اِن جیسا ایمان پیدا کریں | یوسف
”ذرا وہ خواب تو سنو جو مَیں نے دیکھا ہے“
یوسف نے بڑی حسرت سے اپنی آنکھیں مشرق کی طرف اُٹھائیں۔ وہ ایک قافلے میں تھے جو اُنہیں مصر لے جا رہا تھا۔ یوسف سوچنے لگے کہ کاش وہ بھاگ کر اپنے گھر چلے جائیں۔ تھوڑی دُور نظر آنے والی پہاڑیوں کے پیچھے شہر حبرون میں اُن کا گھر تھا۔ یوسف سوچ رہے تھے کہ اب رات ہونے والی ہے اور اُن کا باپ یعقوب سونے کی تیاری کر رہا ہوگا۔ وہ اِس بات سے بالکل بےخبر ہوگا کہ اُس کے بیٹے پر کیا مصیبت ٹوٹ پڑی ہے۔ لیکن یوسف اپنے باپ کے پاس نہیں جا سکتے تھے۔ وہ بس اِتنا جانتے تھے کہ اب شاید وہ اُس کا چہرہ پھر کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ اِتنے میں قافلے کے کچھ سوداگروں نے اُنہیں گھورا۔ اُنہوں نے یوسف کو خرید لیا تھا اِس لیے وہ اُن پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ اُن کی نظر میں یہ نوجوان لڑکا بھی اُن کے دوسرے مال یعنی مصالحوں اور خوشبودار تیل کی طرح قیمتی تھا۔ وہ اُسے مصر میں بیچ کر بڑا منافع کمانے والے تھے۔
تصور کریں کہ یوسف اب مغرب کی طرف بحیرۂروم کے اُفق پر سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ پَل بھر میں اُن کی دُنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے۔ اُنہیں یقین نہیں آ رہا کہ اُن کے اپنے بھائی اُن کی جان لینے پر اُتر آئے تھے اور پھر اُنہیں بیچ ڈالا۔ یہ باتیں سوچ سوچ کر یوسف کی آنکھیں بھر آئی ہوں گی۔ اُس وقت اُن کی عمر 17 سال کے لگ بھگ تھی اور اُنہیں کچھ علم نہیں تھا کہ زندگی اب اُنہیں کہاں لے جائے گی۔
آخر یوسف اِس حال کو کیسے پہنچے؟ اُنہوں نے اپنے بھائیوں کی طرف سے نفرت اور دُشمنی سہنے کے باوجود مضبوط ایمان کی جو مثال قائم کی، اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
ایک مشکل خاندانی ماحول میں پرورش
یوسف کا خاندان کافی بڑا تھا لیکن اِس میں خوشی اور اِتحاد نہیں تھا۔ پاک صحیفوں میں یعقوب کے خاندان کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا بہت نقصاندہ ہے۔ پُرانے زمانے میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج بڑا عام تھا۔ یہوواہ خدا کے کچھ خادموں نے بھی ایسا کِیا۔ اُس نے کچھ عرصے تک اِس دستور کو برداشت کِیا۔ لیکن پھر یسوع مسیح نے آ کر اُسی معیار کو قائم کِیا جو شروع سے تھا یعنی ایک مرد صرف ایک ہی شادی کرے۔ (متی 19:4-6) یعقوب کے کمازکم 14 بچے تھے جو 4 عورتوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اِن میں سے دو اُن کی بیویاں لیاہ اور راخل تھیں اور دو اُن کی نوکرانیاں زِلفہ اور بلہاہ تھیں۔ یعقوب تو راخل سے محبت کرتے تھے مگر اُن کی شادی دھوکے سے راخل کی بڑی بہن لیاہ سے کر دی گئی۔ لیاہ اور راخل ایک دوسرے سے بہت جلتی تھیں اور یہی جلن اُن کے بچوں میں منتقل ہوئی۔—پیدایش 29:16-35؛ 30:1، 8، 19، 20؛ 37:35۔
