ابرہام—یہوواہ کے قریبی دوست
”اَے اؔسرائیل میرے بندے! اَے یعقوؔب جس کو مَیں نے پسند کِیا جو میرے دوست اؔبرہام کی نسل سے ہے۔“—یسع 41:8۔
گیت: 51، 22
1، 2. (الف) ہم کیسے جانتے ہیں کہ اِنسان خدا کے دوست بن سکتے ہیں؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک اِنسان کی سب سے اہم ضرورت محبت ہے۔ اِنسان محبت اور دوستی کے لیے ترستے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اِنسان کی سب سے بڑی ضرورت یہوواہ خدا کی محبت ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ اِنسان اَندیکھے خدا سے دوستی کر سکتے ہیں جو ایک روح ہے اور آسمان پر رہتا ہے۔ مگر ہمیں یہ خیال بالکل عجیب نہیں لگتا۔ کیوں نہیں؟
2 بائبل میں بہت سے ایسے لوگوں کا ذکر کِیا گیا ہے جو خدا کے دوست تھے۔ اُن کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں بڑا فائدہ ہوگا کیونکہ زندگی میں اِس سے اہم بات اَور کوئی نہیں کہ ہم خدا سے دوستی کریں۔ ابرہام نے ایسا ہی کِیا۔ اُن میں اور یہوواہ خدا میں بہت قریبی دوستی تھی۔ (یعقوب 2:23 کو پڑھیں۔) لیکن ابرہام خدا کے اِتنے قریبی دوست کیسے بنے؟ وہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔ دراصل بائبل میں ابرہام کو اُن سب کا باپ کہا گیا ہے ’جو ایمان لاتے ہیں۔‘ (روم 4:11) آئیں، دیکھتے ہیں کہ ابرہام اپنے ایمان کی بِنا پر خدا سے قریبی دوستی کیسے قائم کر سکے۔ اِس دوران ہم خود سے یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ”مَیں ابرہام جیسا ایمان کیسے پیدا کر سکتا ہوں تاکہ یہوواہ خدا کے ساتھ میری دوستی بھی مضبوط سے مضبوطتر ہو جائے؟“
ابرہام یہوواہ کے دوست کیسے بنے؟
3، 4. (الف) ابرہام کے ایمان کا سب سے کڑا اِمتحان کیا تھا؟ (ب) ابرہام اپنے بیٹے اِضحاق کو قربان کرنے کی لیے تیار کیوں تھے؟
3 ذرا اِس منظر کا تصور کریں: ایک بوڑھا آدمی آہستہ آہستہ پہاڑ پر چڑھ رہا ہے۔ یہ اُس کی زندگی کا مشکلترین سفر ہے۔ مگر اِس لیے نہیں کیونکہ وہ اِتنا بوڑھا ہے۔ سچ ہے کہ یہ آدمی 125 سال کا ہے لیکن وہ ابھی بھی تندرستوتوانا ہے۔ اِس آدمی کے پیچھے پیچھے ایک جوان آدمی آ رہا ہے جس کی عمر 25 سال کے لگ بھگ ہے۔ اِس جوان نے لکڑیاں اُٹھائی ہوئی ہیں۔ بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں چھری اور آگ جلانے کا سامان ہے۔ یہ دونوں آدمی ابرہام اور اُن کے بیٹے اِضحاق ہیں۔[1] یہوواہ کے کہنے پر ابرہام اپنے بیٹے کو قربان کرنے جا رہے ہیں۔—پید 22:1-8۔
4 ابرہام اپنے ایمان کے سب سے کڑے اِمتحان سے گزر رہے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خدا بڑا ظالم تھا کہ اُس نے ابرہام کو ایسا حکم دیا۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ ابرہام نے آنکھیں بند کر کے خدا کا حکم مانا اور اُنہیں اپنے بیٹے کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اِن لوگوں کو ایسا اِس لیے لگتا ہے کیونکہ وہ سچے ایمان کی پہچان نہیں رکھتے۔ (1-کُر 2:14-16) ابرہام نے آنکھیں بند کر کے خدا کا حکم نہیں مانا۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے دیکھا تھا کہ اُن کا آسمانی باپ یہوواہ اپنے خادموں کو کبھی کوئی ایسا کام کرنے کو نہیں کہتا جس سے اُن کو دائمی نقصان ہو۔ اُن کا پکا ایمان تھا کہ اگر وہ یہوواہ کا حکم مانیں گے تو یہوواہ اُن کو اور اُن کے عزیز بیٹے کو بہت سی برکتیں دے گا۔ یہ ایمان کس بنیاد پر قائم تھا؟ علم اور تجربے کی بنیاد پر۔
