خدا کے وعدوں پر ایمان کیساتھ زندگی گزارنا
”مَیں خدا ہوں اور کوئی دوسرا نہیں۔ مَیں خدا ہوں اور مجھ سا کوئی نہیں۔ جو ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہوں اور ایامِقدیم سے وہ باتیں جو اب تک وقوع میں نہیں آئیں بتاتا ہوں۔“—یسعیاہ ۴۶:۹، ۱۰۔
۱، ۲. زمینی معاملات میں خدا کی دلچسپی کی بابت مختلف آراء کیا ہیں؟
خدا زمینی امور میں کس حد تک دلچسپی لیتا ہے؟ اسکی بابت مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک خیال تو یہ ہے کہ وہ ان میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ تمام چیزیں خلق کرنے کے بعد اب وہ ہماری خاطر یا تو کچھ کرنا ہی نہیں چاہتا یا پھر وہ کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ اس نظریے کے مطابق خدا ایک ایسے باپ کی مانند ہے جو اپنے بیٹے کو نئی سائیکل پر بٹھاتا ہے، اُسے سیدھا کرتا ہے اور اُسے دھکا دیکر اپنے بیٹے کو سڑک پر ڈال دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ خود چلا جاتا ہے۔ اب لڑکا بالکل اکیلا ہے، خواہ وہ گرے یا نہ گرے۔ خواہ کچھ بھی ہو، معاملہ باپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
۲ ایک دوسرا نظریہ بھی ہے کہ خدا ہماری زندگی کے ہر پہلو میں مستعدی سے راہنمائی کرتا ہے اور اپنی مخلوقات کیساتھ پیش آنے والے ہر واقعہ کا ذمہدار ہے۔ تاہم، اگر ایسا ہے تو بعض یہ نتیجہ اخذ کرینگے کہ خدا صرف خوشگوار حالتوں کا ہی نہیں بلکہ نوعِانسان کو تکلیف پہنچانے والے جُرم اور المناک واقعات کا بھی ذمہدار ہے۔ خدا کے حسنسلوک کی بابت سچائی سے واقف ہونا اس بات کو سمجھنے میں ہماری مدد کریگا کہ ہم اُس سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔ نیز، یہ اُسکے چند وعدوں پر ہمارے ایمان کو بھی مستحکم کریگا۔—عبرانیوں ۱۱:۱۔
۳. (ا) ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ بامقصد خدا ہے؟ (ب) یہوواہ کی بابت یہ کیوں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو ’ترتیب‘ یا ’تشکیل‘ دیتا ہے؟
۳ انسانی معاملات میں خدا کی شمولیت کے سوال کے بنیادی عنصر کے حوالے سے یہ حقیقت ہے کہ یہوواہ بامقصد خدا ہے۔ یہ بات اُسکے اپنے نام سے عیاں ہے۔ ”یہوواہ“ کا مطلب ہے ”وہ جو وجود میں لانے کا سبب بنتا ہے۔“ یہوواہ اپنی بتدریج کارکردگی سے خود کو اپنے تمام مقاصد کی تکمیل کا سبب بنا لیتا ہے۔ چنانچہ، یہوواہ کی بابت کہا گیا ہے کہ وہ آئندہ واقعات یا افعال کے سلسلے میں اپنے مقصد کو ’ترتیب‘ یا ’تشکیل‘ دیتا ہے۔ (۲-سلاطین ۱۹:۲۵؛ یسعیاہ ۴۶:۱۱) یہ اصطلاحات عبرانی لفظ یاتسر سے ماخوذ ہیں جسکا مطلب ”کمہار“ ہے۔ (یرمیاہ ۱۸:۴) جس طرح ایک کمہار مٹی کے لوندے سے ایک خوبصورت گلدان بناتا ہے اُسی طرح یہوواہ اپنی مرضی پوری کرنے کیلئے حالات کا رُخ موڑ سکتا ہے۔—افسیوں ۱:۱۱۔
