دیسی یا پردیسی، خدا آپ کا خیرمقدم کرتا ہے!
”اس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام روئے زمین پر رہنے کیلئے پیدا کی۔“ اعمال ۱۷:۲۶۔
۱. آجکل بہت سے علاقوں میں غیرملکی ثقافتوں کے لوگوں کو قبول کرنے کے سلسلے میں کونسی ناگوار صورتحال پائی جاتی ہے؟
اخباری رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ بہت سے ممالک میں پردیسیوں، نوآباکاروں، اور پناہگزینوں کی بابت تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ لاکھوں ایشیا، افریقہ، یورپ، اور امریکہ کے خطوں سے نکل جانے کیلئے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ شاید وہ کچل ڈالنے والی غربت، خانہ جنگی، یا ایذارسانی سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا انکا کہیں اور خیرمقدم ہوتا ہے؟ ٹائم میگزین نے بیان دیا: ”جبکہ یورپی نسلیاتی میلجول بدلنا شروع ہو گیا ہے تو بعض ممالک کے علم میں آیا ہے کہ وہ غیرملکی ثقافتوں کیلئے اتنے روادار نہیں ہیں جتنا کہ انکے خیال میں وہ کبھی ہوا کرتے تھے۔“ ۱،۸۰،۰۰،۰۰۰ ”ناخواستہ“ پناہگزینوں کی بابت ٹائم نے کہا: ”جو چیلنج وہ مستحکم قوموں کو پیش کرتے ہیں وہ ختم نہیں ہوگا۔“
۲، ۳. (ا)قبولیت کے سلسلے میں بائبل کونسی تازگیبخش یقیندہانی کراتی ہے؟ (ب) لوگوں کیساتھ خدا کے برتاؤ کے متعلق صحائف جوکچھ پیش کرتے ہیں اسکا جائزہ لینے سے ہم کیونکر فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
۲ اس سلسلے میں خواہ کچھ بھی واقع ہو، بائبل ظاہر کرتی ہے کہ خدا ہر قوم کے لوگوں کا خیرمقدم کرتا ہے خواہ کوئی شخص پیدائشی شہری، نوآبادکار، یا پناہگزین ہو۔ (اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵) تاہم، بعض شاید پوچھیں، ”آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کیا خدا نے دوسروں کو خارج کرکے قدیم اسرائیل ہی کو اپنے لوگوں کے طور پر نہیں چنا تھا؟“
۳ آئیں ہم دیکھیں کہ خدا نے قدیم لوگوں کیساتھ کیسا سلوک کیا۔ ہم بعض پیشینگوئیوں کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ آجکل کے سچے پرستاروں کیلئے کونسی مراعات دستیاب ہیں۔ اس نبوتی مواد کا جائزہ لینا پوری سمجھ دے سکتا ہے جسے آپ شاید نہایت ہی حوصلہافزا پائیں۔ یہ اسکی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ خدا بڑی مصیبت کے بعد ”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور امت اور اہل زبان“ کے افراد کیساتھ کیسا برتاؤ کر سکتا ہے۔ مکاشفہ ۷:۹، ۱۴-۱۷۔
”سب قومیں برکت پائینگی“
۴. قومیت کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا تھا، لیکن خدا نے کیا اقدام اٹھا ئے؟
