خوشدلی سے یہوؔواہ کی خدمت کریں
”یہ سب لعنتیں تجھ پر آئینگی . . . چونکہ تُو . . . فرحت اور خوشدلی سے خداوند اپنے خدا کی عبادت نہیں کریگا۔“—استثنا ۲۸:۴۵-۴۷۔
۱. اس بات کی کیا شہادت موجود ہے کہ یہوؔواہ کی خدمت کرنے والے لوگ خواہ وہ کہیں پر بھی اُسکی خدمت انجام دیتے ہیں، شادمان ہیں؟
یہوؔواہکے خادم مسرور ہیں، خواہ وہ آسمان میں یا زمین پر اُسکی مرضی کو پورا کر رہے ہیں۔ زمین کی بنیاد ڈالے جانے پر ملکوتی ”صبح کے ستارے“ خوشی سے للکارے اور بِلاشُبہ آسمانی فرشتگان کے لشکر خوشی سے ’خدا کے کلام پر عمل کرتے‘ ہیں۔ (ایوب ۳۸:۴-۷؛ زبور ۱۰۳:۲۰) یہوؔواہ کا اکلوتا بیٹا آسمان میں پُرمسرت ”ماہر کاریگر“ تھا اور اُس نے زمین پر انسان یسوؔع مسیح کے طور پر الہٰی مرضی کو پورا کرنے میں راحت محسوس کی۔ مزیدبرآں، ”[اُس] نے اُس خوشی کیلئے جو اُسکی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کر کے صلیب کا دکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔“—امثال ۸:۳۰، ۳۱؛ عبرانیوں ۱۰:۵-۱۰؛ ۱۲:۲۔
۲. کس چیز نے اس بات کا تعیّن کِیا کہ آیا اسرائیلی برکات کا تجربہ کریں گے یا کہ لعنتوں کا؟
۲ اسرائیلیوں نے خوشی کا تجربہ کیا جب اُنہوں نے خدا کو شاد کِیا۔ لیکن اگر اُنہوں نے اُس کی نافرمانی کی تو پھر کیا واقع ہوگا؟ اُنکو آگاہ کِیا گیا تھا: ”[لعنتیں] تجھ پر اور تیری اولاد پر سدا نشان اور اچنبھے کے طور پر رہینگی۔ اور چونکہ تُو باوجود سب چیزوں کی فراوانی کے فرحت اور خوشدلی سے خداوند اپنے خدا کی عبادت نہیں کرے گا۔ اس لئے بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تُو اپنے اُن دشمنوں کی خدمت کرے گا جنکو خداوند تیرے برخلاف بھیجیگا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جُوآ رکھے رہیگا جب تک تیرا ناس نہ کر دے۔“ (استثنا ۲۸:۴۵-۴۸) برکات اور لعنتوں نے ظاہر کر دیا کہ کون یہوؔواہ کے خادم تھے اور کون نہیں تھے۔ ایسی لعنتوں نے اس بات کی بھی تصدیق کر دی کہ خدا کے قوانین اور مقاصد کو معمولی خیال نہیں کِیا جا سکتا، نہ ہی ان کی تحقیر کی جا سکتی ہے۔ چونکہ اسرائیلیوں نے تباہی اور اسیری کی بابت یہوؔواہ کی آگاہیوں کو سننے سے انکار کر دیا تھا اس لئے یروشلیم ”زمین کی سب قوموں کے نزدیک لعنت کا باعث“ بنا۔ (یرمیاہ ۲۶:۶) اس لئے آئیے پھر ہم خدا کی فرمانبرداری کریں اور اُس کی کرمفرمائی سے استفادہ کریں۔ خوشی اُن بہتیری الہٰی برکات میں سے ایک ہے جن کا خداپرست لوگ تجربہ کرتے ہیں۔
”خوشدلی“ سے خدمت کس طرح کریں
۳. علامتی دل کیا ہے؟