5. (الف) غالباً ابرہام نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا؟ (ب) ابرہام نے جو باتیں سیکھیں، اِن کا اُن پر کیا اثر ہوا؟
5 علم۔ حالانکہ ابرہام نے شہر اُور کے بُتپرست ماحول میں پرورش پائی تھی لیکن پھر بھی وہ یہوواہ خدا کے بارے میں جانتے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا جبکہ اُن کے باپ تارح خود بھی بُتپرست تھے؟ (یشو 24:2) بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ ابرہام، نوح کے بیٹے سم کی نویں پُشت سے تھے۔ سم مضبوط ایمان کے مالک تھے۔ وہ اُس وقت فوت ہوئے جب ابرہام 150 سال کے تھے۔ یقیناً سم نے اپنے خاندان کو یہوواہ کے بارے میں سکھایا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ ابرہام نے اُن ہی سے یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھا ہو۔ بہرحال ابرہام نے جو باتیں سیکھیں، اِن کی بِنا پر وہ یہوواہ خدا سے محبت کرنے لگے اور اُس پر ایمان رکھنے لگے۔
6، 7. ابرہام کا ایمان زیادہ مضبوط کیسے ہو گیا؟
6 تجربہ۔ ابرہام زندگی میں کن تجربوں سے گزرے جن کی بِنا پر یہوواہ پر اُن کا ایمان مضبوط ہو گیا؟ کہا گیا ہے کہ خیالات سے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جذبات سے اعمال پیدا ہوتے ہیں۔ ابرہام نے یہوواہ خدا کے بارے میں جو کچھ سیکھا، اِس سے اُن کے دل میں ”خدا تعالیٰ آسمان اور زمین کے مالک“ کے لیے گہرا احترام پیدا ہوا۔ (پید 14:22) بائبل میں اِس جذبے کو ”خداترسی“ یعنی خوفِخدا کہا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو خدا سے اچھی دوستی قائم کرنے کے لیے لازمی ہے۔ (عبر 5:7؛ زبور 25:14) خوفِخدا نے ابرہام کو اعمال ظاہر کرنے کی ترغیب دی۔
7 خدا نے عمررسیدہ ابرہام اور سارہ کو حکم دیا کہ وہ شہر اُور کو چھوڑ کر پردیس میں رہنے لگیں اور باقی زندگی خیموں میں گزاریں۔ ابرہام نے یہوواہ کا کہنا مانا اور اِس لیے یہوواہ نے اُن کو برکت دی اور اُن کی حفاظت کی۔ مثال کے طور پر ابرہام کو ڈر تھا کہ لوگ اُن کی خوبصورت بیوی سارہ کو اُن سے چھین لیں گے اور ابرہام کو مار ڈالیں گے۔ اور یہ ڈر بےبنیاد نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ابرہام نے یہوواہ کے حکم پر عمل کِیا اور یہوواہ خدا نے بار بار ابرہام اور سارہ کی حفاظت کی۔ (پید 12:10-20؛ 20:2-7، 10-12، 17، 18) ایسے تجربوں سے ابرہام کا ایمان زیادہ مضبوط ہو گیا۔
8. علم اور تجربوں کے ذریعے یہوواہ خدا سے ہماری دوستی پکی کیسے ہو جاتی ہے؟