۴. خدا نے زمین کو انسان کی رہائش کے لئے کیسے تیار کِیا؟
۴ مثال کے طور پر، خدا کا مقصد تھا کہ زمین نہایت خوبصورت جگہ ہو جہاں کامل، فرمانبردار انسان آباد رہیں۔ (یسعیاہ ۴۵:۱۸) پہلے مرد اور عورت کو خلق کرنے سے بہت پہلے یہوواہ نے اُن کیلئے پُرمحبت طریقے سے سب کچھ تیار کِیا۔ پیدایش کی کتاب کے شروع کے ابواب بیان کرتے ہیں کہ یہوواہ نے کیسے دن اور رات کو مقرر کِیا اور خشکی اور تری کا بندوبست کِیا۔ اسکے بعد وہ نباتاتی اور حیواناتی حیات کو وجود میں لایا۔ انسان کی رہائش کیلئے زمین کو اسطرح تیار کرنے میں ہزاروں سال لگے۔ سارا پراجیکٹ کامیابی سے پایۂتکمیل کو پہنچا۔ پہلے مرد اور عورت نے عدن میں اپنی زندگی کا آغاز کِیا جو زندگی سے محظوظ ہونے کیلئے ہر چیز سے مزین ایک مسرتبخش فردوس تھا۔ (پیدایش ۱:۳۱) پس، یہوواہ زمینی معاملات میں براہِراست شامل تھا اور اپنے عظیم مقصد کیلئے اپنے کاموں کو بتدریج ترتیب دے رہا تھا۔ کیا انسانی خاندان کی توسیع سے اُسکی شمولیت میں کوئی فرق پڑا تھا؟
یہوواہ انسان کیساتھ اپنے تعلقات محدود کرتا ہے
۵، ۶. خدا انسانوں کے ساتھ برتاؤ کو محدود کیوں رکھتا ہے؟
۵ یہوواہ انسان کی ہر کارگزاری کو قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کرتا اگرچہ اُس میں ایسا کرنے کی طاقت ہے۔ اسکی کچھ وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ انسان خدا کی صورت پر بنائے گئے تھے اور وہ آزاد مرضی کے مالک تھے۔ یہوواہ ہمیں اپنا حکم ماننے پر مجبور نہیں کرتا؛ نہ ہی ہم کوئی کٹھپتلیاں ہیں۔ (استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰؛ یشوع ۲۴:۱۵) اگرچہ خدا ہمارے اعمال کیلئے ہمیں جوابدہ ٹھہراتا ہے توبھی اُس نے ہمیں پُرمحبت طریقے سے یہ فیصلہ کرنے کیلئے بڑی آزادی دے رکھی ہے کہ ہم اپنی زندگی کیسے گزاریں۔—رومیوں ۱۴:۱۲؛ عبرانیوں ۴:۱۳۔
۶ شیطان نے عدن میں جو مسئلہ کھڑا کِیا وہ اس سلسلے میں دوسری وجہ ہے کہ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کا ہاتھ کیوں نہیں ہوتا۔ شیطان نے خدا کی حاکمیت کو للکارا تھا۔ اُس نے حوا کو خودمختاری کی پیشکش کی جسے اُس نے اور بعدازاں اُسکے شوہر نے قبول کر لیا تھا۔ (پیدایش ۳:۱-۶) لہٰذا، خدا نے یہ ثابت کرنے کیلئے انسانوں کو کچھ وقت تک حکومت کرنے کی اجازت دے دی ہے کہ آیا شیطان کا چیلنج واجب تھا۔ اس لئے آجکل لوگوں کے غلط کاموں کا خدا کو ذمہدار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ موسیٰ نے باغی لوگوں کی بابت لکھا: ”یہ لوگ اُسکے ساتھ برُی طرح سے پیش آئے۔ یہ [خدا] کے فرزند نہیں۔ یہ اُنکا عیب ہے۔“—استثنا ۳۲:۵۔
۷. زمین اور نوعِانسان کیلئے یہوواہ کا مقصد کیا ہے؟