۳ اسرائیلیوں کو ”فرحت اور خوشدلی سے“ یہوؔواہ کی خدمت کرنا تھی۔ دورِحاضر کے خدا کے خادموں کو بھی ایسے ہی کرنا چاہئے۔ فرحت کا مطلب ”خوش ہونا؛ خوشی سے معمور ہونا ہے۔“ اگرچہ صحائف میں جسمانی دل کا ذکر کِیا گیا ہے مگر یہ حقیقی معنوں میں نہ تو سوچتا ہے اور نہ ہی استدلال کرتا ہے۔ (خروج ۲۸:۳۰) اسکا بنیادی کام خون فراہم کرنا ہے جو جسم کے خلیوں کی پرورش کرتا ہے۔ تاہم، زیادہتر معاملات میں بائبل علامتی دل کا حوالہ دیتی ہے جو محبت، تحریک اور فراست کے مرکز سے بڑھکر ہے۔ اسے ”عموماً اندرونی حصے اور یوں باطنی شخص“ کی علامت سمجھا جاتا ہے ”جو اپنی تمام کارگزاریوں، اپنی خواہشات، محبتوں، احساسات، جذبات، مقاصد، اپنے خیالات، افکار، تصورات، اپنی حکمت، معرفت، مہارت، اپنے عقائد اور اپنی دلیلبازیوں، اپنے حافظے اور اپنے شعور میں خود کو ظاہر کرتا ہے۔“ (جرنل آف دی سوسائٹی آف ببلیکل لٹریچر اینڈ ایگزیجسس، ۱۸۸۲، صفحہ ۶۷) ہمارا علامتی دل بشمول خوشی کے ہمارے احساسات اور جذبات پر مشتمل ہوتا ہے۔—یوحنا ۱۶:۲۲۔
۴. خوشدلی سے یہوؔواہ کی خدمت کرنے کے لئے کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۴ خوشدلی سے یہوؔواہ کی خدمت کرنے کے لئے کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟ اپنی برکات اور خداداد استحقاقات کی بابت ایک مثبت اور قدرافزا نظریہ مددگار ہے۔ مثال کے طور پر، ہم سچے خدا کے لئے ”پاک خدمت“ سرانجام دینے کے اپنے شرف کی بابت خوشی سے سوچ سکتے ہیں۔ (لوقا ۱:۷۴) اُسکے گواہوں کے طور پر یہوؔواہ کے نام کے حامل ہونے سے وابستہ شرف بھی ہے۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۰-۱۲) اس میں ہم اس بات کو جاننے کی خوشی کا اضافہ کر سکتے ہیں کہ خدا کے کلام کی پیروی کر کے ہم اُسے خوش کر رہے ہیں۔ اور روحانی نور کو منعکس کرنے اور یوں تاریکی میں سے نکل آنے کے لئے بہتیروں کی مدد کرنے سے بڑی خوشی اَور کیا ہے!—متی ۵:۱۴-۱۶؛ مقابلہ کریں ۱-پطرس ۲:۹۔
۵. خدائی خوشی کا ماخذ کیا ہے؟
۵ تاہم، خوشدلی سے یہوؔواہ کی خدمت کرنا محض مثبت سوچ کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ نقطۂنظر میں مثبت ہونے کے لئے بھی مفید ہے۔ لیکن خدائی شادمانی کوئی ایسی چیز نہیں جسے ہم شخصیتی پختگی کے ذریعے پیدا کرتے ہیں۔ یہ یہوؔواہ کی روح کا پھل ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) اگر ہمارے پاس ایسی خوشی نہیں ہے تو ہمیں کسی بھی ایسے غیرصحیفائی انداز میں سوچنے اور عمل کرنے سے گریز کرنے کی خاطر تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جو خدا کی روح کو رنجیدہ کر سکتا ہے۔ (افسیوں ۴:۳۰) تاہم، یہوؔواہ کے عقیدتمند لوگوں کے طور پر آئیے اس بات سے خوف نہ کریں کہ کسی موقع پر دلی خوشی کی کمی الہٰی ناپسندیدگی کا ثبوت ہے۔ ہم ناکامل ہیں اور بعض اوقات درد، رنج اور افسردگی کے تابع ہوتے ہیں لیکن یہوؔواہ ہمیں سمجھتا ہے۔ (زبور ۱۰۳:۱۰-۱۴) اس لئے پھر آئیے اس بات کو یاد رکھتے ہوئے اُسکی روحالقدس کے لئے دعا کریں کہ خوشی کا پھل خداداد ہے۔ ہمارا پُرمحبت آسمانی باپ ایسی دعاؤں کا جواب دیگا اور ہمیں خوشدلی سے اُسکی خدمت کے قابل بنائیگا۔—لوقا ۱۱:۱۳۔
