ہماری بیشقیمت میراث—آپ کیلئے یہ کتنی اہم ہے؟
”آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِعالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔“—متی ۲۵:۳۴۔
۱. لوگوں نے میراث میں کس قسم کی چیزیں حاصل کی ہیں؟
تمام انسانوں کو میراث میں کچھ نہ کچھ ضرور ملا ہے۔ بعض کو تو آراموآسائش کا ورثہ ملا ہے جبکہ دیگر کے حصے میں محض غربت آئی ہے۔ بعض معاملات میں، آباؤاجداد نے اپنے تجربے یا سنیسنائی باتوں کے باعث کسی دوسرے نسلی گروہ سے سخت نفرت کرنے کا ورثہ چھوڑا ہے۔ تاہم، ہم سب میں ایک بات مشترک ہے۔ ہم سب نے پہلے انسان آدم سے گناہ کی میراث حاصل کی ہے۔ یہ میراث انجامکار موت کا باعث بنتی ہے۔—واعظ ۹:۲، ۱۰؛ رومیوں ۵:۱۲۔
۲، ۳. یہوواہ نے ابتدا میں آدم اور حوا کی اولاد کیلئے کونسی میراث ممکن بنائی مگر اُنہیں یہ کیوں حاصل نہ ہوئی؟
۲ ایک پُرمحبت باپ کے طور پر، یہوواہ نے ابتدا میں نوعِانسان کو ایک فرق میراث—فردوس میں کامل ابدی زندگی—پیش کی تھی۔ ہمارے پہلے والدین آدم اور حوا شروع میں بالکل کامل اور بیگناہ تھے۔ یہوواہ خدا نے یہ سیارہ زمین نوعِانسان کو تحفے میں دیا تھا۔ (زبور ۱۱۵:۱۶) اُس نے باغِعدن کو ایک نمونے کے طور پر پیش کرنے سے یہ ظاہر کِیا کہ ہمارا سارا کُرۂارض ایسا بن سکتا ہے اور اِس کے لئے ہمارے پہلے والدین کو ایک شاندار، چیلنجخیز کام سونپا گیا۔ اُنہیں اولاد پیدا کرنے اور زمین اور اِس کے نباتاتوحیوانات کی دیکھبھال کرنے سے سارے کُرۂارض کو فردوس بنا دینا تھا۔ (پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۸، ۹، ۱۵) اِس کام میں اُن کی اولاد نے بھی اُن کا ہاتھ بٹانا تھا۔ واقعی وہ اپنی اولاد کو کتنی شاندار میراث دینے کے قابل تھے!
۳ تاہم، اِن تمام امکانات سے مستفید ہونے کے لئے آدم، حوا اور اُن کی اولاد کو خدا کے ساتھ ایک اچھا رشتہ رکھنے کی ضرورت تھی۔ اُن سے یہ تقاضا کِیا گیا تھا کہ وہ یہوواہ سے محبت اور اُس کی تابعداری کریں مگر آدم اور حوا نے یہوواہ کی تمام بخششوں کی قدر کرنے میں ناکام ہو جانے کے باعث اُس کی حکمعدولی کی۔ اُنہوں نے اپنا فردوسی گھر اور شاندار امکانات کھو دئے جو خدا نے اُن کے سامنے رکھے تھے۔ لہٰذا، وہ اِنہیں اپنی اولاد کو نہیں دے سکتے تھے۔—پیدایش ۲:۱۶، ۱۷؛ ۳:۱-۲۴۔
۴. آدم نے جو میراث کھو دی ہم اُسے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