۷ تاہم، خودمختارانہ حکومت میں آزادی سے انتخاب کرنے اور مختلف تجربات کرنے کی اجازت دینے کے باوجود یہوواہ نے زمینی معاملات سے ہاتھ کھینچ لینے کی پالیسی اختیار نہیں کی کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا تو ہمارے پاس کوئی اُمید نہ ہوتی کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے گا۔ اگرچہ آدم اور حوا نے یہوواہ کی حاکمیت کے خلاف بغاوت کی تو بھی اُس نے زمین اور نوعِانسان کے لئے اپنے پُرمحبت مقصد میں کوئی تبدیلی نہ آنے دی۔ وہ اس زمین کو یقیناً فردوس بنائے گا جہاں کامل، فرمانبردار اور خوشحال لوگ آباد ہونگے۔ (لوقا ۲۳:۴۲، ۴۳) پیدایش سے مکاشفہ تک کا بائبل ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ کیسے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے بتدریج کام کرتا رہا ہے۔
خدا اپنی مرضی پوری کرنے کے لئے کارروائی کرتا ہے
۸. اسرائیلیوں کو ملکِموعود میں لانے میں کیا کچھ شامل تھا؟
۸ اسرائیلی قوم کیساتھ اپنے برتاؤ سے خدا نے یہ ظاہر کِیا کہ وہ اپنے مقصد کو پورا کرے گا۔ مثال کے طور پر، یہوواہ نے موسیٰ کو یقین دلایا کہ وہ اسرائیلیوں کو مصر سے چھڑا کر ملکِموعود میں لائیگا جہاں دودھ اور شہد بہتا ہے۔ (خروج ۳:۸) یہ ایک اہم اور حوصلہافزا اعلان تھا۔ اس میں اسرائیلیوں کو—جنکی تعداد ملیجلی بِھیڑ سمیت تقریباً تین ملین تھی—ایک زبردست قوم سے چھڑانا شامل تھا جو اُنکے جانے کے سخت خلاف تھی۔ (خروج ۳:۱۹) جس ملک میں اُنہیں لایا جائیگا وہاں بھی بہت زورآور قومیں آباد تھیں جو اُنکی آمد کے سخت خلاف تھیں۔ (استثنا ۷:۱) درمیان میں ایک بیابان تھا جہاں اسرائیلیوں کو خوراک اور پانی کی ضرورت تھی۔ اس صورتحال میں یہوواہ نے اپنی فائق قدرت اور معبودیت کا مظاہرہ کِیا۔—احبار ۲۵:۳۸۔
۹، ۱۰. (ا) یشوع خدا کے وعدوں کے قابلِاعتماد ہونے کی تصدیق کیوں کر سکتا تھا؟ (ب) اس بات پر اعتماد رکھنا اس قدر اہم کیوں ہے کہ خدا اپنے وفادار بندوں کو اجر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
۹ خدا سلسلہوار زبردست کاموں کے ذریعے اسرائیلیوں کو مصر سے نکال لے گیا۔ پہلے تو اُس نے مصر کی قوم پر تباہکُن آفات نازل کیں۔ پھر اُس نے بحرِقلزم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تاکہ اسرائیلی بحفاظت نکل جائیں اور مصری فوج تباہ ہو جائے۔ (زبور ۷۸:۱۲، ۱۳، ۴۳-۵۱) اسکے بعد وہ بیابان میں ۴۰ برس تک اسرائیلیوں کی کفالت کرتا رہا، اُنہیں من کھلایا، پانی فراہم کِیا اور اس بات کا بھی خیال رکھا کہ اُنکے کپڑے پھٹنے نہ پائیں اور اُنکے پاؤں پر سوجن تک نہ آئے۔ (استثنا ۸:۳، ۴) اسرائیلیوں کے ملکِموعود میں داخل ہونے کے بعد یہوواہ نے اُنہیں اُنکے دشمنوں پر فتح بخشی۔ یہوواہ کے وعدوں پر پُختہ ایمان رکھنے والا یشوع ان تمام باتوں کا عینی شاہد تھا۔ پس، وہ اپنے زمانے کے بزرگوں کو پورے اعتماد کیساتھ یہ کہہ سکتا تھا: ”تم خوب جانتے ہو کہ اُن سب اچھی باتوں میں سے جو [یہوواہ] تمہارے خدا نے تمہارے حق میں کہیں ایک بات بھی نہ چُھوٹی۔ سب تمہارے حق میں پوری ہوئیں۔“—یشوع ۲۳:۱۴۔