جب خوشی جاتی رہتی ہے
۶. اگر خدا کے لئے ہماری خدمت میں خوشی قائم نہیں رہتی تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۶ اگر خوشی ہماری خدمت میں سے جاتی رہتی ہے تو بالآخر ہم یہوؔواہ کی خدمت کرنے میں سُست پڑ سکتے ہیں یا اُسکے لئے بےوفا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، اپنے محرکات پر فروتنی اور دعا کے ساتھ غوروفکر کرنا اور ضروری تبدیلیاں پیدا کرنا دانشمندی ہوگی۔ خداداد خوشی حاصل کرنے کے لئے ہمیں محبت سے تحریک پا کر اور سارے دل، جان اور عقل سے یہوؔواہ کی خدمت کرنی چاہئے۔ (متی ۲۲:۳۷) ہمیں مقابلہباز رجحان کے ساتھ خدمت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ پولسؔ نے لکھا: ”اگر ہم روح کے سبب سے زندہ ہیں تو روح کے موافق چلنا بھی چاہئے۔ ہم بیجا فخر کر کے نہ ایک دوسرے کو چڑائیں نہ ایک دوسرے سے جلیں۔“ (گلتیوں ۵:۲۵، ۲۶) اگر ہم محض اس لئے خدمت کر رہے ہیں کیونکہ ہم دوسروں پر برتری حاصل کرنا چاہتے یا تعریف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں حقیقی خوشی حاصل نہیں ہوگی۔
۷. ہم اپنی خوشدلی کو دوبارہ کسطرح اُبھار سکتے ہیں؟
۷ یہوؔواہ کے لئے اپنی مخصوصیت کو پورا کرنے میں بھی خوشی ہے۔ جب ہم نئے نئے خدا کے لئے مخصوص ہوئے تھے تو ہم نے بڑے جوش کے ساتھ مسیحی طرزِزندگی کا آغاز کِیا تھا۔ ہم صحائف کا مطالعہ کرتے اور باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے تھے۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) اس نے ہمیں خدمتگزاری میں حصہ لینے کی خوشی عطا کی۔ لیکن، اگر ہماری خوشی ماند پڑ گئی ہے تو کیا ہو؟ بائبل مطالعہ، اجلاس پر حاضری، خدمتگزاری میں شرکت—یقیناً، مسیحیت کے ہر پہلو میں بھرپور شمولیت—کو ہماری زندگیوں کو استحکام عطا کرنا چاہئے اور ہماری پہلے جیسی محبت اور ہمارے دل کی سابقہ خوشی دونوں کو ازسرِنو اُبھارنا چاہئے۔ (مکاشفہ ۲:۴) پھر ہم اُن کی مانند نہیں ہونگے جو کسی نہ کسی طرح سے غمگین ہیں اور اکثر روحانی مدد کے حاجتمند رہتے ہیں۔ بزرگ مدد کرکے خوش ہیں لیکن انفرادی طور پر ہمیں بھی خدا کے لئے اپنی مخصوصیت کو پورا کرنا چاہئے۔ کوئی اور شخص ہمارے لئے ایسا نہیں کر سکتا۔ اس لئے پھر آئیے یہوؔواہ کے لئے اپنی مخصوصیت کو پورا کرنے اور حقیقی خوشی حاصل کرنے کی غرض سے عام مسیحی معمول پر عمل کرنے کو اپنا نصبالعین بنائیں۔
۸. اگر ہم خوش رہنا چاہتے ہیں تو ایک صاف ضمیر کیوں اہم ہے؟