۴ یہوواہ نے رحمدلی سے آدم اور حوا کی اولاد کے لئے اُسی میراث کو دوبارہ حاصل کرنے کا بندوبست کِیا جو آدم نے کھو دی تھی۔ کیسے؟ خدا کے وقتِمقررہ پر اُس کے اپنے بیٹے یسوع مسیح نے آدم کی اولاد کی خاطر اپنی کامل انسانی زندگی قربان کر دی۔ اِس طرح مسیح نے اُن سب کو خرید لیا۔ تاہم، اُنہیں یہ میراث خودبخود نہیں مل جاتی۔ اُنہیں خدا کی پسندیدگی کی ضرورت تھی جو گناہ کا کفارہ دینے والی یسوع کی قربانی کی قدروقیمت پر ایمان لانے اور فرمانبرداری سے اِس پر ایمان کا مظاہرہ کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶، ۳۶؛ ۱-تیمتھیس ۲:۵، ۶؛ عبرانیوں ۲:۹؛ ۵:۹) کیا آپ کی زندگی سے اِس فراہمی کے لئے قدردانی ظاہر ہوتی ہے؟
ابرہام نے جو میراث منتقل کی
۵. ابرہام نے یہوواہ کیساتھ اپنے رشتے کیلئے قدردانی کیسے ظاہر کی؟
۵ جب یہوواہ نے زمین کیلئے اپنے مقصد کو پورا کرنا شروع کِیا تو وہ ابرہام کیساتھ ایک خاص طریقے سے پیش آیا۔ اُس نے اُس وفادار آدمی کو اپنا مُلک چھوڑ کر ایک ایسے مُلک میں جانے کی ہدایت کی جو خدا خود اُسے دکھائیگا۔ ابرہام نے خوشی سے حکم کی تعمیل کی۔ ابرہام کے وہاں پہنچنے کے بعد، یہوواہ نے کہا کہ ابرہام کی بجائے اُسکی اولاد کو یہ مُلک میراث میں ملیگا۔ (پیدایش ۱۲:۱، ۲، ۷) ابرہام نے کیسا ردِعمل دکھایا؟ وہ تمام حالات میں یہوواہ کی راہنمائی کی پیروی اور اُسکی خدمت کرنے کیلئے تیار تھا تاکہ اُسکی اولاد اپنی میراث حاصل کر سکے۔ ابرہام نے اپنی موت تک یعنی ۱۰۰ سال تک اُس مُلک میں یہوواہ کی خدمت کی جو اُسکا نہیں تھا۔ (پیدایش ۱۲:۴؛ ۲۵:۸-۱۰) کیا آپ نے ایسا کِیا ہوتا؟ یہوواہ نے فرمایا کہ ابرہام اُس کا ”دوست“ ہے۔—یسعیاہ ۴۱:۸۔
۶. (ا) ابرہام نے رضامندی سے اپنے بیٹے کو قربان کرنے سے کس بات کا مظاہرہ کِیا؟ (ب) ابرہام اپنی اولاد کو کونسی بیشقیمت میراث دے سکتا تھا؟
۶ ابرہام نے ایک بیٹے، اضحاق کیلئے کافی سال انتظار کِیا تھا جس سے وہ بہت زیادہ پیار کرتا تھا۔ جب یہ لڑکا جوان ہوا تو یہوواہ نے ابرہام کو اُسے قربان کرنے کا حکم دیا۔ ابرہام نہیں جانتا تھا کہ وہ یہ مظاہرہ کرنے جا رہا ہے کہ خدا خود اپنے بیٹے کو فدیے کے طور پر قربان کریگا؛ پھربھی، اُس نے حکم کی تعمیل کی اور وہ اضحاق کو قربان کرنے ہی والا تھا کہ یہوواہ کے فرشتے نے اُسے روک دیا۔ (پیدایش ۲۲:۹-۱۴) یہوواہ نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ اُس کا وعدہ اضحاق کے ذریعے پورا ہوگا۔ لہٰذا، ابرہام ایمان رکھتا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو خدا اضحاق کو مُردوں میں سے بھی زندہ کر سکتا ہے اگرچہ ایسی بات اِس سے پہلے کبھی واقع نہیں ہوئی تھی۔ (پیدایش ۱۷:۱۵-۱۸؛ عبرانیوں ۱۱:۱۷-۱۹) چونکہ ابرہام نے اپنے بیٹے سے بھی دریغ نہ کِیا اِس لئے یہوواہ نے کہا: ”تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔“ (پیدایش ۲۲:۱۵-۱۸) یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پیدایش ۳:۱۵ میں متذکرہ نسل—مسیحائی نجاتدہندہ—ابرہام کے شجرۂنسب سے آئیگی۔ اُس نے کتنی بیشقیمت میراث منتقل کی!