کافی عرصے تک راخل کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ لیکن پھر اُن کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام یوسف رکھا گیا۔ یعقوب کو یوسف سے بہت پیار تھا اور وہ اُن کا خاص خیال رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ یعقوب اور اُن کے گھر والے عیسو سے ملنے جا ر ہے تھے جو یعقوب کے بڑے بھائی تھے۔ عیسو ماضی میں یعقوب کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ یعقوب کو ڈر تھا کہ کہیں عیسو اُن سے بدلہ لینے کے لیے اُن کے بالبچوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اِس لیے اُنہوں نے یوسف اور راخل کو سارے گھر والوں سے پیچھے رکھا تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ اُس دن کے واقعات نے یوسف کے دماغ پر گہرے نقش چھوڑے ہوں گے۔ ذرا سوچیں کہ اُس دن صبح کے وقت جب یوسف نے اپنے بوڑھے مگر چاکوچوبند باپ کو لنگڑاتے دیکھا ہوگا تو وہ بہت حیران ہوئے ہوں گے۔ لیکن اِس کی وجہ جان کر تو اُن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہوں گی۔ وجہ یہ تھی کہ اُن کا باپ ساری رات ایک فرشتے سے کُشتی کرتا رہا تھا تاکہ یہوواہ خدا سے برکت حاصل کر سکے۔ یہوواہ خدا نے اُنہیں یہ برکت دی کہ اُن کا نام بدل کر اِسرائیل رکھ دیا اور اُنہیں بتایا کہ اُن سے ایک بڑی قوم نکلے گی جو اُن کے نام سے کہلائے گی۔ (پیدایش 32:22-31) بعد میں یوسف کو پتہ چلا کہ اِسرائیل کے 12 بیٹوں سے اِس قوم کے 12 قبیلے بنیں گے۔
عیسو سے ملنے کے کچھ عرصے بعد یوسف کو ایک شدید دھچکا لگا۔ اُن کے بچپن ہی میں اُن کی زندگی کا سب سے پیارا شخص اُن سے جُدا ہو گیا۔ اُن کی امی راخل اُن کے بھائی بنیمین کی پیدائش کے وقت وفات پا گئیں۔ یعقوب کو راخل کی موت کا بہت گہرا صدمہ پہنچا۔ تصور کریں کہ یعقوب نے بڑے پیار سے یوسف کے چہرے سے آنسو پونچھے ہوں گے اور اُنہیں اِس بات سے تسلی دی ہوگی کہ ایک دن مُردے زندہ ہو جائیں گے۔ اِسی بات سے اُن کے پڑدادا ابراہام کو بھی تسلی ملی تھی۔ یوسف کو یہ جان کر کتنی خوشی ہوئی ہوگی کہ یہوواہ خدا ایک دن اُن کی امی کو زندہ کر دے گا۔ یہوواہ کے لیے اُن کی محبت اَور بھی بڑھ گئی ہوگی جو ’زندوں کا خدا ہے۔‘ (لوقا 20:38؛ عبرانیوں 11:17-19) راخل کے گزر جانے کے بعد یعقوب اپنے دونوں بیٹوں یعنی یوسف اور بنیمین سے بڑے پیار اور محبت سے پیش آتے تھے۔—پیدایش 35:18-20؛ 37:3؛ 44:27-29۔
اکثر بچے حد سے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں۔ لیکن یوسف نے اپنے ماں باپ کی خوبیوں کو اپنایا۔ اُنہوں نے اپنے ایمان کو مضبوط کِیا اور صحیح اور غلط میں فرق کرنا سیکھا۔ 17 سال کی عمر میں وہ بھیڑ بکریاں چرانے میں اپنے بڑے بھائیوں کی مدد کرنے لگے۔ ایک دن اُنہوں نے اپنے بھائیوں کو کوئی غلط کام کرتے ہوئے دیکھا۔ اب اُنہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو خوش کرنے کے لیے چپ رہیں گے یا اِس کے بارے میں اپنے باپ کو خبر کریں گے۔ یوسف نے وہی کِیا جو صحیح تھا۔ اُنہوں نے اپنے بھائیوں کے غلط کام کے بارے میں اپنے باپ کو بتا دیا۔ (پیدایش 37:2) یوسف کی اِس دلیری کو دیکھ کر یعقوب کو اُن پر اَور بھی ناز ہوا ہوگا۔ آجکل کے مسیحی نوجوان یوسف کی اِس مثال سے ایک اہم بات سیکھ سکتے ہیں۔ جب کوئی شخص مثلاً اُن کا کوئی دوست یا اُن کے بہن بھائی سنگین غلطی کرتے ہیں تو اُنہیں اِسے چھپانا نہیں چاہیے۔ اُنہیں اِس کے بارے میں کسی ایسے شخص کو بتانا چاہیے جو غلطی کرنے والے کی مدد کر سکتا ہے۔—احبار 5:1۔