۴ طوفان کے بعد، تمام نسلانسانی نوح کے قریبی خاندان پر مشتمل تھی اور وہ سب سچے پرستار تھے۔ لیکن وہ اتحاد جلد ٹوٹ گیا۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ بعض لوگوں نے خدا کی مرضی کی پرواہ کئے بغیر ایک برج بنانا شروع کر دیا۔ یہ بنینوع انسان کا لسانی گروہوں میں بٹ جانے کا سبب بنا جو پراگندہ امتیں اور قومیں بن گئے۔ (پیدایش ۱۱:۱-۹) تاہم، سچی پرستش اس خاندان میں جاری رہی جو ابرہام تک لے گیا۔ خدا نے وفادار ابرہام کو برکت دی اور وعدہ کیا کہ اس کی نسل ایک بڑی قوم بنیگی۔ (پیدایش ۱۲:۱-۳) وہ قوم قدیم اسرائیل تھی۔
۵. ابرہام کیساتھ خدا کے برتاؤ سے ہم سب کیونکر حوصلہ پا سکتے ہیں؟
۵ تاہم، یہوواہ اسرائیل کے علاوہ لوگوں کو خارج نہیں کر رہا تھا کیونکہ اسکے مقصد میں تمام بنیآدم کا احاطہ کرنے کی وسعت تھی۔ خدا نے ابرہام سے جو وعدہ کیا ہم اس سے بلاشبہ یہ دیکھتے ہیں: ”تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائینگی کیونکہ تو نے میری بات مانی۔“ (پیدایش ۲۲:۱۸) تاہم، خدا نے ایک قومی شرعی ضابطہ دینے سے، اپنے مقدس میں قربانیاں گزراننے کیلئے کاہنوں کا بندوبست کرنے سے، اور رہنے کیلئے ملک موعود دینے سے، صدیوں تک اسرائیل کیساتھ خاص طریقے سے برتاؤ کیا۔
۶. اسرائیل کے ساتھ خدا کے انتظامات سب کو کیسے فائدہ پہنچائینگے؟
۶ اسرائیل کیلئے خدا کی شریعت تمام قوموں کے لوگوں کیلئے مفید تھی کیونکہ اس نے انسان کی گنہگارانہ حالت کو واضح کیا، جس نے انسانی گناہ کو ایک ہی بار ڈھانپنے کیلئے ایک کامل قربانی کی ضرورت کو ظاہر کیا۔ (گلتیوں ۳:۱۹، عبرانیوں ۷:۲۶-۲۸، ۹:۹، ۱۰:۱-۱۲) تاہم اس بات کی کیا یقیندہانی تھی کہ ابرہام کی نسل جس کے وسیلہ سے سب قومیں برکت پائینگی آئیگی اور ان تقاضوں کو پورا کریگی؟ یوں بھی اسرائیل کی شریعت نے مدد کی۔ اس نے کنعانیوں کے ساتھ باہمی شادیاں کرنے کو منع کیا جو غیراخلاقی کاموں اور بچوں کو زندہ جلانے کے رواج جیسی رسومات کے لئے ایک بدنام قوم تھی۔ (احبار ۱۸:۶-۲۴، ۲۰:۲، ۳، استثنا ۱۲:۲۹-۳۱، ۱۸:۹-۱۲) خدا نے حکم جاری کیا کہ انہیں اور انکے کاموں کو ختم کیا جائے۔ یہ سب بشمول اجنبی باشندوں کے دائمی فائدے میں تھا، چونکہ یہ نسل کے سلسلے کو خراب ہونے سے بچاؤ کا کام دیگا۔ احبار ۱۸:۲۴-۲۸، استثنا ۷:۱-۵، ۹:۵، ۲۰:۱۵-۱۸۔
۷. اس سلسلے میں ابتدائی اشارہ کیا تھا کہ خدا نے بیگانوں کا خیرمقدم کیا ہے؟
۷ جس اثنا کہ شریعت نافذالعمل تھی اور خدا اسرائیل کو بطورخاص خیال کرتا تھا تو بھی اس نے غیراسرائیلیوں پر رحم دکھایا۔ ایسا کرنے کی اس کی رضامندی کا مظاہرہ اس وقت کیا گیا جب اسرائیل مصر کی غلامی سے نکل کر اپنے ملک کی طرف بڑھنے لگے۔ ”انکے ساتھ ایک ملیجلی گروہ بھی گئی۔“ (خروج ۱۲:۳۸) پروفیسر سی۔ ایف کیل ان کی ”پردیسیوں کے ایک کثیرانبوہ . . . مختلف قوموں کے لوگوں کی بھیڑ، یا ملیجلی گروہ“ کے طور پر شناخت کراتا ہے۔ (احبار ۲۴:۱۰، گنتی ۱۱:۴) غالباً بہت سے مصری تھے جنہوں نے سچے خدا کو قبول کر لیا تھا۔