۸ اگر ہم نے اُس خوشی کو حاصل کرنا ہے جو خدا کی روح کا پھل ہے تو ہمیں ایک صاف ضمیر کی ضرورت ہے۔ جب تک اسرائیل کے بادشاہ داؔؤد نے اپنے گناہ چھپانے کی کوشش کی، وہ سخت غمزدہ رہا۔ دراصل، اُسکی زندگی کی شادابی خشک ہوتی ہوئی دکھائی دی اور شاید وہ جسمانی طور پر بیمار پڑ گیا تھا۔ جب توبہ اور اعتراف کِیا گیا تو اُسے کیا ہی تسکین حاصل ہوئی! (زبور ۳۲:۱-۵) اگر ہم کسی سنگین گناہ کو چھپا رہے ہیں تو ہم خوش نہیں رہ سکتے۔ یہ ہمارے لئے ایک تکلیفدہ زندگی بسر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ یقیناً، خوشی سے لطفاندوز ہونے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ لیکن اعتراف اور توبہ، تسکین اور ایک پُرمسرت جذبے کی بحالی کا باعث بنتے ہیں۔—امثال ۲۸:۱۳۔
خوشی سے انتظار کرنا
۹، ۱۰. (ا) اؔبرہام نے کونسا وعدہ حاصل کِیا لیکن اُسکے ایمان اور خوشی کی آزمائش کیسے ہو سکتی تھی؟ (ب) اؔبرہام، اضحاؔق اور یعقوؔب کے نمونوں سے ہم کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
۹ جب ہم الہٰی مقصد کی بابت سچائی کو پہلےپہل سیکھتے ہیں تو یہ خوش ہونے کی ایک وجہ ہے لیکن سالہاسال گزر جانے کے بعد پُرمسرت رہنا ایک دوسری بات ہے۔ اسکی مثال ایماندار اؔبرہام کے معاملے سے مِل سکتی ہے۔ خدا کے حکم پر اپنے بیٹے اضحاؔق کو قربان کرنے کی اُسکی کوشش کے بعد ایک فرشتہ یہ پیغام لے کر آیا: ”خداوند فرماتا ہے چونکہ تُو نے یہ کام کِیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے دریغ نہ رکھا اس لئے میں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں تجھے برکت پر برکت دونگا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کر دونگا اور تیری اولاد اپنے دشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی۔ اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائینگی کیونکہ تُو نے میری بات مانی۔“ (پیدایش ۲۲:۱۵-۱۸) بلاشُبہ، اس وعدے پر اؔبرہام کی خوشی کی انتہا نہ رہی تھی۔
۱۰ اؔبرہام نے یہ توقع کی ہو گی کہ اؔضحاق ہی وہ ”نسل“ ہوگا جس کے وسیلے سے وعدہ کی ہوئی برکات آئیں گی۔ لیکن برسوں بیت جانے کے بعد جب اضحاق کے ذریعے کوئی بھی حیرانکُن بات انجام نہ پائی تو اس چیز نے ہو سکتا ہے کہ اؔبرہام اور اُسکے خاندان کے ایمان اور خوشی کی ضرور آزمائش کی ہو۔ اضحاؔق اور بعدازاں اُسکے بیٹے یعقوؔب کے لئے وعدے کی خدائی تصدیق نے اُنہیں اس بات کا یقین دلا دیا کہ نسل کی آمد ابھی مستقبل کی بات تھی اور اس چیز نے انکی اپنے ایمان اور خوشی کو برقرار رکھنے میں مدد کی۔ تاہم، اؔبرہام، اضحاؔق اور یعقوؔب اپنے حق میں خدا کے وعدوں کی تکمیل کو دیکھے بغیر ہی مر گئے لیکن وہ یہوؔواہ کے غمگین خادم نہ تھے۔ (عبرانیوں ۱۱:۱۳) ہم بھی اُسکے وعدوں کی تکمیل کا انتظار کرتے ہوئے ایمان اور خوشی کے ساتھ یہوؔواہ کی خدمت کرنا جاری رکھ سکتے ہیں۔
اذیت کے باوجود خوشی
۱۱. اذیت کے باوجود بھی ہم کیوں خوش ہو سکتے ہیں؟
