”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
6-12 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | پیدایش 1، 2
”یہوواہ نے زمین پر جانداروں کو بنایا“
(پیدایش 1:3، 4) اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی۔ 4 اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جُدا کِیا۔
(پیدایش 1:6) اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جُدا ہو جائے۔
(پیدایش 1:9) اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خشکی نظر آئے اور ایسا ہی ہوا۔
(پیدایش 1:11) اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور بیجدار بوٹیوں کو اور پھلدار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلیں اور جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھیں اُگائے اور ایسا ہی ہوا۔
آئیٹی-1 ص. 527، 528
تخلیق
جب خدا نے پہلے دن یہ کہا کہ ”روشنی ہو جا“ تو چھنی ہوئی روشنی بادلوں کو چیر کر زمین پر آنے لگی حالانکہ ابھی تک زمین کی سطح سے روشنی کے ماخذ کو نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل آہستہ آہستہ ہوا۔ ترجمہنگار جیمز واشنگٹن واٹس نے اِس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا: ”روشنی آہستہ آہستہ وجود میں آئی۔“ (پید 1:3) خدا نے روشنی اور تاریکی کو الگ الگ کِیا۔ اُس نے روشنی کو دن کہا اور تاریکی کو رات۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین اپنے محور کے گِرد گھوم رہی تھی جیسے یہ سورج کے گِرد گھومتی تھی تاکہ زمین کے مشرقی اور مغربی حصوں میں باری باری روشنی اور تاریکی ہو۔—پید 1:3، 4۔
دوسرے دن خدا نے ”پانی پانی سے جُدا“ کر کے فضا بنائی۔ کچھ پانی زمین پر رہا جبکہ پانی کی ایک بہت بڑی مقدار زمین کی سطح سے بہت اُوپر چلی گئی اور اِن دونوں کے بیچ میں فضا قائم ہو گئی۔ خدا نے فضا کو ”آسمان“ کہا۔ لیکن یہ وہ آسمان نہیں تھا جس پر سورج، چاند اور ستارے وغیرہ ہیں کیونکہ بائبل میں یہ نہیں کہا گیا کہ فضا سے اُوپر والے پانی نے سورج، چاند اور ستاروں کو گھیرا ہوا ہے۔—پید 1:6-8۔
تیسرے دن خدا نے اپنی معجزانہ طاقت سے زمین کے پانی کو جمع کِیا اور خشکی نظر آنے لگی جسے خدا نے زمین کہا۔ اِسی دن خدا گھاس، سبزیوں اور پھلوں کو بھی وجود میں لایا جن میں اپنی ”جنس کے موافق“ افزائش کرنے کی صلاحیت تھی۔ خدا نے اِن چیزوں کو اِرتقا کے ذریعے نہیں بنایا تھا بلکہ مادے کے اٹیموں میں زندگی ڈال کر بنایا تھا۔—پید 1:9-13۔
(پیدایش 1:14) اور خدا نے کہا کہ فلک پر نیر ہوں کہ دن کو رات سے الگ کریں اور وہ نشانوں اور زمانوں اور دنوں اور برسوں کے اِمتیاز کے لئے ہوں۔
(پیدایش 1:20) اور خدا نے کہا کہ پانی جانداروں کو کثرت سے پیدا کرے اور پرندے زمین کے اُوپر فضا میں اُڑیں۔
(پیدایش 1:24) اور خدا نے کہا کہ زمین جانداروں کو اُن کی جنس کے موافق چوپائے اور رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُن کی جنس کے موافق پیدا کرے اور ایسا ہی ہوا۔
(پیدایش 1:27) اور خدا نے اِنسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کِیا۔ نروناری اُن کو پیدا کِیا۔
آئیٹی-1 ص. 528 پ. 5-8
تخلیق
یہ بات قابلِغور ہے کہ پیدایش 1:16 میں عبرانی فعل ”بارا“ جس کا مطلب ”خلق کرنا“ ہے، اِستعمال نہیں ہوا۔ اِس کی بجائے اِس آیت میں عبرانی فعل ”آساہ“ جس کا مطلب ”بنانا“ ہے، اِستعمال کِیا گیا ہے۔ چونکہ سورج، چاند اور ستارے اُس ”آسمان“ میں شامل ہیں جس کا پیدایش 1:1 میں ذکر کِیا گیا ہے اِس لیے اِنہیں چوتھے دن سے بہت پہلے خلق کِیا گیا تھا۔ لیکن چوتھے دن خدا نے سورج، چاند اور ستاروں کا زمین کی سطح اور فضا کے ساتھ نیا تعلق ’بنایا۔‘ جب یہ کہا گیا کہ ”خدا نے اُن کو فلک پر [”فضا میں،“ نیو اُردو بائبل ورشن] رکھا کہ زمین پر روشنی ڈالیں“ تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب وہ زمین کی سطح سے نظر آنے لگے گویا وہ فضا میں ہوں۔ اِس کے علاوہ نیر یعنی سورج اور چاند ”نشانوں اور زمانوں اور دنوں اور برسوں کے اِمتیاز کے لئے“ تھے۔ اِس کا مطلب تھا کہ بعد میں اِنسانوں نے مختلف طریقوں سے اِن سے رہنمائی حاصل کرنی تھی۔—پید 1:14۔
