی وجہ پر غوروفکر کرنے، اپنے خالق کی بابت علم اور اُسکی قربت حاصل کرنے کے قابل ہوا۔ پس، آدم خدا کی تمام زمینی دستکاری کی نگرانی کرنے کی ذمہداری نبھانے کیلئے پوری طرح لیس تھا۔
حوا حکمعدولی کرتی ہے
بِلاشُبہ، آدم نے حوا کو یہوواہ کی طرف سے اس واحد ممانعت سے فوراً آگاہ کر دیا ہوگا: وہ نیکوبد کی پہچان کے درخت کے سوا اپنے باغنما گھر کے ہر درخت کا پھل کھا سکتے تھے۔ اگر وہ اس کا پھل کھائیں گے تو اُسی روز مر جائینگے۔—پیدایش ۲:۱۶، ۱۷۔
اِس ممنوعہ پھل سے متعلق جلد ہی ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ ایک سانپ حوا سے مخاطب ہوا جسے دراصل ایک نادیدہ مخلوق اپنے آلۂکار کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ سانپ نے ظاہری معصومیت سے پوچھا: ”کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟“ حوا نے جواب دیا کہ وہ ایک درخت کے پھل کے سوا باقی تمام درختوں کا پھل کھا سکتے ہیں۔ لیکن سانپ نے خدا کی بات کو جھٹلاتے ہوئے عورت سے کہا: ”تُم ہرگز نہ مرو گے۔ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائینگی اور تُم خدا کی مانند نیکوبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔“ عورت ممنوعہ درخت کو اب ایک فرق نقطۂنگاہ سے دیکھنے لگی۔ ”درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے۔“ یوں، فریبخوردہ حوا نے خدا کا حکم توڑ دیا۔—پیدایش ۳:۱-۶؛ ۱-تیمتھیس ۲:۱۴۔
کیا حوا کا گناہ سے بچنا ناممکن تھا؟ ہرگز نہیں! ذرا خود کو حوا کی جگہ پر رکھ کر سوچئے۔ سانپ کے دعوے نے خدا اور آدم کی بات کی بالکل نفی کر دی تھی۔ اگر آپ کسی شخص سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اُس پر بھروسا رکھتے ہیں مگر کوئی اجنبی اُس پر بددیانتی کا الزام لگاتا ہے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ حوا کو فرق ردِعمل دکھانا چاہئے تھا اور ناپسندیدگی اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اُسکی بات پر کان نہیں لگانا چاہئے تھا۔ بہرحال، خدا کی راستی اور اُسکے شوہر کی بات کو مشتبہ قرار دینے والا سانپ کون ہوتا تھا؟ سرداری کے اُصول کے احترام کے پیشِنظر حوا کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مشورہ ضرور کر لینا چاہئے تھا۔ اسی طرح اگر ہمیں بھی خدائی ہدایات کے برعکس کوئی بات بتائی جاتی ہے تو ہمیں مشورت کے طالب ہونا چاہئے۔ تاہم، حوا نے نیکوبد کا فیصلہ خود کرنے کی خواہش سے مغلوب ہوکر آزمانے والے کی بات کا یقین کر لیا۔ وہ جتنا زیادہ اس خیال پر سوچتی وہ اُسے اُتنا ہی زیادہ دلکش لگتا تھا۔ اس بات کو ذہن سے نکالنے یا اپنے شوہر سے اس مسئلے پر گفتگو کرنے کی بجائے اُس نے اِس غلط خواہش پر مسلسل سوچبچار کرنے سے بہت بڑی غلطی کی!—۱-کرنتھیوں ۱۱:۳؛ یعقوب ۱:۱۴، ۱۵۔
آدم اپنی بیوی کی بات مانتا ہے