پردیسیوں کا خیرمقدم
۸. جبعونیوں نے کسطرح سے خدا کے لوگوں میں ایک مقام حاصل کیا؟
۸ جب اسرائیل نے ملک موعود کو اخلاقی طور پر بگڑی ہوئی قوموں سے چھڑانے کے خدائی حکم کی تعمیل کی تو اس نے پردیسیوں کے ایک گروہ، جبعونیوں، کو بچائے رکھا، جو یروشلیم کے شمال میں رہتے تھے۔ انہوں نے بھیس بدلے ہوئے سفیروں کو یشوع کے پاس اتحاد کرنے اور صلح کا عہد باندھنے کیلئے بھیجا۔ جب ان کی چال کا علم ہوا تو یشوع نے فیصلہ سنایا کہ جبعونی ”ساری جماعت کیلئے اور یہوواہ کے مذبح کیلئے لکڑہاروں اور پانی بھرنے والوں“ کے طور پر خدمت کرینگے۔ (یشوع ۹:۳-۲۷) آجکل بھی بہت سے نوآبادکار نئے لوگوں کا حصہ بننے کی خاطر ادنی خدمتی مرتبے قبول کرتے ہیں۔
۹. اسرائیل میں پردیسیوں کے سلسلے میں راحب اور اسکے گھرانے کا نمونہ کیسے حوصلہافزا ہے؟
۹ یہ جان کر آپکی حوصلہافزائی ہو سکتی ہے کہ اس وقت خدا کا خیرمقدم نہ صرف پردیسیوں کے گروہوں کیلئے تھا بلکہ تنتنہا اشخاص کا خیرمقدم بھی کیا گیا تھا۔ آجکل بعض قومیں صرف ان نوآبادکاروں کا خیرمقدم کرتی ہیں جو معاشری حیثیت، صرف کرنے کیلئے دولت، یا اعلی تعلیم رکھتے ہیں۔ یہوواہ کیساتھ ایسا معاملہ نہیں، جیسے ہم جبعونیوں کے قصے کے تھوڑا پہلے کے واقعہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ ایک کنعانی کا معاملہ تھا جو یقیناً کوئی اعلی معاشری حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ بائبل اسے ”راحب کسبی“ کہتی ہے۔ جب یریحو گرایا گیا تو سچے خدا پر ایمان کی وجہ سے وہ اور اسکا گھرانہ بچا لئے گئے تھے۔ راحب اگرچہ پردیسی تھی تو بھی اسرائیلیوں نے اسے قبول کر لیا تھا۔ وہ ایمان کا ایک نمونہ تھی جو ہمارے لئے نقل کرنے کا مستحق ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۳۰، ۳۱، ۳۹، ۴۰، یشوع ۲:۱-۲۱، ۶:۱-۲۵) وہ مسیحا کی ایک امالاسلاف بھی بنی۔ متی ۱:۵، ۱۶۔
۱۰. اسرائیل میں پردیسیوں کی پذیرائی کا انحصار کس چیز پر تھا؟
۱۰ سچے خدا کو پسند آنے کی اپنی کوشش کی مطابقت میں غیراسرائیلیوں کو ملک موعود میں قبول کیا گیا تھا۔ اسرائیلیوں سے کہا گیا تھا کہ جو یہوواہ کی خدمت نہیں کرتے تھے ان کے ساتھ خصوصاً مذہبیطورپر رفاقت نہ رکھیں۔ (یشوع ۲۳:۶، ۷، ۱۲، ۱۳، ۱-سلاطین ۱۱:۱-۸، امثال ۶:۲۳-۲۸) پھربھی، بہت سے غیراسرائیلی آبادکاروں نے بنیادی قوانین کی فرمانبرداری کی۔ دوسرے تو مختون نومرید بن گئے اور یہوواہ نے انکا اپنی کلیسیا کے ممبروں کے طورپر خیرمقدم کیا۔ احبار ۲۰:۲، ۲۴:۲۲، گنتی ۱۵:۱۴-۱۶، اعمال ۸:۲۷۔ a
۱۱، ۱۲. (ا)اسرائیلیوں کو پردیسی پرستاروں کیساتھ کیسا سلوک کرنا تھا؟ (ب) یہوواہ کے نمونے کی پیروی کرنے میں ہمیں بہتری لانے کی ضرورت کیوں ہو سکتی ہے؟