پانچویں دن خدا نے زمین پر پہلے جاندار بنائے۔ خدا نے ایسا نہیں کِیا کہ صرف ایک جاندار بنائے جس کا اِرتقا ہو اور جانداروں کی دوسری قسمیں بنتی جائیں بلکہ اُس نے اپنی طاقت سے کثرت سے جاندار پیدا کیے۔ پیدایش 1:21 میں لکھا ہے کہ ”خدا نے بڑے بڑے سمندری جانداروں کو اور سب زندہ اور حرکت کرنے والی اشیاء کو جو پانی میں کثرت سے پائی جاتی ہیں اور طرح طرح کے پرندوں کو اُن کی جنس کے مطابق پیدا کِیا۔“ (نیو اُردو بائبل ورشن) خدا اُن جانداروں کو دیکھ کر خوش تھا جو اُس نے بنائے تھے۔ اُس نے اُنہیں برکت دیتے ہوئے کہا کہ وہ ”بہت بڑھ جائیں۔“ فرق فرق قسموں کے یہ جاندار ایسا کرنے کے قابل تھے کیونکہ خدا نے اُنہیں اپنی ”جنس کے مطابق“ افزائش کرنے کی صلاحیت دی تھی۔—پید 1:20-23۔
چھٹے دن پر خدا نے ”جنگلی جانوروں اور چوپایوں کو اُن کی جنس کے موافق اور زمین کے رینگنے والے جانداروں کو اُن کی جنس کے موافق بنایا۔“ یہ جاندار بھی اچھے تھے جس طرح وہ چیزیں اچھی تھیں جو خدا نے اِن سے پہلے بنائی تھیں۔—پید 1:24، 25۔
چھٹے دن کے آخر پر خدا نے بالکل نئی قسم کی مخلوق بنائی جو جانوروں سے افضل لیکن فرشتوں سے کمتر تھی۔ یہ مخلوق اِنسان تھا جسے خدا کی صورت پر اُس کی شبیہ کی مانند بنایا گیا تھا۔ پیدایش 1:27 میں اِنسان کے بارے میں مختصر طور پر بتایا گیا ہے کہ ”[خدا نے] نروناری . . . کو پیدا کِیا۔“ اِنسان کی تخلیق کے بارے میں اِس سے ملتا جلتا بیان پیدایش 2:7-9 میں درج ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا نے زمین کی مٹی سے اِنسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو اِنسان جیتی جان ہوا۔ خدا نے اِنسان کے رہنے کے لیے فردوس بنایا اور اُس کے لیے کھانے پینے کی چیزیں بھی فراہم کیں۔ آدم کو بنانے کے لیے یہوواہ خدا نے زمین کی مٹی کے عناصر اِستعمال کیے اور ناری یعنی عورت کو بنانے کے لیے اُس نے آدم کی پسلی کو بنیاد کے طور پر اِستعمال کِیا۔ (پید 2:18-25) عورت کی تخلیق کے ساتھ اِنسانوں کی تخلیق مکمل ہو گئی۔—پید 5:1، 2۔
سنہری باتوں کی تلاش
(پیدایش 1:1) خدا نے اِبتدا میں زمینوآسمان کو پیدا کِیا۔
ڈبلیو15 1/6 ص. 5
سائنس کا آپ کی زندگی پر اثر زمین اور کائنات کتنی پُرانی ہے؟
سائنسدانوں کے اندازے کے مطابق زمین تقریباً 4 ارب سال پُرانی ہے اور کائنات تقریباً 13 سے 14 ارب سال پُرانی ہے۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کائنات کو کب خلق کِیا گیا۔ اِس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ زمین صرف کچھ ہزار سال پُرانی ہے۔ بائبل کی پہلی آیت میں لکھا ہے: ”خدا نے اِبتدا میں زمینوآسمان کو پیدا کِیا۔“ (پیدایش 1:1) لہٰذا سائنسدان سائنس کے ٹھوس اصولوں کی بنیاد پر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کائنات کتنی پُرانی ہے۔
(پیدایش 1:26) پھر خدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اِختیار رکھیں۔
آئیٹی-2 ص. 52
یسوع مسیح
وہ خالق نہیں ہیں۔ خدا کے بیٹے نے تخلیقی کاموں میں حصہ لیا مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے باپ کی طرح وہ بھی خالق ہیں۔ خدا نے تمام چیزیں اپنی باعمل قوت یعنی پاک روح کے ذریعے خلق کیں۔ (پید 1:2؛ زبور 33:6) چونکہ یہوواہ خدا زندگی کا سرچشمہ ہے اِس لیے تمام جانداروں کی زندگی خدا کی ہے پھر چاہے یہ جاندار نظر آئیں یا نہ آئیں۔ (زبور 36:9) یسوع خالق نہیں تھے بلکہ خالق صرف یہوواہ خدا ہے جس نے یسوع کے ذریعے تمام چیزوں کو خلق کِیا۔ یسوع نے خود کہا کہ خدا نے سب چیزوں کو بنایا ہے اور یہی بات تمام صحیفوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔—متی 19:4-6۔
13-19 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | پیدایش 3-5
”پہلے جھوٹ کے بھیانک نتائج“
(پیدایش 3:1-5) اور سانپ کُل دشتی جانوروں سے جن کو [یہوواہ] خدا نے بنایا تھا چالاک تھا اور اُس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟ 2 عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔ 3 پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تُم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چُھونا ورنہ مر جاؤ گے۔ 4 تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تُم ہرگز نہ مرو گے 5 بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خدا کی مانند نیکوبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔
اِنسانوں کے لیے خدا کا مقصد ضرور پورا ہوگا!