۱۰ زمانۂقدیم کے یشوع کی طرح، آجکل مسیحی بھی پُراعتماد ہیں کہ جو لوگ خدا کی خدمت کرتے ہیں وہ اُن کی خاطر کارروائی کرنے کیلئے تیار ہے اور ایسا کرنے کے اہل بھی ہے۔ اس بات پر یقین رکھنا ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”بغیر ایمان کے اُس کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اسلئےکہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ . . . اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔“—عبرانیوں ۱۱:۶۔
خدا مستقبل کو پہلے سے جانتا ہے
۱۱. کونسے عناصر خدا کیلئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا باعث بنے؟
۱۱ ابھی تک ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ خدا آزاد مرضی اور خودمختارانہ انسانی حکمرانی کی اجازت دیتا ہے توبھی وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کیلئے طاقت رکھتا ہے اور وہ ایسا ضرور کریگا۔ تاہم، خدا کے وعدوں کی تکمیل کا سبب بننے والا ایک اَور عنصر بھی ہے۔ یہوواہ مستقبل کی بابت پہلے سے جان سکتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۲:۹) اپنے نبی کی معرفت خدا نے بیان کِیا: ”پہلی باتوں کو جو قدیم سے ہیں یاد کرو کہ مَیں خدا ہوں اور کوئی دوسرا نہیں۔ مَیں خدا ہوں اور مجھ سا کوئی نہیں۔ جو ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہوں اور ایامِقدیم سے وہ باتیں جو اب تک وقوع میں نہیں آئیں بتاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میری مصلحت قائم رہیگی اور مَیں اپنی مرضی بالکل پوری کرونگا۔“ (یسعیاہ ۴۶:۹، ۱۰) ایک تجربہکار کسان جانتا ہے کہ اُسے کب اور کہاں بیج بونا ہے مگر آئندہ حالات کی بابت پھربھی کچھ غیریقینی پائی جاتی ہے۔ اُسی طرح ”ازلی بادشاہ“ بھی بالکل ٹھیک طور پر پیشازوقت یہ دیکھ لینے کے سلسلے میں درست علم رکھتا ہے کہ اُسے اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے کب اور کہاں کارروائی کرنی چاہئے۔—۱-تیمتھیس ۱:۱۷۔
۱۲. نوح کے زمانہ میں یہوواہ نے پیشگی علم رکھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیسے کِیا؟
۱۲ غور فرمائیں کہ خدا نے نوح کے ایّام میں پیشگی علم کو کیسے استعمال کِیا۔ زمین کے بدکاری سے بھر جانے کی وجہ سے خدا نے نافرمان نوعِانسان کو ختم کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اُس نے اسکا وقت بھی مُتعیّن کر دیا کہ آئندہ ۱۲۰ سالوں میں وہ ایسا کریگا۔ (پیدایش ۶:۳) اُس خاص وقت کا تعیّن کرتے وقت یہوواہ نے صرف بدکاروں کی تباہی کو ہی مدِنظر نہیں رکھا تھا کیونکہ ایسا تو وہ کسی بھی وقت کر سکتا تھا۔ یہوواہ نے جو وقت مقرر کِیا اُس سے راستبازوں کو بچنے کا بھی موقع مِل گیا۔ (پیدایش ۵:۲۹ سے مقابلہ کریں۔) اپنی حکمت سے خدا پیشازوقت جانتا تھا کہ خاتمے پر منتج ہونے والے کام کو کب تفویض کِیا جائے۔ اُس نے نوح کو تمام تفصیلات فراہم کر دیں۔ نوح کو ”اپنے گھرانے کے بچاؤ کیلئے“ ایک کشتی بنانی تھی اور ایک عالمگیر طوفان کے ذریعے بدکاروں کو ہلاک کر دیا جانا تھا۔—عبرانیوں ۱۱:۷؛ پیدایش ۶:۱۳، ۱۴، ۱۸، ۱۹۔
ایک بہت بڑا تعمیری پراجیکٹ
۱۳، ۱۴. کشتی بنانا ایک چیلنجخیز کام کیوں تھا؟
۱۳ اس تفویض کو ذرا نوح کی نظر سے دیکھئے۔ خدا کا بندہ ہونے کے باعث نوح جانتا تھا کہ یہوواہ بیدینوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ تاہم، اس کارروائی سے پہلے کچھ کام کِیا جانا تھا—ایسا کام جس کے لئے ایمان ضروری تھا۔ کشتی کی تعمیر ایک بہت بڑا پراجیکٹ تھا۔ خدا نے اس کی پیمائش کی بابت مکمل تفصیلات فراہم کر دی تھیں۔ وہ کشتی آجکل کے بعض کھیل کے میدانوں سے زیادہ لمبی اور پانچ منزلہ اونچی عمارت جتنی تھی۔ (پیدایش ۶:۱۵) اس کے معمار ناتجربہکار اور تھوڑے تھے۔ اُن کے پاس کسی قسم کا جدید سازوسامان نہیں تھا۔ مزیدبرآں، نوح کے پاس یہوواہ کی طرح مستقبل کو پہلے سے جان لینے کی صلاحیت بھی نہیں تھی اسلئے وہ کسی بھی طرح سے یہ معلوم نہیں کر سکتا تھا کہ آئندہ برسوں کے دوران حالات کیسے ہوں گے جو اس تعمیری پراجیکٹ میں رکاوٹ یا مدد کا سبب بنیں گے۔ غالباً نوح کے ذہن میں بہت سے سوال ہوں گے۔ کشتی بنانے کے لئے درکار سامان کیسے اکٹھا کِیا جائے گا؟ وہ جانوروں کو کیسے جمع کرے گا؟ کس قسم کی اور کتنی مقدار میں خوراک درکار ہوگی؟ جس طوفان کی پیشینگوئی کی گئی ہے وہ کب آئے گا؟
۱۴ علاوہازیں معاشرتی حالات پر بھی غور کِیا جانا ضروری تھا۔ بدکاری بہت بڑھ گئی تھی۔ طاقتور جباروں—بُرے فرشتوں اور عورتوں کی دوغلی نسل—نے زمین کو ظلم سے بھر دیا تھا۔ (پیدایش ۶:۱-۴، ۱۳) مزیدبرآں، کشتی کو کہیں چھپ کر نہیں بنایا جانا تھا۔ لوگ یہ سوچیں گے کہ نوح کیا بنا رہا ہے اور پھر اُسے اُن کو بتانا تھا۔ (۲-پطرس ۲:۵) کیا اُنہوں نے اس بات کو قبول کِیا ہوتا؟ بمشکل! کچھ سال قبل، ایماندار حنوک نے بدکاروں کی تباہی کا اعلان کِیا تھا۔ لوگوں کو اُس کا پیغام اتنا ناگوار گزرا کہ خدا نے ”اُسے اُٹھا لیا“ یا اُسے دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے لئے اُس کی زندگی کوتاہ کر دی۔ (پیدایش ۵:۲۴؛ عبرانیوں ۱۱:۵؛ یہوداہ ۱۴، ۱۵) نوح کو نہ صرف ایسے ہی ناپسندیدہ پیغام کا اعلان کرنا تھا بلکہ اُسے کشتی بھی بنانی تھی۔ جب اس کشتی کی تعمیر ہو رہی تھی تو اس نے بدکار ہمعصروں کے سامنے نوح کی وفاداری کی زوردار یاددہانی کا کام انجام دیا ہوگا!