ہم یوسف کی گھریلو زندگی سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آجکل سچے مسیحیوں میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج نہیں ہے۔ مگر اِن میں بہت سے ایسے خاندان ہیں جن میں سوتیلے ماں باپ، سوتیلے بچے اور سوتیلے بہن بھائی اِکٹھے رہتے ہیں۔ وہ سب یوسف کے خاندان سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ طرفداری خاندانی رشتوں کو کھوکھلا کر سکتی ہے۔ سوتیلے ماں باپ کو اپنے سب بچوں کو یہ یقین دِلانا چاہیے کہ وہ اُن سے پیار کرتے ہیں، اُن سب میں کوئی نہ کوئی صلاحیت ہے اور وہ سب خاندان میں خوشی کو فروغ دے سکتے ہیں۔—رومیوں 2:11۔
حسد کی اِبتدا
یعقوب نے یوسف کے لیے ایک خاص لباس بنوایا۔ (پیدایش 37:3) اُنہوں نے یوسف کو یہ لباس شاید اِس لیے دیا تھا کیونکہ اُنہوں نے اپنے بھائیوں کے بُرے کام کا بڑی دلیری سے پردہ فاش کِیا تھا۔ یہ بہت ہی شاندار چوغہ تھا جو شاید پورے بازوؤں والا اور ٹانگوں تک لمبا تھا۔ اِس قسم کا لباس غالباً رئیس لوگ یا شہزادے پہنتے تھے۔
یہ شاندار لباس دے کر یعقوب نے یوسف کے لیے اپنی محبت کا اِظہار کِیا اور یوسف کے دل میں بھی اپنے باپ کے لیے محبت بڑھ گئی ہوگی۔ لیکن اِس لباس کی وجہ سے یوسف کے لیے بہت سی مشکلیں بھی کھڑی ہو گئیں۔ یوسف چونکہ ایک چرواہے تھے اِس لیے اُنہیں سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔ اب ذرا تصور کریں کہ یوسف یہ عمدہ لباس پہن کر لمبی لمبی گھاس میں سے گزر رہے ہیں، پہاڑیوں پر چڑھ رہے ہیں یا جھاڑیوں میں پھنسی ہوئی اپنی بھیڑ کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِس لباس کو پہن کر یہ سارے کام کرنا اُن کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہوگا۔ اِس سے زیادہ بڑی مشکل یہ تھی کہ اِس لباس کی وجہ سے یوسف اور اُن کے بھائیوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہو گئی تھی۔
پاک صحیفوں میں بتایا گیا ہے کہ جب یوسف کے ”بھائیوں نے دیکھا کہ اُن کا باپ اُس کے سب بھائیوں سے زیادہ اُسی کو پیار کرتا ہے“ تو ”وہ اُس سے بغض رکھنے لگے اور ٹھیک طور سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔“a (پیدایش 37:4) اُن کے حسد کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اُنہوں نے اِسے اپنے اُوپر حاوی کرکے بڑی ناسمجھی کا ثبوت دیا۔ (امثال 14:30؛ 27:4) کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ جو توجہ اور عزت آپ حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ کسی اَور کو مل گئی ہو اور اِس کی وجہ سے آپ اُس سے حسد کرنے لگے ہوں؟ یاد رکھیں کہ یوسف کے بھائیوں نے حسد میں مبتلا ہو کر ایسے کام کیے جن پر اُنہیں بعد میں پچھتانا پڑا۔ اُن کی مثال سے مسیحیوں کو یہ سیکھنا چاہیے کہ دوسروں سے حسد کرنے کی بجائے ”خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی“ کرنا بہتر ہے۔—رومیوں 12:15۔