۷. ابرہام، اضحاق اور یعقوب نے اپنی میراث کیلئے قدردانی کیسے ظاہر کی؟
۷ اُس وقت یہوواہ جو بھی کر رہا تھا، ابرہام اور اُسکا بیٹا اضحاق اور اُسکا پوتا یعقوب جو ”اُس کے ساتھ اسی وعدہ کے وارث تھے“ اِسکی اہمیت کو سمجھتے نہیں تھے۔ لیکن وہ سب یہوواہ پر اعتماد رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اُس مُلک کے کسی شہر کی حکومت سے وابستگی پیدا نہ کی کیونکہ وہ ایک بہتر چیز، ”پایدار شہر [کے] اُمیدوار [تھے] جسکا معمار اور بنانے والا خدا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۸-۱۰، ۱۳-۱۶) تاہم، ابرہام کی ساری اولاد نے اُسکی چھوڑی ہوئی میراث کی قدر نہیں کی تھی۔
بعض نے میراث کو ناچیز جانا
۸. عیسو نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُس کے نزدیک اُسکی بیشقیمت میراث کی کوئی قدر نہیں تھی؟
۸ یعقوب کے سب سے بڑے بیٹے، عیسو نے اپنے پہلوٹھے ہونے کے حق کو ناچیز جانا۔ اُس نے پاک چیزوں کی کوئی قدر نہ کی۔ پس، ایک روز جب عیسو بھوکا تھا تو اُس نے اپنے پہلوٹھے ہونے کے حق کو اپنے بھائی یعقوب کے آگے بیچ ڈالا۔ کس چیز کیلئے؟ صرف ایک وقت کی روٹی اور مسور کی دال کیلئے! (پیدایش ۲۵:۲۹-۳۴؛ عبرانیوں ۱۲:۱۴-۱۷) جس قوم کے وسیلے ابرہام سے کئے گئے خدا کے وعدے پورے ہونے تھے وہ یعقوب سے آئی جس کا نام خدا نے بدل کر اسرائیل رکھ دیا تھا۔ اِس خاص میراث سے اُنہیں کونسے مواقع حاصل ہوئے؟
۹. اپنی روحانی میراث کی وجہ سے یعقوب یا اسرائیل کی اولاد نے کس مخلصی کا تجربہ کِیا؟
۹ ایک قحط کے دوران یعقوب اور اُسکا خاندان مصر منتقل ہو گیا۔ وہاں وہ ایک بہت بڑی قوم بن گئے مگر غلام بھی ہو گئے۔ لیکن یہوواہ ابرہام کیساتھ اپنا وعدہ بھولا نہیں تھا۔ خدا نے اپنے مقررہ وقت پر بنیاسرائیل کو غلامی سے چھڑایا اور اُنہیں آگاہ کِیا کہ وہ اُنہیں اُس ”مُلک میں جہاں دودھ اور شہد بہتا ہے“ لیجائے گا یعنی اُسی مُلک میں جس کا وعدہ اُس نے ابرہام سے کِیا تھا۔—خروج ۳:۷، ۸؛ پیدایش ۱۵:۱۸-۲۱۔
۱۰. کوہِسینا پر، بنیاسرائیل کی میراث کے سلسلے میں مزید کونسے غیرمعمولی واقعات رُونما ہوئے؟
۱۰ جب بنیاسرائیل ملکِموعود کی طرف جا رہے تھے تو راستے میں یہوواہ نے اُنہیں کوہِسینا پر جمع کِیا۔ وہاں اُس نے اُن سے کہا: ”اگر تم میری بات مانو اور میرے عہد پر چلو تو سب قوموں میں سے تم ہی میری خاص ملکیت ٹھہرو گے کیونکہ ساری زمین میری ہے۔ اور تم میرے لئے کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مُقدس قوم ہوگے۔“ (خروج ۱۹:۵، ۶) جب لوگ بخوشی اِس سے متفق ہو گئے تو یہوواہ نے اُنہیں اپنی شریعت دی جو اُس نے کسی دوسری قوم کو نہیں دی تھی۔—زبور ۱۴۷:۱۹، ۲۰۔
۱۱. بنیاسرائیل کے روحانی ورثے میں بعض کونسی بیشقیمت چیزیں شامل تھیں؟