شیطان نے ایک سانپ کے ذریعے حوا کو ورغلایا جس کے نتیجے میں حوا نے اپنے آسمانی باپ کی نافرمانی کی۔ (پیدایش 3:1-5 کو پڑھیں؛ مکاشفہ 12:9) شیطان نے حوا سے پوچھا: ”کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟“ اصل میں وہ حوا کو جتا رہا تھا کہ ”تُم اپنی مرضی کی مالک نہیں ہو۔“ پھر شیطان نے اُن سے کہا: ”تُم ہرگز نہ مرو گے“ جو کہ سراسر جھوٹ تھا۔ اِس کے بعد شیطان نے حوا کو یقین دِلایا کہ اُنہیں خدا کی سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُس نے کہا: ”خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی۔“ دراصل شیطان، حوا سے کہہ رہا تھا کہ یہوواہ خدا اُنہیں ایک خاص طرح کے علم سے محروم رکھنا چاہتا ہے اور اِسی وجہ سے اُس نے اُن دونوں کو وہ پھل کھانے سے منع کِیا تھا۔ آخرکار شیطان نے حوا سے یہ جھوٹا وعدہ کِیا: ”تُم خدا کی مانند نیکوبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔“
(پیدایش 3:6) عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھایا۔
م00 15/11 ص. 25، 26
ہم پہلے اِنسانی جوڑے سے سبق سیکھ سکتے ہیں
کیا حوا کا گناہ سے بچنا ناممکن تھا؟ ہرگز نہیں! ذرا خود کو حوا کی جگہ پر رکھ کر سوچئے۔ سانپ کے دعوے نے خدا اور آدم کی بات کی بالکل نفی کر دی تھی۔ اگر آپ کسی شخص سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اُس پر بھروسا رکھتے ہیں مگر کوئی اجنبی اُس پر بددیانتی کا الزام لگاتا ہے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ حوا کو فرق ردِعمل دکھانا چاہئے تھا اور ناپسندیدگی اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اُسکی بات پر کان نہیں لگانا چاہئے تھا۔ بہرحال، خدا کی راستی اور اُسکے شوہر کی بات کو مشتبہ قرار دینے والا سانپ کون ہوتا تھا؟ سرداری کے اُصول کے احترام کے پیشِنظر حوا کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مشورہ ضرور کر لینا چاہئے تھا۔ اسی طرح اگر ہمیں بھی خدائی ہدایات کے برعکس کوئی بات بتائی جاتی ہے تو ہمیں مشورت کے طالب ہونا چاہئے۔ تاہم، حوا نے نیکوبد کا فیصلہ خود کرنے کی خواہش سے مغلوب ہوکر آزمانے والے کی بات کا یقین کر لیا۔ وہ جتنا زیادہ اس خیال پر سوچتی وہ اُسے اُتنا ہی زیادہ دلکش لگتا تھا۔ اس بات کو ذہن سے نکالنے یا اپنے شوہر سے اس مسئلے پر گفتگو کرنے کی بجائے اُس نے اِس غلط خواہش پر مسلسل سوچبچار کرنے سے بہت بڑی غلطی کی!—1-کُرنتھیوں 11:3؛ یعقوب 1:14، 15۔
آدم اپنی بیوی کی بات مانتا ہے
حوا نے جلد ہی آدم کو بھی اپنے گناہ میں شریک کر لیا۔ ہم آدم کی طرف سے بِلاحیلوحجت حوا کی بات مان لینے کی وضاحت کیسے کریں گے؟ (پیدایش 3:6، 17) آدم کی وفاداری بٹ گئی تھی۔ کیا وہ اپنے خالق کی فرمانبرداری کرے گا جس نے اُسے ایک خوبصورت بیوی کے علاوہ دیگر تمام نعمتیں بھی عطا کی تھیں؟ کیا آدم موجودہ صورتحال میں کوئی بھی قدم اُٹھانے کے لئے خدائی راہنمائی کا طالب ہوگا؟ یا کیا وہ اپنی بیوی کے آگے جھک جائے گا؟ آدم اچھی طرح جانتا تھا کہ ممنوعہ پھل کھانے کے سلسلے میں اُس کی بیوی کی توقع ایک دھوکا تھی۔ پولس رسول نے الہام سے لکھا: ”آدم نے فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑ گئی۔“ (1-تیمُتھیُس 2:14) لہٰذا، آدم نے جانبوجھ کر یہوواہ سے مُنہ موڑ لیا۔ بدیہی طور پر اپنی بیوی سے جُدائی کا خوف اس مسئلے کو سلجھانے کی خدائی لیاقت پر اُس کے ایمان پر حاوی ہو گیا تھا۔