حوا نے جلد ہی آدم کو بھی اپنے گناہ میں شریک کر لیا۔ ہم آدم کی طرف سے بِلاحیلوحجت حوا کی بات مان لینے کی وضاحت کیسے کریں گے؟ (پیدایش ۳:۶، ۱۷) آدم کی وفاداری بٹ گئی تھی۔ کیا وہ اپنے خالق کی فرمانبرداری کرے گا جس نے اُسے ایک خوبصورت بیوی کے علاوہ دیگر تمام نعمتیں بھی عطا کی تھیں؟ کیا آدم موجودہ صورتحال میں کوئی بھی قدم اُٹھانے کے لئے خدائی راہنمائی کا طالب ہوگا؟ یا کیا وہ اپنی بیوی کے آگے جھک جائے گا؟ آدم اچھی طرح جانتا تھا کہ ممنوعہ پھل کھانے کے سلسلے میں اُس کی بیوی کی توقع ایک دھوکا تھی۔ پولس رسول نے الہام سے لکھا: ”آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑ گئی۔“ (۱-تیمتھیس ۲:۱۴) لہٰذا، آدم نے جانبوجھ کر یہوواہ سے مُنہ موڑ لیا۔ بدیہی طور پر اپنی بیوی سے جُدائی کا خوف اس مسئلے کو سلجھانے کی خدائی لیاقت پر اُس کے ایمان پر ہاوی ہو گیا تھا۔
آدم کا یہ فعل نہ صرف خودکُشی بلکہ اپنی تمام اولاد کے قتل کے مترادف بھی تھا جسے پیدا کرنے کی یہوواہ نے بڑے رحم سے اجازت دے دی تھی کیونکہ تمام انسان گناہ کی سزا موت کے تابع پیدا ہوئے تھے۔ (رومیوں ۵:۱۲) خودغرضانہ نافرمانی کی کتنی بڑی لاگت!
گناہ کے نتائج
گناہ کا فوری نتیجہ شرمندگی تھا۔ خوشی خوشی بھاگ کر یہوواہ سے بات کرنے کی بجائے اس جوڑے نے خود کو چھپا لیا۔ (پیدایش ۳:۸) خدا کیساتھ اُنکی دوستی ختم ہو چکی تھی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ اُنہوں نے کیا کِیا تو اُنہوں نے ذرا بھی پشیمانی کا اظہار نہ کِیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اُنہوں نے خدا کی حکمعدولی کی ہے۔ ممنوعہ پھل کھانے سے اُنہوں نے الہٰی نیکی کو ٹھکرا دیا تھا۔
خدا نے واضح کِیا کہ اس کے نتیجے میں وضعحمل کا وقت نہایت تکلیفدہ ہوگا۔ حوا کی رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ اُس پر حکومت کرے گا۔ لہٰذا، اُس کیلئے خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کے نتائج بہت بھیانک نکلے۔ آدم کو اَب محنتومشقت کرکے زمین سے اناج اُگا کر کھانا پڑے گا۔ عدن میں تو وہ بآسانی اپنی بھوک مٹا لیتا تھا مگر اب اُسے اپنی ضروریاتِزندگی پوری کرنے کے لئے اُس وقت تک خونپسینہ بہانا ہوگا جب تک وہ پھر خاک میں نہیں لوٹ جاتا کیونکہ وہ خاک ہی سے نکالا گیا تھا۔—پیدایش ۳:۱۶-۱۹۔
بالآخر، آدم اور حوا کو باغِعدن سے نکال دیا گیا۔ یہوواہ نے فرمایا: ”دیکھو انسان نیکوبد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لیکر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔“ ایک مذہبی عالم گورڈن وینہم بیان کرتا ہے کہ ”یہ جملہ اُدھورا ہے“ اور خدا کی باقی بات ہمیں خود پوری کرنی چاہئے جو شاید یوں ہوگی کہ ”مَیں اُسے باغ سے بیدخل کر دونگا۔“ عموماً، بائبل مصنّفین خدا کی پوری بات بیان کرتے ہیں۔ لیکن وینہم مزید بیان کرتا ہے کہ یہاں ”فیصلے کی عدمبیانی خدا کی فوری کارروائی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ابھی یہ بات اُس کے مُنہ میں ہی ہوگی کہ اُنہیں باغ سے نکال دیا گیا ہوگا۔“ (پیدایش ۳:۲۲، ۲۳) اس کے ساتھ ہی یہوواہ اور پہلے جوڑے کے مابین رابطے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
