پاک صحیفوں کی روشنی میں
والدین اپنے بچے کے لئے کیا چاہتے ہیں؟
آپ اپنے بچے کو کیسا بنانا چاہتے ہیں؟
(الف) بالکل اپنے جیسا۔
(ب) سرکش۔
(ج) سمجھدار۔
کچھ والدین کہتے تو یہ ہیں کہ ”ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ سمجھدار بنے“ لیکن اُن کے برتاؤ سے لگتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بالکل اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے والدین اپنے بچوں پر اپنی مرضی مسلّط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ اُنہیں کونسا پیشہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایسے برتاؤ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ جونہی بچے تھوڑے بڑے ہوتے ہیں، وہ اپنی منمانی کرنے لگتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ جب والدین اپنے بچوں سے ایسا برتاؤ کرتے ہیں تو اکثر اُن کے بچے سرکش ہو جاتے ہیں۔
بچوں کو کٹھپتلی نہ بنائیں
یقیناً آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے سمجھدار بنیں اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔ کچھ والدین اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنے بچوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو کٹھپتلی بنانا چاہتے ہیں جو اُن کے اشاروں پر چلے۔ لیکن ایسا برتاؤ غلط ہے۔ آئیں، اِس کی دو وجوہات پر غور کریں۔
۱. ایسا برتاؤ پاک صحیفوں کے مطابق نہیں۔ خدا نے انسانوں کو اِس بات کی اجازت دی کہ وہ اپنے لئے خود راہ چنیں، چاہے یہ اچھی ہو یا بُری۔ اِس سلسلے میں اُس واقعے پر غور کریں جو قائن کے ساتھ پیش آیا۔ اُن کو اپنے بھائی پر اِتنا غصہ تھا کہ وہ اُنہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔ اِس وجہ سے یہوواہ خدا نے قائن کو یوں تاکید کی: ”اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تُو بھلا نہ کرے تو گُناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تُو اُس پر غالب آ۔“—پیدایش ۴:۷۔
غور کریں کہ یہوواہ خدا نے قائن کو یہ ضرور بتایا تھا کہ اُنہیں کیا کرنا چاہئے لیکن اُس نے قائن کو اپنا کہنا ماننے پر مجبور نہیں کِیا تھا۔ یہ فیصلہ قائن کو کرنا تھا کہ آیا وہ اپنے غصے پر غالب آئیں گے یا نہیں۔ والدین اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ذرا سوچیں کہ اگر یہوواہ خدا انسانوں کو اپنی بات ماننے کے لئے مجبور نہیں کرتا تو کیا والدین کو اپنے بچوں کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ اُن کی بات مانیں؟
۲. بچے اکثر سرکش ہو جاتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک دُکاندار آپ کے پیچھے پڑ جاتا ہے کہ آپ ایک چیز خریدیں۔ جتنا زیادہ وہ آپ کو اِس چیز کو خریدنے پر مجبور کرتا ہے اُتنا ہی آپ اِس بات پر اڑ جاتے ہیں کہ آپ اِس کو نہیں خریدیں گے۔ شاید آپ کو اُس چیز کی ضرورت بھی ہو لیکن دُکاندار کے رویے کی وجہ سے آپ اِسے نہیں لیتے بلکہ اپنی جان چھڑا کر وہاں سے نکلنے کی کرتے ہیں۔
اِسی طرح اگر آپ اپنے بچے کو مجبور کریں گے کہ وہ آپ کے اصولوں، عقیدوں اور قدروں کو اپنائے تو کیا وہ آپ کی بات مانے گا؟ اِس کا کم ہی امکان ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے برتاؤ کی وجہ سے آپ کے اصولوں اور عقیدوں سے چڑنے لگے۔ جب والدین اپنے بچوں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اکثر اُن کے بچے سرکش ہو جاتے ہیں۔ تو پھر آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے بچے سمجھدار بنیں؟