(پیدایش 3:15-19) اور مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا۔ 16 پھر اُس نے عورت سے کہا کہ مَیں تیرے دردِحمل کو بہت بڑھاؤں گا۔ تُو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔ 17 اور آؔدم سے اُس نے کہا چُونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت مَیں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا اِس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔ مشقت کے ساتھ تُو اپنی عمر بھر اُس کی پیداوار کھائے گا۔ 18 اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اُونٹکٹارے اُگائے گی اور تُو کھیت کی سبزی کھائے گا۔ 19 تُو اپنے مُنہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تُو پھر لوٹ نہ جائے اِس لئے کہ تُو اُس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔
م12 1/10 ص. 4 پ. 2
عورتیں خدا کی نظر میں کیا مقام رکھتی ہیں؟ کیا خدا نے عورت پر لعنت کی ہے؟
جی نہیں۔ اِس کی بجائے ’پُرانے سانپ‘ یعنی ”اِبلیس اور شیطان“ پر لعنت کی گئی ہے۔ (مکاشفہ 12:9؛ پیدایش 3:14) خدا نے یہ ضرور کہا تھا کہ آدم اپنی بیوی پر ”حکومت“ کریں گے۔ مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا نے مرد کو چھوٹ دے دی تھی کہ وہ عورت پر رُعب جمائے۔ (پیدایش 3:16) خدا تو بس یہ بتا رہا تھا کہ آدم اور حوا نے جو گُناہ کِیا ہے، اُس کا اثر یہ ہوگا کہ مرد عورت پر اپنی حکومت جتائے گا۔
م04 1/1 ص. 29 پ. 2
پیدایش کی کتاب سے اہم نکات—1
3:17—زمین کس سبب سے لعنتی قرار پائی اور کتنے عرصہ کیلئے؟ زمین کے لعنتی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ اب اس پر کاشت بہت مشکل ہوگی۔ اونٹکٹاروں والی لعنتی زمین کے اثرات کو آدم کی اولاد نے اتنا زیادہ محسوس کِیا کہ نوح کے باپ لمک نے ”ہاتھوں کی محنت اور مشقت“ کا ذکر کِیا ’جو زمین کے سبب سے تھی جس پر خدا نے لعنت کی تھی۔‘ (پیدایش 5:29) طوفان کے بعد، یہوواہ نے نوح اور اُسکے بیٹوں کو برکت بخشی اور کہا کہ اُسکا مقصد ہے کہ وہ ساری زمین کو معمور کریں۔ (پیدایش 9:1) بدیہی طور پر زمین پر سے خدا کی لعنت اُٹھا لی گئی تھی۔—پیدایش 13:10۔
آئیٹی-2 ص. 186
دردِحمل
اِس سے مُراد وہ دردیں ہیں جو بچے کی پیدائش سے پہلے ہوتی ہیں۔ خدا نے پہلی عورت یعنی حوا کے گُناہ کرنے کے بعد اُسے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے وقت اُسے کیا کچھ سہنا پڑے گا۔ اگر حوا خدا کی فرمانبردار رہتیں تو خدا کی برکت اُن پر رہتی اور بچے کی پیدائش اُن کے لیے صرف اور صرف خوشی کا باعث ہوتی کیونکہ ”[یہوواہ] ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُس کے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا۔“ (امثا 10:22) لیکن گُناہ کرنے کی وجہ سے وہ عیبدار ہو گئیں اور اُن میں نقص پیدا ہو گیا اِس لیے اب بچے کی پیدائش کا عمل تکلیفدہ ہونا تھا۔ اِس لیے پیدایش 3:16 میں خدا نے کہا: ”مَیں تیرے دردِحمل کو بہت بڑھاؤں گا۔ تُو درد کے ساتھ بچے جنے گی“ (بائبل کی بعض آیتوں میں کچھ ایسے کاموں کو جن کی خدا اِجازت دیتا ہے، اِس طرح سے بیان کِیا گیا ہے جیسے یہ کام یہوواہ نے کیے ہوں)۔
سنہری باتوں کی تلاش
(پیدایش 4:23، 24) اور لمکؔ نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اَے عدؔہ اور ضلہؔ میری بات سنو اَے لمکؔ کی بیویو میرے سخن پر کان لگاؤ۔ مَیں نے ایک مرد کو جس نے مجھے زخمی کِیا مار ڈالا اور ایک جوان کو جس نے میرے چوٹ لگائی قتل کر ڈالا۔ 24 اگر قاؔئن کا بدلہ سات گُنا لیا جائے گا تو لمکؔ کا ستر اور سات گُنا۔
آئیٹی-2 ص. 192 پ. 5
لمک
لمک نے اپنی بیویوں کے لیے جو نظم لکھی، اُس سے اُن کے زمانے کے لوگوں کی پُرتشدد سوچ ظاہر ہوتی ہے۔ لمک نے اِس نظم میں کہا: ”سنو اَے لمکؔ کی بیویو میرے سخن پر کان لگاؤ۔ مَیں نے ایک مرد کو جس نے مجھے زخمی کِیا مار ڈالا اور ایک جوان کو جس نے میرے چوٹ لگائی قتل کر ڈالا۔ اگر قاؔئن کا بدلہ سات گُنا لیا جائے گا تو لمکؔ کا ستر اور سات گُنا۔“ (پید 4:23، 24) لمک کہہ رہے تھے کہ اُنہوں نے قائن کی طرح جان بُوجھ کر نہیں بلکہ اپنے دِفاع کے لیے اُس شخص کو مار ڈالا تھا۔ وہ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ اُنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے اُس شخص کو مار ڈالا جس نے اُن پر حملہ کر کے اُنہیں زخمی کِیا۔ یہ نظم دراصل ایک درخواست تھی جس میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ فوتشُدہ شخص کے عزیز کو اُن سے بدلہ لینے کا حق نہ دیا جائے۔