یوسف کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اُن کے بھائی اُن سے بڑی نفرت کرتے ہیں۔ جب اُن کے بھائی اُن کے آسپاس ہوتے تھے تو کیا وہ اپنے اِس لباس کو چھپا دیتے تھے؟ شاید اُنہیں کئی بار ایسا کرنے کا خیال آیا ہو۔ لیکن وہ لباس دراصل یعقوب کی محبت اور بھروسے کی نشانی تھا۔ یوسف چاہتے تھے کہ وہ اپنے باپ کا بھروسا کبھی نہ توڑیں اِس لیے وہ یہ لباس پہن کر رکھتے تھے۔ ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟ ہمارا آسمانی باپ کسی کی طرفداری نہیں کرتا پھر بھی وہ کبھی کبھار اپنے کچھ بندوں کو کوئی خاص اعزاز بخشتا ہے۔ اِس کے علاوہ وہ اُن سے توقع کرتا ہے کہ وہ اِس بُری دُنیا سے بالکل الگ نظر آئیں۔ یوسف کے شاندار لباس کی طرح سچے مسیحیوں کا چالچلن بھی اُنہیں دوسروں سے الگ ظاہر کرتا ہے۔ نیک چالچلن کی وجہ سے سچے مسیحی اکثر حسد اور دُشمنی کا نشانہ بنتے ہیں۔ (1-پطرس 4:4) کیا اُنہیں دوسروں سے یہ بات چھپانی چاہیے کہ وہ یہوواہ خدا کی عبادت کرتے ہیں؟ جی نہیں۔ جیسے یوسف نے اپنا لباس نہیں چھپایا تھا، اُنہیں بھی اپنی شناخت نہیں چھپانی چاہیے۔—لوقا 11:33۔
یوسف کے خواب
پھر یوسف نے دو عجیب خواب دیکھے۔ پہلے خواب میں اُنہوں نے دیکھا کہ وہ اور اُن کے بھائی کھیت میں اناج کے گٹھے باندھ رہے ہیں۔ یوسف کے بھائیوں کے گٹھوں نے اُن کے گٹھے کو گھیر لیا اور اُسے سجدہ کِیا۔ دوسرے خواب میں اُنہوں نے دیکھا کہ سورج، چاند اور 11 ستاروں نے اُنہیں سجدہ کِیا۔ (پیدایش 37:6، 7، 9) کیا یوسف نے اِن خوابوں کے بارے میں کسی کو بتایا؟
یہ خواب خدا کی طرف سے تھے۔ وہ اِن خوابوں کے ذریعے ایک پیغام دے رہا تھا اور چاہتا تھا کہ یوسف اِن کے بارے میں اپنے باپ اور بھائیوں کو بتائیں۔ بعض لحاظ سے یوسف نے ایک نبی کے طور پر کام کِیا۔ اُنہوں نے بالکل ویسے ہی دوسروں کو خدا کا پیغام دیا جیسے اُن کے بعد آنے والے نبیوں نے دیا۔
یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا: ”ذرا وہ خواب تو سنو جو مَیں نے دیکھا ہے۔“ خواب سنتے ہی وہ اِس کا مطلب سمجھ گئے اور غصے میں آ کر اُن سے کہنے لگے: ”کیا تُو سچ مچ ہم پر سلطنت کرے گا یا ہم پر تیرا تسلط ہوگا؟“ پاک صحیفوں میں بتایا گیا ہے کہ یوسف کے بھائیوں نے ”اُس کے خوابوں اور اُس کی باتوں کے سبب سے اُس سے اَور بھی زیادہ بغض رکھا۔“ یوسف نے اپنا دوسرا خواب نہ صرف اپنے بھائیوں کو بلکہ اپنے باپ کو بھی سنایا اور اُن سب کو یہ بہت بُرا لگا۔ یوسف کے ”باپ نے اُسے ڈانٹا اور کہا کہ یہ خواب کیا ہے جو تُو نے دیکھا ہے؟ کیا مَیں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سچ مچ تیرے آگے زمین پر جھک کر تجھے سجدہ کریں گے؟“ لیکن یعقوب اِس خواب پر غور کرتے رہے۔ اُنہوں نے سوچا کہ شاید یہوواہ خدا، یوسف سے ہمکلام ہوا ہے۔—پیدایش 37:6، 8، 10، 11۔