8 کیا ہم بھی یہوواہ سے ابرہام جیسی دوستی قائم کر سکتے ہیں؟ بےشک! ہمارے پاس بائبل کی صورت میں علم کا سمندر ہے جو کہ ابرہام کے پاس نہیں تھا۔ (دان 12:4؛ روم 11:33) خدا کے کلام کے ذریعے ہم ”آسمان اور زمین کے مالک“ کے بارے میں تفصیلی علم حاصل کرتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ہمارے دل میں اُس کے لیے احترام اور محبت بڑھتی ہے۔ اِن جذبات کی وجہ سے ہم خدا کا کہنا مانتے ہیں۔ پھر وہ ہمیں برکت دیتا ہے، ہماری حفاظت کرتا ہے اور ہمیں طاقت بخشتا ہے۔ ہم اِس بات کا تجربہ کرتے ہیں کہ دلوجان سے خدا کی خدمت کرنے سے خوشی اور اِطمینان ملتا ہے۔ (زبور 34:8؛ امثا 10:22) جیسے جیسے ہمارا علم بڑھتا ہے اور ہم یہوواہ کی خدمت میں مختلف تجربوں سے گزرتے ہیں، اُس پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا جاتا ہے اور اُس کے ساتھ ہماری دوستی پکی ہوتی جاتی ہے۔
ابرہام نے خدا سے دوستی کیسے برقرار رکھی؟
9، 10. (الف) دوستی کو مضبوط بنانے کے لیے کیا ضروری ہوتا ہے؟ (ب) ہم کیسے جانتے ہیں کہ ابرہام نے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط بنانے کی پوری کوشش کی؟
9 اچھی دوستی بہت قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ (امثال 17:17 کو پڑھیں۔) لیکن دوستی ایک بےجان چیز کی طرح نہیں جسے ہم خرید کر کسی کونے میں رکھ دیں اور بھول جائیں۔ اِس کی بجائے یہ ایک جاندار چیز کی طرح ہے جسے پالنے پوسنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ زندہ رہے اور مضبوط بنے۔ ابرہام یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کی بڑی قدر کرتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے اِسے مضبوط بنانے کی پوری کوشش کی۔ اُنہوں نے یہ کیسے کِیا؟
10 ابرہام نے ہمیشہ یہوواہ کا کہنا مانا۔ جب وہ اپنے گھرانے کے ساتھ کنعان کی طرف سفر کر رہے تھے تو اُنہوں نے چھوٹے اور بڑے فیصلے کرتے وقت خدا کی رہنمائی مانگی۔ اِضحاق کی پیدائش سے ایک سال پہلے جب ابرہام 99 سال کے تھے تو یہوواہ خدا نے حکم دیا کہ ابرہام اور اُن کے گھرانے کے تمام مرد اپنا ختنہ کرائیں۔ کیا ابرہام نے اِس حکم پر احتجاج کِیا یا اِسے ٹالنے کی کوشش کی؟ نہیں بلکہ اُنہوں نے خدا پر بھروسا کِیا اور ”اُسی روز“ اِس حکم پر عمل کِیا۔—پید 17:10-14، 23۔
11. (الف) ابرہام کو سدوم اور عمورہ کے لوگوں کی فکر کیوں لگ گئی؟ (ب) یہوواہ نے اُن کی فکر کو کیسے دُور کِیا؟
11 ابرہام نے یہوواہ کا کہنا ماننے کی عادت ڈال لی اور اِس لیے اُن کی آپس کی دوستی زندہ اور مضبوط رہی۔ جب ابرہام کو کوئی بات سمجھنا مشکل لگتی تھی تو وہ بغیر ہچکچائے یہوواہ سے اِس کے بارے میں پوچھ لیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب اُنہیں پتہ چلا کہ خدا سدوم اور عمورہ کے شہروں کو تباہ کرنے والا ہے تو ابرہام کو یہ فکر لگ گئی کہ کہیں بُرے لوگوں کے ساتھ ساتھ نیک لوگ بھی مارے نہ جائیں۔ شاید اُنہیں اپنے بھتیجے لُوط اور اُن کے گھر والوں کی فکر تھی جو سدوم میں رہ رہے تھے۔ لیکن ابرہام کو پورا یقین تھا کہ ”تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا“ خدا نااِنصافی نہیں کرے گا اِس لیے اُنہوں نے بڑی خاکساری سے اُس سے سوال کیے۔ اِس پر یہوواہ خدا نے بڑے صبر سے ابرہام پر واضح کِیا کہ وہ بہت ہی رحیم ہے اور عذاب لاتے وقت بھی دلوں کو پرکھتا ہے تاکہ نیک لوگوں کو بچا لے۔—پید 18:22-33۔