۱۱ خدا نے اسرائیلیوں کو ہدایت کی کہ پردیسی پرستاروں کیلئے اسکے رحجان کی نقل کریں: ”اگر کوئی پردیسی تیرے ساتھ تمہارے ملک میں بودوباش کرتا ہو تو تم . . . اسے دیسی کی مانند سمجھنا بلکہ تو اس سے اپنی مانند محبت کرنا اسلئے کہ تم ملک مصر میں پردیسی تھے۔“ (احبار ۱۹:۳۳، ۳۴، استثنا ۱:۱۶، ۱۰:۱۲-۱۹) اگرچہ ہم شریعت کے ماتحت نہیں ہیں تو بھی یہ ہمارے لئے ایک سبق مہیا کرتا ہے۔ کسی دوسری نسل، قوم، یا ثقافت کے لوگوں کیلئے تعصبات اور دشمنی رکھنے کی طرف مائل ہو جانا آسان ہے۔ اسلئے ہم یہ پوچھ کر اچھا کرتے ہیں: ”کیا میں یہوواہ کے نمونے کی پیروی کرنے سے اسطرح کے تعصبات سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں؟“
۱۲ اسرائیلی خدائی خیرمقدم کا دیدنی ثبوت رکھتے تھے۔ سلیمان بادشاہ نے دعا کی تھی: ”اب رہا وہ پردیسی جو تیری قوم اسرائیل میں سے نہیں ہے۔ وہ جب دور ملک سے تیرے نام کی خاطر آئے . . . اور اس گھر کی طرف رخ کرکے دعا کرے تو تو آسمان پر سے . . . سن لینا . . . تاکہ زمین کی سب قومیں تیرے نام کو پہچانیں . . . اور تیرا خوف مانیں۔“ ۱-سلاطین ۸:۴۱-۴۳، ۲-تواریخ ۶:۳۲، ۳۳۔
۱۳. خدا نے اسرائیل کیساتھ اپنے برتاؤ میں تبدیلی لانے کا اہتمام کیوں کیا؟
۱۳ جبکہ یہوواہ ابھی تک بنی اسرائیل کو اپنے لوگوں کے طور پر استعمال کر رہا تھا اور “ اسطرح مسیحا کے خاندانی سلسلے کا تحفظ کر رہا تھا تو خدا نے اہم تبدیلیوں کی پیشینگوئی کی۔ اس سے پہلے جب اسرائیل نے شریعتی عہد کی پابندی کرنے کی حامی بھری تھی تو خدا نے منظوری دی تھی کہ وہ ”کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مقدس قوم“ کی اصل ہو سکتے تھے۔ (خروج ۱۹:۵، ۶) لیکن اسرائیل صدیوں تک بےوفائی کرتا رہا۔ پس یہوواہ نے پیشینگوئی کی کہ وہ ایک نیا عہد باندھیگا جسکے تحت ”اسرائیل کے گھرا نے“ کو تشکیل دینے والوں کی بدکاری اور گناہ بخشے جائینگے۔ (یرمیاہ ۳۱:۳۳، ۳۴) اس نئے عہد نے مسیحا کا انتظار کیا جس کی قربانی واقعی بہتیروں کو گناہ سے پاک کریگی۔ یسعیاہ ۵۳: ۵-۷، ۱۰-۱۲۔
اسرائیلی آسمان میں
۱۴. یہوواہ نے کس نئے ”اسرائیل“ کو قبول کیا، اور کیسے؟
۱۴ مسیحی یونانی صحائف یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں کہ اس سب کی تکمیل کسطرح ہوئی تھی۔ یسوع ہی وہ مسیحا تھا جسکی موت نے شریعت کو پورا کیا اور گناہ سے مکمل معافی کی بنیاد قائم کی۔ اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے کسی کو جسمانی طور پر مختون یہودی بننے کی ضرورت نہ تھی۔ نہیں۔ پولس رسول نے لکھا کہ نئے عہد میں ”یہودی وہی ہے جو باطن میں ہے اور ختنہ وہی ہے جو دل کا اور روحانی ہے نہ کہ لفظی۔“ (رومیوں ۲:۲۸، ۲۹، ۷:۶) جو یسوع کی قربانی پر ایمان لائے انہیں معافی حاصل ہوئی اور خدا نے انہیں ”روح سے یہودیوں“ کے طور پر قبول کیا جو ”خدا کے اسرائیل“ کہلانے والی روحانی قوم کو تشکیل دیتے ہیں۔ گلتیوں ۶:۱۶۔