۱۱ اِس نئی قوم کے پاس کیا ہی شاندار روحانی ورثہ تھا! اُنہوں نے واحد خدائےبرحق کی پرستش کی۔ اُنہوں نے خدا کی بدولت مصر سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کوہِسینا پر شریعت دئے جانے کے موقع پر ہیبتناک واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ نبیوں کی معرفت مزید ”خدا کا کلام“ پہنچنے سے اُنکا ورثہ اَور بھی بیشقیمت ہو گیا۔ (رومیوں ۳:۱، ۲) یہوواہ نے اُنہیں اپنا گواہ مقرر کِیا تھا۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۰-۱۲) مسیحائی نسل اُنہی کی قوم سے آنی تھی۔ شریعت نے اُس نسل کی طرف اشارہ کِیا اور پھر اُسکی شناخت بھی کرائی اور اُنکی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ اُنہیں اُسکی ضرورت ہے۔ (گلتیوں ۳:۱۹، ۲۴) مزیدبرآں، اُنہیں مسیحائی نسل کیساتھ کاہنوں کی مملکت اور ایک مُقدس قوم کے طور پر خدمت کرنے کا موقع بھی حاصل ہوگا۔—رومیوں ۹:۴، ۵۔
۱۲. ملکِموعود میں داخل ہونے کے باوجود، اسرائیلی کس بات کا تجربہ کرنے میں ناکام ہوگئے؟ کیوں؟
۱۲ اپنے قول کے مطابق، یہوواہ نے اسرائیلیوں کو ملکِموعود پہنچا دیا۔ لیکن بعدازاں پولس رسول نے وضاحت کی کہ اُنکے ایمان کی کمی کی وجہ سے وہ مُلک ”آرام“ کی جگہ ثابت نہ ہوا۔ ایک اُمت کے طور پر وہ ”[خدا] کے آرام“ میں داخل نہ ہوئے کیونکہ وہ آدم اور حوا کی تخلیق کے بعد شروع ہونے والے خدا کے آرام کے دن کے مقصد کو سمجھنے اور اُسکے مطابق کام کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔—عبرانیوں ۴:۳-۱۰۔
۱۳. اپنے روحانی ورثے کی قدر کرنے میں ناکامی کے باعث، اسرائیلی ایک قوم کے طور پر کس چیز سے محروم ہو گئے؟
۱۳ اسرائیلی قوم کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مُقدس قوم کے طور پر مسیحا کے ساتھ آسمانی بادشاہت میں شریک ہونے والے اشخاص کی مکمل تعداد فراہم کر سکتی تھی۔ لیکن اُنہوں نے اپنے روحانی ورثے کی کوئی قدر نہ کی۔ صرف اسرائیلیوں کے بقیے نے ہی مسیحا کی آمد کے وقت اُسے قبول کِیا تھا۔ نتیجتاً، صرف تھوڑے سے لوگ ہی پہلے سے بیان کی گئی کاہنوں کی مملکت میں شامل ہونے کے لائق ٹھہرے۔ اسرائیل سے بادشاہت لے لی گئی اور ”اُس قوم کو جو اُس کے پھل [لائی] دیدی“ گئی۔ (متی ۲۱:۴۳) یہ کونسی قوم ہے؟
آسمانی میراث
۱۴، ۱۵. (ا) یسوع کی موت کے بعد، قوموں نے ابرہام کی ”نسل“ کے وسیلے سے کیسے برکت حاصل کرنا شروع کی؟ (ب) ”خدا کے اؔسرائیل“ کے ارکان کونسی میراث حاصل کرتے ہیں؟