یوسف سے پہلے اور بعد میں بھی خدا کے نبیوں نے ایسے پیغامات سنائے جو لوگوں کو بُرے لگے اور جن کی وجہ سے اُن نبیوں کو اذیت پہنچائی گئی۔ یسوع مسیح عظیم نبی تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر [لوگوں] نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائیں گے۔“ (یوحنا 15:20) آپ چاہے جوان ہیں یا بوڑھے، آپ دلیری اور ایمان کے سلسلے میں یوسف کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
نفرت کی اِنتہا
ایک دن یعقوب نے یوسف کو شہر سِکم کے قریب ایک علاقے میں بھیجا۔ اُن کے بڑے بھائی اپنی بھیڑیں چرانے کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے۔ چونکہ حال ہی میں سِکم کے لوگوں کے ساتھ اُن کی دُشمنی ہوئی تھی اِس لیے یعقوب کو اپنے بیٹوں کی فکر ستا رہی تھی۔ لہٰذا اُنہوں نے یوسف کو اپنے بیٹوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے وہاں بھیجا۔ ذرا تصور کریں کہ یوسف وہاں جاتے ہوئے کیسا محسوس کر رہے ہوں گے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ اُن کے بھائی اُن سے پہلے سے بھی زیادہ نفرت کرنے لگے ہیں۔ جب اُنہیں پتہ چلے گا کہ اُن کا حال دریافت کرنے کے لیے اُن کے باپ نے یوسف کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے تو اُنہیں کیسا لگے گا؟ اِن خدشوں کے باوجود یوسف نے اپنے باپ کا حکم مانا۔—پیدایش 34:25-30؛ 37:12-14۔
یوسف کو شاید 4 یا 5 دن کا پیدل سفر کرنا پڑا۔ سِکم کا علاقہ شہر حبرون کے شمال میں 80 کلو میٹر (50 میل) کے فاصلے پر تھا۔ جب یوسف اِس طویل سفر کے بعد سِکم پہنچے تو اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کے بھائی دوتین کے علاقے کو روانہ ہو گئے ہیں۔ وہاں جانے کے لیے یوسف کو شمال کی طرف 22 کلومیٹر (14 میل) اَور سفر کرنا پڑا۔ آخرکار جب وہ دوتین کے قریب پہنچے تو اُن کے بھائیوں نے اُنہیں دُور ہی سے دیکھ لیا۔ اُن کی نفرت اِنتہا کو چُھونے لگی۔ وہ ”آپس میں کہنے لگے دیکھو خوابوں کا دیکھنے والا آ رہا ہے۔ آؤ اب ہم اُسے مار ڈالیں اور کسی گڑھے میں ڈال دیں اور یہ کہہ دیں گے کہ کوئی بُرا درندہ اُسے کھا گیا۔ پھر دیکھیں گے کہ اُس کے خوابوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔“ لیکن رُوبن نے اپنے بھائیوں کو روکا اور اُنہیں سمجھایا کہ وہ یوسف کو مارنے کی بجائے اُنہیں زندہ ہی کسی گڑھے میں پھینک دیں۔ رُوبن کا خیال تھا کہ وہ بعد میں یوسف کو بچا لیں گے۔—پیدایش 37:19-22۔
اپنے بھائیوں کی سازش سے بالکل بےخبر یوسف اُن کے پاس آئے۔ اُنہیں اُمید تھی کہ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوگا۔ لیکن اُن کے بھائی اُن پر ٹوٹ پڑے۔ اُن کا شاندار لباس اُتار ڈالا، اُنہیں گھسیٹتے ہوئے ایک خشک گڑھے کے پاس لے گئے اور اُس میں پھینک دیا۔ تھوڑا سنبھلنے کے بعد یوسف نے گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے مگر وہ اپنے آپ نکل نہیں سکتے تھے۔ اُنہیں اُوپر بس تھوڑا سا آسمان دِکھائی دے رہا تھا اور اُن کے بھائیوں کی آوازیں مدھم ہوتی جا رہی تھیں۔ یوسف اپنے بھائیوں سے رحم کی بھیک مانگتے رہے مگر اُنہوں نے یوسف کی چیخوپکار پر کوئی دھیان نہ دیا۔ وہ اِتنے سنگ دل تھے کہ اپنے بھائی کو تکلیف میں چھوڑ کر تھوڑی دُور بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ رُوبن کی غیرموجودگی میں اُنہوں نے ایک بار پھر یوسف کو مارنے کا سوچا لیکن یہوداہ نے اُنہیں سمجھایا کہ یوسف کو سوداگروں کے ہاتھ بیچ ڈالیں۔ شہر دوتین ایک ایسے تجارتی راستے کے قریب تھا جو ملک مصر کو جاتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہاں سے اِسمٰعیلیوں اور مِدیانیوں کا ایک قافلہ گزرا۔ (پیدایش 37:23-27) رُوبن کے واپس آنے سے پہلے ہی اُن کے باقی بھائی اپنے بُرے منصوبے کو انجام تک پہنچا چکے تھے۔ اُنہوں نے یوسف کو ”چاندی کے بیس سکوں کے عوض“ بیچ ڈالا۔b—پیدایش 37:28، نیو اُردو بائبل ورشن؛ 42:21۔
اب ہم کہانی کے اُسی موڑ پر آ گئے ہیں جہاں سے ہم نے اِسے شروع کِیا تھا۔ سوداگر یوسف کو مصر لے جا رہے تھے۔ یوسف کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، اُس سے تو ایسا ہی لگتا تھا کہ وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔ اُنہیں اُن کے گھر والوں سے جُدا کر دیا گیا تھا۔ کئی سالوں تک یوسف کو اپنے گھر والوں کی کوئی خبر نہیں تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ جب رُوبن نے واپس آ کر گڑھے کو خالی دیکھا ہوگا تو اُنہیں کتنی تکلیف پہنچی ہوگی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اُن کا باپ اُن کی موت کی جھوٹی خبر سُن کر کس قدر غمزدہ ہوا ہوگا۔ اُنہیں اپنے دادا اِضحاق کی بھی کوئی خبر نہیں تھی اور نہ ہی وہ اپنے چھوٹے بھائی بنیمین کے بارے میں کچھ جانتے تھے جسے وہ اکثر یاد کرتے تھے۔ لیکن کیا یوسف کے پاس واقعی کچھ نہیں بچا تھا؟—پیدایش 37:29-35۔
یوسف کے پاس ابھی بھی ایک ایسی چیز تھی جو اُن کے بھائی اُن سے چھین نہیں سکے تھے۔ یہ اُن کا مضبوط ایمان تھا۔ وہ اپنے گھر والوں سے جُدا ہو گئے، اُنہیں ایک قیدی کے طور پر لمبا سفر کرنا پڑا اور پھر اُنہیں ایک حقیر غلام کے طور پر ایک امیر مصری کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔ (پیدایش 37:36) مگر اِن تمام تکلیفوں کے باوجود اُن کا ایمان ڈگمگایا نہیں بلکہ اَور مضبوط ہو گیا۔ اُن جیسا ایمان پیدا کرنے سے ہمیں واقعی بہت فائدہ ہوگا۔
a بعض عالموں کا کہنا ہے کہ جب یعقوب نے یوسف کو یہ شاندار لباس دیا تو اُن کے دوسرے بیٹوں کو یہ گمان ہوا کہ وہ یوسف کو پہلوٹھے بیٹے کا حق دینا چاہتے ہیں۔ وہ سب جانتے تھے کہ یوسف، راخل کے پہلے بیٹے ہیں اور یعقوب، راخل کو سب سے زیادہ پیار کرتے تھے اور وہ دراصل اُنہی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ اِس کے علاوہ یعقوب کے پہلوٹھے بیٹے رُوبن نے بلہاہ کے ساتھ ہمبستری کی۔ چونکہ بلہاہ سے بھی یعقوب کی اولاد ہوئی تھی اِس لیے رُوبن نے یہ حرکت کرکے اپنے باپ کی توہین کی تھی اور اِس کے نتیجے میں وہ اپنا پہلوٹھے ہونے کا حق کھو بیٹھے تھے۔—پیدایش 35:22؛ 49:3، 4۔
b بائبل میں درج یہ بات بالکل صحیح ہے۔ اِس کی تصدیق اُس زمانے کی دستاویزوں سے ہوتی ہے۔ اِن سے پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت ملک مصر میں ایک غلام کی اوسط قیمت چاندی کے 20سکے تھی۔