(پیدایش 4:26) اور سیتؔ کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اُس نے اؔنوس رکھا۔ اُس وقت سے لوگ یہوؔواہ کا نام لے کر دُعا کرنے لگے۔
م01 15/9 ص. 29 پ. 3
حنوک ایک بیدین دُنیا میں خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا
حنوک کے وقت سے تقریباً چار صدیاں پہلے، اُنوس کے زمانہ میں ”لوگ یہوؔواہ کا نام لیکر دُعا کرنے لگے۔“ (پیدایش 4:26) الہٰی نام انسانی تاریخ کی ابتدا ہی سے استعمال ہو رہا تھا۔ بدیہی طور پر، جب اُنوس زندہ تھا تو اس وقت یہوواہ کا نام ایمان اور سچی پرستش کے لئے استعمال نہیں ہو رہا تھا۔ بعض عبرانی علما کے مطابق پیدایش 4:26 اس طرح پڑھی جانی چاہئے، ”بےادبانہ ابتدا“ یا ”بےادبی کی شروعات۔“ انسانوں نے یہوواہ کا نام اپنے لئے یا اُن اشخاص کیلئے استعمال کِیا ہوگا جن کے ذریعے وہ خدا کی پرستش کرنے کا بہانہ کرتے تھے۔ یا ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے اُسکا نام بُتوں کیلئے استعمال کِیا ہو۔
20-26 جنوری
پاک کلام سے سنہری باتیں | پیدایش 6-8
”نوح نے ویسا ہی کِیا جیسا خدا نے اُنہیں حکم دیا تھا“
(پیدایش 6:9) نوؔح کا نسبنامہ یہ ہے۔ نوؔح مردِراستباز اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بےعیب تھا اور نوؔح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
(پیدایش 6:13) اور خدا نے نوؔح سے کہا کہ تمام بشر کا خاتمہ میرے سامنے آ پہنچا ہے کیونکہ اُن کے سبب سے زمین ظلم سے بھر گئی۔ سو دیکھ مَیں زمین سمیت اُن کو ہلاک کروں گا۔
ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں نوح، دانیایل اور ایوب کی مثال پر عمل کریں
نوح کو کن مشکلات کا سامنا تھا؟ نوح کے پڑدادا حنوک کے زمانے میں لوگ بہت سے بُرے کام کرتے تھے۔ وہ تو یہوواہ کے خلاف ”بےہودہ باتیں“ بھی بکتے تھے۔ (یہوداہ 14، 15) زمین پر ظلموتشدد بڑھتا جا رہا تھا اور نوح کے زمانے تک زمین ’ظلم سے بھر چُکی تھی۔‘ بُرے فرشتے زمین پر آ گئے تھے، اُنہوں نے اِنسانی جسم اپنا لیے تھے اور عورتوں سے شادی کر لی تھی۔ پھر اُن عورتوں نے ایسے بیٹوں کو جنم دیا جو ظالم اور وحشی تھے۔ (پیدایش 6:2-4، 11، 12) لیکن یہ بات کسی کی نظر سے چھپی نہیں تھی کہ نوح اُن سب لوگوں سے فرق ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”نوؔح [یہوواہ] کی نظر میں مقبول ہوا۔“ اپنے زمانے کے لوگوں کے برعکس نوح نے صحیح کام کیے۔ وہ ’خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔‘—پیدایش 6:8، 9۔
(پیدایش 6:14-16) تُو گوپھر کی لکڑی کی ایک کشتی اپنے لئے بنا۔ اُس کشتی میں کوٹھریاں تیار کرنا اور اُس کے اندر اور باہر رال لگانا۔ 15 اور ایسا کرنا کہ کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ۔ اُس کی چوڑائی پچاس ہاتھ اور اُس کی اُونچائی تیس ہاتھ ہو۔ 16 اور اُس کشتی میں ایک روشندان بنانا اور اُوپر سے ہاتھ بھر چھوڑ کر اُسے ختم کر دینا اور اُس کشتی کا دروازہ اُس کے پہلو میں رکھنا اور اُس میں تین درجے بنانا۔ نچلا۔ دوسرا اور تیسرا۔
م13 1/7 ص. 14 پ. 1
وہ ’خدا کے ساتھساتھ چلتے رہے‘
کشتی کو بنانے میں شاید 40 سے 50 سال لگے ہوں۔ نوح اور اُن کے بیٹوں نے کشتی کو بنانے کے لئے یقیناً بہت محنت کی، مثلاً اُنہوں نے درختوں کو کاٹا، اُن کو گھسیٹ کر لائے، اُن کے ٹکڑے کئے، اُن کو تراشا اور پھر اُن کو جوڑا۔ اُن کو کشتی میں تین منزلیں اور بہت سے کمرے بنانے تھے اور اِس کی ایک طرف دروازہ بھی لگانا تھا۔ لگتا ہے کہ اُنہوں نے کشتی کی اُوپر والی منزل میں کچھ کھڑکیاں بنائی ہوں گی اور چھت کو درمیان سے تھوڑا سا اُبھرا ہوا بنایا ہوگا تاکہ کشتی پر پانی نہ ٹھہرے۔—پیدایش 6:14-16۔