۱۵. روحانی اسرائیل کا حصہ بننے میں جسمانی قومیت کیوں کوئی عنصر نہیں ہے؟
۱۵ جیہاں، روحانی اسرائیل میں قبول کئے جانے کا انحصار کسی قومی یا نسلی پسمنظر پر نہیں تھا۔ بعض، جیسے کہ یسوع کے رسول، پیدائشی یہودی تھے۔ دیگر، جیسے کہ رومی فوجی افسر کرنیلیس، نامختون غیرقوم تھے۔ (اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵، ۴۴-۴۸) پولس نے روحانی اسرائیل کی بابت صحیح کہا: ”وہاں نہ یونانی رہا نہ یہودی نہ ختنہ نہ نامختونی نہ وحشی نہ سکوتی نہ غلام نہ آزاد۔“ (کلسیوں ۳:۱۱) خدا کی روح سے مسح ہونے والے ”ایک برگزیدہ نسل شاہی کاہنوں کا فرقہ مقدس قوم اور ایسی امت“ بن گئے ”جو خاص ملکیت ہے۔“ ۱-پطرس ۲:۹، مقابلہ کریں خروج ۱۹:۵، ۶۔
۱۶، ۱۷. (ا)خدا کے مقصد میں روحانی اسرائیلی کیا کردار رکھتے ہیں؟ (ب) جو خدا کے اسرائیل میں سے نہیں ہیں انکی بابت سوچنا کیوں موزوں ہے؟
۱۶ خدا کے مقصد میں روحانی اسرائیل کیا مستقبل رکھتے ہیں؟ یسوع نے جواب دیا: ”اے چھوٹے گلے نہ ڈر کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا کہ تمہیں بادشاہی دے۔“ (لوقا ۱۲:۳۲) ممسوح اشخاص جنکا ”وطن آسمان پر ہے“ برہ کیساتھ اسکی بادشاہتی حکمرانی میں ہممیراث ہونگے۔ (فلپیوں ۳:۲۰، یوحنا ۱۴:۲، ۳، مکاشفہ ۵:۹، ۱۰) بائبل ظاہر کرتی ہے کہ ”بنی اسرائیل میں سے ان پر مہر کی گئی ہے“ اور ”خدا اور برہ کیلئے پہلے پھل ہونے کے واسطے آدمیوں میں سے خرید لئے گئے ہیں۔“ انکی تعداد ۰۰۰، ۱،۴۴ ہے۔ لیکن مہر کئے ہوئے لوگوں کی تعداد بتانے کے بعد، یوحنا ایک مختلف گروپ کو متعارف کراتا ہے ”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور امت اور اہلزبان کی ایک ایسی بڑی بھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا۔“ مکاشفہ ۷:۴، ۹، ۱۴:۱-۴۔
۱۷ بعض شاید سوچیں: ”ان لاکھوں لوگوں کی بابت کیا ہے جو روحانی اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں، جیسے کہ بڑی بھیڑ کی طرح کے جو شاید بڑی مصیبت سے نکل آتے ہیں؟ آجکل روحانی اسرائیل میں سے باقی بچنے والے تھوڑے لوگوں کے سلسلے میں ان کا کیا کردار ہے؟ b
پردیسی پیشینگوئی میں
۱۸. کیا چیز بابلی جلاوطنی سے اسرائیل کی واپسی کا سبب بنی؟
۱۸ پیچھے اسی وقت پر غور کرتے ہوئے جب اسرائیل شریعتی عہد کے تحت تھا لیکن اسکا وفادار نہ تھا تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ٹھان لیا کہ بابلی اسرائیل کو برباد کریں۔ ۶۰۷ ق۔س۔ع۔ میں، اسرائیل کو ۷۰ سال کے لئے غلام بنا لیا گیا۔ اس کے بعد خدا نے پھر قوم کو چھڑایا۔ گورنر زربابل کی قیادت میں، پیدائشی اسرائیل کا بقیہ اپنے ملک کو واپس لوٹا۔ مادیوں اور فارسیوں کے حکمرانوں نے، جنہوں نے بابل کو شکست دی، واپس لوٹنے والے اسیروں کی ضروری چیزوں کیساتھ امداد بھی کی۔ یسعیاہ کی کتاب نے ان واقعات کی پیشینگوئی کی تھی۔ (یسعیاہ ۱:۱-۹، ۳:۱-۲۶، ۱۴:۱-۵، ۴۴:۲۱-۲۸، ۴۷:۱-۴) اور عزرا ہمیں اس واپسی کی تاریخی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ عزرا ۱:۱-۱۱، ۲:۱، ۲۔