12، 13. (الف) اِمتحان کی گھڑی میں علم اور تجربہ ابرہام کے کام کیسے آئے؟ (ب) بائبل سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ ابرہام نے خدا پر شک نہیں کِیا؟
12 ابرہام علم اور تجربوں کے ذریعے یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط رکھ پائے اور اپنے آسمانی دوست کی شخصیت سے اچھی طرح واقف ہو گئے۔ یہی بات اُس وقت اُن کے کام آئی جب یہوواہ خدا نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے اِضحاق کو قربان کر دیں۔ اُس صورتحال میں بھی ابرہام کو یہ خیال تک نہیں آیا کہ یہوواہ خدا ایک دم سے ظالم اور بےرحم بن گیا ہے۔ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟
13 پہاڑ پر چڑھنے سے پہلے ابرہام نے اپنے نوکروں سے کہا: ”تُم یہیں گدھے کے پاس ٹھہرو۔ مَیں اور یہ لڑکا دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمہارے پاس لوٹ آئیں گے۔“ (پید 22:5) ابرہام نے یہ کیوں کہا؟ کیا وہ اپنے نوکروں سے جھوٹ بول رہے تھے اور اُنہیں یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ اِضحاق اُن کے ساتھ واپس آئیں گے جبکہ وہ اُنہیں قربان کرنے کے لیے جا رہے تھے؟ نہیں۔ بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے کیا سوچ کر اپنے نوکروں سے یہ بات کہی تھی۔ (عبرانیوں 11:19 کو پڑھیں۔) ابرہام کو پکا یقین تھا کہ خدا اُن کے بیٹے کو مُردوں میں سے بھی زندہ کر سکتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں اور سارہ کو ایک بیٹا بخشا تھا حالانکہ وہ دونوں بچے پیدا کرنے کی عمر سے گزر چُکے تھے۔ (عبر 11:11، 12، 18) ابرہام کو معلوم تھا کہ یہوواہ خدا کے لیے کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔ اِس لیے اُنہیں پکا یقین تھا کہ چاہے اُس دن کچھ بھی ہو، یہوواہ خدا اُن کے پیارے بیٹے کو دوبارہ زندہ کر دے گا، ورنہ وہ اپنے وعدے کیسے پورے کرے گا؟ واقعی ابرہام ’اُن سب کے باپ ٹھہرے جو ایمان لاتے ہیں‘!
14. ہمیں خدا کے کون سے حکم مشکل لگ سکتے ہیں؟ اور اِس سلسلے میں ابرہام کی مثال ہمارے کام کیسے آ سکتی ہے؟
14 ہم اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ آج خدا ہم سے یہ تو نہیں کہتا کہ ہم کسی کو قربان کریں۔ لیکن وہ ہم سے یہ توقع ضرور کرتا ہے کہ ہم تب بھی اُس کے حکموں کو مانیں جب ایسا کرنا ہمارے لیے مشکل ہو یا ہمیں سمجھ میں نہ آئے کہ خدا نے فلاں حکم کیوں دیا ہے۔ کیا خدا کا کوئی ایسا حکم ہے جسے ماننا آپ کو مشکل لگتا ہے؟ کچھ مسیحیوں کو مُنادی کا کام کرنا مشکل لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شرمیلے ہوں اور اِس لیے اجنبیوں کو خوشخبری سنانے سے ہچکچائیں۔ دوسرے مسیحیوں کو سکول میں یا ملازمت پر ساتھیوں کے دباؤ کا مقابلہ کرنا مشکل لگتا ہے۔ (خر 23:2؛ 1-تھس 2:2) ایسی صورتحال کا سامنا کرتے وقت ابرہام کے ایمان اور ہمت پر غور کریں۔ جب ہم خدا کے وفادار بندوں کی مثالوں پر غور کرتے ہیں تو ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم اُن کی طرح بنیں اور اپنے آسمانی دوست یہوواہ کے اَور قریب ہو جائیں۔—عبر 12:1، 2۔