۱۴ جس قوم کو مملکت عطا کی گئی وہ ”خدا [کا] اؔسرائیل،“ روحانی اسرائیل تھا جو یسوع مسیح کے روح سے پیداشُدہ ۱،۴۴،۰۰۰ پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ (گلتیوں ۶:۱۶؛ مکاشفہ ۵:۹، ۱۰؛ ۱۴:۱-۳) ۱،۴۴،۰۰۰ میں سے بعض پیدائشی یہودی تھے لیکن زیادہتر غیرقوموں میں سے لئے گئے تھے۔ اِس طرح سے ابرہام کیساتھ یہوواہ کا وعدہ کہ اُسکی ”نسل“ کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائینگی پورا ہونا شروع ہوا۔ (اعمال ۳:۲۵، ۲۶؛ گلتیوں ۳:۸، ۹) اِس پہلی تکمیل میں، یہوواہ خدا نے غیرقوم لوگوں کو روحالقدس سے مسح کرکے اپنے روحانی فرزند، مسیح کے بھائی بنا لیا۔ لہٰذا، وہ بھی اُس ”نسل“ کا ثانوی حصہ بن گئے۔—گلتیوں ۳:۲۸، ۲۹۔
۱۵ اپنی موت سے پہلے، یسوع نے اِس نئی قوم کے امکانی یہودی ارکان کو نئے عہد سے متعارف کرایا جس کی توثیق اُس کے اپنے خون سے ہونی تھی۔ اِس توثیقشُدہ قربانی پر ایمان کی وجہ سے، اِس عہد میں لئے گئے اشخاص کو ”ہمیشہ کے لئے کامل“ کِیا جائے گا۔ (عبرانیوں ۱۰:۱۴-۱۸) وہ ”راستباز بھی ٹھہر“ سکتے ہیں اور اُن کے گناہوں کی معافی بھی ہو سکتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۱) یوں وہ بالکل ویسے ہی بن جاتے ہیں جیسا آدم گناہ کرنے سے پہلے تھا۔ تاہم، اِنہیں زمینی فردوس میں نہیں رہنا ہے۔ یسوع نے کہا کہ وہ آسمان میں اُن کے لئے جگہ تیار کرنے کے لئے جا رہا ہے۔ (یوحنا ۱۴:۲، ۳) وہ ’آسمان میں اپنے لئے محفوظ کی گئی میراث‘ حاصل کرنے کے لئے زمینی امکانات ترک کر دیتے ہیں۔ (۱-پطرس ۱:۴) وہ وہاں کیا کرتے ہیں؟ یسوع نے وضاحت کی: ”جیسے میرے باپ نے میرے لئے ایک بادشاہی مقرر کی ہے مَیں بھی تمہارے لئے مقرر کرتا ہوں۔“—لوقا ۲۲:۲۹۔
۱۶. ممسوح مسیحیوں کو مستقبل میں کونسی شاندار تفویض حاصل ہوگی؟
۱۶ آسمان سے مسیح کیساتھ حکمرانی کرنے والے، دیگر باتوں سمیت، زمین سے یہوواہ کی حاکمیت کے خلاف بغاوت کے تمام آثار مٹا ڈالینگے۔ (مکاشفہ ۲:۲۶، ۲۷) ابرہام کی روحانی نسل کے ثانوی حصے کے طور پر، وہ تمام قوموں کے لوگوں کو کامل زندگی کی برکت عطا کرنے میں حصہ لینگے۔ (رومیوں ۸:۱۷-۲۱) اُنکی میراث کتنی بیشقیمت ہے!—افسیوں ۱:۱۶-۱۸۔
۱۷. ممسوح مسیحی ابھی تک زمین پر رہتے ہوئے اپنی میراث کے کن پہلوؤں سے استفادہ کرتے ہیں؟
۱۷ لیکن یسوع کے ممسوح پیروکاروں کی میراث مستقبل کی بات ہی نہیں ہے۔ یسوع نے واحد خدائےبرحق یہوواہ کو جاننے میں اُنکی اِس طرح سے مدد کی جو کوئی دوسرا انسان نہیں کر سکتا تھا۔ (متی ۱۱:۲۷؛ یوحنا ۱۷:۳، ۲۶) اُس نے قولوفعل سے اُنہیں ’یہوواہ پر بھروسا‘ اور اُسکی فرمانبرداری کرنا سکھایا۔ (عبرانیوں ۲:۱۳؛ ۵:۷-۹) یسوع نے اُنہیں خدا کے مقاصد کے متعلق سچائی کا علم دیا اور اُنہیں یقین دِلایا کہ روحالقدس اِسکی مکمل سمجھ حاصل کرنے میں اُنکی مدد کریگی۔ (یوحنا ۱۴:۲۴-۲۶) اُس نے خدا کی بادشاہت کی اہمیت کو اُنکے دلودماغ پر نقش کر دیا۔ (متی ۶:۱۰، ۳۳) یسوع نے اُنہیں یروشلیم، یہودیہ، سامریہ اور زمین کی انتہا تک لوگوں کو گواہی دینے اور شاگرد بنانے کی تفویض بھی سونپی۔—متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰؛ اعمال ۱:۸۔