۱۱ یہوؔواہ کے خادموں کے طور پر، اگرچہ ہم اذیت اُٹھاتے ہیں، تو بھی ہم خوشدلی سے یہوؔواہ کی خدمت کر سکتے ہیں۔ یسوؔع نے اُن لوگوں کو مبارک کہا جو اُسکی خاطر ستائے جاتے ہیں اور پطرؔس رسول نے کہا: ”مسیح کے دکھوں میں جوں جوں شریک ہو خوشی کرو تاکہ اُسکے جلال کے ظہور کے وقت بھی نہایت خوشوخرم ہو۔ اگر مسیح کے نام کے سبب سے تمہیں ملامت کی جاتی ہے تو تم مبارک ہو کیونکہ جلال کا روح یعنی خدا کا روح تم پر سایہ کرتا ہے۔“ (۱-پطرس ۴:۱۳، ۱۴؛ متی ۵:۱۱، ۱۲) اگر آپ اذیت برداشت کر رہے ہیں اور راستبازی کی خاطر دکھ اٹھا رہے ہیں تو آپ کو یہوؔواہ کی روح اور پسندیدگی حاصل ہے اور یہ یقیناً خوشی کو فروغ دیتا ہے۔
۱۲. (ا) ہم خوشی کے ساتھ ایمان کی آزمائشوں کا مقابلہ کیوں کر سکتے ہیں؟ (ب) ایک جلاوطن لاوی کے واقعہ سے کونسا بنیادی سبق سیکھا جا سکتا ہے؟
۱۲ ہم ایمان کی آزمائشوں کے ساتھ خوشی سے نپٹ سکتے ہیں کیونکہ خدا ہماری پناہ ہے۔ اس بات کو زبور ۴۲ اور ۴۳ میں عیاں کِیا گیا ہے۔ کسی وجہ سے، کوئی لاوی جلاوطنی کی حالت میں تھا۔ خدا کے مقدِس میں کی جانے والی عبادت کی یاد نے اُسے اس قدر ستایا کہ اُس نے پیاسی ہرنی کی طرح محسوس کِیا جو ایک خشک اور بنجر علاقے میں پانی کی آرزو کرتی ہے۔ وہ یہوؔواہ کے لئے اور اُسکے مقدِس میں خدا کی عبادت کرنے کے شرف کا ”پیاسا“ یا خواہاں ہوا۔ (زبور ۴۲:۱، ۲) اس جلاوطن کے تجربے کو ہمیں تحریک دینی چاہئے کہ یہوؔواہ کے لوگوں کے ساتھ جس رفاقت سے ہم لطفاندوز ہوتے ہیں اُس کیلئے شکرگزاری ظاہر کریں۔ اگر اذیت کے باعث قیدوبند جیسی حالت نے ہمیں اُنکے ساتھ جمع ہونے سے عارضی طور پر باز رکھا ہے تو آئیے ہم پاک خدمت میں گزری ہوئی باہمی خوشیوں پر غور کریں اور صبر کیلئے دعا کریں جبکہ اپنے پرستاروں کے ساتھ باقاعدہ کارگزاری کیلئے ہمیں بحال کرنے کی خاطر ہم ”خدا سے اُمید“ رکھتے ہیں۔—زبور ۴۲:۴، ۵، ۱۱؛ ۴۳:۳-۵۔
”خوشی سے خداوند کی خدمت کرو“
۱۳. زبور ۱۰۰:۱، ۲ کیسے ظاہر کرتی ہیں کہ خوشی کو خدا کے لئے ہماری خدمت کا نمایاں وصف ہونا چاہئے؟
۱۳ خوشی کو خدا کے لئے ہماری خدمت کا نمایاں وصف ہونا چاہئے۔ اس بات کو ایک شکرگزاری کے گیت میں ظاہر کِیا گیا جس میں زبورنویس نے گایا: ”اَے اہلِ زمین! سب خداوند کے حضور خوشی کا نعرہ مارو۔ خوشی سے خداوند کی عبادت کرو۔ گاتے ہوئے اُسکے حضور حاضر ہو۔“ (زبور ۱۰۰:۱، ۲) یہوؔواہ ”خدایِمبارک“ ہے اور چاہتا ہے کہ اُسکے خادم اُسکے لئے اپنی مخصوصیت کو پورا کرنے سے خوشی حاصل کریں۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۱) تمام قوموں کے لوگوں کو یہوؔواہ میں شادمان ہونا چاہئے اور ایک فاتح لشکر کے ’فاتحانہ نعرے‘ کی مانند ستائش کے ہمارے کلمات کو زوردار ہونا چاہئے۔ چونکہ خدا کی خدمت تازگیبخش ہے اس لئے خوشی کو اسکے ہمراہ ہونا چاہئے۔ لہٰذا، زبورنویس نے ”گاتے ہوئے“ خدا کے حضور حاضر ہونے کی تاکید کی۔