۱۹. اسرائیل کی واپسی کے سلسلے میں، کونسا اشارہ موجود تھا کہ پردیسی اس میں شامل ہوں گے؟
۱۹ پھر بھی، خدا کے لوگوں کی واپسی اور چھٹکارے کی پیشینگوئی کرتے ہوئے، یسعیاہ نے چونکا دینے والی یہ نبوت کی: ”قومیں تیری روشنی کی طرف آئینگی اور سلاطین تیرے طلوع کی تجلی میں چلیں گے۔“ (یسعیاہ ۵۹:۲۰، ۶۰:۳) سلیمان کی دعا کی مطابقت میں اس کا مطلب اس سے بڑھ کر ہے کہ انفرادی پردیسوں کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔ یسعیاہ حالت میں ایک غیرمعمولی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا تھا۔ ”قومیں“ بنی اسرائیل کے ساتھ خدمت کرینگی: ”بیگانوں کے بیٹے تیری دیواریں بنائینگے اور انکے بادشاہ تیری خدمتگزاری کرینگے۔ اگرچہ میں نے اپنے قہر سے تجھے مارا پر اپنی مہربانی سے تجھ پر رحم کرونگا۔“ یسعیاہ ۶۰:۱۰۔
۲۰، ۲۱. (ا)ہم اسیری سے اسرائیل کی واپسی کیلئے کونسی جدید مشابہت پاتے ہیں؟ (ب) اسکے بعد روحانی اسرائیل میں ”بیٹے اور بیٹیوں“ کا اضافہ کیسے ہوا تھا؟
۲۰ کئی لحاظ سے اسرائیل کے اسیری میں جانے اور واپس لوٹنے کی مشابہت جدید زمانے کے روحانی اسرائیل میں ملتی ہے۔ پہلی عالمی جنگ سے پیشتر، ممسوح مسیحیوں کا بقیہ پوری طرح سے خدا کی مرضی کی مطابقت میں نہ تھا، انہوں نے مسیحی دنیا کے چرچز سے آئے ہوئے بعض نظریات اور کاموں کو قائم رکھا۔ پھر، جنگی جنون میں اور کسی حد تک پادری طبقہ کے ابھارنے پر، روحانی اسرائیل کے بقیے میں سے سرکردہ اشخاص کو غیرمنصفانہ طور پر قید کر دیا گیا تھا۔ جنگ کے بعد، ۱۹۱۹ س۔ع۔ میں، ان ممسوح اشخاص کو حقیقی قید سے آزاد اور بری کر دیا گیا تھا۔ اس بات نے شہادت دی کہ خدا کے لوگ بڑے بابل، جھوٹے مذہب کی عالمی سلطنت کی غلامی سے آزاد ہو گئے تھے۔ اسکے لوگ روحانی فردوس کو تعمیر کرنے اور اس پر قابض ہونے کیلئے آگے بڑ ھے۔ یسعیاہ ۳۵:۱-۷، ۶۵:۱۳، ۱۴۔
۲۱ یسعیاہ کے بیان میں اسکی نشاندہی کی گئی تھی: ”وہ سب کے سب اکٹھے ہوتے ہیں اور تیرے پاس آتے ہیں۔ تیرے بیٹے دور سے آئینگے اور تیری بیٹیوں کو گود میں اٹھا کر لائینگے۔ تب تو دیکھیگی اور منور ہوگی ہاں تیرا دل اچھلیگا اور کشادہ ہوگا کیونکہ سمندر کی فراوانی تیری طرف پھریگی اور قوموں کی دولت تیرے پاس فراہم ہوگی۔“ (یسعیاہ ۶۰: ۴، ۵) بعد کے عشروں میں، روحانی اسرائیل کی آخری اسامیوں کو پر کرنے کیلئے روح سے مسح ہو کر ”بیٹے اور بیٹیاں“ آتے ر ہے۔
۲۲. روحانی اسرائیلیوں کیساتھ کام کرنے کے لئے ”پردیسی“ کس طرح گئے ہیں؟