بڑی بِھیڑ کیلئے بیشقیمت میراث
۱۸. ابرہام کی ”نسل“ کے وسیلے سے تمام قوموں کے برکت پانے کی بابت یہوواہ کا وعدہ آجکل کس طرح پورا ہو رہا ہے؟
۱۸ غالباً، روحانی اسرائیل، بادشاہتی وارثوں کے ”چھوٹے گلّے“ کی مکمل تعداد کا انتخاب ہو چکا ہے۔ (لوقا ۱۲:۳۲) اب عشروں سے، یہوواہ نے تمام قوموں سے بڑی بِھیڑ کو جمع کرنے پر توجہ دی ہے۔ لہٰذا، ابرہام کیساتھ یہوواہ کا وعدہ کہ اُسکی ”نسل“ کے وسیلے سے تمام قومیں برکت پائینگی وسیع پیمانے پر پورا ہو رہا ہے۔ یہ مبارک اشخاص بڑی خوشی سے یہوواہ کی پاک خدمت بجا لاتے اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کے بّرہ، یسوع مسیح پر ایمان اُنکی نجات کی بنیاد ہے۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۰) کیا آپ نے اِس مبارک گروہ کا حصہ بننے کیلئے یہوواہ کی مشفقانہ دعوت قبول کر لی ہے؟
۱۹. اِس وقت غیرقوموں کے مبارک لوگ کونسی میراث پانے کی اُمید رکھتے ہیں؟
۱۹ یہوواہ اُن لوگوں کو کونسی بیشقیمت میراث پیش کرتا ہے جو چھوٹے گلّے کا حصہ نہیں ہیں؟ ان کی میراث آسمانی نہیں ہے۔ یہ وہ میراث ہے جو آدم اپنی اولاد کو دے سکتا تھا—بتدریج ساری زمین پر پھیل جانے والی فردوس میں کامل ابدی زندگی۔ یہ ایک ایسی دُنیا ہوگی جس میں ”نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔“ (مکاشفہ ۲۱:۴) لہٰذا، خدا کا الہامی کلام آپ سے یہ کہتا ہے: ”[یہوواہ] پر توکل کر اور نیکی کر۔ ملک میں آباد رہ اور اُس کی وفاداری سے پرورش پا۔ [یہوواہ] میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مُرادیں پوری کرے گا۔ . . . کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا۔ . . . لیکن حلیم مُلک کے وارث ہونگے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے۔ صادق زمین کے وارث ہونگے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“—زبور ۳۷:۳، ۴، ۱۰، ۱۱، ۲۹۔
۲۰. ”دوسری بھیڑیں“ ممسوح مسیحیوں کی روحانی میراث سے کیسے مستفید ہوتی ہیں؟
۲۰ یسوع کی ”دوسری بھیڑوں“ کو آسمانی بادشاہت کے زمینی قلمرو میں میراث ملتی ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۶الف، اینڈبلیو) ممسوح اشخاص جس روحانی ورثے سے محظوظ ہوتے ہیں وہ اِن دوسری بھیڑوں تک بھی منتقل ہوتا ہے حالانکہ یہ آسمان پر نہیں جائینگی۔ ممسوح جماعت، ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے دوسری بھیڑوں کو بھی خدا کے کلام میں پائے جانے والے بیشقیمت وعدوں کی سمجھ عطا کی گئی ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ ۲۵:۳۴) ممسوح اور دوسری بھیڑیں ملکر واحد خدائےبرحق، یہوواہ کو جانتے اور اُس کی پرستش کرتے ہیں۔ (یوحنا ۱۷:۲۰، ۲۱) وہ ملکر گناہ کا کفارہ دینے والی یسوع کی قربانی کے لئے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ ایک چرواہے، یسوع مسیح کے تحت ایک گلّہ کے طور پر خدمت کرتے ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۱۶ب) وہ ایک پُرمحبت عالمگیر برادری کا حصہ ہیں۔ اُنہیں یہوواہ اور اُس کی بادشاہت کے گواہ ہونے کا مشترکہ شرف حاصل ہے۔ جیہاں، اگر آپ یہوواہ کے مخصوصشُدہ اور بپتسمہیافتہ خادم ہیں تو یہ سب کچھ آپ کی روحانی میراث میں شامل ہے۔
۲۱، ۲۲. ہم سب کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی روحانی میراث کو عزیز رکھتے ہیں؟
۲۱ یہ روحانی میراث آپ کیلئے کتنی بیشقیمت ہے؟ کیا آپ اِس کی اتنی قدر کرتے ہیں کہ خدا کی مرضی پوری کرنا آپ کی زندگی میں نہایت اہم بن جاتا ہے؟ اِس بات کے ثبوت میں، کیا آپ مسیحی کلیسیا کے تمام اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونے سے متعلق خدا کے کلام اور اُس کی تنظیم کی مشورت پر دھیان دے رہے ہیں؟ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) کیا یہ میراث آپ کیلئے اتنی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ آپ مشکلات کے باوجود خدا کی خدمت کرنا جاری رکھتے ہیں؟ کیا اِس کیلئے آپ کی قدردانی اتنی مضبوط ہے کہ یہ آپ کو اِس سے محروم کر دینے والی روش پر چلنے کی آزمائش کا مقابلہ کرنے کیلئے مستحکم کرتی ہے؟
۲۲ دُعا ہے کہ ہم سب اُس روحانی میراث کو عزیز رکھیں جو خدا نے ہمیں عطا کی ہے۔ آنے والے فردوس پر اپنی نظریں جمائے ہوئے، آئیے اُن روحانی استحقاقات سے پوری طرح مستفید ہوں جو یہوواہ اِس وقت ہمیں عطا کر رہا ہے۔ یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے کو اپنی زندگی کا محور بنانے سے ہم اِس بات کا ٹھوس ثبوت پیش کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک خداداد میراث کتنی بیشقیمت ہے۔ خدا کرے کہ ہم اُن اشخاص میں شامل ہوں جن میں سے ہر ایک پکار کر یہ کہتا ہے: ”اَے میرے خدا! اَے بادشاہ! مَیں تیری تمجید کروں گا اور ابدالآباد تیرے نام کو مبارک کہوں گا۔“—زبور ۱۴۵:۱۔
آپ کیسے وضاحت کرینگے؟
• اگر آدم خدا کا وفادار رہتا تو اُس نے ہمیں کونسی میراث دی ہوتی؟
• ابرہام کی اولاد نے اپنی میراث کیساتھ کیا کِیا؟
• مسیح کے ممسوح پیروکاروں کی میراث میں کیا شامل ہے؟
• بڑی بِھیر کی میراث کیا ہے اور وہ اِس کیلئے اپنی حقیقی قدردانی کیسے ظاہر کر سکتی ہے؟
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
ابرہام کی اولاد کے حق میں بیشقیمت میراث کا وعدہ پورا ہوا
[صفحہ ۲۳ پر تصویریں]
کیا آپ اپنی روحانی میراث کی قدر کرتے ہیں؟