اپنے بچے کو کٹھپتلی بنانے کی کوشش نہ کریں۔ جب وہ چھوٹا تھا تو شاید آپ اُسے کہنا ماننے پر مجبور کر لیتے تھے۔ لیکن اب آپ کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہئے۔ اپنے بچے کو سمجھائیں کہ اچھی راہ اختیار کرنے میں اُسی کی بھلائی ہے۔ اُسے بتائیں کہ اگر وہ پاک صحیفوں میں پائے جانے والے اصولوں پر عمل کرے گا تو وہ زندگی بھر خوش رہے گا۔—یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸۔
اپنے بچوں کے لئے اچھی مثال بنیں۔ خود میں ایسی خوبیاں پیدا کریں جو آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں میں بھی ہوں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۱) اپنے کاموں اور باتوں سے بچوں پر واضح کریں کہ آپ کن اصولوں پر چل رہے ہیں۔ (امثال ۴:۱۱) اگر آپ کے بچے کے دل میں خدا کے لئے محبت اور اُس کے اصولوں کے لئے قدر ہوگی تو وہ اُس وقت بھی سمجھداری سے کام لے گا جب آپ پاس نہیں ہوں گے۔—زبور ۱۱۹:۹۷؛ فلپیوں ۲:۱۲۔
بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھائیں
جیسا کہ اِس رسالے کے دوسرے صفحے پر بتایا گیا ہے، وہ وقت جلد آ جائے گا جب آپ کا بچہ آپ ”کو چھوڑے گا“ اور اپنا گھر بسائے گا۔ (پیدایش ۲:۲۴) یقیناً آپ چاہتے ہیں کہ یہ وقت آنے سے پہلے آپ کا بچہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھے۔ اِس سلسلے میں آپ اُس کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ ابھی جبکہ وہ نوجوان ہے، آپ اُس کو بہت سی ایسی باتیں سکھا سکتے ہیں جو بعد میں اُس کے کام آئیں گی۔ آئیں، دیکھیں کہ آپ اُسے کیاکیا سکھا سکتے ہیں۔
گھر کے کامکاج۔ کیا وہ کھانا پکا سکتا ہے؟ کیا اُسے کپڑے دھونا اور اِستری کرنا آتا ہے؟ کیا وہ اپنا کمرا صاف رکھتا ہے اور چیزوں کو اُن کی جگہ پر رکھتا ہے؟ کیا اُسے موٹرسائیکل یا گاڑی کی سروس اور مرمت کے سلسلے میں چھوٹےموٹے کام آتے ہیں؟ جب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے کام سیکھ لیتے ہیں تو وہ آئندہ اپنا گھر بھی سنبھال سکیں گے۔ پولس رسول نے کہا تھا کہ اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ضرورتیں پوری کرنا سیکھا۔—اعمال ۲۰:۳۴۔
ادبواحترام۔ (یعقوب ۳:۱۷) کیا اُس کی دوسروں کے ساتھ بنتی ہے؟ اگر اُس کی کسی کے ساتھ اَنبن ہو گئی ہے تو کیا وہ معاملے کو جھگڑا کئے بغیر سلجھاتا ہے؟ کیا آپ نے اُس کو سکھایا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ ادبواحترام سے پیش آئے؟ (افسیوں ۴:۲۹، ۳۱، ۳۲) پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”سب کی عزت کرو۔“—۱-پطرس ۲:۱۷۔
پیسہ سنبھالنا۔ (لوقا ۱۴:۲۸) کیا آپ نے اُسے کچھ ایسے ہنر سکھائے ہیں جن کی بِنا پر وہ آئندہ کوئی پیشہ اختیار کر سکے؟ کیا آپ نے اُسے سکھایا ہے کہ وہ پیسے حسابکتاب کرکے خرچ کرے؛ قرضے سے بچے؛ فضولخرچی نہ کرے؛ پیسے کی بچت کرے تاکہ ضرورت کی چیزیں خرید سکے اور جو کچھ اُس کے پاس ہے، اُس پر راضی رہے؟ (امثال ۲۲:۷) پولس رسول نے لکھا: ”اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعت کریں۔“—۱-تیمتھیس ۶:۸۔
جو نوجوان اچھے اصول سیکھنے کے ساتھساتھ گھر کے کامکاج کرنا، دوسروں کے ساتھ ادبواحترام سے پیش آنا اور پیسہ سنبھالنا سیکھ لیتے ہیں، وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ یوں بچے سمجھدار بن جاتے ہیں اور اپنے والدین کو خوش کرتے ہیں۔—امثال ۲۳:۲۴۔
کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ . . .
● آپ اپنے بچوں کے لئے کیا چاہتے ہیں؟—عبرانیوں ۵:۱۴۔
● جب آپ کا بچہ جوان ہو جائے گا تو اُسے کس بات کا فیصلہ خود کرنا ہوگا؟—یشوع ۲۴:۱۵۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویریں]
آپ اپنے بچے کو کیسا بنانا چاہتے ہیں؟
بالکل اپنے جیسا
سرکش
سمجھدار