آدم اور حوا جسمانی اعتبار سے ۲۴ گھنٹے کے دن میں نہیں مرے تھے۔ البتہ، وہ روحانی اعتبار سے مر گئے تھے۔ وہ زندگی کے ماخذ سے ایسے جُدا ہوئے کہ اب اُسکے ساتھ اُنکا ملاپ ناممکن تھا اسلئے وہ دھیرےدھیرے نحیف ہو کر بالآخر موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ذرا تصور کریں کہ جب اُن کے پہلوٹھے بیٹے قائن نے اُن کے دوسرے بیٹے ہابل کو قتل کر دیا تو اس پہلی موت کو دیکھنا اُن کیلئے کتنا المناک تھا!—پیدایش ۴:۱-۱۶۔
اسکے بعد، پہلے انسانی جوڑے کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ اُنکے تیسرے بیٹے، سیت کی پیدائش کے وقت آدم کی عمر ۱۳۰ برس تھی۔ آدم نے ۸۰۰ برس اَور زندہ رہنے کے بعد ۹۳۰ سال کی عمر میں وفات پائی اور اُس سے ”بیٹے اور بیٹیاں“ پیدا ہوئیں۔ —پیدایش ۴:۲۵؛ ۵:۳-۵۔
ہمارے لئے سبق
پہلے بیاہتا جوڑے کی سرگزشت موجودہ انسانی معاشرے کی خستہحالی کا سبب آشکارا کرنے کے علاوہ ایک بنیادی سبق بھی سکھاتی ہے۔ یہوواہ خدا سے خودمختاری کا دعویٰ سراسر حماقت ہے۔ جو لوگ واقعی دانشمند ہیں وہ اپنی ذاتی علمیت کی بجائے یہوواہ اور اُسکے کلام پر بھروسا رکھتے ہیں۔ یہوواہ ہی نیکوبد کا معیار قائم کرتا ہے اور راستی سے مُراد اُسکی اطاعتشعاری ہے۔ خطاکاری کا مطلب اُسکے قوانین کی خلافورزی اور اُسکے اصولوں سے غفلت ہے۔
ماضی کی طرح خدا آج بھی اُن تمام چیزوں—ابدی زندگی، آزادی، اطمینان، شادمانی، صحت، اَمن، خوشحالی اور نئی دریافتوں—کی پیشکش کرتا ہے جنکی انسان ممکنہ طور پر خواہش کر سکتے ہیں۔ تاہم، اگر ہم ان سب چیزوں سے لطف اُٹھانا چاہتے ہیں تو اپنے آسمانی باپ، یہوواہ پر مکمل انحصار کی ضرورت کو سمجھنا ہمارے لئے بیحد ضروری ہے۔—واعظ ۳:۱۰-۱۳؛ یسعیاہ ۵۵:۶-۱۳۔
[صفحہ ۲۶ پر بکس/تصویر]
آدم اور حوا—محض افسانہ؟
گناہ کے باعث اصلی فردوس چھن جانے کا عقیدہ قدیمی بابلیوں، اسوریوں، مصریوں اور دیگر اقوام میں بھی عام تھا۔ بیشتر سرگزشتوں میں مشترک چیز حیات کا درخت تھا جسکے پھل میں حیاتِابدی دینے کی قوت تھی۔ پس، نسلِانسانی کو یاد ہے کہ باغِعدن میں کوئی المناک بات ضرور واقع ہوئی تھی۔
آجکل، بہتیرے لوگ آدم اور حوا کو محض افسانوی کردار سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ تاہم، بیشتر سائنسدان سمجھتے ہیں کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔ بہتیرے مذہبی علما بھی نوعِانسان میں ایک ہی جد کے گناہ کے اثرات کی منتقلی سے انکار نہیں کرتے۔ انسان کا ایک سے زائد ذرائع سے وجود میں آنے کا اعتقاد اُنہیں یہ کہنے پر مجبور کر دیگا کہ پہلا گناہ بھی ایک سے زیادہ اجداد نے کِیا تھا۔ یوں، وہ اس حقیقت سے بھی منکر ہو جائیں گے کہ مسیح نے نوعِانسان کو مخلصی بخشی جو ”پچھلا آدم“ ہے۔ تاہم یسوع اور اُس کے شاگردوں کو ایسے کسی بھی مسئلے کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ وہ پیدایش کی سرگزشت کو ایک مسلمہ حقیقت سمجھتے تھے۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۲، ۴۵؛ پیدایش ۱:۲۷؛ ۲:۲۴؛ متی ۱۹:۴، ۵؛ رومیوں ۵:۱۲-۱۹۔