خدا کے ساتھ دوستی برکتیں لاتی ہے
15. ہم کیسے جانتے ہیں کہ ابرہام کبھی اِس بات پر نہیں پچھتائے کہ اُنہوں نے زندگی بھر یہوواہ کا کہنا مانا؟
15 کیا ابرہام کبھی اِس بات پر پچھتائے کہ اُنہوں نے زندگی بھر یہوواہ خدا کا کہنا مانا؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ابرہام 175 سال کی عمر میں ”زندگی سے آسودہ [یعنی مطمئن] ہو کر“ فوت ہوئے۔ (پید 25:8، اُردو جیو ورشن) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی زندگی پر غور کرتے تھے تو اُنہیں کسی قسم کا پچھتاوا نہیں تھا کیونکہ اُن کی زندگی وفاداری کی داستان تھی۔ لیکن جب ہم پڑھتے ہیں کہ ابرہام ”زندگی سے آسودہ ہو کر“ فوت ہوئے تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اُن میں جینے کی خواہش نہیں رہی تھی۔
16. فردوس میں ابرہام کون سی باتیں جان کر خوش ہوں گے؟
16 بائبل میں لکھا ہے کہ ابرہام ’اُس پائیدار شہر کے اُمیدوار تھے جس کا معمار اور بنانے والا خدا ہے۔‘ (عبر 11:10) ابرہام کو پکا یقین تھا کہ ایک دن وہ اُس شہر کو یعنی خدا کی بادشاہت کو حکمرانی کرتے دیکھیں گے۔ اور اُن کی یہ اُمید ضرور پوری ہوگی۔ ذرا سوچیں کہ اُس وقت ابرہام کو کتنی خوشی ہوگی جب وہ زمین پر فردوس میں رہیں گے اور یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو اَور بھی مضبوط بنائیں گے! جب اُنہیں پتہ چلے گا کہ اُن کی موت کے ہزاروں سال بعد بھی خدا کے وفادار بندے اُن کی مثال سے ہمت پاتے تھے تو وہ کتنے خوش ہوں گے۔ اُنہیں یہ بھی پتہ چلے گا کہ جس طرح سے اِضحاق اُن کو واپس ملے، یہ ایک تمثیل تھی جو ایک زیادہ اہم بات کی طرف اِشارہ کرتی تھی۔ (عبر 11:19) وہ یہ بھی جان جائیں گے کہ اُنہوں نے اِضحاق کو قربانی کے لیے لے جاتے وقت جو تکلیف سہی، اِس سے لوگ اُس تکلیف کا اندازہ لگا سکے جو یہوواہ نے اپنے بیٹے کو قربان کرتے وقت محسوس کی تھی۔ (یوح 3:16) ابرہام کی زندگی کے اِس واقعے سے ہمارے دل میں اُس قربانی کے لیے قدر بڑھتی ہے جو یہوواہ خدا کی محبت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
17. (الف) آپ کا عزم کیا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
17 آئیں، ہم سب ابرہام جیسا ایمان پیدا کرنے کا عزم کریں۔ جیسے جیسے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں علم حاصل کریں گے اور اُس کے حکموں پر عمل کریں گے، وہ ہمیں برکتیں دے گا اور ہماری حفاظت کرے گا۔ اِس تجربے کی بِنا پر اُس کے ساتھ ہماری دوستی زیادہ مضبوط ہوتی جائے گی۔ (عبرانیوں 6:10-12 کو پڑھیں۔) دُعا ہے کہ یہوواہ ہمیشہ ہمارا دوست رہے! اگلے مضمون میں ہم تین اَور لوگوں کی مثال پر غور کریں گے جو خدا کے وفادار دوست تھے۔
^ [1] (پیراگراف 3) دراصل ابرہام اور اُن کی بیوی کے اصلی نام ابرام اور ساری تھے لیکن بعد میں یہوواہ خدا نے اُن کے نام ابرہام اور سارہ رکھ دیے اور اِس مضمون میں ہم یہی نام اِستعمال کریں گے۔