۱۵. نوح کیوں پُراعتماد تھا کہ وہ اس تفویض کو پورا کر سکتا ہے؟
۱۵ نوح جانتا تھا کہ اس پراجیکٹ کو قادرِمطلق خدا کی برکت اور حمایت حاصل ہے۔ کیا یہوواہ نے خود اُسے یہ کام تفویض نہیں کِیا تھا؟ یہوواہ نے نوح کو یقین دلایا ہوگا کہ وہ اور اُس کا خاندان کشتی میں داخل ہونگے اور عالمگیر طوفان سے بچا لئے جائیں گے۔ خدا نے اُس سے عہد باندھ کر اس بات کی تصدیق کی۔ (پیدایش ۶:۱۸، ۱۹) غالباً، نوح یہ سمجھ گیا کہ یہوواہ نے کام سونپنے سے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ اس میں کیا کچھ شامل ہوگا۔ اس کے علاوہ، نوح جانتا تھا کہ یہوواہ کے پاس بوقتِضرورت اُس کی مدد کرنے کی طاقت ہے۔ پس، نوح کے ایمان نے اُسے عمل کرنے کی تحریک دی۔ ابرہام کی طرح نوح کو بھی ”کامل اعتقاد ہؤا کہ جو کچھ [خدا] نے وعدہ کِیا ہے وہ اسے پورا کرنے پر بھی قادر ہے۔“—رومیوں ۴:۲۱۔
۱۶. کشتی بنانے کیساتھ ساتھ نوح کے ایمان کو کیسے تقویت ملی؟
۱۶ کئی برسوں بعد کشتی آخری مراحل میں پہنچ گئی جس سے نوح کے ایمان کو تقویت ملی تھی۔ تعمیر اور دیگر متعلقہ مسائل حل کر لئے گئے تھے۔ آزمائشوں پر قابو پا لیا گیا تھا۔ کوئی بھی مخالفت اس کام کو روک نہیں پائی تھی۔ نوح کے خاندان نے یہوواہ کی حمایت اور حفاظت کا تجربہ کِیا۔ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے سے نوح کے اندر ’اپنے ایمان کی آزمائش سے برداشت پیدا ہوئی۔‘ (یعقوب ۱:۲-۴) بالآخر، کشتی مکمل ہو گئی، طوفان آیا اور نوح اور اُس کا خاندان بچ گیا۔ نوح کو خدا کے وعدوں کی تکمیل کا تجربہ ہوا جیسے بعدازاں یشوع کو بھی ہوا تھا۔ نوح کو اپنے ایمان کا اجر ملا۔
یہوواہ کام کی حمایت کرتا ہے
۱۷. کن طریقوں سے ہمارا زمانہ نوح کے زمانہ کے مماثل ہے؟
۱۷ یسوع نے پیشینگوئی کی تھی کہ ہمارا زمانہ نوح کے زمانے جیسا ہوگا۔ خدا نے پھر بدکاروں کو تباہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور اس کے لئے وقت بھی مقرر کر چکا ہے۔ (متی ۲۴:۳۶-۳۹) اُس نے راستبازوں کو بچانے کا بندوبست بھی کر لیا ہے۔ جس طرح نوح کو کشتی بنانی تھی ویسے ہی آجکل خدا کے خادموں کو یہوواہ کے مقاصد کا اعلان کرنا ہے، اُس کے کلام کی تعلیم دینا ہے اور شاگرد بنانا ہے۔—متی ۲۸:۱۹۔
۱۸، ۱۹. ہم کیسے جانتے ہیں کہ خوشخبری کی منادی کو یہوواہ کی حمایت حاصل ہے؟