(پیدایش 6:22) اور نوؔح نے یوں ہی کِیا۔ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کِیا۔
م11 1/9 ص. 21 پ. 13
ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں دوڑتے رہیں
پولس رسول نے خدا کے جن خادموں کا ذکر کِیا، وہ ہمت کیوں نہیں ہارے اور اپنی دوڑ مکمل کیوں کر پائے؟ غور کریں کہ پولس رسول نے نوح کے بارے میں کیا کہا۔ (عبرانیوں 11:7 کو پڑھیں۔) خدا ’زمین پر پانی کا طوفان لانے والا تھا تاکہ ہر بشر کو دُنیا سے ہلاک کر ڈالے۔‘ (پید 6:17) یہ ایک ایسی چیز تھی ’جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھی‘ یعنی جو پہلے کبھی واقع نہیں ہوئی تھی۔ نوح نے کبھی پہلے طوفان نہیں دیکھا تھا۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے خدا کی بات پر شک نہیں کِیا۔ اُن کا ایمان مضبوط تھا۔ اِس لئے اُن کو پکا یقین تھا کہ یہوواہ خدا جو کچھ کہتا ہے، اُسے ضرور پورا کرتا ہے۔ نوح نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ”یہوواہ خدا نے مجھے بہت ہی مشکل کام کرنے کو کہا ہے، اِسے کرنا میرے بس کی بات نہیں۔“ بائبل میں لکھا ہے کہ جیسا خدا نے نوح کو حکم دیا، اُنہوں نے ”ویسا ہی عمل کِیا۔“ (پید 6:22) ذرا اُن تمام کاموں کے بارے میں سوچیں جو نوح کو کرنے تھے۔ اُن کو کشتی بنانی تھی، جانوروں کو جمع کرنا تھا، ڈھیر سارا اناج جمع کرنا تھا، لوگوں کو خدا کے آنے والے عذاب سے آگاہ کرنا تھا اور اپنے گھروالوں کی مدد کرنی تھی تاکہ اُن کا ایمان مضبوط رہے۔ بیشک نوح کے لئے خدا کے حکم پر عمل کرنا آسان نہیں تھا۔ اِس کے باوجود اُنہوں نے ”ویسا ہی عمل کِیا۔“ نوح نے ثابت کِیا کہ وہ مضبوط ایمان کے مالک ہیں۔ اِس لئے خدا نے اُن کو اور اُن کے گھروالوں کو طوفان سے بچا لیا اور اُن کو بہت سی برکتیں دیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(پیدایش 7:2) کُل پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور اُن کی مادہ اور اُن میں سے جو پاک نہیں ہیں دو دو نر اور اُن کی مادہ اپنے ساتھ لے لینا۔
م04 1/1 ص. 29 پ. 7
پیدایش کی کتاب سے اہم نکات—1
7:2—پاک اور ناپاک جانوروں میں فرق کرنے کی بنیاد کیا تھی؟ بدیہی طور پر اُن میں فرق کرنے کی بنیاد اُنکا کھانا یا نہ کھانا نہیں بلکہ قربانی کے طور پر اُنہیں پرستش میں استعمال کرنا یا نہ کرنا شامل تھا۔ طوفان سے پہلے جانوروں کا گوشت انسان کی خوراک کا حصہ نہیں تھا۔ خوراک کے طور پر ”پاک“ اور ”ناپاک“ کا تصور موسوی شریعت کیساتھ وجود میں آیا اور اُسکے ختم ہونے کیساتھ ہی ختم ہو گیا۔ (اعمال 10:9-16؛ اِفسیوں 2:15) واضح طور پر نوح اس بات سے واقف تھا کہ یہوواہ کی پرستش کیلئے کیا موزوں ہے اور کیا موزوں نہیں ہے۔ جونہی وہ کشتی سے باہر آیا اُس نے ”یہوواہ کیلئے ایک مذبح بنایا اور سب پاک چوپایوں اور پاک پرندوں میں سے تھوڑے سے لیکر اُس مذبح پر سوختنی قربانیاں چڑھائیں۔“—پیدایش 8:20۔
(پیدایش 7:11) نوؔح کی عمر کا چھسواں سال تھا کہ اُس کے دوسرے مہینے کی ٹھیک سترھویں تاریخ کو بڑے سمندر کے سب سوتے پھوٹ نکلے اور آسمان کی کھڑکیاں کُھل گئیں۔
م04 1/1 ص. 29 پ. 8
پیدایش کی کتاب سے اہم نکات—1
7:11—عالمگیر طوفان کا باعث بننے والا پانی کہاں سے آیا تھا؟ دوسرے تخلیقی دن، یا جس ”دن“ زمین کی ”فضا“ کو بنایا گیا اُس سے پہلے فضا کے نیچے اور ”فضا کے اُوپر“ پانی ہی پانی تھا۔ (پیدایش 1:6، 7) ”فضا کے نیچے“ کے پانی وہ تھے جو پہلے ہی زمین پر موجود تھے۔ ”اُوپر“ کے پانی دراصل نمی کی صورت میں موجود ’وسیع آبی ذخائر‘ تھے۔ یہ پانی نوح کے زمانے میں زمین پر برسا۔
27 جنوری–2 فروری
پاک کلام سے سنہری باتیں | پیدایش 9-11
” ’تمام زمین پر ایک ہی زبان تھی‘ “