۱۴، ۱۵. زبور ۱۰۰:۳-۵ کا اطلاق آجکل یہوؔواہ کے پُرمسرت لوگوں پر کسطرح ہوتا ہے؟
۱۴ زبورنویس نے مزید کہا: ”جان رکھو [پہچان لو، تسلیم کر لو] کہ خداوند ہی خدا ہے۔ اُسی نے ہمکو بنایا اور ہم اُسی کے ہیں۔ ہم اُسکے لوگ اور اُسکی چراگاہ کی بھیڑیں ہیں۔“ (زبور ۱۰۰:۳) چونکہ یہوؔواہ ہمارا خالق ہے اس لئے وہ ہمارا مالک ہے جیسے چرواہا بھیڑوں کا مالک ہوتا ہے۔ خدا ہماری اتنی فکر کرتا ہے کہ ہم شکرگزاری کے ساتھ اُسکی حمدوثنا کرتے ہیں۔ (زبور ۲۳) یہوؔواہ کی بابت زبورنویس نے یہ بھی گایا: ”شکرگزاری کرتے ہوئے اُسکی بارگاہوں میں داخل ہو۔ اُسکا شکر کرو اور اُسکے نام کو مبارک کہو۔ کیونکہ خداوند بھلا ہے۔ اُسکی شفقت ابدی ہے اور اُسکی وفاداری پُشتدرپُشت رہتی ہے۔“—زبور ۱۰۰:۴، ۵۔
۱۵ آجکل، تمام اقوام کے مسرور لوگ شکرگزاری اور حمد کی قربانی چڑھانے کیلئے یہوؔواہ کے مقدِس کے صحنوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہوؔواہ کی تعریف کرنے سے خوشی کے ساتھ خدا کے نام کی ستائش کرتے ہیں اور اسکی شاندار خوبیاں ہمیں اُسکی مدحسرائی کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔ وہ سراسر نیک ہے اور اپنے خادموں کیلئے اُسکی شفقت یا رحمدلانہ فکر پر ہمیشہ بھروسہ کِیا جا سکتا ہے اسلئے کہ یہ ابد تک قائم رہتی ہے۔ اُسکی مرضی بجا لانے والوں کیلئے محبت دکھانے میں یہوؔواہ ”پُشتدرپُشت“ وفادار ہے۔ (رومیوں ۸:۳۸، ۳۹) یقیناً، پھر، ہمارے پاس ”خوشی سے خداوند کی خدمت“ کرنے کی اچھی وجہ موجود ہے۔
اپنی اُمید میں خوش رہیں
۱۶. کن اُمیدوں اور امکانات سے مسیحی شادمان ہو سکتے ہیں؟
۱۶ پولسؔ نے لکھا: ”اُمید میں خوش“ رہو۔ (رومیوں ۱۲:۱۲) یسوؔع مسیح کے ممسوح پیروکار غیرفانی آسمانی زندگی کی پُرشکوہ اُمید میں شادمان رہتے ہیں جسے خدا نے اپنے بیٹے کے وسیلے سے اُن کیلئے ممکنالحصول بنایا۔ (رومیوں ۸:۱۶، ۱۷؛ فلپیوں ۳:۲۰، ۲۱) زمین پر فردوس میں ابدی زندگی کی اُمید رکھنے والے مسیحیوں کے پاس بھی خوش ہونے کی وجوہات ہیں۔ (لوقا ۲۳:۴۳) یہوؔواہ کے تمام وفادار خادم بادشاہتی اُمید میں خوش ہونے کی وجہ رکھتے ہیں کیونکہ یا تو وہ اُس آسمانی حکومت کا حصہ ہوں گے یا پھر اس کے زمینی قلمرو میں زندہ رہیں گے۔ کیا ہی مسرتآفرین برکت!—متی ۶:۹، ۱۰؛ رومیوں ۸:۱۸-۲۱۔
۱۷، ۱۸. (ا) یسعیاہ ۲۵:۶-۸ میں کیا پیشینگوئی کی گئی تھی؟ (ب) یسعیاؔہ کی یہ پیشینگوئی اب کیسے پوری ہو رہی ہے اور مستقبل میں اس کی تکمیل کی بابت کیا ہے؟