۱۸ اگر یہوواہ نے نوح کی حمایت نہ کی ہوتی اور اُسے نہ سنبھالا ہوتا تو کشتی بھی کبھی نہ بنی ہوتی۔ (زبور ۱۲۷:۱ سے مقابلہ کریں۔) اسی طرح، یہوواہ کی پُشتپناہی کے بغیر سچی مسیحیت نہ تو قائم رہی ہوتی اور نہ ہی اس نے ترقی کی ہوتی۔ پہلی صدی کے ایک معزز فریسی اور شرع کے مُعلم، گملیایل نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کِیا تھا۔ جب یہودی صدرعدالت نے رسولوں کو قتل کرنا چاہا تو اُس نے اُس عدالت کو متنبہ کِیا: ”ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان سے کچھ کام نہ رکھو۔ . . . کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا۔ لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم اِن لوگوں کو مغلوب نہ کر سکو گے۔“—اعمال ۵:۳۸، ۳۹۔
۱۹ پہلی صدی اور آج کی منادی کے کام کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ کام آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے۔ اگلا مضمون وسیع پیمانے پر اس کام کی کامیابی میں مدد کرنے والے ہیجانخیز حالات اور واقعات پر گفتگو کریگا۔
کبھی بھی کمزور نہ پڑنے دیں!
۲۰. خوشخبری کی منادی میں کون ہماری مدد کرتا ہے؟
۲۰ اگرچہ ہم ”بُرے دنوں“ میں رہتے ہیں توبھی یقین رکھ سکتے ہیں کہ تمام معاملات یہوواہ کے قابو میں ہیں۔ اس بدکار نظامالعمل کے خاتمے کیلئے خدا کے مقررہ وقت سے پہلے خوشخبری کی منادی کا کام مکمل کرنے میں وہ اپنے لوگوں کی حمایت کرتا اور اُنہیں سنبھالتا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱؛ متی ۲۴:۱۴) یہوواہ ہمیں اپنے ”ساتھ کام کرنے“ کی دعوت دیتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۳:۹) ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ مسیح یسوع اس کام میں ہمارے ساتھ ہے اور ہم ملکوتی ہدایتوراہنمائی پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔—متی ۲۸:۲۰؛ مکاشفہ ۱۴:۶۔
۲۱. ہمیں کس یقینِکامل کو کبھی بھی کمزور نہیں پڑنے دینا چاہئے؟
۲۱ نوح اور اُسکا خاندان یہوواہ کے وعدوں پر ایمان رکھنے کی وجہ سے طوفان سے بچ گیا تھا۔ آجکل ایسا ہی ایمان ظاہر کرنے والے لوگوں کو ”بڑی مصیبت“ سے بچا لیا جائے گا۔ (مکاشفہ ۷:۱۴) ہم نہایت ہیجانخیز دَور میں رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے نہایت اہم واقعات ہیں! جلد ہی، خدا پُرجلال نئے آسمان اور نئی زمین کے آنے کے لئے کارروائی کریگا جن میں راستبازی بسی رہے گی۔ (۲-پطرس ۳:۱۳) اپنے اس یقینِکامل کو کبھی بھی کمزور نہ پڑنے دیں کہ خدا جو کہتا ہے وہ کر بھی سکتا ہے۔—رومیوں ۴:۲۱۔
یاد رکھنے کیلئے نکات
◻یہوواہ تمام انسانی معاملات کو قابو میں کیوں نہیں رکھتا؟
◻اپنے مقصد کو پورا کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کی قابلیت اسرائیل کیساتھ اُسکے برتاؤ سے کیسے عیاں تھی؟
◻نوح کے زمانہ میں یہوواہ کی مستقبل کو دیکھ لینے کی قابلیت کیسے ظاہر ہوئی تھی؟
◻ہم خدا کے وعدوں پر کیسا اعتماد رکھ سکتے ہیں؟