(پیدایش 11:1-4) اور تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی۔ 2 اور ایسا ہوا کہ مشرق کی طرف سفر کرتے کرتے اُن کو ملکِسنعاؔر میں ایک میدان ملا اور وہ وہاں بس گئے۔ 3 اور اُنہوں نے آپس میں کہا آؤ ہم اینٹیں بنائیں اور اُن کو آگ میں خوب پکائیں۔ سو اُنہوں نے پتھر کی جگہ اینٹ سے اور چُونے کی جگہ گارے سے کام لیا۔ 4 پھر وہ کہنے لگے کہ آؤ ہم اپنے واسطے ایک شہر اور ایک بُرج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے بنائیں اور یہاں اپنا نام کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم تمام رویِزمین پر پراگندہ ہو جائیں۔
آئیٹی-1 ص. 239
بابلِعظیم
قدیم شہر بابل کی خصوصیات۔ ملک سنعار کے میدانوں میں شہر بابل اور بابل کے بُرج کی بنیاد ایک ساتھ ڈالی گئی۔ (پید 11:2-9) اِس بُرج اور شہر کی تعمیر کا مقصد خدا کے نام کی بڑائی کرنا نہیں تھا بلکہ اِسے بنانے والے ”اپنا نام“ کرنا چاہتے تھے۔ نہ صرف قدیم شہر بابل کے کھنڈرات بلکہ مسوپتامیہ میں موجود باقی مندروں کے بُرجوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بابل کے اصلی بُرج کا تعلق مذہب سے تھا پھر چاہے یہ جس بھی طرز پر بنایا گیا تھا۔ یہوواہ خدا نے اِس مندر کی تعمیر کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کی۔ اِس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِس کا تعلق جھوٹے مذہب سے تھا۔ عبرانی زبان میں اِس شہر کو بابل کا نام دیا گیا جس کا مطلب ”اِختلاف“ ہے جبکہ سومیری زبان کے لفظ (کادنجرا) اور اکادی زبان کے لفظ (بابالی) کا مطلب ”خدا کا دروازہ“ ہے۔ لہٰذا شہر میں بچ جانے والے باشندوں نے اِس کا نام بدل دیا تاکہ اِس سے اُس سزا کا خیال نہ آئے جو خدا نے اُنہیں دی تھی لیکن شہر کا نیا نام بھی مذہب کے ساتھ جُڑا ہوا تھا۔
آئیٹی-2 ص. 202 پ. 2
زبان
پیدایش کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ طوفان کے بعد اِنسانوں نے ایک ایسی چیز بنانے کے لیے ایکا کِیا جو خدا کی اُس مرضی کے خلاف تھی جو اُس نے نوح اور اُن کے بیٹوں کو بتائی تھی۔ (پید 9:1) اُن لوگوں نے ’بڑھنے اور زمین کو معمور‘ کرنے کی بجائے مسوپتامیہ میں ایک ایسے علاقے میں رہائش اِختیار کرنے کا فیصلہ کِیا جو سنعار کے میدانوں کے نام سے جانا جانے لگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس علاقے کو ایک مذہبی مرکز بھی بنایا جانا تھا جس میں ایک مذہبی بُرج ہونا تھا۔—پید 11:2-4۔
(پیدایش 11:6-8) اور [یہوواہ] نے کہا دیکھو یہ لوگ سب ایک ہیں اور اِن سبھوں کی ایک ہی زبان ہے۔ وہ جو یہ کرنے لگے ہیں تو اب کچھ بھی جس کا وہ اِرادہ کریں اُن سے باقی نہ چھوٹے گا۔ 7 سو آؤ ہم وہاں جا کر اُن کی زبان میں اِختلاف ڈالیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات سمجھ نہ سکیں۔ 8 پس [یہوواہ] نے اُن کو وہاں سے تمام رویِزمین میں پراگندہ کِیا سو وہ اُس شہر کے بنانے سے باز آئے۔
آئیٹی-2 ص. 202 پ. 3
زبان
اِن لوگوں نے اپنی بڑائی کرنے کے لیے یہ منصوبہ بنایا۔ لیکن لامحدود قدرت کے مالک خدا نے اُن کے اِتحاد کو توڑنے اور اُن کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اُن کی زبان میں اِختلاف ڈال دیا۔ اِس وجہ سے اُن کے لیے اپنے منصوبے کو مکمل کرنا ناممکن ہو گیا اور وہ ساری زمین پر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ زبان میں اِختلاف کی وجہ سے مستقبل میں بھی اُن کے ایسے منصوبے سُست ہو جانے تھے یا رُک جانے تھے جو خدا کی مرضی کے خلاف ہوتے۔ اِس کی وجہ یہ ہونی تھی کہ اِنسان میں اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی بِنا پر آگے بڑھنے کی قابلیت محدود ہو جانی تھی اور اُس علم کو اِستعمال کرنا مشکل ہو جانا تھا جو خدا سے نہیں بلکہ اِنسانوں کے تجربے اور تحقیق کی بِنا پر حاصل کِیا جانا تھا۔ (اِست 32:5) اگرچہ زبان میں اِختلاف کی وجہ سے اِنسان بٹ گئے لیکن دراصل اِس کی وجہ سے اِنسانی معاشرے کو فائدہ ہوا ہے کیونکہ اب وہ اِتنی آسانی سے اپنے خطرناک اور نقصاندہ منصوبے پورے نہیں کر سکتے۔ (پید 11:5-9؛ یسعیاہ 8:9، 10 پر بھی غور کریں۔) جب کوئی شخص اُس ترقی پر غور کرتا ہے جو دُنیا کا علم حاصل کرنے اور اِسے غلط طریقے سے اِستعمال کرنے کے نتیجے میں ہوئی ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ خدا نے کافی عرصہ پہلے یہ دیکھ لیا تھا کہ اگر بابل کی تعمیر کی کوشش نہ روکی گئی تو کیا ہوگا۔