۱۷ یسعیاؔہ نے بھی فرمانبردار نوعِانسان کے لئے ایک خوشآئند مستقبل کی پیشینگوئی کی۔ اس نے لکھا: ”ربالافواج اس پہاڑ پر سب قوموں کے لئے فربہ چیزوں سے ایک ضیافت تیار کریگا بلکہ ایک ضیافت تلچھٹ پر سے نتھری ہوئی مے سے۔ ہاں فربہ چیزوں سے جو پُرمغز ہوں اور مے سے جو تلچھٹ پر سے خوب نتھری ہوئی ہو۔ اور وہ اس پہاڑ پر اُس پردہ کو جو تمام لوگوں پر پڑا ہے اور اس نقاب کو جو سب قوموں پر لٹک رہا ہے دُور کریگا۔ وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کر دیگا اور خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالیگا اور اپنے لوگوں کی رسوائی تمام سرزمین پر سے مٹا دیگا کیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے۔“—یسعیاہ ۲۵:۶-۸۔
۱۸ یہوؔواہ کے پرستاروں کے طور پر جس روحانی دعوت میں ہم آجکل شریک ہوتے ہیں وہ واقعی ایک پُرمسرت ضیافت ہے۔ دراصل، جب ہم اُن حقیقی عمدہ چیزوں کی ضیافت کی توقع میں جن کا اُس نے نئی دنیا کے لئے وعدہ کِیا ہے گرمجوشی سے خدا کی خدمت کرتے ہیں تو ہماری خوشی چھلکنے لگتی ہے۔ (۲-پطرس ۳:۱۳) یسوؔع کی قربانی کی بنا پر، یہوؔواہ اُس ”نقاب“ کو ہٹا دے گا جو آؔدم کے گناہ کی وجہ سے تمام نسلِانسانی پر پڑا ہوا ہے۔ گناہ اور موت کو ختم ہوتے دیکھنا کتنی خوشی کی بات ہوگی! قیامتیافتہ عزیزوں کا واپس خیرمقدم کرنا، آنسوؤں کے غائب ہو جانے کو دیکھنا اور اُس زمینی فردوس میں زندگی بسر کرنا کسقدر خوشی کی بات ہے، جہاں پر یہوؔواہ کے لوگوں کو رسوا نہیں کِیا جائیگا بلکہ وہ سب سے بڑے طعنہباز، شیطان ابلیس کے لئے خدا کو جواب فراہم کر چکے ہونگے!—امثال ۲۷:۱۱۔
۱۹. ہمیں اُن امکانات کی بابت کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے جو یہوؔواہ نے اپنے گواہوں کے طور پر ہمارے سامنے رکھے ہیں؟
۱۹ جو کچھ یہوؔواہ اپنے خادموں کے لئے کرے گا کیا اُس کا علم آپ کو خوشی اور تشکر سے معمور نہیں کرتا؟ یقیناً، ایسے شاندار امکانات ہماری خوشی میں اضافہ کرتے ہیں! مزیدبرآں، ہماری بابرکت اُمید ہمیں اپنے مبارک، پُرمحبت، فیاض خدا کو ان احساسات کے ساتھ تکتے رہنے کے قابل بناتی ہے: ”لو یہ ہمارا خدا ہے۔ ہم اُس کی راہ تکتے تھے اور وہی ہم کو بچائے گا۔ یہ خداوند ہے۔ ہم اُس کے انتظار میں تھے۔ ہم اُس کی نجات سے خوشوخرم ہوں گے۔“ (یسعیاہ ۲۵:۹) اپنی شاندار اُمید کو مضبوطی کے ساتھ ذہن میں نقش کر کے، آئیے خوشی سے یہوؔواہ کی خدمت کرنے کے لئے بڑے جوش کے ساتھ ہر ممکن کوشش کریں۔ (۱۵ ۱/۱۵ w۹۵)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ ہم ”خوشدلی“ سے یہوؔواہ کی خدمت کیسے کر سکتے ہیں؟
▫ اگر خدا کے لئے ہماری خدمت میں خوشی قائم نہیں رہتی تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
▫ اذیت کے باوجود بھی یہوؔواہ کے لوگوں کے پاس خوشی کیوں ہو سکتی ہے؟
▫ اپنی اُمید میں خوش ہونے کی ہمارے پاس کونسی وجوہات ہیں؟
[تصویریں]
مسیحی زندگی کے تمام حلقوں میں شریک ہونا ہماری خوشی کو بڑھائے گا