۲۲ بیگانوں کی بابت کیا ہے جو ”تیری دیواریں بنائینگے“؟ یہ بھی ہمارے زمانے میں واقع ہوا ہے۔ جب ۱،۴۴،۰۰۰ کی بلاہٹ پوری ہو رہی تھی تو تمام قوموں سے ایک بڑی بھیڑ روحانی اسرائیل کے ساتھ پرستش کرنے کیلئے جمع ہونا شروع ہو گئی۔ یہ نئے لوگ فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی بائبل پر مبنی توقع رکھتے ہیں۔ اگرچہ انکی وفادارانہ خدمت کا آخری مقام فرق ہوگا تو بھی وہ بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنے میں ممسوح بقیے کی مدد کرنے کیلئے خوش تھے۔ متی ۲۴:۱۴۔
۲۳. کس حد تک ”پردیسیوں“ نے ممسوح لوگوں کی مدد کی ہے؟
۲۳ آجکل ۴۰،۰۰،۰۰۰ سے زائد جو ”پردیسی“ ہیں ممسوح بقیے کیساتھ ملکر، جنکا ”وطن آسمان پر ہے،“ یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت کو ثابت کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہتیرے مرد اور عورتیں، جوان اور بوڑھے پائنیروں کے طور پر کل وقتی خدمتگزاری میں خدمت کر رہے ہیں۔ ۶۶،۰۰۰ سے زائد کلیسیاؤں میں ایسے پردیسی بزرگوں اور خدمتگزار خادموں کے طور پر ذمہداریاں پوری کر رہے ہیں۔ بقیہ یسعیاہ کے الفاظ کی تکمیل کو دیکھنے سے خوش ہوتا ہے: ”پردیسی آ کھڑے ہونگے اور تمہارے گلوں کو چرائینگے اور بیگانوں کے بیٹے تمہارے ہل چلانے والے اور تاکستانوں میں کام کرنے والے ہو نگے۔“ یسعیاہ ۶۱:۵۔
۲۴. ماضی میں اسرائیل اور دوسروں کے ساتھ خدا کے برتاؤ سے ہم کیسے حوصلہافزائی پا سکتے ہیں؟
۲۴ پس آپ خواہ زمین کی کسی بھی قوم کے شہری، نوآبادکار، یا پناہگزیں ہیں، آپ کے پاس روحانی پردیسی بننے کا شاندار موقع ہے جن کا قادرمطلق جوشوخروش سے خیرمقدم کرتا ہے۔ اب اور ابدی مستقبل میں اس کی خدمت کی مراعات سے لطفاندوز ہونے کا امکان اس کے خیرمقدم میں شامل ہے۔ (۷ ۴/۱۵ w۹۲)
[فٹنوٹ]
a ”اجنبی باشندے“، ”آبادکار“، ”بیگا نے،“ اور ”پردیسی“ کے فرق کیلئے دیکھیں انسائٹ آن دی سکرپچرز جلد ۱، صفحات ۷۲-۷۵، ۸۴۹-۸۵۱، واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیویارک انکارپوریٹڈ کی شائع کردہ۔
b ۱۹۹۱ میں یہوواہ کے گواہوں کی طرف سے منعقدکردہ خداوند کے عشائیے کی سالانہ یادگار پر ۱،۰۶،۰۰،۰۰۰ سے زائد لوگ حاضر تھے، لیکن صرف ۸،۸۵۰ نے روحانی اسرائیل کا بقیہ ہونے کا دعویٰ کیا۔
کیا آپ نے اس پر غور کیا؟
▫ خدا نے یہ امید کیسے پیش کی کہ تمام قوموں کے لوگ اسے قبول ہو نگے؟
▫ کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ خدا کے خاص لوگوں یعنی اسرائیل، کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اسکے پاس جا سکتے تھے؟
▫ پیشینگوئی میں خدا نے کیسے ظاہر کیا کہ پردیسی خود اسرائیل کے ساتھ شامل ہو جائینگے؟
▫ کونسی چیز بابل میں اسرائیل کی جلاوطنی سے واپسی کے مشابہ ٹھہری ہے اور ”پردیسی“ کیسے شامل ہو گئے ہیں؟
[تصویر]
سلیمان بادشاہ نے پردیسیوں کے متعلق دعا کی تھی جو یہوواہ کی پرستش کرنے کیلئے آئینگے