(پیدایش 11:9) اِس لئے اُس کا نام بابلؔ ہوا کیونکہ [یہوواہ] نے وہاں ساری زمین کی زبان میں اِختلاف ڈالا اور وہاں سے [یہوواہ] نے اُن کو تمام رویِزمین پر پراگندہ کِیا۔
آئیٹی-2 ص. 472
قومیں
چونکہ اب زبان لوگوں کے بیچ میں ایک رُکاوٹ بن گئی تھی اِس لیے ہر زبان کے لوگوں نے اپنی ثقافت، فن، رسمورواج، خصوصیات اور مذہب تشکیل دیا اور اپنے اپنے طریقے سے مختلف کام کرنے لگے۔ (احبا 18:3) خدا سے دُور ہونے کی وجہ سے مختلف لوگوں نے اپنے تصوراتی دیوی دیوتاؤں کے بہت سے بُت بنا لیے۔—اِست 12:30؛ 2-سلا 17:29، 33۔
سنہری باتوں کی تلاش
(پیدایش 9:20-22) اور نوؔح کاشتکاری کرنے لگا اور اُس نے ایک انگور کا باغ لگایا۔ 21 اور اُس نے اُس کی مے پی اور اُسے نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرے میں برہنہ ہو گیا۔ 22 اور کنعاؔن کے باپ حاؔم نے اپنے باپ کو برہنہ دیکھا اور اپنے دونوں بھائیوں کو باہر آ کر خبر دی۔
(پیدایش 9:24، 25) جب نوؔح اپنی مے کے نشہ سے ہوش میں آیا تو جو اُس کے چھوٹے بیٹے نے اُس کے ساتھ کِیا تھا اُسے معلوم ہوا۔ 25 اور اُس نے کہا کہ کنعاؔن ملعون ہو۔ وہ اپنے بھائیوں کے غلاموں کا غلام ہوگا۔
آئیٹی-1 ص. 1023 پ. 4
حام
ممکن ہے کہ کنعان اِس واقعے میں براہِراست شامل ہوں اور اُن کے والد حام اُن کی اِصلاح کرنے میں ناکام رہے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوح نے جو خدا کے اِلہام سے پیشگوئی کر رہے تھے، یہ بھانپ لیا تھا کہ حام کا بُرا رحجان شاید اُن کے بیٹے کنعان میں بھی موجود تھا اور کنعان کی اولاد کو بھی ورثے میں ملنا تھا۔ نوح نے کنعان پر جو لعنت کی، اُس کا ایک حصہ تب پورا ہوا جب بنیاِسرائیل نے جو سم کی نسل سے تھے، کنعانیوں کو شکست دی۔ اِن میں سے جو لوگ ہلاک نہیں ہوئے (جیسے کہ جبعونی [یشو 9])، اُنہیں بنیاِسرائیل نے اپنا غلام بنا لیا۔ اِس کے صدیوں بعد اِس لعنت کا باقی حصہ اُس وقت پورا ہوا جب حام کے بیٹے کنعان کی اولاد، یافت کی اولاد یعنی مادی فارس، یونان اور روم کی عالمی طاقتوں کی ماتحت بن گئی۔
(پیدایش 10:9، 10) [یہوواہ] کے سامنے وہ ایک شکاری سورما ہوا ہے اِس لئے یہ مثل چلی کہ [یہوواہ] کے سامنے نمرؔود سا شکاری سورما۔ 10 اور اُس کی بادشاہی کی اِبتدا ملک سنعاؔر میں بابلؔ اور ارکؔ اور اکاؔد اور کلنہؔ سے ہوئی۔
آئیٹی-2 ص. 503
نمرود
نمرود کی بادشاہت کا آغاز ملک سنعار کے شہر بابل، ارک، اکاد اور کلنہ سے ہوا۔ (پید 10:10) اِس لیے غالباً بابل اور اِس کے بُرج کی تعمیر اُس کی رہنمائی میں شروع ہوئی۔ یہ بات روایتی یہودی نظریے کے مطابق بھی صحیح ہے۔ تاریخدان یوسیفس نے ایک کتاب میں جس میں یہودیوں کی تاریخ بتائی گئی ہے، لکھا: ”[نمرود] نے آہستہ آہستہ آمرانہ نظام قائم کر دیا۔ اُس کا ماننا تھا کہ اِنسان کے دل سے خدا کا خوف تب ہی نکلے گا جب لوگ اُس کی طاقت پر بھروسا کرتے رہیں گے۔ اُس نے دھمکی دی کہ اگر خدا نے پھر سے زمین کو طوفان سے تباہ کِیا تو وہ اُس سے بدلہ لے گا کیونکہ وہ ایک ایسا بُرج بنائے گا جس کی چوٹی تک پانی نہ پہنچ سکے اور جس کے ذریعے وہ اپنے باپدادا کی ہلاکت کا بدلہ لے سکے۔ لوگ [نمرود] کی ہدایت پر عمل کرنے کے لیے بڑے پُرجوش تھے کیونکہ وہ سوچ رہے تھے کہ خدا کی تابعداری کرنا اُس کی غلامی کرنے کے برابر ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے بُرج کی تعمیر شروع کی . . . اور اِس کی تعمیر توقع سے بھی زیادہ تیزی سے ہونے لگی۔“